• 24 اپریل, 2024

برفانی کھیلوں میں شرکت رٹوچھاؤنی وادی استور

پاک فوج کی طرف سےشمالی علاقوں میں مختلف مقامات پرسرمائی کھیلوں کی تربیت اورمقابلہ جات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ انہی میں سے ایک مقام رٹو چھاؤنی کے نام سے موسوم ہے۔ ہمارے گروپ میں نصر بھٹی صاحب، واصل محمود صاحب، نعیم احمد صاحب، تلمیذ احمد صاحب اور خاکسار (سید ذیشان اقبال) شامل تھے۔

راولپنڈی سے گلگت کی طرف قراقرم ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے ایک مقام تھالیچی گاہ سے شاہراہِ استور علیحدہ ہوکر استور شہر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ دریائے سندھ کا پل پار کرنے کے بعد یہ سڑک دریائے استور کے ہم قدم چلتی ہے۔ تھالیچی گاہ سے استور شہر کا فاصلہ 44کلو میٹرجبکہ گلگت شہر سے کم و بیش 84کلومیٹر ہے۔راولپنڈی سے استور کا فاصلہ براستہ قراقرم ہائی وے 585کلومیٹر ہے۔

استور شہر سطح سمندر سے 8350فٹ کی بلندی پر واقع ایک ضلعی صدر مقام ہے جہاں سے چند اہم راستے مختلف سمتوں میں نکلتے ہیں۔ انہی میں سے ایک سڑک گوری کوٹ کے مقام کی طرف نکلتی ہے۔ گوری کوٹ سے ایک سڑک ترشنگ جبکہ دوسری سڑک چلم چوکی کی طرف جانکلتی ہے۔ پرجوٹ کے مقام پرترشنگ جانے والی سڑک سے ایک راستہ علیحدہ ہو کر ریاٹ کی طرف جانکلتا ہے۔ رٹو کا مقام اسی راستے پر واقع ہے۔ استور شہر سے رٹو گاؤں کا فاصلہ کم و بیش 33کلومیٹر ہے۔رٹو کا مقام وادی استور گلگت بلتستان میں موجود ہے۔گاؤں سطح سمند ر سے 8860فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں پر افواجِ پاکستان کی ایک اہم چھاؤنی واقع ہے جہاں پر فوجی اہلکاروں کے لیے مختلف تربیتی اور عوام الناس کے لیے تفریحی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ امسال پاک فوج کے زیر اہتمام سرمائی کھیلوں کا ایک میلہ منعقد کیا گیا جسے

Snow Sports Meet And Winter Gala

کا نام دیا گیا۔

ہم مؤرخہ 11فروری 2022ء کو صبح 3بجے ربوہ سے روانہ ہوئے۔ منگلا ڈیم کی سیراورراولپنڈی میں چند ضروری کام نمٹا کرموٹروے پرسفر کرتے ہوئے تھاکوٹ پہنچے۔ اب ہماراسفرقراقرم ہائی وے پرتھا۔ تھالیچی گاہ کےمقام پرقراقرم ہائی وے چھوڑ کرشاہراہ استور پرسفرکاآغاز کیا۔ 12فروری کو صبح 2بجے استور شہر پہنچے جہاں درجہ حرارت منفی 11ڈگری سینٹی گریڈ ظاہر ہورہا تھا۔ رات ایک ہوٹل میں قیام کیا۔

ناشتے کے بعد 12فروری کو ہی صبح 10بجے رٹو کے لیے روانہ ہوئے۔ اس مقصدکے لیےایک جیپ ریزروکروائی گئی۔ جیپ پر سفر کرتے ہوئے ساڑھے گیارہ بجے دادوجیل گاؤں پہنچے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے وادی کی گہرائیوں تک ہر طرف گہری برف کے ڈیرے تھے۔ دادو جیل گاؤں میں جیپ کھڑی کرکے پیدل سفر کا آغاز کیا۔ یہ سفر طویل نہ تھا۔ رٹو ندی کو لکڑی کے ایک پل کے ذریعے پار کرنے کے بعد ہم رٹو چھاؤنی میں داخل ہوگئے۔ پاک فوج کے اہلکاروں نے ہمارا استقبال کیا اور بڑے شامیانے کی طرف راہنمائی کی۔

کیپٹن وقاص بھٹی یہیں موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ مختصر طور پر پروگرام کے بارے میں آگاہ کیا۔ کیپٹن صاحب کے مطابق یہاں پر سکیٹنگ، سکیئنگ، والی بال، سنو بال اور نشانہ بازی کی کھیلوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔ انہی کی ہدایت پر ہم نے پورے علاقے کا ایک مختصر دورہ کیا۔ پاک فوج کے زیر استعمال چند ہتھیار اور سیاچن گلیشیئر پر استعمال ہونے والا سامان اور مخصوص لباس بطور نمائش رکھے گئے تھے۔ ایک طرف کوہ پیمائی اور کوہ نوردی کا سامان ترتیب دیاگیا تھاتو دوسری طرف چند قدیم برتن اور دیگر استعمال کی اشیاء بھی موجود تھیں۔اسی طرح برفانی علاقوں میں قیام کے لیے مخصوص خیمے اور ان میں بستر بھی دکھائے گئے۔ سیاچن گلیشیئر پر قیام کے لیے استعمال ہونے والے ایگلو کا ماڈل بھی بنایا گیا تھا۔ پاک فوج کی فائرنگ رینج دیکھی جہاں پاک فوج کے اہلکاروں میں نشانہ بازی کا مقابلہ جاری تھا۔

اس مختصر دورے کے بعد پاک فوج کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا۔ ماحضرتناول کرنے کے بعد ہماری برگیڈ کمانڈر 80بریگیڈ کارگل سیکٹر محترم برگیڈیئر محمد یونس صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کیپٹن وقاص بھٹی نے ہمارا تعارف کروایا۔ برگیڈیئر صاحب نے ہمیں خوش آمدید کہا اور پروگرام میں شرکت اور اس مقصد کے لیے طویل سفر کرنے پر ہمارا شکریہ ادا کیا۔ برگیڈیئر صاحب سے کوہ نوردی اورسرمائی کھیلوں کے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ برگیڈیئر محمد یونس صاحب سے 30منٹ کی اس ملاقات کے بعد ہمیں سکیٹنگ اور سکیئنگ کی تربیت کے لیے لے جایا گیا۔ پاک فوج کے دو انسٹرکٹر زنے ہمیں سیکٹنگ اور سکیئنگ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔

زبانی آگاہی حاصل کرنے کے بعد ہمیں عملی تجربے کی دعوت دی گئی۔ ہم نے پہلے سکیٹنگ کی۔ اس کھیل میں توازن برقرار رکھنا محنت طلب اور دشوار ہے۔ 15منٹ کی عملی کوشش میں ہم زیادہ تر پھسل کر گرتے ہی رہے۔ پاک فوج کے اہلکار اور مقامی حاضرین ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

سکیٹنگ کے بعدہم سکیئنگ (Skiing) کے لیے چلے گئے۔ یہ سکیٹنگ کی نسبت زیادہ دلچسپ اور اس میں توازن برقرار رکھنا قدرے آسان ہے۔ ابتدائی سکیئنگ 50میٹر کے فاصلے سے تھی اورسلائیڈ کا زاویہ بھی آسان تھا۔ اس کے بعد 100میٹر،150میٹر اور پھر 200میٹر کے فاصلے سے سکیئنگ کی گئی۔ 200میٹر سے سلائیڈ کا زاویہ زیادہ تھا۔ سکیئنگ کرتے ہوئے رفتار کے حساب سے توازن برقرار رکھنا ایک خاص تکنیکی کام ہے اور آخر پر پہنچ کر رکنے کے لیے بھی پیروں کو ایک خاص شکل میں لانا پڑتا ہے۔ گروپ کے دولڑکوں نے بہت اچھی سکیئنگ کی۔ پاک فوج کے انسٹرکٹر نے انہیں اسی وقت پاس کردیا اور اگلے سال پھر شرکت کی خصوصی دعوت دی۔ فَجَزَاہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء

سکیئنگ کے بعد برف پر چلنے والی گاڑی پر ہمیں پورے علاقے کی سیرکروائی گئی۔ اب شام کا وقت ہوچکا تھا۔ کیپٹن وقاص بھٹی صاحب نے پروگرام میں شرکت پر ہمارا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کیا۔ ہم انہیں الوداع کہہ کر رخصت ہوئے۔ جیپ پرسفر کرتے ہوئے واپس استور شہر پہنچے۔

کیپٹن وقاص بھٹی صاحب نےرات قیام کے لیے استورشہرمیں پاک فوج کےمہمان خانےمیں ہماے قیام کا انتظام کروادیا۔ اگلے دن ناشتے کے بعد ہم گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کی سیاحت کی غرض سے سکردو روانہ ہوگئے۔

محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارا یہ پروگرام ہر لحاظ سے کامیاب اوربامقصد رہا۔ پروگرام میں شرکت کی دعوت اور مہمان نوازی پر ہم کیپٹن وقاص بھٹی صاحب کے احسان مند ہیں۔ اسی طرح برگیڈیئر محمد یونس صاحب اور پاک فوج کے انسٹرکٹرز کے بھی شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمارا خیال رکھا اور ہمیں سکیٹنگ اور سکیئنگ کی تربیت فراہم کی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطاء فرمائے۔ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ آمِیْن ثُمَّ آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ

(سید ذیشان اقبال)

پچھلا پڑھیں

عید مبارک

اگلا پڑھیں

بیکار اور نکمی چیزوں کا خرچ