• 24 اپریل, 2024

سفر نامہ حج

تعارف کتب
سفر نامہ حج

تعداد صفحات: 271 بمع رنگین تصاویر و نقشہ جات

سن اشاعت: 2020ء

مکرمہ نبیلہ رفیق فوزی کا نام اردو ادبی دنیا میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ مصنفہ نے شاعری اور نثر کے ذریعے اپنا نام پیدا کیا۔ مختلف موضوعات پر جماعتی اور غیر جماعتی اخبارات اور رسائل میں مضامین اور سفر نامے تحریر کر چکی ہیں۔ ان کی نئی تصنیف ’’سفر نامہ حج‘‘ ہمارے سامنے ہے۔ یہ سفر نامہ ایک ضخیم کتاب کی شکل میں منظرِعام پر آیا ہے. خوبصورت سر ورق والی اس کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی نظریں اس پر جم جاتی ہیں، کیونکہ انتہائی خوبصورت رنگ کے امتزاج والے سرورق پر بنا بیت اللہ، نظروں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

اور کتاب کو پڑھنے کے بعدہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تصنیف میں حج بیت اللہ اور روضہ رسولؐ کی زیارت کے موضوع پر لکھے گئے سفر ناموں میں اپناایک الگ مقام پیدا کرنے کی تما م خصوصیات موجود ہیں۔

یہ کتاب عام مروجہ کتاب کے سائز کی نسبت لمبائی اور چوڑائی دونوں اطراف سے بڑھا ہے۔ کیونکہ اس میں بیت الحرام کے علاوہ ارضِ حجاز کے مقدس مقامات کے نقشہ جات بھی شامل ہیں۔ نبیلہ رفیق کو 2014ء میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ چونکہ حجِ اکبر سے پہلے مصنفہ کو اپنے خاندان کے ساتھ تین عمرے ادا کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی تھی۔ اسلئے اس کتاب میں حج کے سفر سے پہلے عمرے کے سفر اور زیارتوں کا بیان بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں سر زمینِ حجاز میں گزرے ہوئے ہر لمحے کو الفاظ میں قید کر کے صفحہ قرطاس پر موتیوں کی مانند بکھیر دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے قلم کاروں نے سفر نامے حجاز لکھے ہیں جو شہرت کی منازل طے کر چکے ہیں۔ مگر نبیلہ رفیق صاحبہ کا یہ لکھا ہوا سفر نامہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ محض سفر نامہ ہی نہیں بلکہ اس میں مناسکِ حج کی تمام تفصیل موجود ہے۔ اور تمام مقامات مقدسہ اور شعائر اللہ کی دیدہ زیب تصاویر سمیت ہر ایک کے ساتھ اس کے تاریخی حقائق بھی تحریر ہیں۔ جنہیں پڑھ کر تاریخ کا طالبِ علم سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ، تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے بہت چھان بین کر کے لکھے گئے ہیں۔

کتاب کے چار حصے

پہلے حصے سے قبل ’’عرضِ حال‘‘ کے عنوان سے ارضِ حجاز کے متعلق اپنی ذاتی کیفیت کو بیان کیا ہے کہ کیسے بچپن کی خواہش پوری ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر بھر جاتا تھا۔ پھر اس کے ساتھ ہی اپنے ہی لکھے ہوئے حمدیہ اشعار شامل کئے ہیں۔ اسکے علاوہ پہلے حصے میں ’’فلسفہ حج‘‘ پر ایک پُر معانی اور معلوماتی مضمون قرآن وسنت کی روشنی میں تحریر کیا ہے۔

پہلے حصّے میں۔ اوسلو سے سفر کر کے ترکی میں دس بارہ گھنٹے کے قیام کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کی استنبول میں مایہ ناز ’’نیلی مسجد‘‘ کا حال اور پھر استنبول سے ارضِ حجاز کی طرف روانگی اور وہاں پہنچنے کا سب حال مکمل تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

دوسرے حصّے میں۔ حج سے پہلے عمرہ کی تفصیل اور دونوں عمرہ جات کی تمام تفصیل درج ہے جو انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ 2002ء اور 2009ء میں ادا کئے تھے۔

تیسرے حصّے میں۔ حج کے بقیہ مناسک کی مفصل تفصیل درج ہے۔ ایک ایک بات، ایک ایک واقعہ، مختلف لوگوں اور اقوام کے مشاہدے، خصوصی طور پر ایرانی قوم جن کے ساتھ ان کاتعلق تقریباً پندرہ دن رہا کیونکہ حج کروانے والی کمپنی ایرانی تھی لہذا یہ سب باتیں ایک قاری کے لئے ایک انتہائی دلچسپی کا موجب بنتی ہیں۔

کتاب کا چوتھا حصہ۔ مکّہ سے جدا ہو کر مدینہ منورہ کی طرف سفر، مسجدِقبا، مسجد نبوی، اور دوسرے تمام مقامات کی سیر اور پھر واپسی کا حال درج ہے۔ اس میں ایک بات جو قاری کو پڑھ کر زیادہ مزا آتا ہے۔

وہ حج کے سفر سے پہلے ادا کردہ دو عمرہ جات کی چھوٹی چھوٹی یادیں اور باتیں تحریر ہیں۔

ہمارے ہاں دو شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے اس سفر نامہ کے متعلق اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے ایک اسکینڈے نیویا کے سب سے پہلے مبلغ انچارج جناب سیّد کمال یوسف ہیں اور دوسرے صاحب قادیان کے باسی جناب خورشید احمد خادم ہیں۔ ان کے خیالا ت حاضر خدمت ہیں۔

مکرم کمال یوسف تحریر کرتے ہیں:۔
محترمہ نبیلہ رفیق کے رشحاتِ قلم سے 271 صفحات بمعہ رنگین تصاویر اور نقشہ جات پر مشتمل اُردو زبان میں حج نامہ منظرِ عام پر آیا ہے اس سفر نامے میں مناسکِ حج اور عمرہ کی حسبِ توفیق ادائیگی میں پیش آمدہ مجاہدات کے دوران ان کے دل ودماغ پر کیا گزری، ان کی فکری اور روحانی واردات کے جا بجا دلچسپ تذکرے، روضہ اقدس اور حرمین شریفین کے مقدس مقامات اور متبرک زیارتوں کے روح پرور تعارف اور ہر قدم پر مستند اور مصدقہ تاریخی معلومات کا بیان اور تبصرے اور اس کے علاوہ ہر قاری کے لئے حسبِ استعداد اور ضرورت کے مطابق معلومات موجود ہیں۔ الغرض حرمین شریفین کے روحانی سفر کے مقدس بیان میں یہ کتاب، محترمہ نبیلہ رفیق کی ایک قابل تحسین قلمی کاوش ہے جزاکم اللّٰہ۔

مصنفہ چونکہ شاعرہ بھی ہیں اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کتاب کے شروع اور آ خر میں حمدِ باریتعالیٰ، اور نعتِرسول مقبولؐ لکھ کر کتاب کا مزہ دوبالا کر دیا ہے۔

قادیان سے مکرم خورشید احمد خادم لکھتے ہیں:۔
نبیلہ رفیق صاحبہ کی یہ کتاب صرف سرسری نظر سے پڑھنے والی نہیں بلکہ اس میں آقائے دو جہاں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ سے حقیقی محبت و عشق کا ایسا اظہار ہے جو قاری کو عرصہ تک ایک عجیب سی سرشاری کی کیفیت میں چھوڑ دے گا۔ کسی بھی فن پارے کی گہرائی میں جانا اور جوہر تلاش کرنا صبر آزما کام ہے جس کیلئے وقت اور ہمت دونوں درکار ہیں۔ ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ خوبصورت زبان کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ موصوفہ کی تحریرات کی بڑی خوبی ہے۔ سفر حج کے دوران آپ نے ایک ایک لمحے کی کیفیات کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں اتار لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو قلبی کیفیات متغیر ہوتی رہی ہیں ان کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں اس کتاب کی شکل میں قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔

نمونتاً کتاب میں سے ایک پیرا گراف حاضر ہے۔ جو بیت اللہ کو پہلی مرتبہ دیکھنے کے وقت ان کے قافلے کی کیا حالت ہوئی؟

وہ لکھتی ہیں ’’صحنِ کعبہ میں داخل ہوتے ہوئے اتنے حواس باختہ تھے کہ جغرافیائی صورتِ حال کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ دل پر اتنی ہیبت طاری تھی کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کس سمت دیکھنا ہے۔ ہر طرف سفید برف سے کپڑے پہنے ہزار ہا انسان ادھر سے اُدھر آ جارہے تھے۔عالم یہ تھا کہ جسم لرز لرز کر گرنے کو تھا۔ نظریں اور گردنیں ادھر اُدھرگھمانےکی ہمّت نہیں تھی۔

جیسے سب پر ایک طلسماتی کیفیت ہے۔اس پہلی زیارت میں ہمارا قافلہ چھ لوگوں پر مشتمل تھا جس میں ….ہر کوئی مہر بلب ہے، ایک دوسرے کے دل کی کیا کیفیت ہے، کوئی نہیں جانتا، کسی کی کیا! اپنی کیفیت کا خود بھی پتہ نہیں۔ دل میں ایک خوف ہے، جسم پر لرزہ طاری ہے کہ ہماری نظریں اس چہار دیواری کو کیسے دیکھ سکیں گیں۔ پھر نظر جا ٹکی اس پر جس کی خاطر بی بی ہاجرہ اپنے معصوم بچے کو اس بیابان میں لئے بیٹھی رہیں۔ہم سے تقریباًتیس میٹر دور خدائے عزّوجل کا گھر دکھائی دے گیا۔ جو بیچ صحن میں پوری آب وتاب کے ساتھ کھڑا تھا …… ہیبت جلال ا ور دبدبے سے پُر، سیاہ غلاف میں ملبوس، پہلی مرتبہ بالکل پہلی مرتبہ خانہ خدا کو دیکھنے کا تجربہ بہت لرزا دینے والا ہے۔ ہمارے منہ کھلے ہوئے تھے،جسم ایک دم جیسے ساکت ہوگئے۔ میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو کاندھوں سے پکڑ کر ان کے رُخ اس جانب کئے اور نہ جانے کتنی ہی دیر ہم سب لرزتے جسموں کے ساتھ اپنی اپنی جگہوں پر ساکت بُت بن کر کھڑے حضرت ابراہیم ؑ کی بنائی ہوئی اس چہار دیواری کو دیکھتے رہے جب تک کہ پیچھے سے آنے والے ریلے نے دھّکا نہ دے دیا۔ تب جا کر احساس ہوا کہ آ نسوؤں نے ہمارے دامن تک بھگو ڈالے ہیں۔

مصنفہ سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:

nabila-shaheen@hotmail.com

(مصنفہ نبیلہ رفیق)

پچھلا پڑھیں

عید مبارک

اگلا پڑھیں

بیکار اور نکمی چیزوں کا خرچ