• 23 اپریل, 2024

رمضان کا تیسرا عشرہ آگ سے آزادی اور اس کی مناسبت سے بعض دعائیں جو قرآن کریم اور احادیث رسولﷺ میں مذکور ہیں

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے رمضان کے تیسرے حصے یا تیسرے عشرہ کا نام عِتْقٌ مِّنَ النَّار فرمایا ہے۔ یعنی وہ عشرہ جو آگ سے آزادی دلانے والا ہے۔ اس میں انسان اپنے آپ کودوزخ سے دور کر سکتا ہے، آگ سے بچا سکتا ہے اور ایسے اعمال بجا لا سکتا ہے جن کا نتیجہ جنت اور خداتعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہے۔

رمضان کے اس آخری عشرہ کے حوالہ سے قرآن کریم اور احادیث میں جو دعائیں بیان ہوئیں ہیں ان میں سے بعض پیش ہیں۔

آگ سے آزادی کے حصول کے لئے قرآن کریم میں مذکور دعائیں اللہ تعالیٰ کے بندوں کی دعا یوں بیان ہوئی ہے:

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

(البقرة:202)

اے ہمارے ربّ! ہمىں دنىا مىں بھى حَسَنہ عطا کر اور آخرت مىں بھى حَسَنہ عطا کر اور ہمىں آگ کے عذاب سے بچا۔

مومنین کی ایک دعا یوں بیان ہوئی ہے:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ

(البقرة:287)

اے ہمارے ربّ! ہم پر اىسا بوجھ نہ ڈال جىسا ہم سے پہلے لوگوں پر (ان کے گناہوں کے نتىجہ مىں) تُو نے ڈالا اور اے ہمارے ربّ! ہم پر کوئى اىسا بوجھ نہ ڈال جو ہمارى طاقت سے بڑھ کر ہو اور ہم سے درگزر کر اور ہمىں بخش دے اور ہم پر رحم کر تُو ہى ہمارا والى ہے پس ہمىں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔

اللہ کے بندوں کی ایک دعا یوں بیان ہوئی ہے:

رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ

(آل عمران:17)

اے ہمارے ربّ! ىقىناً ہم اىمان لے آئے پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہمىں آ گ کے عذاب سے بچا۔

صاحبِ عقل لوگوں کی ایک دعا یوں بیان ہوئی ہے:

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ

(آل عمران: 191تا193)

ىقىناً آسمانوں اور زمىن کى پىدائش مىں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے مىں صاحبِ عقل لوگوں کے لئے نشانىاں ہىں۔ وہ لوگ جو اللہ کو ىاد کرتے ہىں کھڑے ہوئے بھى اور بىٹھے ہوئے بھى اور اپنے پہلوؤں کے بل بھى اور آسمانوں اور زمىن کى پىدائش مىں غوروفکر کرتے رہتے ہىں (اور بے ساختہ کہتے ہىں) کہ اے ہمارے ربّ! تُو نے ہرگز ىہ بے مقصد پىدا نہىں کىا۔ پاک ہے تُو پس ہمىں آگ کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے ربّ! جسے تُو آگ مىں داخل کردے تو ىقىناً اُسے تُو نے ذلىل کر دىا اور ظالموں کے کوئى مددگار نہىں ہوں گے۔

آگ میں داخل ہونے والی امتوں کی ایک دعا یوں بیان ہوئی ہے:

قَالَ ادۡخُلُوۡا فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ فِی النَّارِ ؕ کُلَّمَا دَخَلَتۡ اُمَّۃٌ لَّعَنَتۡ اُخۡتَہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ادَّارَکُوۡا فِیۡہَا جَمِیۡعًا ۙ قَالَتۡ اُخۡرٰٮہُمۡ لِاُوۡلٰٮہُمۡ رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوۡنَا فَاٰتِہِمۡ عَذَابًا ضِعۡفًا مِّنَ النَّارِ ۬ؕ قَالَ لِکُلٍّ ضِعۡفٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَعۡلَمُوۡنَ۔ وَ قَالَتۡ اُوۡلٰٮہُمۡ لِاُخۡرٰٮہُمۡ فَمَا کَانَ لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍ فَذُوۡقُوْا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡسِبُوۡنَ

(الأعراف:39-40)

(تب) وہ (اُن سے) کہے گا کہ ان قوموں کے ساتھ جو جن واِنس مىں سے تم سے پہلے گزر گئى ہىں تم بھى آگ مىں داخل ہو جاؤ جب بھى کوئى امت داخل ہوگى وہ اپنى ہم قماش امّت پر لعنت بھىجے گى ىہاں تک کہ جب وہ سب کے سب اس مىں اکٹھے ہو جائىں گے تو ان مىں سے بعد مىں آنے والى اپنے سے پہلى کے بارہ مىں کہے گى کہ اے ہمارے ربّ! ىہى وہ لوگ ہىں جنہوں نے ہمىں گمراہ کىا پس ان کو آگ کا دوہرا عذاب دے۔ وہ کہے گا کہ ہر اىک کو دوہرا (عذاب) ہى مل رہا ہے لىکن تم جانتے نہىں۔ اور ان مىں سے پہلى (جماعت) دوسرى سے کہے گى تمہىں ہم پر کوئى فضىلت نہىں تھى پس عذاب چکھو بسبب اس کے جو تم کَسَب کىا کرتے تھے۔

حضرت ابراہیمؑ کی ایک دعا یوں بیان ہوئی ہے:

رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ۔ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ

(ابراهيم:41-42)

اے مىرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور مىرى نسلوں کو بھى۔ اے ہمارے ربّ! اور مىرى دعا قبول کر۔ اے ہمارے ربّ! مجھے بخش دے اور مىرے والدىن کو بھى اور مومنوں کو بھى جس دن حساب برپا ہوگا ۔

حضرت ابراہیمؑ کی ایک اور دعا یوں بیان ہوئی ہے:

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ۔ وَاجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ۔ وَ اجۡعَلۡنِیۡ مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ۔ وَ اغۡفِرۡ لِاَبِیۡۤ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیۡنَ۔ وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ۔ یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ۔ اِلَّا مَنۡ اَتَی اللّٰہَ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍٍ

(الشعراء:84تا90)

اے مىرے ربّ! مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نىک لوگوں مىں شامل کر ۔ اور مىرے لئے آخرىن مىں سچ کہنے والى زبان مقدّر کر دے۔ اور مجھے نعمتوں والى جنت کے وارثوں مىں سے بنا۔ اور مىرے باپ کو بھى بخش دے ىقىناً وہ گمراہوں مىں سے تھا۔ اور مجھے اُس دن رُسوا نہ کرنا جس دن وہ (سب) اٹھائے جائىں گے۔ جس دن نہ کوئى مال فائدہ دے گا اور نہ بىٹے۔ مگر وہى (فائدہ مىں رہے گا) جو اللہ کے حضور اطاعت شعار دل لے کر حاضر ہوگا ۔

آگ سے آزادی کے حصول کے لئے احادیث نبویہ میں مذکور نبی کریمﷺ کی بعض دعائیں حسبِ ذیل ہیں۔

نبی کریمﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺ نماز میں دعا کیا کرتے تھے:

اَللّٰهُمَّ إِنِّيْٓ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔

اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں قبر کے عذاب سے ۔ اور تیری پناہ میں آتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے۔ اور تیری پناہ میں آتا ہوں زندگی کے فتنہ سے اور موت کے فتنہ سے۔ اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں گناہ سے اور مالی بوجھ سے۔

کسی کہنے والے نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؐ اس قدر کثرت سے کیوں مالی بوجھ سے پناہ طلب کرتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا:
جب آدمی پر مالی بوجھ پڑتا ہے تو جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام حدیث نمبر 832)

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ ان لوگوں کو یہ دعا سکھاتے تھے جیسے آپؐ انہیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔ آپؐ فرمایاکرتے تھے کہ تم لوگ کہو:

اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ۔

اے اللہ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں جہنم کے عذاب سے۔ اور مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں قبر کے عذاب سے۔ اور تیری پناہ میں آتا ہوں مسیحِ دجال کے فتنہ سے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب مایستعاذ منہ فی الصلاة، حدیث نمبر590)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور ان سے کہا کہ اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہﷺ سے قبر کے عذاب کے بارہ میں پوچھا توآپؐ نے فرمایاکہ ہاں! قبر کا عذاب ہوگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہﷺ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپؐ نے کو ئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر، حدیث نمبر 1372)

حضرت عوف بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک جنازہ پڑھایا تو میں نے آپؐ کی دعا یاد کرلی۔ آپؐ کہہ رہے تھے:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهٗ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهٗ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهٗ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَٓاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِّنْ دَارِهٖ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِّنْ أَهْلِهٖ وَزَوْجًا خَيْرًا مِّنْ زَوْجِهٖ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ – أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔

اے اللہ! اس کو بخش دے ۔ اس پر رحم کر۔ اس کو عافیت سے رکھ اور اس سے درگزر کر اور اس کی باعزت مہمانی فرما۔ اور اس کے داخل ہونے کی جگہ کو وسیع کر دے اور اسے پانی اور برف اور اَولو ں سے دھو دے اور اسے بدیوں سے صاف کردے جیسے ایک سفید کپڑے کو تو آلودگی سے صاف کرتا ہے ۔اور اسے بدلے میں اس کے گھر سے بہتر گھر دے اور اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے عطا کر اور اس کے ساتھی سے بہتر ساتھی دے۔ اور اس کو جنت میں داخل کر اور اس کو قبر کے عذاب سے پناہ دے یا ( کہا) آگ کے عذاب سے۔
(راوی) کہتے ہیں یہانتک کہ مجھے خواہش ہوئی کہ کاش وہ مرنے والا میں ہوتا۔

(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب الدعاء للمیت فی الصلاة۔۔۔۔، حدیث نمبر 963)

حضرت عائشہؓ نے بیان کیا نبی کریمﷺ کہا کرتے تھے:

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالهَرَمِ، وَالمَغْرَمِ وَالمَأْثَمِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ القَبْرِ وَعَذَابِ القَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اَللّٰهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ۔

اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں سستی اور بڑھاپے سے اور چٹی اور گناہ سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے اور آگ کے فتنہ سے اور قبر کے فتنہ سے اور قبر کے عذاب سے اور امیری کے فتنہ کے شر سے اور محتاجی کے فتنہ کے شر سے اور مسیحِ دجال کے فتنہ کے شر سے۔ اے اللہ! میری خطاؤں کو برف کے پانی اور ٹھنڈک سے دھو ڈال اور میرے قلب کو خطاؤں سے یوں صاف کر دے جیسے سفید کپڑا گندگی سے دھویا جاتا ہے۔ اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری پیدا کر دے جیسا کہ تُو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری پیدا کی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الاستعاذہ من ارذل العمر۔۔۔ حدیث 6375)

حضرت عبداللہؓ نے بیان کیا نبی کریمﷺ جب شام کرتے تو آپؐ کہتے :۔

أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى المُلْكُ لِلّٰهِ، وَالحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيكَ لَهٗ – أُرَاهُ قَالَ -: لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هٰذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هٰذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَسُوءِ الكِبَرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَعَذَابِ القَبْرِ۔

ہم نے شام کی اور بادشاہت اللہ کے لئے ہو گئی۔ اور ہر قسم کی تعریف کا مستحق اللہ ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ (راوی نے کہا) میں سمجھتا ہوں کہ آپؐ نے فرمایا: اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف ہے۔ اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے جس کا وہ ارادہ کرے۔ میں تجھ سے وہ خیر طلب کرتا ہوں جو اس رات میں ہے اور وہ خیر جو اس کے بعد ہے۔ اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس رات کے شَر سے اور اس شر سے جو اس کے بعد ہے۔ اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں سستی اور بڑھاپے کی تکلیف سے اور میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے۔

اور جب آپؐ صبح کرتے تو آپؐ یہ بات پھر کہتے اور کہتے :

ہم نے صبح کی اور بادشاہت اللہ کے لئے ہو گئی۔ اور ہر قسم کی تعریف کا حقدار اللہ ہے۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی الدعاء اذا اصبح واذاامسی، حدیث نمبر3390)

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہﷺ کہتے:۔

اَللّٰهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلٰى كُلِّ حَالٍ، وَأَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔

اے اللہ! مجھے فائدہ دے اس کے ذریعہ جو تُو نے مجھے سکھایا۔ اور مجھے علم عطا فرما جو مجھے فائدہ دے۔ اور مجھے علم میں بڑھا۔ اور اللہ ہی کے لئے ہر قسم کی تعریف ہے ہر حال میں۔ اور میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء باب دعاء رسول اللہﷺ، حدیث نمبر 3833)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے:۔

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔

اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں قبر کے عذاب سے۔ اور تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے۔ اور تیری پناہ میں آتا ہوں زندگی اور موت کے فتنہ سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں مسیحِ دجال کے فتنہ سے۔

(سنن النسائی کتاب الجنائز باب التعوذ من عذاب القبر، حدیث نمبر 2060)

ابونَضرہ بیان کرتے ہیں حضرت ابنِ عباسؓ بصرہ کے لوگوں کے منبر پر تھےکہ میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا یقیناً اللہ کے نبیﷺ ہر نماز کے بعد چار چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپؐ کہتے:

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَأَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَأَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ فِتْنَةِ الْأَعْوَرِ الْكَذَّابِ۔

میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں قبر کے عذاب سے۔ اور میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں آگ کے عذاب سے۔ اور میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں فتنوں سے جو اُن میں سے ظاہر ہو گئے اور جو پوشیدہ ہیں۔ اور میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں اندھے اور جھوٹے کے فتنہ سے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد1صفحہ292 حدیث نمبر 2667)2778

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا نبیﷺ نے چار یا دو رکعت نماز نہیں پڑھی مگر مَیں نے آپؐ کودعا کرتے ہوئے سنا:

اللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ , وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الصَّدْرِ وَسُوءِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ۔

اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے اور سینے کے فتنہ سے اور زندگی اور موت کی تکلیف سے۔

(صحیح ابن حبان کتاب الرقائق باب الاستعاذة، ذکر الخصال التی یستحب للمرء فی التعوذ ۔۔۔ حدیث نمبر 1002)

عبدالرحمٰن بن ابولیلیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو نماز میں سنا اور وہ فرض نماز نہ تھی (یعنی نوافل تھے)۔ جب آپؐ آگ کے ذکر پر آتے تو کہتے :

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَيْلٌ لِأَهْلِ النَّارِ۔

مَیں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں آگ کے عذاب سے۔ ہلاکت ہے آگ والوں کے لئے۔

(المعجم الکبیر جلد 7 صفحہ 79ثابت البنانی عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ، دار احیاء التراث العربی بیروت)

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ انہیں بخار اور ہر قسم کی دردوں اور تکلیفوں میں سکھایا کرتے تھے کہ وہ لوگ یہ کہا کریں:

بِسْمِ اللّٰهِ الْكَبِيرِ، أَعُوذُ بِاللّٰهِ الْعَظِيمِ، مِنْ شَرِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ، وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ۔

اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت بلند شان والا ہے۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں جو بہت عظمت والا ہے، جوش مارنے والی رگ سے اور آگ کی حرارت کے شر سے ۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الطب باب ما یعوذ بہ من الحمی حدیث نمبر 3526)

حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے کہا یقیناً قبر کا عذاب پیشاب کی وجہ سے ہو گا۔ میں نے کہا تُو نے جھوٹ کہا۔ اس نے کہا کیوں نہیں۔ ہم پیشاب کی وجہ سے چمڑا اور کپڑا کاٹتے ہیں ۔ رسول اللہﷺ نماز کے لئے باہر تشریف لے گئے تو ہماری آوازیں بلند ہو گئیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے آپؐ کو بتایا جو اس عورت نے کہا تو آپؐ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ پھر آپؐ نے اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی مگر نماز کے بعد آپؐ نے کہا:

رَبِّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ أَعِذْنِي مِنْ حَرِّ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ»

جبرائیلؑ اور میکائیلؑ اور اسرائیلؑ کے رب مجھے محفوظ رکھ آگ کی حرارت سے اور قبر کے عذاب سے۔

(سنن النسائی کتاب السہو باب نوع آخر من الذکر والدعاء بعد التسلیم، حدیث نمبر 1345)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں۔ میں نے عرض کیایا رسول اللہﷺ! آپؐ کی کیا رائے ہے، اگر مجھے معلوم ہو کہ کون سی رات لیلة القدر ہے تو اس میں مَیں کیا کہوں؟ آپؐ نے فرمایا تم کہو:

اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ۔

اے اللہ! یقیناً تُو بہت زیادہ عفو و درگزرکرنے والا ہے اور تُو عفوو درگزر کو پسند کرتا ہے پس تُو مجھ سے عفو اور درگزر سے کام لے۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب نمبر88/84 حدیث نمبر 3513)

حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا رسول اللہﷺ کو ایک روز میں نے بستر پر نہ پایا تو مَیں آپؐ کی تلاش میں نکلی۔ میرا ہاتھ آپؐ کے پاؤں کے اندرونی حصہ پر لگا- اور آپؐ مسجد میں تھے- اور دونوں پاؤں کھڑے رخ تھے۔ آپؐ کہہ رہے تھے:۔

اَللّٰهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ۔

اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں تیری رضامندی میں تیری ناراضگی سے۔ اور تیری عافیت میں تیری سزا سے۔ اور مَیں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں تیرے ذریعہ۔ مَیں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا ۔ تُو اُس طرح ہے جیسا کہ تُو نے اپنی ذات کی تعریف بیان فرمائی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الصلاة باب ما یقول فی الرکوع والسجود، حدیث نمبر 486)

حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہﷺ نے فرمایا:

کوئی بندہ جو بھی دعا مانگتا ہے تو اس دعا سے بڑھ کر کوئی دعا افضل نہیں کہ:

اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْمُعَافَاةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔

اے اللہ!میں تجھ سے عافیت طلب کرتا ہوں دنیا میں اور آخرت میں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء باب الدعاء بالعفو والعافیة، حدیث نمبر 3851)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا نبی ﷺ جب رات کو تہجد پڑھنے کے لئے اٹھتے تو فرماتے:۔

اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اَللّٰهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ – أَوْ: لَا إِلٰهَ غَيْرُكَ

اے اللہ! سب تعریفوں کا تُو حقدار ہے۔ تُو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والاہے اور ان کو بھی جو اُن میں ہیں اور ہر قسم کی تعریف کا تُو ہی مستحق ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت تیری ہے اور ان کی بھی جو اُن میں ہیں۔ ہر قسم کی تعریف کا تُو ہی مستحق ہے۔ تُو آسمانوں کا اور زمین کا نور ہے اور ان کا جو اُن میں ہیں۔ اور ہر قسم کی تعریف کا تُو ہی مستحق ہے۔ تُو برحق ہے اور تیرا وعدہ برحق ہے اور تیری ملاقات برحق ہے اور تیرا ارشاد برحق ہے اور جنت برحق ہے اور آگ برحق ہے اور انبیاءؑ برحق ہیں اور محمدﷺ برحق ہیں اور موعود گھڑی برحق ہے۔ اے اللہ! میں تیرے حضور جھکا ہوں اور تیری خاطر میں نے جھگڑا کیا اور تیرے حضور فیصلہ چاہا۔ پس تُو مجھے بخش دے جو میں نے پہلے آگے بھیجا اور جو بعد کے لئے رکھ دیا۔ اور جسے میں نے پوشیدہ کیا اور جس کا میں نے اظہار کیا۔ تُو مقدم ہے اور تُو مؤخر ہے۔ صرف تُو ہی عبادت کے لائق ہے یا (فرمایا) تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

(صحیح البخاری کتاب التہجد باب التہجد باللیل۔۔۔۔، حدیث نمبر 1120)

حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں رسول اللہﷺ ابو سلمہؓ کے پاس تشریف لائے۔ ان کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں۔ آپؐ نے ان کو بند کر دیا پھر فرمایا روح جب قبض کی جاتی ہے تو آنکھیں پیچھا کرتی ہیں۔ ان (ابو سلمہؓ) کے گھر والوں میں سے کچھ لوگ چلائے تو آپؐ نے فرمایا اپنے لوگوں کے لئے بھلائی کے سواکوئی دعا نہ کرو کیونکہ جو تم کہتے ہو ملائکہ اس پر آمین کہتے ہیں۔

پھر آپؐ نے فرمایا:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهٗ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهٖ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهٗ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، وَافْسَحْ لَهٗ فِي قَبْرِهٖ، وَنَوِّرْ لَهٗ فِيهِ۔

اے اللہ! ابو سلمہؓ کو بخش دے اور اس کا درجہ ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند کر اور پیچھے رہنے والوں میں اس کے بعد تو خلیفہ ہو اور اے رب العالمین! ہمیں اور اسے بخش دے اور اس کے لئے اس کی قبر میں فراخی پیدا کردے اور اس کے لئے اس میں روشنی کر دے۔

(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فی اغماض المیت والدعاء لہ اذاحضر، حدیث نمبر920)

اے خدا ہم سب کی التجاؤں اور مناجات کو قبول فرما اور ہمیں قبر اور آگ کے عذاب سے دور کرتے ہوئے اپنی جنتوں میں داخل فرما اور ہمیں ان سب سے بڑھ کر اپنی رضوان کا حاصل کرنے والا بنا دے۔ آمین یا رب العالمین

(ظ- الف- توقیر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2021