مدنی سورتیں، الانفال کی 76 اور التوبۃ کی 129 آیات ہیں
ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن ملک غلام فرید صاحب ایڈیشن 2003ء
عنوان، وقتِ نزول اور دونوں سورتوں کا تعلق
جیساکہ سمجھا جاتاہے کہ ان دونوں سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہےجس کو انفال کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سورۃ دو حصوں میں منقسم ہے ایک سورۃ انفال اور دوسری سورۃ التوبۃ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ توبہ یا برأت کوئی الگ سورۃ نہیں ہے بلکہ سورۃ انفال کا ہی حصہ ہے۔ یہ قرآن کریم کی واحد مثال ہے کہ جہاں ایک سورۃ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہےجبکہ باقی سب سورتیں اپنی ذات میں مکمل ہیں۔ اس حقیقت کا ثبوت کہ سورۃ توبہ کوئی الگ سورۃ نہ ہے بلکہ سورۃ الانفال کا ہی حصہ ہے یہ ہے کہ دیگر تمام سورتوں کی طرح سورۃ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہیں ہے جو کہ الہٰی تائید کے ساتھ ہر سورۃ کے ابتداء میں پائی جاتی ہے اور ہر سورۃ کا لازمی جزو ہے۔ مزید یہ کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان ایسی یکسانیت ہے کہ یہ دوالگ سورتیں ہونے کی بجائے ایک ہی سورۃ معلوم ہوتی ہیں۔ یہ دونوں سورتیں انفال اور توبہ مدینہ میں نازل ہوئیں۔ سورۃ انفال غزوہ بدر کے وقت نازل ہوئی ہجرت کے پہلے یا دوسرے سال میں اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق سورۃ توبہ یا برأت قرآن کریم کے نازل ہونے والے آخری حصوں میں سے ہے، جو ہجرت کے نویں سال نازل ہوئی۔
دونوں سورتوں پر اجتماعی نوٹ
سورۃ الانفال میں یہ پیشگوئی ہے کہ خدا مسلمانوں کو ایک فتحِ عظیم عطا فرمائے گا اور یہ کہ ان کے دشمنوں کی جائیدادیں اور مالِ غنیمت ان کو ملے گا۔ اس پیشگوئی کی وجہ سے کفار نے ایک عرصہ تک مسلمانوں کو تمسخر کا نشانہ بنائے رکھاکیونکہ حکیم اور دائمی علم کے مالک خدا نے اپنے ازلی ابدی قوانین کی مطابقت کی وجہ سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا معرضِ التوا میں رکھا اور ان آیات کا نزول جن میں اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر تھا بعد میں سورۃ انفال کی دیگر آیات میں ہوا۔ جب مکہ فتح ہوا اور مذکورہ بالا پیشگوئی پوری ہوئی تو اس سورۃ کا بقیہ حصہ نازل ہوا۔ اس حصہ کا آغاز یوں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری (کا پیغام بھیجا جا رہا) ہے ان مشرکین کی طرف جن سے تم نے معاہدہ کیا ہے۔ پس چار مہینہ تک تم زمین میں خوب چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز عاجز نہیں کر سکو گے اور یہ کہ یقیناً اللہ کافروں کو رسوا کردے گا۔
یہاں یہ بھی بیان کردینا ضروری ہے کہ بعض مفسروں کے نزدیک اس متذکرہ بالا اعلان سے مراد یہ تھی کہ مشرکوں کو چار ماہ کی مہلت دی گئی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے ہو چکے تھےکہ یہ چار ماہ گزرنے کے بعد ایسے تمام معاہدے کالعدم تصور ہوں گے۔ اس اعلان کی یہ تفسیر بالکل غلط ہےکیونکہ اگر اس سے مراد جملہ معاہدوں کی تردید اور مذمت کرنا ہوتا تو اس کے ساتھ اس حکم کا دینا بے معنی ہوجاتا ہے کہ انہیں (کفار کو) چاہئے کہ وہ چار ماہ تک زمین میں چل پھر کر خود ملاحظہ کریں کہ خدا کی بات پوری ہو چکی ہے۔ کیونکہ اگر کسی کو محدود مہلت دی جائے تو فطرتی طور پر وہ ایسی جگہ کو چھوڑ کر بھاگنے میں جلدی کرتا ہے بجائے اس کے کہ وہ زمین میں گھومتا پھرے۔
پھر اگر اس آیت کا یہ مفہوم سمجھا جائے کہ اس میں مشرک قبائل کو ایک آخری نوٹس دیا جا رہا ہے کہ ان چار ماہ کے بعد ان سے کئے گئے تمام عہد کالعدم قرار دےدئے جائیں گےتو اگلی ہی آیت کو کیسے بیان کیا جائے گا کہ جس میں ذکر ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ عہد باندھے ہوئے ہیں ان کے عہد کی میعاد ختم ہونے سے پہلے انہیں نہ نکالا جائے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سورۃ توبہ کی اس پہلی آیت سے مراد جس میں اَلَّذِیْنَ عَاھَدْتُمْ کے الفاظ ہیں کوئی سیاسی معاہدہ یا اقرار نامہ نہیں ہے بلکہ صرف اعلان کے طور پر ہے جو مسلمان اور کفار ایک دوسرے کے خلاف کر چکے تھے اور اپنی اپنی فتح کے امیدوار تھے۔
مسلمانوں کی طرف سے سورۃ الانفال میں یہ اعلان تھا کہ کفار کی جائیدادیں اور مال و متاع پر مسلمان قابض ہوجائیں گےجبکہ کفار کی طرف سے یہ دعویٰ تھا کہ مسلمانوں کو یہاں سے نکال باہر کیا جائے گااور وہ مسلمانوں کی مال و متاع پر قابض ہوں گے۔ فریقین کے ایسے اعلان تھے جن کو یہاں تمثیلی رنگ میں ‘عہد’ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور مشرکوں کو بتایا گیا ہے کہ زمین کو گھوم پھر کر دیکھو کہ سورۃ انفال میں جو اعلان ان کی طرف سے کیا گیا تھا آیا وہ سچ نکلا ہے یا نہیں۔ اس لئے سورۃ براۃ (توبہ) دراصل سورۃ انفال میں مذکور ایک عظیم پیشگوئی کی صداقت کا اعلان کرتی ہے اور اس کا ایک جزو ہے اور اسی لئےایک الگ سورۃ نہ ہے۔
مختصر یہ کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے جو دراصل ایک مکمل سورۃ بناتا ہے، جیساکہ پہلے بیان ہو چکاہےکہ سورۃ انفال غزوہ بدر کے وقت نازل ہوئی تھی اور اس میں مشرکوں کی تباہی کے بارے میں ایک پیشگوئی کی گئی تھی۔ پھر مشرکین مکہ سے آخری جنگ کے بعد سورۃ براۃ نازل ہوئی جس میں ایک پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا گیا اور ایک نئے دور کی بنیاد رکھی گئی۔
دونوں سورتوں کے مضامین کا خلاصہ
سورۃ الانفال کا آغاز غزوہ بدر کی تفصیل کے بیان سے ہوتا ہے اور آغاز میں ہی مسلمانوں کو بتایا گیا ہےکہ انہیں کفار کے مقابل پر ایک کھلی فتح نصیب ہوگی اور ان کی جائیدادوں اور مال غنیمت پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا۔ یہ جنگیں خدا کا ایک نشان ہیں اور انہیں دنیا داری کے حصول کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے۔ پھر انہیں بتایا گیاہے کہ انہیں اللہ کی راہ میں بہادری سے لڑنا چاہئے اور اپنی طاقت اور تنظیم پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہئے اور انہیں اپنے دشمن کی تعداد اور ان کی جنگی مہارت سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔
مزید براں اہلِ اقتدار کی اطاعت پر زور دیا گیاہے اور یہ بیان کیا گیاہےکہ الہٰی احکام کی فرمانبرداری مسلمانوں کے لئے کامیابی اور خوشحالی کی راہیں ہموار کرے گی اور انہیں دشمنوں کی فتنہ پردازیوں اور سازشوں سے محفوظ رکھے گی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مکہ والوں کی خفیہ سازشوں سے بچایا۔ اس سورۃ میں مزید بتایا گیاہےکہ دشمن کو اپنی تعداد اور جنگی مہارت پر غرور ہے اور اپنے تئیں حق پر سمجھتا ہے اور جھوٹے پر خدا کی لعنت کا متقاضی ہے۔ ایسا سخت دشمن اتنی آسانی سے ہرگز ہار نہیں مانے گا ۔ یہ سورۃ ان کے جھوٹے دعاوی کو ظاہر کرتی ہے۔
اس سورۃ میں مزید بیان کیا گیا ہےکہ کفار کے قول و فعل کا تضاد ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ایمان فقط ان کی عقل کا غلام ہےاور اس کی جڑیں ہرگز ان کے دل میں مضبوطی سے پیوست نہ ہیں۔ مسلمانوں کی فرحت کے لئے یہ الہٰی وعدہ کیا گیا ہےکہ جس جنگ میں وہ ہیں (غزوہ بدر) یہ ان کی کامیابی پر منتج ہوگی اور مستقبل میں بھی ان کی کوششوں کے ایسے ہی نتائج نکلیں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے عہدیداران کی اطاعت اور سختیوں کو صبر و تحمل سے برداشت کرنا اور اتحاد اور تنظیم سے کام کرنا ان پر فرض کر دیا گیاہے۔
اس سورۃ میں آئندہ ہونے والے معاہدہ جات کےتقدس اور پاسداری کا بیان کیا گیاہے اور مسلمانوں کو بتایا گیاہے کہ کفار پے در پے اپنے معاہدوں سے انحراف کریں گے مگر یہ بات تمہیں ہرگز ان سے کئے گئے عہد و پیمان توڑنے پر آمادہ نہ کرے۔ انہیں اس غلط فہمی اور خام خیالی کو ذہنوں سے نکالنا ہوگا کہ کفار کی عہد شکنی کے باعث ان کے مقصد کا کچھ بھی حرج نہ ہوگا جب تک کہ وہ خود کسی عہد شکنی کے مرتکب نہ ہوں۔ اس کی بجائے انہیں پوری تندہی سے ان معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہئے لیکن کسی بھی معاہدہ کی وجہ سے جنگ کی تیاری میں کوتاہی ہرگز نہیں برتنی چاہئے۔ انہیں یہ حکم دیا گیا ہےکہ اگر لڑائیوں کے دوران کفار امن کی طرح ڈالیں تو ایسی پیشکش کو ہرگز ٹھکرانا نہیں ہے کیونکہ اگر کفار امن کے معاہدوں کو توڑیں گے اور پھر سے جنگ شروع کردیں تو مسلمانوں کو ان کی اس عہد شکنی سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی جو انہوں نے اپنے اعتماد کوخودٹھیس پہنچائی ہوگی۔ اس حکم نے صلح حدیبیہ کی راہ ہموار کی اور جب کفار نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو یہ فتح مکہ پر منتج ہوا۔ مسلمانوں کو مزید بتایا گیاہے کہ قیدی ان کے ہاتھ آئیں گے اور انہیں ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنا چاہئے۔
مسلمانوں کو فتح کا وعدہ سورۃ الانفال میں دیا گیا تھا اس کے پورا ہونے کا ذکر سورۃ براۃ کی ابتدائی آیات میں ہے جہاں بتایا گیا ہے کہ مسلمان پورے عرب پر قابض ہوچکے ہیں اس لئے مشرکین کو چاہئے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھ لیں کہ کیا مسلمانوں کا غلبہ سارے ملک پر ہو چکا ہے یا نہیں۔ اگلی آیات میں کفار سے بوجہ ان کے معاہدہ جات کی پاسداری نہ کرنے کےناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ نئے عہد و پیمان نہ باندھیں نیز یہ کہ ان سے معاہدوں کا ختم کرنا ہرگز مکہ کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے گا کیونکہ خدا ان کو رزق عطا فرمائے گا۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ انہیں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ عرب کو فتح کرنے کے بعد اب جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور انہیں امن نصیب ہو جائے گا۔
عیسائیوں کی مخفی سازشوں اور فریب کی وجہ سے جنگوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگا اور وہ کیونکہ مشرک قوم ہیں اس لئے وہ خدا کی توحید کا زمین میں قائم ہونا برداشت نہ کرسکیں گے۔ مزید برآں وہ اخلاقی گراوٹ میں مبتلا قوم ہیں جبکہ اسلام حقیقی مساوات اور آزادی کا درس دیتا ہے۔ پھر ایک عیسائی حکومت اپنے قرب و جوار میں مساوات اور آزادی کی بنیادوں پر قائم حکومت کیونکر برداشت کر سکتی ہے جبکہ ایسی قریبی حکومت ان کی رعایا کو بغاوت پر ابھار سکتی تھی۔ اس لئے مقدس مقامات کی حفاظت کی غرض سے جن کو شعائر اللہ قرار دیا جا چکاہے مسلمانوں کو بتایا گیاہےکہ آئندہ آنے والی جنگوں کی خاطر خواہ تیاری رکھیں۔
جیساکہ سورہ براۃ کی ابتدائی 37 آیات کے نزول اور بعد کی آیات کے نزول میں ایک وقفہ پایا جاتا ہے، بعد میں نازل ہونے والی آیات میں پہلے نازل شدہ آیات میں مذکور پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں غزوہ تبوک کے حالات کا ذکر کیا گیا ہے اور ان حالات کا بھی جن میں مذکورہ بالا پیشگوئی پوری ہوئی۔
منافقوں اور کمزور ایمان والوں سے سلطنتِ قیصر سے ٹکرانے کے باعث خوفزدہ ہوکر جہاد کے لئےنہ نکلنے پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کی اخلاقی کمزوری کوظاہر کیا گیاہےاور مومنوں کو ان سے مددلینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ان کی مدد کے بغیر ہی خدا انہیں قیصر پر فتح عطا کرے گا۔ (یہ مضمون زیادہ تفصیل کے ساتھ سورۃ روم اور سورۃ فتح میں مذکور ہے)
اس ضمن میں منافقوں کی سازشوں کا ذکر کیا گیا ہےکہ جو وہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے کر رہے ہیں۔ سورۃ توبہ کے اختتام پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ منافقوں کی سازشوں اور کفار کے دنیاوی ذرائع اور بڑی طاقت کے باوجود آنحضرت ﷺ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے (جو عظیم عرش کا رب ہے) اپنے مشن میں کامیاب و کامران ہوں گے۔
(وقار احمد بھٹی)