• 19 اپریل, 2024

احکام خداوندی (قسط نمبر 35)

احکام خداوندی
قسط نمبر 35

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
’’جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح)

ذوی القربیٰ (حصہ 3)
یتیمو ں کے حق میں انصاف سے کھڑے ہونا

وَاَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلۡیَتٰمٰی بِالۡقِسۡطِ

(النساء: 128)

اور (تاکید کرتا ہے) کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ۔

یتیم بچیوں سے انصاف نہ کرسکنے
کی صورت میں شادی نہ کرنا

وَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ﴿۴﴾

(النساء: 4)

اور اگر تم ڈرو کہ تم یتامیٰ کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔ دو دو اور تین تین اور چار چار۔ لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک (کافی ہے) یا وہ جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یہ (طریق) قریب تر ہے کہ تم ناانصافی سے بچو۔

وَیَسۡتَفۡتُوۡنَکَ فِی النِّسَآءِ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِیۡہِنَّ ۙ وَمَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ فِیۡ یَتٰمَی النِّسَآءِ الّٰتِیۡ لَا تُؤۡتُوۡنَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرۡغَبُوۡنَ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ وَالۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الۡوِلۡدَانِ

(النساء: 128)

اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ اللہ تمہیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے اور (متوجہ کرتا ہے اس طرف) جو تم پر کتاب میں اُن یتیم عورتوں کے متعلق پڑھا جا چکا ہے جن کو تم وہ نہیں دیتے جو اُن کے حق میں فرض کیا گیا حالانکہ خواہش رکھتے ہو کہ اُن سے نکاح کرو۔ اسی طرح بچوں میں سے (بے سہارا) کمزوروں کے متعلق (اللہ فتویٰ دیتا ہے)۔

یتیموں کے اموال کی حفاظت
اور اس کےاستعمال کے اصول

وَاٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا ﴿۳﴾

(النساء: 3)

اور یتامیٰ کو اُن کے اموال دو اور خبیث چیزیں پاک چیزوں کے تبادلہ میں نہ لیا کرو اور ان کے اموال اپنے اموال سے ملا کر نہ کھا جایا کرو۔ یقیناً یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

وَابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَلَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّبِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَمَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَمَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا ﴿۷﴾

(النساء: 7)

اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں۔ پس اگر تم ان میں عقل (کے آثار) محسوس کرو تو ان کے اموال ان کو واپس کر دو۔ اور اس ڈر سے اِسراف اور تیزی کے ساتھ اُن کو نہ کھاؤ کہ کہیں وہ بڑے نہ ہو جائیں۔ اور جو امیر ہو تو چاہئے کہ وہ (ان کا مال کھانے سے) کلیۃً احتراز کرے۔ ہاں جو غریب ہو تو وہ مناسب طریق پر کھائے۔ پھر جب تم ان کی طرف اُن کے اموال لوٹاؤ تو اُن پر گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔

(نوٹ: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے اموال کی حفاظت اور اس کے استعمال کے درج ذیل اصول وضع کئے ہیں۔)

  1. جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو اُن کے اموال ان کو واپس کردو۔
  2. اُن کے جوان ہو جانے کے خوف سے اُن کے مالوں کو ناجائز طور پر اور جلدی جلدی نہ کھاؤ۔
  3. امیر لوگ اُن کے اموال کھانے سے کلیۃً احتراز کریں۔
  4. لیکن جو غریب ہو وہ مناسب طریق پر کھائے۔
  5. پھر جب اُن کی طرف اُن کے اموال لو ٹاؤ تو اُ ن پر گواہ ٹھہرا لیا کرو۔

بے عقلوں نا سمجھوں کے سپرد
اپنے اموال نہ کرو بلکہ انہیں کھلاؤ پلاؤ

وَلَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَاکۡسُوۡہُمۡ وَقُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۶﴾

(النساء: 6)

اور بے عقلوں کے سپرد اپنے وہ اموال نہ کیا کرو جن کو اللہ نے تمہارے لئے (اقتصادی) قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور انہیں ان (اموال) میں سے کھلاؤ اور انہیں پہناؤ۔ اور ان سے اچھی بات کہا کرو۔

(نوٹ: اس آیت میں درج ذیل تین احکام ملتے ہیں)

  1. بے عقلوں اور ناسمجھوں کو اپنے مال نہ دو جن اموال کو اللہ نے تمہارے لئے سہارا بنایا ہے۔
  2. ان اموال سے ان کو ضرور کھلاؤ اور پلاؤ۔
  3. اور انہیں اچھی بات کہا کرو۔

سوال کرنے والوں کو مت دھتکار

وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡ﴿۱۱﴾

(الضحٰی: 11)

اور جہاں تک سوالی کا تعلق ہے تو اُسے مت جھڑک۔

پیچھے پڑ کر ما نگنے کو اچھا نہیں سمجھا گیا
ایسے لوگوں کی امداد

لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۷۴﴾

(البقرہ: 274)

(یہ خرچ) ان ضرورت مندوں کی خاطر ہے جو خدا کی راہ میں محصور کر دیئے گئے (اور) وہ زمین میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ایک لاعلم (ان کے) سوال سے بچنے (کی عادت) کی وجہ سے انہیں متمول سمجھتا ہے۔ (لیکن) تُو ان کے آثار سے ان کو پہچانتا ہے۔ وہ پیچھے پڑ کرلوگوں سے نہیں مانگتے۔ اور جو کچھ بھی تم مال میں سے خرچ کرو تو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

غلامی کو مٹانے کی ہدایت

وَمَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۳﴾ فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿۱۴﴾

(البلد: 13-14)

اور تُجھے کیا سمجھائے کہ عَقَبَہ کیا ہے؟ گردن کا آزاد کرنا۔

غلاموں سے مکاتبت

وَالَّذِیۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَکَاتِبُوۡہُمۡ اِنۡ عَلِمۡتُمۡ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا ٭ۖ وَّاٰتُوۡہُمۡ مِّنۡ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اٰتٰٮکُمۡ

(النور: 34)

اور تمہارے جو غلام تمہیں معاوضہ دے کر اپنی آزادی کا تحریری معاہدہ کرنا چاہیں اگر تم ان کے اندر صلاحیت پاؤ تو اُن کو تحریری معاہدہ کے ساتھ آزاد کر دو۔ اور وہ مال جو اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کچھ اُن کو بھی دو۔

(700احکام خداوندی از حنیف احمد محمود صفحہ295-298)

(صبیحہ محمود۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

عید مبارک

اگلا پڑھیں

بیکار اور نکمی چیزوں کا خرچ