• 29 اپریل, 2024

محترم ڈاکٹر عبد المنان صدیقی کا ذکر خیر

آج میںجس وجود کا ذکر خیر کرنے لگا ہوںوہ ہیں مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی۔آپ کو جاننے پہچاننے والاہر شخص یہی سمجھتا تھاکہ محترم ڈاکٹر صاحب کا جو تعلق میرے ساتھ ہے اور کسی سے بھی نہیں۔

میری پہلی ملاقات محترم ڈاکٹر صاحب سے 1995ء میں ہوئی اس وقت جب آپ امیر ضلع منتخب ہوئے اور ایک دعوت کے سلسلہ میںکنری آئے ہوئے تھے۔اس دعوت میں چوہدری اللہ بخش صادق صاحب سابق ناظم وقف جدید بھی شامل تھے۔محترم ناظم صاحب نے خاکسار کا محترم ڈاکٹر صاحب سے تعارف کرایا کہ آج کل خداآباد ضلع بدین میں معلم ہیں اور کافی سنجیدہ اور محنتی معلم ہیں۔محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم مسکرا کر کہنے لگے ان کو تو ہمارے ضلع میں ہونا چاہئے۔خاکسار کی محترم ڈاکٹر صاحب سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ پھر گاہے بگاہے میٹنگز پر ملاقات ہوجاتی۔ خاکسار کو چونکہ ہومیو پیتھی سے دلچسپی تھی اس حوالے سے مریضوں کے متعلق محترم ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کر لیا کرتا تھا محترم ڈاکٹر صاحب اس معاملہ میں میری رہنمائی فرماتے،دلجوئی کرتے اور نسخہ جات بھی بتاتے۔ جب خاکسار کا تبادلہ احمد آباد اسٹیٹ ضلع میر پور خاص میں ہو گیا تو پھر ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی مل گیا۔ محترم ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا آپ کے ساتھ مل کر جماعتی خدمات کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔

سلسلہ سے محبت اور واقفین کا احترام

آپ واقفین زندگی سے بڑی محبت کرتے اور اُن کی ضروریات کا بھرپورخیال رکھتے تھے۔ واقفین کا علاج معالجہ بھی فری کر دیتے۔ اگر آپ کو علم ہو جاتا کہ باہر کوئی واقف زندگی آئے ہوئے ہیں تو فوراً بلا لیتے۔ تشخیص اور علاج کرتے۔

میڈیکل کیمپس

خاکسار کا 2003ء میں احمدآباد اسٹیٹ میںتبادلہ ہوا۔سال بھر خدمت کا موقع ملا۔اس دورانیہ میںمحترم ڈاکٹر صاحب مرحوم نے 2 میڈیکل کیمپ لگائے۔خاکسار کے ہومیو پیتھی میں دلچسپی کی وجہ سے محترم ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ یہ کیمپ آپ نے لگانا ہے۔علاقہ میں لوگوں کو اطلاع بھی کریںاور کیمپ کو کامیاب کرنے میں دعا اور کوشش بھی کریں۔خاکسار نے احمد آباد فارم کی قریبی جماعت شریف آباد کے چوہدری کبیر احمد،چوہدری رفیع احمد اور چوہدری عبدالسلام کو ساتھ لیا۔ ان نوجوانوں نے بڑا کام کیا اور آئے ہوئے معزز مہمانوں کی بڑی خدمت کی اور بہترین قسم کی دعوت بھی کی ان مخلصین نے محترم امیر صاحب ضلع ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی کو پولیس کے ذریعہ سے زبردست پروٹوکول دلوایا۔ نبی سر روڈ سے موٹر سائیکلوںپر خدام کا قافلہ امیر صاحب کے ہمراہ آیا۔احمد آباد فارم پہنچنے پر تما م احمدی احباب نے امیر صاحب کا استقبال کیا پھول نچھاور کئے اور گلدستے پیش کئے۔ اس کیمپ میںکم و بیش 800 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ جب کیمپ ختم ہوا تو محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم فرمانے لگے کہ آج مجھے کام کرنے کا بڑا مزہ آیا ہے۔ یہاں پر ہمارے نوجوانوں نے بہت اچھا اور نمایاں کام کیا اور خدمت کی ہے اور رضاکارانہ خدمت کرنے والوں کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی۔ حقیقت میں یہی ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی کوئی احمدی نمایاں کام کرتا اس کی قدر کرتے مزید کام کرنے کا حوصلہ دیتے اور دل کی گہرائیوں سے اس کو محبت دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے اور وہ بھی محترم ڈاکٹر صاحب کا گرویدہ ہوجاتااور یہی دوطرفہ محبت کا رشتہ پورے ضلع کے افراد میں خدمت کی نئی امنگ پیدا کردیتا۔

الفت کا تب مزہ ہے کہ دونوں ہوں بے قرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی

یہ دونوں طرفہ محبت کبھی بھی ذاتی مفادات کے حصول کے لئے نہیں دیکھی گئی بلکہ ہمیشہ نظام جماعت کی بہتری، خلافت سے محبت میں ترقی اور سلسلہ کے کاموں میں تیزی پیدا کرنے کا موجب قرار پائی۔

داعیان کے امیر

محترم ڈاکٹر صاحب کو دعوت الی اﷲ کے میدان میںجنون کی حد تک شوق تھا۔جیسا کہ حضور انور ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ داعیان کے امیر تھے۔ محترم امیر صاحب جمعہ کے دن اپنے مہمان دوستوں کو بلاتے حضور انور کا خطبہ جمعہ سنواتے اور ان کی بہترین خدمت کرتے اور انتہائی خوبصورت پیرائے میں تعارف کراتے اور اپنے ساتھ لگائے رکھتے۔

زیارت مرکز

زیارت مرکز کے حوالہ سے ہر دولحاظ سے مسلسل ان کی خدمات کا سلسلہ جاری رہا اور ان کا یہ سلسلہ زیارت مرکز کے حوالہ سے مہمان دوستوں پر بھی مشتمل ہوتا تھا اور نومبائعین پر بھی۔ہر دو لحاظ سے یہ کام پورا سال جاری رکھتے اور اس معاملہ میں خاصی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے۔

بعض دفعہ خودہی وفود کے ساتھ چل پڑتے۔کبھی کسی کے سپرد کرتے۔ متعدد بار خاکسار کو بھی بھجوایا۔ایک دفعہ نبی سر روڈ سے نومبائعین کا وفد تیار کیا اور خاکسار کو سانگھڑ فون کیا کہ میں نے محترم ناظم صاحب سے آپ کی اجازت لے لی ہے خاکسار محترم امیر صاحب کی یہ ہدایت سن کر سانگھڑ سے میر پور خاص پہنچا کیونکہ محترم ڈاکٹر صاحب نے مجھے فرمایا کہ اس وفد کے لئے انہوں نے خاکسار کا نام تجویز کیا ہے۔ میر پور خاص پہنچ کر خاکسار نے محترم ڈاکٹر صاحب سے ہدایت لیں اور دوسرے روز نبی سر روڈ سے وفد لے کر مرکز چلا گیا۔ واپسی پر محترم امیر صاحب کا فون آیا کہ آپ وفد کو نبی سر روڈ چھوڑ کر میرے پاس آجانا خاکسار نے اسی طرح کیا وفد کو بھی نبی سر روڈ چھوڑا اور میر پورخاص کے لئے روانہ ہوا اور محترم امیر صاحب کو فون کیا کہ میں آپ کے پاس ہسپتال آرہا ہوں آپ سے ملاقات کرکے سانگھڑ چلا جاؤں گا۔محترم ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں اس وقت کھپرو میں ہوں (آپ کسی وڈیرے کی کسی تقریب میں تھے)کہنے لگے آپ سیدھے گیسٹ ہاؤس آجائیں رات کا کھانا اکٹھے کھائیں گے چنانچہ خاکسار گیسٹ ہاؤس چلا گیا رات دیر ہو گئی تاہم محترم امیر صاحب نہیں پہنچے۔ رات کا ایک بج گیا۔ مجھے بھوک نے بھی آ ستایا اور نیند نے بھی دریں اثناء خاکسار کو نیند آگئی اور سو گیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ محترم امیر صاحب آئے ہیںاور مختلف قسم کے کھانے ساتھ لاکر مجھے کہتے ہیں مبشر صاحب کھانا کھائیں میں خوب سیر ہو کر کھانا کھاتا ہوں اور پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ بعد نماز تہجد صبح کی نماز خاکسار نے پڑھائی درس دیا۔ درس کے بعد محترم امیر صاحب سے ملا قات ہوئی کہنے لگے very sorry مبشر صاحب !میں رات کو دیر سے آیا اور بھول گیا کہ آپ کے ساتھ رات اکٹھے کھانا کھانے کا وعدہ تھا۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب کھانا تو آپ نے مجھے کھلادیاتھا کہنے لگے مذاق نہ کریں تو میں نے خواب سنایا کہنے لگے چلو گھر چلتے ہیں ناشتہ کر تے ہیں۔ناشتہ بہت ہی پُرتکلف تھااور مختلف قسم کے لوازمات میز پر دھرے تھے۔اور جوس وغیرہ بھی۔ ڈاکٹر صاحب کبھی کہتے یہ کھائیں کبھی کہتے یہ کھائیں۔خاکسار کافی شرمندہ تھاکہ امیر صاحب نے خاکسار کے کتنی تکلیف کی بعدازاں ڈاکٹر صاحب دوسرے کمرے میں گئے اورشاپنگ بیگ ساتھ لائے جو آپ نے مجھے یہ کہتے ہو پکڑا دیا کہ مبشر صاحب یہ آپ کے لئے تحفہ ہے۔اس بیگ میں ایک قیمتی سوٹ تھا،ایک پرفیوم، 3خوشبودار صابن،ایک پین اور 500روپے نقدی۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب اگر میں رات کوآپ کے ساتھ کھانا کھاتاتو یہ انعام نہ ملتا۔تو امیر صاحب مسکرا دئیے۔حالانکہ جہاں تک وفد لے جانے کا تعلق تھا یہ تو میرے فرائض میں شامل تھا۔مگر ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کے ایک کارکن سے اپنی فدائیت کا جو اظہار کیا یہ یقینًا ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔محتر م امیر صاحب کے ہر شخص سے یہی پیار و محبت کے انداز تھے ۔ہر عید پر مجھے فون کرتے کہ مبشر صاحب آپ کہاں ہیں میں بتاتا کہ میں فلاں جگہ ہوں تو کہتے کہ کل میں نے کچھ مہمانوں یا نومبائعین کی دعوت کی ہے آپ ضرور آئیںخاکسار سندھ میں ہوتاتو چلا جاتا۔پھر آپ کہتے کہ جب سندھ آئیں تو پہلے میرے پاس آئیں تو جب خاکسار سندھ جاتا تو امیرصاحب کے پاس جاتا۔آپ مل کر بہت خو ش ہوتے اپنے ساتھ کھانا کھلاتے۔بعض دفعہ ہوٹل میں جا کر کھانا کھلاتے۔

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس

دعوت الیٰ اللہ کا منفرد انداز،دعوت الیٰ کے سلسلہ میںدور دراز علاقوں میں پہنچ جا تے۔مربیان کرام کو بھی ساتھ رکھتے۔بار ہا خاکسار کو بھی ساتھ جانے کا موقع ملا۔بعض دفعہ رات ایک بجے واپس پہنچتے لیکن صبح فجر کی نماز پر حاضر ہو تے۔ بسااوقات ایسا بھی ہوا کہ رات دیر سے آئے اور پھر ہسپتال میں مریض دیکھنے چلے گئے اور صبح ہوگئی۔

اس سلسلہ میں ایک میڈیکل کیمپ کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں 2005ء میں مکرم ڈاکٹر اظہر اقبال امیر ضلع سانگھڑ نے ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی امیر ضلع میر پور خاص سے درخواست کی کہ سعید آبادمیں کیمپ لگائیں۔ پیر صاحب جھنڈے والوں (المعروف پیرصاحب،صاحب العلَم )کی گوٹھ پیر عبداللہ راشدی چوہدری خلیل احمد کے ذریعے پیر صاحب کو کہا گیا ہم آپ کی گوٹھ میں فری کیمپ لگانا چاہتے ہیں۔اُنہوں نے اجازت دے دی۔ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب نے 5اضلاع کے ڈاکٹرزاور لیڈی ڈاکٹرز کو دعوت دی۔یعنی اس کیمپ میں کراچی، حیدر آباد،سانگھڑ، میر پورخاص اور مٹھی اضلاع کے ڈاکٹرز شامل تھے۔ٹو ٹل عملہ کی تعداد کم و بیش 40تھی۔

جمعہ کا دن تھا ۔پیر صاحب کے مرید بھی پو رے سندھ سے آئے ہو ئے تھے۔1200کے قریب مریضوں کا علاج کیا گیا۔جمعہ کی نماز بھی وہیں ادا کی گئی۔پیر صاحب عبداللہ راشدی نے شکریہ ادا کیا بہت ہی عمدہ رنگ میں خدمت کو سراہا اور کہا کہ یہ بہت ہی عظیم خد مت ہے جو آپ بجا لا رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب اس بات پر بہت خو ش تھے کہ پیر صاحب جھنڈے والے کی گوٹھ میں کیمپ لگایا جن کا حضرت مسیح موعودؑ سے تعلق تھا حضرت مسیح مو عودؑ کے ساتھ خط وکتابت ہوئی اور حضرت مسیح مو عودؑ کی کتب میں تذکرہ مو جود ہے۔

نومبائعین سے تعلق اور ان کا خیال۔ ڈاکٹر صاحب کو جس طرح دعوت الیٰ اللہ کا جنون کی حد تک شو ق تھا اس طرح نومبا ئعین سے را بطہ،ان کی تربیت اور ان کے مسائل کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ خاکسار جب بھی دورہ پرجاتا تو یہی فرماتے کی نومبائعین سے جا کر ملیں اور ان کا جماعت سے مضبوط رابطہ کرائیں۔مکرم احسان اللہ چیمہ جب نائب ناظم وقف جدید تھے تو انہوں نے سہ ماہی تر بیتی کورس کا نومبائعین کے لئے انعقاد کیا۔سارے سندھ سے نومبائعین آئے۔ خاکسار کو بطور استاد مقرر کیا گیا۔یہ سلسلہ 3سال تک جاری رہا۔ امیر صاحب ضلع اختتامی تقریب میں شامل ہوتے نومبائعین کو جو کچھ پڑھایا جاتا ان کے مقابلے ہوتے۔ڈاکٹر صاحب مقابلے دیکھتے بہت خوشی اور فرحت محسوس کرتے انعامات تقسیم کرتے بلکہ اکثر انعامات اپنی طرف سے دیتے۔

وقف جدید سے تعلق

ڈاکٹر صاحب نے وقف جدید کی بھی بہت خدمت کی تو فیق پائی۔ مالی قربانی کے لحاظ سے بھی اور وقت کی قربانی کے لحاظ سے بھی آپ نے وقف جدید کے ساتھ بھرپور وفا کا تعلق رکھا ہوا تھا۔مٹھی اور نگر پارکر کے ہسپتال پر پوری توجہ دیتے تھے۔مٹھی ہسپتال کے عملہ کی ہر لحاظ سے رہنمائی کیا کرتے تھے۔ہر ماہ مٹھی ہسپتال میں باقاعدگی سے فری میڈیکل کیمپ لگا کر تھر کی دکھی انسانیت کی خدمت کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی ہو ئی تھی۔آپ انسانیت کیلئے ایک بہترین مسیحا کا کردار ادا کر تے رہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے کروٹ کروٹ درجات بلندکرتا چلا جائے۔وقف جدید کے تعلق میں خاکسار سے بھی آپ کا بہت نمایاں تعاون رہا۔محبت کا یہ انداز میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر واقف زندگی کے ساتھ کچھ نرالا ہوتا۔ہر واقف زندگی کی بہت قدر اور اس کا احترام کرتے تھے۔ہر گوشہ زندگی پر آپ کی اپنے دائرہ کار میں آپ کی محبتیں جلوہ فگن اور محیط نظر آتی ہیں۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

محترم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بیتے لمحات،آپ کی باتیں، حالات و واقعات یاد آتے ہیں تو بے اختیار آنکھوں سے آنسورواں ہو جاتے ہیں ایسی پیار کرنے والی شخصیت ہم سے جدا ہو گئی۔اس رمضان (جس میں آپ را ہِ مو لیٰ میں قر بان ہو گئے تھے)پہلے ہی روزے خاکسار کو فون کیا کہ مبشر صاحب آپ کہاں ہیں۔میں نے کہا کہ آپ کے ساتھ والے ضلع میں۔کہنے لگے سانگھڑ میں ہوں گے کہا ہاں۔فرمایا ہمارے ضلع میں کب آرہے ہیں۔کہا کل آپ کے پاس پہنچ رہا ہوں کہنے لگے زبردست، زبردست۔خاکسار چونکہ بطور انسپکٹر معلمین متعین ہے پورے سندھ کے دورے کرنے مقصود ہوتے ہیں۔محترم ڈاکٹر صاحب کے یاد کرنے پر خاکسار نے ضلع میرپور خاص کا دورہ رکھ لیا۔دوسرے دن شام میر پورخاص پہنچا۔عشاء اور تراویح کی نماز کے بعد ملاقات کی۔آفس میں بیٹھے رہے جماعتی باتیں ہوتی رہیں۔نماز فجر کے بعد پوچھا کہ کہاں کا پروگرام ہے میں نے عرض کی ڈاکٹر صاحب عمر کوٹ،گوٹھ احمدیہ،گوٹھ غلام نبی دورے پر جا رہا ہوں کہنے لگے نومبا ئعین کی تربیت کے بارے میں جماعتوں کو احساس دلاتے رہیں۔4ستمبر 2008ء ڈاکٹر صاحب سے اجازت لےکر دورے پر چلا گیا۔اس دوران خاکسار کا گلا خراب ہو گیا اور شدید درد شروع ہو گئی 7ستمبر 2008ء عمرکوٹ کی جماعتوں سے واپس آیا اور سیدھا ہسپتال پہنچا۔ڈاکٹر صاحب سے جا کر ملاکہنے لگے مبشر صاحب آپ گئے کیا حال ہے جماعتوں کا۔رمضان میں نمازوں میں تو یقینًا بہتری آئی ہو گی میں نے کہا جی ہاں۔ساتھ ہی خاکسار نے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی گلا خراب رہتا ہے اور ہلکا ہلکا بخار بھی رہتا ہے۔کہنے لگے آپ کو ڈبل ڈوز دے دیتے ہیں تا کہ آپ روزے مکمل رکھ سکیں۔مجھے دوائی دی اور ایک انجکشن دیا کہ افطاری کے بعد لگا دیں گے۔میں گیسٹ ہاؤس آگیا اور عشاء اور تراویح کے بعد مکرم عطاء اللہ سے جو کہ آپ کے ہسپتال میں ایکسرے ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں۔اُنہوں نے انجکشن لگایا جب صبح اُٹھا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بخار کا نام و نشان نہ تھااور گلا بھی بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے آج آپ کا کیا ارادہ ہے میں نے کہا آج گوٹھ سلطان والوں نے افطاری کی دعوت کی ہے وہاں جاؤں گا اور اگلی صبح پھر انشاءاللہ حلقہ کنری اور حلقہ نبی سراور نوکوٹ کی جماعتوں کا دورہ ہو گا۔کہنے لگے جماعتوں سے نومبائعین کا مضبوط رابطہ کرائیں اور رمضان میں ان کو عبادت کی طرف توجہ دلائیں اور معلمین سے کہیں کہ وہ ان کی تربیت کریں اور ان کو جماعت کا فعال حصہ بنا نے کی کو شش کریں۔یہ سوموار 8ستمبر2008ء کی صبح کی باتیں ہیں جس دن ڈاکٹر صاحب رہِ مولیٰ میں قربان ہو گئے۔ آپ دیر تک میرا ہاتھ پکڑ کر کھڑے رہے کافی دیر باتیں ہوتی رہیں۔نومبائعین کے متعلق یاد دہانی،تحریک اور نصیحت کے بعد کہنے لگے 14ستمبر2008بروز اتوار چوہدری محمود احمد کی نوکوٹ دعوت ہے وہاںضرور آنا۔لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ میرا اور ہم سب کا محبوب امیر14ستمبر 2008ءسے پہلے ہی اپنی مراد پا چکا ہو گا۔

منزلوں کی خبر خدا جانے
عشق ہے رہنما فقیروں کا

اُسی وقت صبح آخر میں کہنے لگے کہ دعاؤں میں یاد رکھنا اور کہا اب آپ بھی آرام کریں میں بھی آرام کرتا ہوں اتوار والے دن 14ستمبر2008ء والے دن چوہدری محمود کی دعوت پر ملاقات کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہ آخری ملاقات تھی۔

پھر گوٹھ سلطان کیلئے خاکسار اڈے پر گیا جی نہیں کر رہا تھا کہ جاؤں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی محبت کی چاشنی ایسی تھی کہ ہر شخص ہر وقت آپ کی چاہت میں کھویا رہتا۔اور آپ کی محبت بھری باتیں ذہن میں عجیب طرح سلسلہ اور خلافت کی محبت کا رس گھولتی رہتی تھیں۔خیر خاکسار چوہدری لطیف گوندل صاحب کے گھر چلا گیا ظہر کی نماز ادا کی ایک نو جوان نے آکر اطلاع دی کہ ڈاکٹر صاحب کو گو لی لگی ہے …ایک ایسی خبر …جس کا گمان تک نہیں تھا…جس کا ہم میں سے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا…ایسی بات جس کو دل تسلیم نہیں کر رہا تھا …محترم ڈاکٹر عبد المنان صدیقی کو گولی لگی ہے…یہ خبر جب کانوں میں پڑی میں بالکل سکتے میں آ گیا گویا کہ قیامت ٹوٹ پڑی۔اللہ تعالیٰ سے بے انتہا دعائیں ما نگیں کہ یا الٰہی ڈاکٹر صاحب کو کوئی نقصان نہ ہوا ہو …ایک دوست کی جیپ میں ہم ہسپتال پہنچے۔سارے ہسپتال کا ماحول سوگوار تھا۔خاکسار آپر یشن تھیٹر میں پہنچا جہاں ڈاکٹر صاحب کے جسم سے گولیاں نکالی جا رہی تھیں لیکن جا نبر نہ ہو سکے جب میت ہسپتال سے اُٹھا ئی گئی تو اس عظیم محسن کی جدائی کے غم میں کیا عملہ،کیا نرسیں،کیا دیگر نو کر اور نوکرانیاں اور صفائی تک کا عملہ چیخ و پکار کر رہے تھے۔ایسا جذباتی ماحول تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا خاکسار بھی گیسٹ ہاؤس آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے راہِ مو لیٰ میں قربان ہو نے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی چند گھنٹوں میں ہی پو رے سندھ کے احمدی احباب ڈاکٹر صاحب کے آخری دیدار کے لئے جمع ہو گئے۔اسی طرح نومبائعین اور ڈاکٹر صاحب کے زیر رابطہ لوگوں اور زند گی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے مختلف قومیتوں کے اور خیالات کے ہر طبقہ کے بے شمار لوگ گیسٹ ہاؤس پہنچ گے۔مغرب کی نماز کے بعد چہرہ دکھایا گیااور عشاء کی نماز کے بعد نماز جنا زہ ادا ہوئی۔اس طرح ایک ولی اللہ شخص اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل تو جان فدا کر

(مبشر احمد رند)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 04 جون 2020ء