• 14 جولائی, 2025

خلافتِ رابعہ کے دور میں مساجد کا قیام

اسلام احمدیت کی ترقی و استحکام میں مساجد کو ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ مسجد وہ مقام ہے جہاں مومنین اللہ و رسول کے احکامات کے تابع خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور باجماعت نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور یوں اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں سے حصّہ پاتے ہیں جن کا اس نے نماز باجماعت قائم کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر مسجدوں کے قیام کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا۔

’’اِس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانۂ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہئے۔ پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیّت بہ اخلاص ہو۔ محض لِلّٰہ اسے کیا جاوے۔ نفسانی اَغراض یا کسی شرّ کو ہر گز دخل نہ ہو۔ تب خدا برکت دے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ 119۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی اس کے آغاز سے ہی مساجد کے قیام کی طرف خصوصی توجہ ہے اور خلافتِ احمدیہ کے زیرِ ہدایت و نگرانی باقاعدہ ایک سکیم کے طور پر مساجد کی تعمیر و توسیع کا کام منظّم طور پر جاری ہے۔ اور بہت سے مقامات پر مرکزی نظام کے تابع مساجد کی تعمیر کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے عہدِ خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ دسمبر 1982ء کے موقع پر اپنے دوسرے روز کے خطاب میں بتایا کہ اس سال نو(9) مختلف ممالک میں مرکزی اخراجات کے تابع 24 بڑی وسیع اور پختہ مساجد تعمیر کی گئیں۔

اگلے سال دسمبر 1983ء کے جلسہ کے موقع پر آپؒ نے بتایا کہ اس سال دس ممالک میں32 نئی مساجد تعمیر ہوئیں۔

1984ء میں حکومتِ پاکستان کے ظالمانہ آرڈیننس 20کے نفاذ کے بعد پاکستان میں احمدیوں کے لئے مساجد کی تعمیر کی اجازت تو ایک طرف، ان پر یہ پابندی لگا دی گئی کہ وہ اپنی مسجد کو ’’مسجد‘‘ کہہ بھی نہیں سکتے۔ کئی جگہوں پر احمدیہ مساجد پر حملے کئے گئے۔ بعض جگہوں پر احمدیوں سے ان کی مساجد چھین کر ان پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا۔ بعض جگہ مساجد کو سِیل (seal) کر دیا گیا۔ بعض مساجد کو منہدم کیا گیا۔ مساجد کے ساز و سامان کو لوٹا اور جلایا گیا۔ مخالفین کے ارادے تو یہ تھے کہ اس طرح احمدی عبادت سے منحرف ہو جائیں گے۔ لیکن معاندین احمدیت کی ان ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف جماعت احمدیہ نے اپنے امام کے تابع وہ ردِّ عمل دکھایا جو ایک حقیقی مومن جماعت کی شان ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ قوت اور عزم اور ارادوں کے ساتھ عبادات پر قائم ہوئے اور ان کی عبادت کے معیاروں میں اضافہ ہوا۔ نمازوں میں باقاعدگی اور التزام اور خشوع و خضوع اور سوز و گداز نے ان کو نئی روحانی رفعتیں بخشیں۔اور خدا تعالیٰ کے گھروں کی تعمیر کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کیں۔

حضور ؒ نے معاندین احمدیت کی احمدیوں کو زبردستی نماز سے روکنے کی کوشش میں ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28نومبر 1986ء میں فرمایا۔

’’بکثرت ایسے احمدی جوپہلے نمازوں میں سستی دکھاجاتے تھے وہ نمازوں میں اورزیادہ مضبوط ہوگئے ۔جوباجماعت نماز کے عادی نہیں تھے انہوں نے باجماعت نمازیں شروع کردیں۔ جو تہجد نہیں پڑھتے تھے، انہوں نے تہجد پڑھنا شروع کردی اورجوبے نمازی تھے وہ نمازی بننے لگ گئے اور اس کا ردّ عمل..… ایساوسیع ہے، اتنا پُرشوکت ہے کہ صرف پاکستان میں نہیں ہوا یہ ردّعمل ،انگلستان میں بھی ہوا،جرمنی میں بھی ہوا، چین میں بھی ہوا، جاپان میں بھی ہوا، امریکہ میں بھی ہوا، افریقہ میں بھی ہوا، کوئی دنیا کا ملک ایسا نہیں ہے جہاں پاکستان کے حکمرانوں کی اس ناپاک کوشش کا ردّعمل اس صورت میں دنیا میں ظاہر نہ ہوا ہو کہ انہوں نے وہاں احمدیوں کونمازوں سے روکنے کی کوشش کی ہواوردنیاکے کونے کونے میں احمدی نمازوں پر زیادہ قائم نہ ہوگئے ہوں۔ تعداد کے لحاظ سے بھی، نماز کے مزاج کے لحاظ سے بھی، روحانیت کی شیرینی کے لحاظ سے بھی، خشوع وخضوع کے لحاظ سے بھی، غرضیکہ ہرپہلوسے اس کوشش کانتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلاکہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کامعیارہرصورت میں ہر پہلو سے اب پہلے کی نسبت بہت اونچاہوگیا۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 5خطبات 1986ء صفحہ787)

خدا کے فضل سے دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے زیرِ اہتمام بڑی خوبصورت اور تقویٰ پر مبنی مساجد کی تعمیر کا سلسلہ بھی بہت تیزی سے آگے بڑھا۔ ظاہری خوبصورتی اور وجاہت اور حشمت کے لحاظ سے تو جماعت احمدیہ دنیا کی امیر قوموں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن قربانی کی روح میں دنیا کی کوئی قوم جماعت احمدیہ کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچتی۔ جماعت کا اخلاص، اس کی قربانی اور اس کا جذبۂ خدمت حیرت انگیز ہے۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کو قبول فرمایا اور قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں برکتیں بخشیں اور اپنے فضلوں سے نوازا،سینکڑوں کیا ہزاروں ایسی ایمان افروز داستانیں دنیا بھر میں پھیلی پڑی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیشہ ان باتوں کے الٹ نتائج ظاہر کئے ہیں جو ہمارے خلاف دشمنوں نے مکر اور تدبیریں کیں۔ احمدیت کی تاریخ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ دشمن کے ارادوں کے وہ نتائج ظاہر ہوئے ہوں اور ان کی تدابیر کے وہ نتائج برآمد ہوئے ہوں جو مقصد تھا اُن کا کہ ہم یہ کریں گے تو یہ نتیجہ نکلے گا…… انہوں نے جب بھی جماعت احمدیہ کے اموال لُوٹے ہیں جماعت کے اموال میں برکت ہوئی، جب مسجدوں کو منہدم کیا ہماری مسجدوں میں برکت ہوئی، ہمارے نفوس ذبح کئے ہمارے نفوس میں برکت ہوئی، جب قرآن کریم جلائے……تو قرآن کی اشاعت میں بے شمار برکت ہوئی۔ جب انہوں نے تبلیغ پر پابندی لگائی تو تبلیغ میں برکت ہوئی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18 مئی 1984ء)

چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان میں احمدیہ مساجد پر پابندی کے آرڈیننس کے ردّ عمل میں بیرونِ پاکستان کی جماعتوں کو تحریک فرمائی کہ وہ خدا کے گھروں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں۔ آپؒ نے 1985ء میں جماعت کو یہ تحریک فرمائی کہ یہ سال مساجد کی تعمیر کے سال کے طور پر منایا جائے۔ اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں مساجد اور مراکز نماز اور مشن ہاؤسز کے قیام کی طرف غیر معمولی توجہ ہوئی۔ اور ہر آنے والے سال میں مسلسل جماعتی مساجد کی تعمیر میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بہت سے مقامات پر جماعت کو بنی بنائی مساجد عطا ہوئیں کیونکہ کامیاب تبلیغ کے نتیجہ میں پورا گاؤں یا گاؤں کی اکثریت اپنے اماموں کے ساتھ احمدی ہوئی اور یوں بنی بنائی مساجد جماعت کو عطا ہوئیں۔

ان مساجد کی تعمیر کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بہت ہی ایمان افروز واقعات بھی ظاہر ہوئے۔ مساجد کی تعمیر کے لئے قربانیاں پیش کرنے والوں کے ایمان و اخلاص اور قربانی کے بے نظیر واقعات بھی رونما ہوئے اور مساجد کی تعمیر میں روکیں ڈالنے والے مخالفین کی ذلّت و رسوائی کے عبرتناک نشانات بھی ظاہر ہوئے۔ یہ بھی ایک طویل اور دلچسپ اور رُوح پروَر تفصیل ہے اور تاریخ احمدیت کا ایک نہایت ہی روشن باب ہے۔

ذیل میں عہدِ خلافتِ رابعہ میں تعمیر ہونےوالی بعض اہم اور بڑی مساجد و مراکزِ نماز کا مختصرتعارف پیش کیا جاتا ہے۔ بالخصوص ایسی مساجد، مراکزِ نماز کا جن کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے رکھا یا آپؒ نے ان کا افتتاح فرمایا۔ یا حضورؒ کے عہدِِ خلافت میں کسی ملک میں پہلی مسجد کا قیام عمل میں آیا۔

عہدِ خلافتِ رابعہ میں پاکستان میں 20 کے قریب مساجد شہید کی گئیں۔ اگست 1987ء میں بیت النور ہالینڈ کو بعض شریر اور شرپسند عناصر نے جلانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور قیمتی دستاویزات اور اشیاء ضائع کر دیں۔ اس واقعہ کا ذکر کر کے حضورؒ نے 21۔اگست 1987ء کے خطبہ جمعہ میں ہالینڈ کی مسجد کو دس گنا بڑا بنانے کا اعلان کیا اور 18ستمبر 1987ء کے خطبہ جمعہ میں منہدم شدہ مساجد کی مرمت اور از سرِ نَو تعمیر کے لئے فنڈ کی تحریک کی اور فنڈ کا قیام اپنی طرف سے ایک ہزار پونڈ کی رقم کا وعدہ فرما کر کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا۔
’’چونکہ پاکستان میں مساجد پر اور معابد پر حملہ تھا اس لئے مَیں نے جماعت کو سمجھایا کہ ہم ظلم کا جواب ظلم سے تو نہیں دے سکتے مگر مسابقت کی روح کے ساتھ ہم یہ جواب دیں گے۔ قرآن کریم نے ہمیں نیکیوں میں آگے بڑھنے کی تلقین فرمائی ہے … اس لئے مَیں نے جماعت کو تاکید کی کہ وہاں اگر ایک مسجد جلاتے ہیں تو آپ بیسیوں مسجدیں باہر کی دنیا میں بنادیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے اس آواز پر لبّیک کہتے ہوئے عظیم الشان خدمت سرانجام دینے کی توفیق پائی۔

جس سال لندن آیا ہوں اس سال مساجد کی تعمیر کی تعداد دنیا بھر میں 32 تھی اور باقی چار سالوں میں خد اکے فضل سے جماعت کو 660 نئی مسجدیں بنانے کی توفیق ملی ہے۔…

اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ بعض بنی بنائی مسجدیں بھی ہمیں عطا کی ہیں اور جو ں جوں جماعتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ان جماعتوں کے ساتھ بہت سے دیہات کی بنی بنائی مسجدیں پوری کی پوری جماعت احمدیہ کو مل گئیں۔ ان مساجد کی تعداد 201 ہے جو اُن کے علاوہ ہے جو مَیں نے بیان کی ہے۔

(خطاب جلسہ سالانہ یو۔کے 1989ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ 1992ء کے موقع پر مساجد کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔

’’پاکستان میں جو سب سے بڑا ظلم توڑا جا رہا ہے وہ عبادت کی راہ میں روکیں ڈالنا ہے جس کو قرآن کریم نے سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہےکہ کون ہے اس سے زیادہ ظالم جو خدا کی مساجد میں جا کر عبادت کرنے والوں کو عبادت سے روکتا ہے (البقرۃ:115) تو پاکستان میں جتنے بھی مظالم ہیں کچھ بدنی ہیں اُن سے بدن کو تکلیف پہنچتی ہے لیکن جو روحانی مظالم ہیں وہ اُس سے بہت زیادہ سنگین ہیں اللہ کی نظر میں۔ اور اُن میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری مساجد کو منہدم کیا گیا، اُن کی تالہ بندی کی گئی، مساجد میں جانے سے روکا گیا۔ اُس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ نے اس کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو دنیا بھر میں نئی مساجد عطا کی ہیں کہ اُن کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور روح سجدہ ریز ہو جاتی ہے جو کتنا محسن خدا ہے۔

نئی مساجد جو امسال بنی ہیں وہ 307 ہیں اور 80 زیر تعمیر ہیں۔

برِّ اعظم افریقہ

گیمبیا

1988ء میں دورۂ مغربی افریقہ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے گیمبیا میں 2 احمدیہ مساجد کا افتتاح فرمایا اور 2مشن ہاؤسز، ایک مسجد اور ایک کلینک کا سنگِ بنیاد رکھا۔

ان میں سے ایک شہر Talinding Kunjang کی مسجدبیت السلام تھی جس کا سنگِ بنیاد 20جنوری 1988ء کو رکھا گیا تھا۔

ماریشس

18ستمبر 1988ء کو حضورؒ نے ماریشس کے مقام نیوگروو (New Grove) پر مسجد بیت السلام کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اور اس کا افتتاح 1993ء میں فرمایا۔ اس مسجد کے لئے قطعۂ زمین مقامی احمدی فیملی نے بطور ہدیہ جماعت کو پیش کیا تھا۔ اس تقریبِ سنگِ بنیاد میں آنریبل رامدَت جدّو (Ramduth Jaddoo) منسٹر فار ورکس بھی شامل ہوئے۔

اسی روز 18ستمبر 1988ء کو حضورؒ نے اپنےماریشس کے پہلے دورہ کے دوران وہاں کے علاقہ Quartier Millitaire میں تعمیر ہونے والی مسجد طاہر کا افتتاح فرمایا۔

برِّ اعظم یورپ

حضورِ انورؒ نے 11 ستمبر تا 15۔اکتوبر 1985ء پانچ ہفتوں کا یورپ کا دورہ فرمایا۔ مغربی جرمنی، اٹلی، سپین، فرانس، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ اور بیلجیم تشریف لے گئے اور اس دورہ کے دوران پانچ نئے مراکز کا افتتاح فرمایا۔

سپین

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مورخہ 10ستمبر 1982ء کو سپین کے شہر پیدرو آباد میں 700 سال بعد تعمیر ہونے والی ’’مسجد بشارت‘‘ کا افتتاح فرمایا۔ اس مسجد کی تعمیر جماعت احمدیہ کے صدسالہ جوبلی منصوبہ کے ایک اہم حصّہ کے طور پر ہوئی۔ اس کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بنفسِ نفیس سپین تشریف لے جا کر مؤرخہ 9؍اکتوبر 1980ء کودورۂ یورپ کے دوران رکھا تھا۔ اس کے افتتاح کی تاریخ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے وصال سے قبل مقرر فرمائی تھی۔

افتتاح مسجد بشارت

اس موقع پر چار برِّاعظموں ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے 40ممالک سے 2ہزار کے قریب احمدی موجود تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس موقع پر اپنے تاریخی خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ستمبر 1982ء میں فرمایا۔

’’مسجدوں کی تعمیر ایک بہت ہی مقدّس فریضہ ہے۔ لیکن جو مسجدیں ہم بنا رہے ہیں یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جیساکہ عام طور پر دنیا میں ہوتا ہے۔ ان مسجدوں کے پس منظر میں لمبی قربانیوں کی تاریخ ہے۔ یہ کچھ امیر لوگوں کی وقتی کوشش یا جذباتی قربانی کا نتیجہ نہیں۔ کچھ ایسے لوگوں کی جن کو خدا نے زیادہ دولت بخشی ہو اور وہ نہ جانتے ہوں کہ کہاں خرچ کرنی ہے۔ بلکہ خصوصاً اس مسجد کے پیچھے تو ایک بہت ہی لمبی، گہری، مسلسل قربانیوں کی تاریخ ہے۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد1 خطبات 1982ء صفحہ136)

اس موقع پر مسجد کے افتتاح کی مناسبت سے منعقدہ خصوصی تقریب میں احمدی احباب کے علاوہ قریباً 3ہزار مقامی سپینش افراد نے شرکت کی۔ اسی طرح سپین کے مقامی اخبارات اور پریس و میڈیا اور مختلف نیوز ایجنسیز کے پچاس سے زائد نمائندگان اس تقریب میں شامل ہوئے۔ اور نہ صرف سپین کے ذرائع ابلاغ نے اس تقریب کو بہت نمایاں کر کے شائع اور نشر کیا بلکہ یورپ اور دنیا کے متعدد ممالک کے سمعی و بصری نشریاتی اداروں نے اس مسجد کے افتتاح کی تقریب کی نہایت خوش آئند الفاظ میں خبریں نشر کیں اور اس کی جھلکیاں دکھائیں اور عالمی شہرت کے مالک کثیر الاشاعت اخبارات و جرائد نے اپنے ادارتی کالموں میں اس کا اچھے رنگ میں ذکر کیا۔ اور اس طرح کروڑوں افراد تک اس مسجد کی تعمیر اور افتتاح اور اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔قرطبہ کے ایک جریدہ ’’لاووز‘‘ یعنی ’’صدائے قرطبہ‘‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا۔

’’بیشک پیدروآباد میں تعمیر ہونے والی مسجد جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی مذہبی اہمیت کی حامل ہے جس کے افتتاح کے موقع پر 2ہزار کے لگ بھگ احمدی دنیا کے کونے کونے سے کھنچے چلے آئے ہیں لیکن یہ مسجد اہل قرطبہ کے لئے بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں اس لئے کہ یہ رواداری اور مذہبی عقائد کی آزادانہ تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ میں ایک یاد گار بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے اور تاریخی اعتبار سے اس کا رشتہ رواداری کے اس جذبہ اور روح کے ساتھ جا ملتا ہے جس کا مظاہرہ خلفائے قرطبہ نے اپنے دورِ حکومت میں کیا۔ دریائے وادیٔ الکبیر کے کنارے پیدروآباد کے قرب میں واقع اس نوتعمیر مسجد کے خوبصورت مینار ہمیں ایک خاص تاریخی جذبہ کا احساس دلاتے ہیں۔ اس حقیقت کا انکار کئے بغیر کہ قرطبہ اور اُندلس میں عیسائیت کی جڑیں بہت مضبوط اور گہری ہیں ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہ مینار رواداری کی علامت اور نشان کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں اُس اہم تاریخی ماضی کو دہرانے کا ایک واضح اشارہ موجود ہے جسےیکسر فراموش کردینے کا کوئی جواز نہیں۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد1 خطبات 1982ء صفحہ136)

انگلستان

5؍اکتوبر 1982ء کو حضورِ انورؒ نے انگلستان کے شہر جلنگھم (Gillingham) میں احمدیہ مشن کا افتتاح فرمایا۔

7؍اکتوبر 1982ء کو حضورؒ نے لندن کے علاقہ کرائیڈن میں احمدیہ مشن کا افتتاح فرمایا۔

10مئی 1986ء کو حضورؒ نے گلاسگو میں سکاٹ لینڈ کے نئے احمدیہ مشن کا افتتاح فرمایا۔

مسجد بیت الفتوح مورڈن لندن
انگلستان میں سب سے بڑی مسجد بنانے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انگلستان میں سب سے بڑی مسجد بنانے کی تحریک کرتے ہوئے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 24فروری 1995ء میں فرمایا۔

’’انگلستان میں ایک بہت بڑی مسجد کی ضرورت ہے۔ یہاں اب تک جو دوسری بڑی بڑی مساجد بنائی گئی ہیں ان میں بتایا جاتا ہے کہ گلاسگو کی مسجد میں سب سے زیادہ نمازی آ سکتے ہیں یعنی دو ہزار کی تعداد میں۔ اب مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں زیادہ آ سکتے ہیں یا ریجنٹ پارک کی مسجد میں۔ مگر جو اندازہ ایک دفعہ مَیں نے لگوایا تھا اس سے یہی لگتا ہے کہ ریجنٹ پارک کی مسجد کے ملحقات تو بڑے ہیں مگر نمازیوں کی جگہ اتنی نہیں ہے۔اس لئے بعید نہیں کہ گلاسگو والوں کا دعویٰ درست ہو کہ انگلستان کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

جماعت احمدیہ کی تعداد تو دوسروں کے مقابل پر بہت تھوڑی ہے لیکن جماعت احمدیہ کے عبادت گزار بندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس لئے ہمیں 2 ہزارکی مسجد کام نہیں دے گی۔ مرکزی جو جلسے ہوتے ہیں یا مرکزی تقریبات جن میں عبادت کے لئے وسیع جگہوں کی ضرورت پڑتی ہے ان میں انگلستان کی ضرورت چھ سات ہزار تک بھی جا پہنچتی ہے۔ تو مَیں نہیں سمجھتا کہ سرِ دست آپ کے اندر یہ استطاعت ہے کہ چھ سات ہزار نمازیوں کے لئے مسجد تعمیر کر سکیں۔ مگر ایسی مسجد کی بنیاد ڈالنا ضروری ہے جس میں یہ سہولتیں مہیا ہوں کہ آئندہ حسب ضرورت اور حسب توفیق اس کی توسیع ہوتی چلی جائے اور مسجد کے عمومی نقشے پر بُرا اثر نہ پڑے۔ یعنی سادگی تو اپنی جگہ درست ہے مگر بدزیبی تو خدا کو پسند نہیں ہے۔ ایسے ملحقات، ایسے الحاقی اضافے جو بدصورتی پیدا کریں وہ اچھے نہیں ہیں۔ اس لئے اپنی پلاننگ میں، اپنی منصوبہ بندی میں یہاں کی جماعت کو چاہئے کہ یہ گنجائش رکھیں کہ آئندہ دس پندرہ ہزار تک کے لئے بھی وہ مسجد بڑھائی جا سکتی ہو تو بڑھائی جائے اور پھر بھی ٹھیک لگے۔ دونوں طرف سے آگے اور پیچھے متوازن بڑھنے کی جگہ بھی ہونی چاہئے اور نقشہ پہلے سے ہی بننا چاہئے مختلف stages، منازل کا نقشہ۔

اس پہلو سے مَیں سمجھتا ہوں کہ سردست جو مَیں نے تخمینہ لگایا ہے، امیر صاحب سے مشورہ بھی کیا ہے تو وہ بھی کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ مگر کچھ ان کے ٹھیک سے مجھے لگا تھا کہ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت میں ابھی یہ توفیق نہیں، تو توفیق تو خدا بڑھا دیا کرتا ہے۔ مَیں نے پانچ ملین کا تخمینہ لگایا ہے یہاں کی مرکزی مسجد کے لئے اور جیسا کہ میرا پرانا دستور چلا آرہا ہے اللہ توفیق بھی عطا فرما رہا ہے کہ ہر وہ وسیع، بڑی تحریک جو کرتا ہوں اس کا سواں حصہ میں اپنی طرف سے پیش کرتا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے میں امیر صاحب کی طرف سے دس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ لکھوا رہا ہوں تا کہ ان کا پہلا نمبر رہے۔ اگرچہ میری نیتوں میں ان سے پہلے غالبًا یہ بات چلی آ رہی تھی کہ پچاس ہزار پاؤنڈ کا مَیں اکیلا نہیں بلکہ اپنی بچیوں، دامادوں، بچوں اور مرحومین سے تعلق والوں کی طرف سے یہ لکھواؤں۔ پانچ سال کا عرصہ میرے ذہن میں ہے۔ پانچ سال میں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا تو یہ رقم سارے وعدہ کروانے والے پوری کر دیں۔ لیکن اگر یہ وعدے اتنے نہ ہوئے تو پھر پانچ سال مزید بھی اس کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور مسجد کے معاملے میں بنیادیں وسیع ہونی چاہئیں اور سادہ سی عمارت کی تعمیر بھی ہو جانی چاہئے۔ باقی زیبائشیں بعد کی باتیں ہیں، دیکھی جائیں گی۔

تو مَیں سمجھتا ہوں کہ پچاس لاکھ اگر پانچ سال میں نہ بھی پورا ہو تو دس لاکھ بھی سہی لیکن ارادے بلند رکھیں اور اللہ سے توقعات بلند رکھیں۔ نئی نسل کے جو بچے اب خدا کے فضل سے مختلف نوکریوں پر لگ رہے ہیں ان کو بھی شامل کریں اور خدا سے توفیق بڑھانے کی دعائیں مانگیں تو کوئی بعید نہیں۔ اور پھر جب بھی تحریک کی جاتی ہے تو سب دنیا سے خدا ویسے بھی مددگار کھڑے کر دیتا ہے۔ کچھ ایسے جوش رکھنے والے متموّل دوست ہیں کہ دنیا کی کوئی بھی تحریک ہو پیچھے نہیں رہنا چاہتے تو وہ بھی آپ کی انشاء اللہ نصرت فرمائیں گے۔ تو اس وقت مَیں پانچ ملین کی تحریک جماعت انگلستان کی مرکزی مسجد کے لئے کرتا ہوں اور اس دعا اور نیت کے ساتھ کہ یہ لازماً انگلستان کی وسیع ترین مسجد ہو۔ عبادتوں کی گنجائش پر زور ہونا چاہئے۔ جو ملحقہ عمارتیں ہیں یا دوسرے نخرے ہیں ان کو بے شک نظر انداز کر دیں۔ لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہو جائے تو یہ بھی بعید نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر جرمنی کو بڑی تحریک ہو گی کیونکہ جرمنی آپ کی رقیب جماعت ہے اور وہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کسی نیکی میں آپ اُن سے آگے نکل جائیں۔ تو آپ نے قدم بڑھایا تو وہ بھی بڑھائیں گے، یہ سلسلہ چل پڑے گا ان شاء اللہ۔ تو اب وقت ہے کہ ہم عبادتوں کی طرف توجہ جب کر رہے ہیں تو عبادتگاہوں کی طرف بھی توجہ کریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 24فروری 1995ء، خطباتِ طاہر جلد 14صفحہ 138۔140)

الغرض حضورؒ نے برطانیہ کی نئی اور وسیع مسجد کے لئے 24 فروری 1995ء کو 5 ملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی۔ 28 مارچ 1999ء کو حضور نے بیت الفتوح کی مجوزہ جگہ پر نماز عید الاضحی پڑھائی اور اسی سال 19؍ اکتوبر کو حضور ؒ نے مسجد بیت الفتوح کا سنگِ بنیاد رکھا۔ 16فروری 2001ء کو حضورؒ نے اس مسجد کے لئے مزید 5 ملین پاؤنڈ کی تحریک فرمائی۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 3؍ اکتوبر 2003ء کو اس کا افتتاح فرمایا۔ اس مسجد میں بیک وقت 10ہزارافراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ نیز یہ مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

قطب شمالی کی پہلی مسجدکے لئے تحریک

حضورؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍اکتوبر 1993ء میں فرمایا کہ
’’جماعت احمدیہ ناروے کے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہوں نے North Cape میں مسجد بنانے کی حامی بھری تھی اور ان کے سپرد مَیں نے یہ کام کیا تھا کہ چندوں کی اپیل سے پہلے وہاں زمین لیں اور جماعت قائم کریں۔ پھر ساری دنیا سے چندوں کی اپیل کی جائے گی اور آپ کی جو کمی ہے وہ پوری ہو جائے گی۔انہوں نے یہ خوشخبری بھیجی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمیون نے باقاعدہ فیصلہ کر کےوہاں ایک نہایت ہی عمدہ باموقع اوپر کی زمین جو ایک خوبصورت پہاڑ پر واقع ہے اور ایک ایکڑ سے زیادہ رقبہ ہے وہ جماعت احمدیہ کو مسجد کے لئے تحفۃً پیش کر دی ہے اور انہوں نے کوئی پیسہ وصول نہیں کیا۔ دوسرا کام کرنے کے لئے ان کا وفد اب وہاں گیا ہے یا جانے والا ہے تبلیغ کر کے وہاں جماعت قائم کرے گا۔ جب یہ دونوں شرطیں اکٹھی ہو جائیں گی تو پھر ان شا اللہ تعالیٰ چندہ کی عام تحریک بھی کر دی جائے گی۔‘‘

حضورؒ نے فرمایا کہ
’’میرے ساتھ جو قافلہ تھا انہوں نے ایک ہزار پاؤنڈ کا وعدہ تحریک سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ اس میں مَیں نے بھی اپنا وعدہ شامل کر لیا۔ اس طرح ہمارے قافلے کا 2ہزار کا وعدہ اور کچھ خطبہ کے نتیجہ میں دوست از خود وعدہ بھی لکھوا گئے یا رقم ادا کر دی۔ بہرحال جب عام تحریک ہو گی اور جب جیسا میں نے بتایا ہے وہاں جماعت بھی کچھ قائم ہو جائے گی تو مسجد کے کام کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 12 خطبات 1993ء صفحہ769)

جرمنی میں 100 مساجد کی سکیم

ستمبر 1985ء میں مغربی جرمنی کے شہر کولون (Köln) میں 17ستمبر کو حضورؒ نے ایک نئے مرکز بیت النصر کا افتتاح فرمایا۔

22 ستمبر 1985ء کو حضورِ انور نے جرمنی کے شہر گروس گیراؤ (Gross-Gerau) میں نئے مرکز ’’ناصر باغ‘‘ کا افتتاح فرمایا۔

جلسہ سالانہ جرمنی 1989ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ جرمنی کو صد سالہ جشنِ تشکّر کے حوالہ سے ملک بھر میں 100مساجد تعمیر کرنے کا منصوبہ عطا فرمایا۔ اس موقع پر حضورؒ نے فرمایا۔

’’گزشتہ سو سال کامیابی کے ساتھ گزرنے کے طور پر سو مساجد جرمنی میں بنا دیں، اظہارِ تشکّر کے طور پر۔‘‘

(روزنامہ الفضل مورخہ 5 جون 1989ء)

چنانچہ جماعت جرمنی نے اپنے آقا کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے لاکھوں مارک کے وعدے پیش کر دیئے۔ مگر کئی سال گزرنے کے بعد بھی بعض قانونی اور معاشرتی رکاوٹوں کے باعث اس منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔

22 مئی 1997ء کو حضرت سیّدہ مہر آپا حرم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ 23مئی کو حضورؒ نے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ جرمنی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’حضرت مہر آپا کی طرف سے جرمنی کی 100مساجد سکیم میں 3 لاکھ جرمن مارک پیش کئے جائیں گے۔‘‘ (یہ وعدہ بعد میں بڑھا کر 5لاکھ کر دیا) نیز اپنی طرف سے 50ہزار مارک دینے کا اعلان فرمایا۔ 1997ء میں حضورؒ نے ایک مرتبہ پھر اس منصوبہ کی طرف توجہ دلائی۔

25 نومبر 1998ء کو حضورؒ نے وِٹلش میں پہلی مسجد ’’بیت الحمد‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھا اور 9جنوری 2000ء کو اس کا افتتاح ہوا۔

چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد بیت الحمد وٹلش اور مسجد بشارت اوسنا بروک مکمل ہو گئیں اور حضورؒ کے دستِ مبارک سے ان مساجد کے افتتاح عمل میں آئے۔ جبکہ مسجد بیت المومن میونسٹر کا حضورؒ نے سنگِ بنیاد رکھا۔

مسجد ناصر(بریمن) (سنگ بنیاد نومبر2001ء)، مسجد نور الدین (ڈارمشٹڈٹ) (سنگ بنیاد 11مئی 2002ء) اورمسجد طاہر (کوبلنز) میں مساجد کی تعمیر خلافتِ رابعہ کے آخری سالوںمیں شروع ہو چکی تھی۔ جبکہ مسجد حبیب (کیل)، مسجدبیت العزیز (ریڈشٹڈٹ)، جامع مسجد (اوفن باخ)، مسجد سمیع (ہنوور)، مسجد بیت العلیم (ورزبرگ) اور مسجدالہدیٰ (اوزنگن) کے لئے قطعاتِ زمین خریدے جا چکے تھے۔ عہدِ خلافتِ رابعہ میں جرمنی میں مساجد کی تعمیر سے متعلق بعض مزید تفصیلات درج ذیل ہیں۔

مسجد بیت الشکور (گراس گراؤ۔ ناصر باغ)

مسجد بیت الشکور جرمنی کے شہر Gross-Gerau میں واقع جماعتی مرکز ناصر باغ میں تعمیر ہوئی۔ ناصرباغ میں لگنے والی آگ سے وہاں موجود لکڑی کی عمارت مکمل طور پر جل گئی تھی۔ اس علاقہ میں احمدیوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا تھا۔ چنانچہ تقریباً 2سال کی تگ و دَوکے بعد مقامی انتظامیہ نے ناصرباغ میں مسجدبنانے کی اجازت دی۔ مسجد کے ساتھ ایک بڑا ہال،دفاتر اور مبلغ سلسلہ کی رہائش بھی تعمیر کی گئی۔ اس مسجدکو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے‘‘بیت الشکور’’ کا نام دیا۔ مسجد کا سنگِ بنیاد 13۔اپریل 1991ء کو رکھا گیا اور 13۔اپریل 1993ء کو افتتاح عمل میں آیا۔مسجد بیت الشکور کا کل رقبہ 1850مربع میٹر ہے۔ اس مسجد کےمردانہ ہال کا رقبہ 484مربع میٹر ہے اور Basement میں خواتین کے لئے قریباً اتنی ہی گنجائش کی بڑی مسجد بنائی گئی ہے۔ 630 مربع میٹر میں دفاتر اور رہائش گاہ بنائی گئی۔ یہ منصوبہ اس لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خواہش پر تمام عمارت وقارعمل کر کے جماعت جرمنی کے افراد نے اپنے ہاتھوں سے بنائی۔ دو سال تک بڑی دور دور سے احباب تشریف لا کر وقارعمل میں حصہ لیتے رہے۔

مسجد بیت الحمد (وٹلش)

100مساجد سکیم کے تحت پہلی باقاعدہ طور پر تعمیر ہونے والی مسجد لگثمبرگ کے قریب جرمنی کے شہر Wittlich میں بنائی گئی۔ اس کا سنگِ بنیاد نومبر 1998ء میں رکھا گیا اور 9جنوری 2000ء کو اس کاافتتاح ہوا۔ اس موقع کے لئے حضورؒ نے خصوصی پیغام ارسال کیا۔ پھر اسی سال 5جون 2000ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ یہاں رونق افروز ہوئے اور رات قیام فرمانے کے بعد اگلے روز تبلیغی نشست سے خطاب فرمایا ۔ اس مسجد کا پلاٹ تین ہزار پانچ سو مربع میٹرہےاور مسجد 200 مربع میٹرپر تعمیر کی گئی ہے جو دو منزلوں پر مشتمل ہے ۔ گراؤنڈ فلور پرخواتین کے لئے مسجد کے علاوہ چار کمروں کا مربی ہاؤس ہے اور بالائی منزل پر مردانہ مسجد کے ساتھ دفاتر ہیں جبکہ تہہ خانہ میں ایک کثیر المقاصد ہال ہے۔

مسجد بشارت (اوسنابروک)

یہ مسجد OSNABRÜCK میں تعمیر ہوئی۔ اکتوبر 1999ء میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور اکتوبر 2002ء میں اس کا افتتاح ہوا۔ 2481مربع میٹر کے پلاٹ پر بنائی جانے والی مسجد کا تعمیری رقبہ 211 مربع میٹرہے۔ جس میں 215 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ اس مسجد کی خصوصیت اس کے گنبد کے اطراف دو مینار ہیں۔مسجد کے علاوہ دو کمروں کی رہائش،لائبریری اور جماعتی ضرورت کے کچن کے علاوہ تہہ خانہ میں ایک ہال بھی اس عمارت کا حصہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے31۔اگست 2000ء کو زیرتعمیر مسجد کا معائنہ فرمایا اور یہاں ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں۔

مسجد بیت المومن (میونسٹر)

اس مسجد کا سنگِ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے31؍اگست 2000ء کو میونسٹر شہر میں رکھا۔ اس سے قبل بھی 1995ء میں حضورؒ نے اس شہر میں ایک تبلیغی نشست کو رونق بخشی تھی۔اس مسجد کی تعمیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی زندگی میں مکمل ہوگئی تھی تاہم اس کا افتتاح حضور ؒ کی وفات کے چند روز بعد 3مئی 2003ءکو عمل میں آیا۔ اس میں 213 نمازیوں کے لئے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ مسجد مومن کے میناروں کی اونچائی دس میٹر ہے۔ پلاٹ کا رقبہ 1015مربع میٹرہے۔ اس میں مسجد کے ساتھ چار کمروں پر مشتمل مربی ہاؤس ، دفتر اور لائبریری بھی ہے۔

جرمنی میں دیگر زیر تعمیر مساجد

علاوہ ازیں مسجدنورالدین (ڈارمشٹڈٹ)، مسجد ناصر(بریمن) اور مسجد طاہر (کوبلنز) کا سنگِ بنیاد خلافتِ رابعہ کے دور میں رکھ دیا گیا تھا۔ مسجد نور الدین (ڈارمشٹڈٹ) کا سنگِ بنیاد 11مئی 2002ء کو رکھا گیا۔ مسجد ناصر(بریمن) کا سنگِ بنیاد نومبر2001ء میں رکھا گیا۔ اسی طرح کیل شہر میںمسجد حبیب کی تعمیر کے لئے 3ستمبر 1999ء کو پلاٹ خرید لیا گیا تھا۔ خلافت رابعہ کے زمانے میں جو مزید پلاٹ خریدے گئے ان میں Riedstadt میں مسجد عزیز کے لئے پلاٹ 5؍اپریل 2000ء، جامع مسجد (اوفن باخ) کے لئے پلاٹ7؍اگست 2000ء، مسجد سمیع (ہنوور) کے لئے پلاٹ 20؍اپریل 2001ء، بیت العلیم (ورزبرگ) کے لئے پلاٹ 14ستمبر 2001ء، مسجد الہدی (Usingen) کے لئے پلاٹ 12فروری 2002ء اور مسجد بشیر (Bensheim) کے لئے پلاٹ 9دسمبر 2002ءکو خریدے گئے۔ ان پلاٹوں کی منظوری حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے حاصل کی گئی تاہم ان کی تعمیر عہدِ خلافت خامسہ کے ابتدائی سالوں میں ہوئی۔

ہالینڈ

13ستمبر 1985ء کو حضورؒ نے نَن سپیٹ (ہالینڈ )میں نئے مرکز بیت النور کا افتتاح فرمایا۔

برِّ اعظم امریکہ

یُو ۔ایس ۔اے

جنوری 1983ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جماعت احمدیہ امریکہ کو تحریک فرمائی کہ آئندہ 4۔5 سال میں امریکہ میں کم از کم 5 نئے مشن ہاؤسز اور مساجد قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔

29؍ جون 1984ء کو حضورِؒ نے امریکہ و یورپ کے مراکز کے لئے جملہ احمدیوں کو چندہ کی تحریک فرمائی۔

1984ء میں شکاگو میں Glen Ellyn میں جماعت نے مسجد مشن ہاؤس کے لئے 5 ایکڑ کا ایک پلاٹ خریدا۔

اسی سال شکاگو کے پہلے مشن واقع Wabash Street سے ملحقہ مکان خریدا تا کہ مشن کی عمارت میں توسیع کی جا سکے۔

اسی سال ڈیٹرائٹ (میامی) میں مسجد و مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے سات ایکڑ کا پلاٹ خریدا۔

نیویارک میں ایک عمارت بطور مرکز نماز خریدی گئی جس کا نام ’’بیت الظفر‘‘ رکھا گیا۔

زائن میں ایک پلاٹ مشن ہاؤس اور مرکز نماز کے طور پر خریدا گیا۔اور باسٹن میں مقامی افراد جماعت نے 2 ایکڑ کا ایک پلاٹ مسجد کے لئے تحفہ دیا۔

1985ء میں New Orleans میں ایک عمارت بطور مرکز نماز خریدی گئی۔ اسی طرح توسان (Tueson) ایریزونا میں مسجد کی تعمیر ہوئی۔

لاس اینجلس (کیلیفورنیا) میں 4.75؍ ایکڑ کا پلاٹ مسجد و مشن ہاؤس کے لئے خریدا گیا جس پر ’’مسجد بیت الحمید‘‘ تعمیر ہوئی۔

اکتوبر،نومبر 1987ء میں حضور ؒنے امریکہ کی گیارہ ریاستوں کا دورہ فرمایا۔ یہ دورہ تقریبًا ڈیڑھ ماہ کا تھا۔ حضور ؒکینیڈا بھی تشریف لے گئے۔ اس دورہ کے دوران حضورؒ نے امریکہ میں 3 مساجد کا افتتاح فرمایا جن میں فلاڈلفیا، توسان اور پورٹ لینڈ کی مساجد شامل ہیں۔

8؍اکتوبر 1987ء کو نیو جرسی کے شہر ولنگ برو(Willingboro) میں قائم کی جانے والی ’’مسجد النصر‘‘ کا افتتاح فرما کر اسی روز وہاں سے کار پر فلاڈلفیا تشریف لے گئے اور وہاں قائم کی جانے والی ’’مسجد ناصر‘‘ اور اس سے ملحقہ مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا۔

نیز اسی دورہ کے دوران 5 مساجد کا سنگِ بنیاد رکھا جن میں ’’مسجد بیت الرحمٰن‘‘ واشنگٹن (9؍اکتوبر1987ء) اور ڈیٹرائٹ کے علاقہ ٹرائے (Troy) میں مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگِ بنیاد (15؍اکتوبر 1987ء) رکھا۔

بعدازاں ڈیٹرائٹ کی اس مسجد کی جگہ کو لوکل گورنمنٹ نے سڑک کی تعمیر کے لئے جماعت سے حاصل کر لیا۔ اس لئے اس کے مقابل پر ٹرائے کی بجائے فارمنگٹن کے علاقہ میں 2001ء میں 5ایکڑ جگہ حاصل کر کے یہاں مسجد تعمیر کی گئی۔

حضورِ انور رحمہ اللہ نے احبابِ جماعت کی دعوت پر مسجد یوسف توسان اریزونا کا افتتاح 21؍ اکتوبر 1987ء کو فرمایا۔

23؍ اکتوبر 1987ء بروز جمعۃ المبارک حضور رحمہ اللہ نے لاس اینجلس کے علاقہ Hawthorne میں مسجد بیت السلام کا سنگِ بنیاد رکھا۔

1987ء میں ہی Cleaveland (اوہایو) میں ایک عمارت بطور مرکز نماز خریدی گئی جس کا نام بیت الاحد رکھا گیا۔

1988ء میں Pittsburgh اور San Jose میں مشن ہاؤسز (مراکز نماز) کی عمارات خریدی گئیں۔

احمدیہ مسجد واشنگٹن کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے خطبہ جمعہ بمقام لاس اینجلس (امریکہ)فرمودہ 7جولائی 1989ء میں واشنگٹن میں مرکزی مسجد کی تعمیر میں احباب جماعت کو حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ اس سلسلہ میں حضور نے لجنہ نیویارک کی طرف سے پیش کیا جانے والا 3ہزارڈالرز کا چیک اور ڈاکٹر حمیدالرحمٰن کی طرف سے پیش کیا جانے والا 50ہزار ڈالر کا چیک بھی اس مسجد کے لئے وقف کرنے کا اعلان کیا۔ اور فرمایا۔
’’جوبلی کے … اس سال کی غیر معمولی خوشی کے موقع پر جس نے بھی امریکہ سے اس نیت سے روپیہ مجھے پیش کیا وہ میں ان شاء اللہ مسجد واشنگٹن ہی کو دوں گا۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ایک عمومی تحریک کی ضرورت ہے۔ ہم نے جائزہ لیا ہے اس وقت مہنگائی اتنی ہو چکی ہے کہ مسجد واشنگٹن اگر ایک سال سے سولہ مہینے کے اندر اندر تعمیر کی جائے تو پچیس لاکھ ڈالر کی ضرورت ہے… مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت امریکہ یہ سال خصوصیت سے واشنگٹن کی مسجد کا سال منائے تو جتنی رقم بھی اکٹھی ہو ایک سال کے اندر وہ ابتدائی ضرورت کے لئے ان شاء اللہ پوری ہو جائے گی۔ لیکن ساتھ ہی مَیں تمام دنیا کی جماعتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ واشنگٹن کی مسجد میں وہ بھی حصہ ڈالیں۔

(خطباتِ طاہر جلد نمبر 8 خطبات 1989ء صفحہ 469۔471)

Silver Spring Maryland USA میں جماعت نے حضورؒ کی تحریک پر 80ء کی دہائی میں پونے نو ایکڑ رقبہ حاصل کیا جس پر ’’مسجد بیت الرحمٰن‘‘ کی تعمیر کا کام 1993ء میں شروع ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1994ء کے جلسہ سالانہ امریکہ کے موقع پر14؍ اکتوبر کو اس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا جوجماعت احمدیہ امریکہ کی مرکزی مسجد کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔

1989ء میں مسجد بیت الحمید (لاس اینجلس) کی تکمیل ہوئی۔ اس پراجیکٹ پر 1.3ملین ڈالرز خرچ ہوئے۔ 7 جولائی 1989ء کو حضورؒ نے اس کا افتتاح فرمایا۔

اسی سال روچیسٹر میں جماعت نے ایک عمارت بطور مرکز نماز خریدی۔

1990ء میں ہیوسٹن (Houston) میں مسجد و مشن ہاؤس کے لئے ایک عمارت خریدی گئی۔

1992ءمیں سینٹ لوئیس (St.Louis)، Charlote(Ne) اورملواکی میں عمارات خریدی گئیں۔

1993ء میں میامی (فلوریڈا) میں مسجد و مشن ہاؤس کے لئے ایک عمارت خریدی گئی۔

23؍اکتوبر 1994ء کو حضورِ انورؒ نے مسجد بیت الصادق شکاگو کا افتتاح فرمایا۔

1996ء میں San Jose میں ایک عمارت بطور مرکز نماز خریدی گئی۔

1997ء میں Old Bridge،NJمیں ایک عمارت بطور مشن ہاؤس اور مرکز نماز خریدی گئی۔

اسی طرح Dallas میں 4.75ایکڑ کا ایک پلاٹ خریدا گیا۔

1998ء میں Albany،NY میں افراد جماعت نے ایک سکول کی عمارت مسجد و مرکز نماز کے طور پر خریدی۔

گوئٹے مالا (سنٹرل امریکہ) میں پہلی احمدیہ مسجد کا افتتاح

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 3 جولائی 1989ء کو گوئٹے مالا کی پہلی مسجد ’’مسجد بیت الاوّل‘‘ کا افتتاح فرمایا۔ یہ مسجد صرف گوئٹے مالا کی ہی نہیں بلکہ سنٹرل امریکہ کی بھی پہلی احمدیہ مسجد ہے۔ اس مسجد کے لئے زمین کی خرید اور تعمیر کے تمام اخراجات مکرم چوہدری محمد الیاس آف کیلگری (کینیڈا) ابن مکرم چوہدری محمد اسحاق نے برداشت کئے۔

گوئٹے مالا کی اس مسجد کے لئے زمین کی خرید کی کارروائی ستمبر 1988ء میں ہوئی۔ یکم نومبر 1988ء کو مکرم ڈاکٹر وسیم سیّد نے اس کا نقشہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ نقشہ گوئٹے مالا کے ایک قابل اور معروف آرکیٹیکٹ روبرٹو بیانکی نے تیار کیا تھا۔ حضور رحمہ اللہ نے اسے بعض اہم اور بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ منظور فرمایا اور اس مسجد کا نام ’’بیت الاوّل‘‘ عطا فرمایا۔

گوئٹے مالا اور میکسیکو کی سرحد کو ملانے والی ملک کی معروف شاہراہ Inter Americana پر گوئٹے مالا شہر سے20 کلومیٹر کے فاصلہ پر اونچی پہاڑی پربرلبِ شاہراہ واقع اس جگہ پر ایک جنگل تھا اور یہ رہائش کے قابل نہ تھی۔

6فروری 1989ء کو مکرم مرکزی مبلغ سلسلہ نے دعا کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔ جنگل کی صفائی اور جگہ کی درستی کے بعد ماہ مارچ کے آخر پر تعمیر کا اصل کام شروع ہوا۔ مسجد کے انجنیئر Mr. Felipe Cojolon تھے جنہوں نے مستریوں اور مزدوروں سے اوور ٹائم لگوا کر دن رات محنت کر کے 3 جولائی 1989ء سے پہلے اسے مکمل کروا لیا۔ گوئٹے مالا جیسے پسماندہ ملک میں اتنی وسیع مسجد اور مشن ہاؤس کا تعمیراتی کام محض تین ماہ کے اندر مکمل کرنا بظاہر ناممکنات میں سے تھا۔ وہاں پانی اور بجلی کے مسائل بھی تھے۔ اور ان ایام میں شدید بارشوں کا ایسا موسم بھی شروع ہو چکا تھا کہ جب ایک دفعہ بارش شروع ہو جائے تو دنوں بلکہ ہفتوں تک چلتی ہے۔ مکرم اقبال احمد انجم اتنے قلیل عرصہ میں اور ایسے موسم کے باوجود اس مسجد کی تعمیر کو ایک معجزہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’جب فروری 1989ء میں مسجد و مشن ہاؤس کے تعمیری کام کا آغاز ہوا تو مکرم مبارک احمد ساقی ایڈیشنل وکیل التبشیرلندن نے اطلاع بھجوائی کہ اگر 80 فیصد کام بھی ہوجائے تو حضور ایّدہ اللہ بنفسِ نفیس تشریف لا کر اس کا افتتاح فرمائیں گے۔‘‘ چنانچہ تعمیراتی کام کو تیز کرنے کے لئے انجنیئرصاحب کے مشورہ سے زیادہ مزدور لگا کر دو شفٹوں میں کام شروع کیا گیا اور حضور رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے لکھا گیا۔ مکرم اقبال احمد نجم لکھتےہیں کہ’’… جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی نشان دکھایا۔ چنانچہ جب ضرورت محسوس ہوتی بارش ہو جاتی اور جب ضرورت نہ محسوس ہوتی نہ برستی۔ جس کے نتیجہ میں حضورؒ کے دورہ سے قبل اس حد تک کام مکمل ہو گیا کہ آپ ؒنے بنفسِ نفیس تشریف لا کر اس کا افتتاح فرمایا۔‘‘

اس مسجد کی تعمیر کے حوالہ سے ایک اور نہایت اہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب اس مسجد کے لئے زمین خریدی گئی اور یہاں مسجد کی تعمیر شروع ہوئی اس وقت گوئٹے مالا میں ایک بھی مقامی فرد احمدی نہ تھا۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورہ گوئٹے مالا کے دوران ہی چند مقامی لوگوں نے آپؒ کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ مسلمہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی۔ اور آج خلافتِ احمدیہ کی زیرِ ہدایت و نگرانی خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک اچھی مضبوط اور فعّال جماعت قائم ہے۔

کینیڈا

20۔اپریل 1983ء کو حضورؒ نے کینیڈا کے احباب کے نام پیغام بھجوایا کہ امریکہ کے احباب کی طرح آگے بڑھیں اور آئندہ 3سال میں کینیڈا میں نئے مشن ہاؤسز اورمساجد کے قیام اور موجودہ مشنز میں توسیع کے لئے 6لاکھ ڈالر جمع کریں۔

20 ستمبر 1986ء کو حضورؒ نے اپنے دست مبارک سے کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مسجد کی تعمیر کا پرمٹ 14جولائی 1989ء کو ملا۔ 7ستمبر 1989ء کو اجتماعی دعا کے ساتھ اس کی کھدائی کا کام شروع ہوا۔ اور 3سال کے بعد 17۔اکتوبر 1992ء کو حضورؒ نے ٹورانٹو کینیڈا میں جماعتِ احمدیہ کی مرکزی مسجد ’’مسجد بیت الاسلام‘‘ کا افتتاح فرمایا۔ اس تقریب کو ایم ٹی اے کے ذریعہ پوری دنیا میں براہِ راست نشر کیا گیا۔

حضورؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 30۔اکتوبر 1992ء میں کینیڈا کے شہر مسی ساگا میں مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی اور اس ضمن میں اپنی طرف سے 12 ہزار ڈالر دینے کا اعلان فرمایا۔

برِّ اعظم آسٹریلیا

آسٹریلیا

30ستمبر 1983ء کو حضورِانور نے آسٹریلیا کی پہلی مسجد ’’بیت الہدیٰ‘‘ اور مشن ہاؤس کا سنگِ بنیاد رکھااور 14جولائی 1989ء کوافتتاح فرمایا۔

فجی

25ستمبر 1983ء کو حضورِ انور نے فجی کے شہر لٹوکا میں ’’مسجد رضوان‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھا۔

پاپوا نیو گنی

7۔ اپریل 1995ء کو حضورِ انور ؒ نے پاپوا نیو گنی (Papua New Guinea) میں ایک مسجد کے افتتاح کا اعلان اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔ یہ اپنے رنگ میں ایک منفرد افتتاح تھا جہاں حضورؒ خود بنفسِ نفیس تو تشریف نہیں لے جا سکےلیکن خطبہ جمعہ میں اس کے افتتاح کا ذکر کیا۔

مساجد کی تعمیر اور مساجد کی وسعت کے
ایک نئے دَور کے آغاز کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 24فروری 1995ء میں ساری جماعت کو بالعموم مساجد کی تعمیر اور توسیع کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔

’’مساجد کی تعمیر اور مساجد کی وسعت کا ایک نیا دَور شروع ہونا چاہئے۔ توسیع مساجد ایک ایسا کام ہے جو جماعت کی توسیع سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ جب بھی ہم نے توسیع مساجد کی مہم چلائی ہے اور مشنوں کی، وہ بھی مساجد ہی ہیں ہمارے لئے، تو اللہ نے بے شمار فضل فرمائے ہیں اور جماعت کے دعوت الی اللہ کے کاموں میں بہت برکت پڑی ہے۔ تو اس لئے یہ ایک عام تحریک ہے کُل عالَم کی جماعتوں کے لئے کہ مساجد تعمیر کرنے اور مساجد میں توسیع کرنے کی مہم شروع کریں۔ جتنی توفیق ہے اس طرح کریں۔ دنیا داری کے جھگڑوں میں پڑ کر ظاہری خوبصورتی اور قیمتی سامانوں کی فراہمی کا انتظار نہ کریں۔ جیسی بھی مسجد ہے اسے اللہ کا ذکر برکت بخشتا ہے، وہ مومن برکت بخشتے ہیں جو تقویٰ لے کر وہاں سجے سجائے پہنچتے ہیں۔ مسجد کی سجاوٹ تو ان متقیوں سے ہے۔

پس اس پہلو سے جہاں تک ممکن ہے خوبصورت دیدہ زیب مسجد بنانا اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے منافی تو نہیں۔ مگر اس انتظار میں کہ اتنا پیسہ ہو تو پھر ایسی مساجد بنائی جائیں، مساجد کی بنیادی ضرورت کو نظر انداز کر دیا تو یہ جائز نہیں ہے۔ یہ پھر دنیا داری ہے، یہ عبادت کی محبت نہیں ہے۔ پس حسب توفیق وسعتیں دیں۔ خوبصورت نہیں بنتی تو سادہ مگر اس وقت ستھری اچھی چیز دکھائی دے اور جتنی توفیق ہے اس کے مطابق یہ کام شروع کریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 24فروری 1995ء، خطباتِ طاہر جلد 14 صفحہ137۔138)

حضورؒ کی تحریک توسیعِ مساجد کے تحت بھی سینکڑوں مساجد کی از سرِ نَو تعمیر ہوئی اور اضافے کئے گئے۔ اور امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ برِّ اعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ میں بیسیوں نئی مساجد تعمیر ہوئیں اور نئے مراکز نماز قائم ہوئے۔

مجموعی طور پر خلافتِ رابعہ میں جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے ہزاروں مساجدو مراکز نمازتعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ نیز ہزاروں وہ بھی ہیں جو مقتدیوں سمیت جماعت کو ملیں۔

اس سلسلہ میں چند کوائف قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافہ کے لئے درج ذیل ہیں۔

1989۔1990ء

1989ء کا سال جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کا سال تھا۔ اس سال جماعت کو 334 نئی مساجد کی تعمیر کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ 224 مساجد نمازیوں سمیت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔

1990۔1991ء

اس عرصہ میں نئی تعمیر ہونے والی اور زیرِ تعمیر مساجد کی کُل تعداد 111 تھی۔ اس کے علاوہ 760 مساجد بنی بنائی ملیں۔

1991۔1992ء

اس عرصہ میں 307 نئی مساجد بنائی گئیں جبکہ 80 زیرِ تعمیر تھیں۔ اس طرح کل تعداد 387 ہو جاتی ہے۔

دس سالہ جائزہ

1982ء سے لے کر 1992ء تک یعنی خلافت رابعہ کے ابتدائی دس سالوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بیرونِ پاکستان 1490مساجد کا اضافہ ہوا۔

ان 10سالوں میں جو مساجد جماعت کو بنی بنائی ملیں اس کا ایک جائزہ یہ ہے ۔ جون 1982ء سے مارچ 1984ء کے عرصہ میں صرف 3مساجد بنی بنائی ملی تھیں۔ جبکہ اپریل 1984ء سے 1992ء تک 803 مساجد بنی بنائی ملیں۔ گویا پہلے دو سالوں میں بنی بنائی مساجد کے عطا ہونے کی رفتار ڈیڑھ مسجد فی سال تھی اور اس کے بعد کے آٹھ سالوں میں اوسط فی سال 100مسجد سے اوپر رہی۔

1992۔1993ء

اس سال 318 مساجد کا اضافہ ہوا۔ 112نئی تعمیر ہوئیں اور 206 اماموں اور نمازیوں سمیت اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائیں۔ اس کے علاوہ 217 مساجد زیر تعمیر تھیں۔

1993۔1994ء

اس سال 682 مساجد کا اضافہ ہوا۔ 110 نئی تعمیر ہوئیں اور 572 نو مبائعین کے ساتھ بنی بنائی ملیں۔ اس کے علاوہ 86 مساجد زیرِ تعمیر تھیں۔

ہجرت کے دَس سالوں میں مساجد کے قیام کا ایک جائزہ

1984ء سے 1994ء تک پاکستان سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے دس سالوں میں 2ہزار201 مساجد کا اضافہ ہوا۔ اور ان دس سالوں میں کُل 1ہزار643 مساجد بنی بنائی جماعت احمدیہ کو ملیں۔

اس کے برعکس ان دس سالوں میں پاکستان میں جماعت کے مخالفین کی طرف سے 133 مساجد سے متعدد بار کلمہ طیبہ مٹایا گیا اور مساجد کی بے حرمتی کی گئی۔ 10 مساجد شہید کی گئیں۔ 24 مساجد کو آگ لگا کر یا توڑ پھوڑ کر کے ساز و سامان کو لوٹا گیا اور نقصان پہنچایا گیا۔

1995ء سے 2003ء

اس عرصہ میں دنیا بھر میں 1ہزار137 مساجد تعمیر ہوئیں اورمراکز نماز کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں بنی بنائی مساجد عطا ہوئیں۔

2002۔2003ء

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات اپریل 2003ء میں ہوئی اور اس کے بعد خلافتِ خامسہ کا مبارک دور شروع ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر دوسرے دن کے بعد دوپہر کے خطاب میں 2002۔2003ء کے دوران مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے بتایا کہ اس سال 226مساجد کا اضافہ ہوا۔ 121 نئی مساجد تعمیر ہوئیں اور 105مساجد اپنے اماموں اور نمازیوں سمیت عطا ہوئیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں مساجد کے قیام کا یہ مبارک سلسلہ خلافت خامسہ میں بڑی تیز رفتاری سے وسعت پذیر ہے۔ چنانچہ 2003ء سے 2019ء تک 16سالوںمیں کُل 6ہزار29 مساجد کا اضافہ ہوا۔ ان میں سے 2ہزار495 نئی مساجد تعمیر ہوئیں اور 3ہزار 534 بنی بنائی مساجد نمازیوں سمیت عطا ہوئیں۔

(مولانا نصیر احمد قمر۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 04 جون 2020ء