یادرفتگان
مکرم چوہدری مجید احمد (بھٹے والے)
اذکروا امواتکم بالخیر کے تحت آج میں اپنے پیارے والد محترم چوہدری مجید احمد صاحب (بھٹے والے) کا ذکر خیر کرنا چاہتی ہوں جو 14مارچ 2019ء کو کینیڈا میں بقضائے الہی وفات پاگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ 6مارچ 1932ء وننگل قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپکے دادا محترم بدرالدین صاحب کے ذریعہ سے آئی۔ اورآپ کے نانا جان محترم مہر دین صاحب صحابی حضرت اقدس علیہ السلام تھے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے گاؤں میں ہی حاصل کی بعد ازیں آپ کو چند سال حضرت مولوی محمد دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ جنکی دعاؤں اور تربیت سے آپکی شخصیت میں اور بھی نکھا رآگیا۔
آپ نےکئی سال خلافت لائبریری میں خدمت کی توفیق پائی۔ ابو جان بتایا کرتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو جو کتب مطلوب ہوتیں وہ تلاش کرکے پیش کرنے کی سعادت ملتی ۔ حضور ؓ کےدفتر میں قریب بیٹھنے کا موقع ملتا۔ آپ بتاتے تھے کہ حضورؓ کتب کا مطالعہ بہت تیز کرتے تھے۔ موٹی موٹی کتابیں آن کی آن میں ختم کرلیتے تھے اس دوران حضورؓ جب اپنے لئے چائے منگواتے تو ازراہِ شفقت ابو جان کے لئے بھی چائے منگواتے ۔اسی طرح محترم والد صاحب کو دفاتر صدر انجمن کے تعمیراتی کاموں میں بھی لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی ۔
آپ کی شادی 1964ءمیں محترمہ سعیدہ صاحبہ بنت حکیم ظفر احمد فاروقی صاحب آف کوئٹہ سے ہوئی ۔یہ شادی امی جان کے نانا جان محترم قدرت اللہ سنوری ؓصحابی حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ سے ہوئی۔شادی کے وقت جب امی کے والدین نے کہا کہ لڑکے کی آمدنی تو بہت کم ہے کیسے گزارہ ہوگا تو حضرت قدرت اللہ سنوریؓ صاحب کہنے لگے میں دیکھ رہاں ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہت دے گا اور سعیدہ لاکھوں میں کھیلے گی اور واقعی اللہ تعالیٰ نے ان کی بات پوری کی اور اللہ تعالیٰ نے خوب فراخی عطا فرمائی۔ امی جان بتاتی ہیں کہ محترم نانا جان قدرت اللہ سنوری صاحب موسم سرما میں اکثر ربوہ آجاتے اور قصر ِخلافت میں مولوی عبدالرحمٰن انور صاحب پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے گھر ٹھہرتے تو ابو جان تقریباً ہر روز انہیں کھیر دینے جاتے جوکہ انہیں بہت پسند تھی اور رات کو انہیں دبا کر آتے تو وہ بہت دعائیں دیتے۔
ہمارے پیارے ابو جان بہت عظیم خوبیوں کے مالک تھے۔ پنجوقتہ نماز کے پابند تھے۔ ہر وقت زیر لب درود شریف کا ورد کرتے رہتے اور ہم سب کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ وہ بہت سخی، عاجز، صابر، شاکر، معاملہ فہم، بارعب، اچھا مشورہ دینے والے، سخت محنتی اور مضبوط فیصلہ رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔طبیعت میں سادگی تھی لباس بھی بالکل سادہ پہنتے اور خداتعالیٰ پر کامل توکل رکھنے والے تھے ۔پہاڑوں سا حوصلہ تھا۔ مشکل سے مشکل حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے کبھی کاروبار میں لاکھوں کا نقصان بھی ہوجاتا تو ہمت نہ ہارتے۔ آپ کی ایک بیٹی کم سنی میں فوت ہوگئی تو بہت صبر کے ساتھ اس صدمہ کو برداشت کیا۔ اور خدا کی رضا پر راضی رہے۔
محترم ابو جان کو بارہ سال محلہ دارالرحمت وسطی کی صدارت کی سعادت ملی تو آپ نے بہت جانفشانی اور تندہی سے اس ذمہ داری کو نبھایا۔ اپنے دورِصدارت کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسجد نصرت کی تعمیر میں مرکزی کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ الحمد للہ علیٰ ذٰلک۔ میاں بیوی کے جھگڑے ہوں یا بعض افراد کے جماعتی نظام سے دوری کے مسائل، بہت حکمت وصلح جوئی سے معاملات حل کرتے اور کبھی کسی کی جماعت سے اخراج کی نوبت نہ آنے دیتے ۔
ہمیشہ اپنے نفس پر دوسروں کو ترجیح دیتے۔ ایک بار کسی نے کہاکہ چوہدری صاحب آپکا سوئیٹر بہت پیارا لگ رہاہے ۔تو فوراً سوئیٹر اتار کر لفافے میں ڈالا اور انہیں تحفۃً پیش کردیا۔ (سچے ہوکر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو) کی منہ بولتی تصویر تھے۔ اپنا قصور نہ بھی ہوتا تو بھی معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کردیتے ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام خلفاء کرام کی شفقت ابوجان کو نصیب ہوئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ازراہ ِشفقت حضرت مسیح موعودؑ کے مبارک کپڑوں کا ایک ٹکڑا دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے اپنی ایک بنیان عنایت فرمائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ابوجان کو اپنی ایک پگڑی عطا فرمائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا محبت بھر ا تعلق بھی نصیب رہا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے میرے بھائی کو بتایا کہ میں تو آپ کے والد صاحب کو تب سے جانتا ہوں جب وہ خلافت لائبریری میں کام کیا کرتے تھے جبکہ میں اور میرے بڑے بھائی لائبریری میں کتب لینے جاتے تھے۔ اسی لئے آپ نے ایک نومبائع (سمیرا اعتماد) کا رشتہ میرے بھائی مظفر سے طے کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس فیملی کو جانتا ہوں اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از را ہ شفقت سمیرا کو اپنی بیٹی کی طرح رخصت کیا۔ اور فرمایا کہ میں اس کا ولی ہوں اور ایک اور خوش نصیبی بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے خاندان کو عطا فرمائی کہ ہمارے پیارے امام خلافت سے کچھ دیر قبل میرے بھائی مقبول احمد مبشر کی شادی میں جو ڈاکٹر نصرت صاحبہ کی بیٹی ندرت صاحبہ کے ساتھ ہوئی میں شریک ہوئے اور انکا نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے پڑھایا تھا۔ الحمد للہ علی ذلک
مکرمہ ڈاکٹر نصرت صاحبہ ابو جان کی سادہ طبیعت کی بہت تعریف کرتی تھیں اور بتایا کرتی تھیں کہ جب انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے میری بیٹی کا رشتہ مانگا تو صرف تین لائنوں کا خط لکھا جس میں بیٹے کی تعلیم اور عمر کا ذکر کیا ۔ جس سے میں بہت متأثر ہوئی۔
قرآنی حکم صلہ رحمی کرنے کی عملی تصویر تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے مالی فراخی عطا فرمائی تو اپنے سب بہن بھائیوں اور ان کے اہل عیال کو گاؤں سے ربوہ منتقل کیا۔ ہر ایک کو گھر بنا کر دیا۔ بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا۔ مجھے یادہے کہ ہمارے گھر سلائی مشینیں آتیں یا واشنگ مشینیں ،موٹر سائیکل آتے یا سائیکل سب بہن بھائیوں کے گھروں میں تقسیم ہوتے۔ عیدین اور موسم گرما و سرما پر تھانوں کے تھان مردانہ وزنانہ کپڑوں کے آتے تو اپنے سب بہن بھائیوں کے گھروں میں ہر ایک کے لئے کئی کئی جوڑے بھیجتے ، ڈرائی فروٹ آتا یا تازہ پھل ،پہلے بہن بھائیوں کے گھروں میں بھجواتے اور پھر خود کھاتے۔
فراخی میں تو رحمی رشتہ داروں پر پانی کی طرح پیسہ خرچ کیا ہی لیکن سخت تنگی میں بھی جب ایک بار دوسال بیمار رہے تو امی جان بتایا کرتی ہیں کہ عید کے موقع پر گھر کی بنیادی ضروریات کے لئے گھر میں پڑے دو دروازے بیچے گھر کا راشن لانے کے بعد کچھ پیسے بچ گئے تو میں نے کہا کہ گھر میں صرف ایک بیڈ شیٹ ہے اور مہمانوں کے بیٹھنے کے لئے گھر میں کوئی کرسی نہیں تو کہنے لگے یہ رہنے دو ، گاؤں میں بہن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں یہ پیسے ان کو بھجوا دو تا کہ انکی کچھ ضروریا ت پوری ہوجائیں۔
جب ان کے بڑے بھائی کی وفات ہوئی تو ان کے سبھی بچے چھوٹے تھے اور کثیر عیال داری تھی۔ ان سب کی تعلیم وتربیت اوربہترین مستقبل کے لئے جان توڑ کر کوششیں کیں۔ ہر روز ان کے گھر خیریت پوچھنے جاتے۔
خاندان کے بہت سے لوگوں کو پاکستان اور بیرون ِپاکستان سیٹ کرنے میں ہر ممکن مددکی۔
اکثر انکی زبان سے یہ سننے کو آتا کہ پتہ نہیں خداتعالیٰ کس وجہ سے ہمیں رزق دے رہا ہے۔ تینوں بھائیوں اور بہنوئی کو بھٹے کے کام میں ساتھ لگایا توخداتعالیٰ نے بھی اتنی برکتیں نازل کیں کہ ایک بھٹے سے پانچ بھٹے ہوگئے ۔
اپنے رحمی رشتہ داروں کے علاوہ امی جان کا بھی ماشاء اللہ بہت بڑا خاندان ہے۔ کوئی جلسے پہ آتا یا شوریٰ پر، کوئی اپنے ذاتی کام سے آتا یا جماعتی، سبھی کا قیام ہماری طرف ہوتا۔ ابوجان انتہائی خندہ پیشانی سے اور دلی خوشی سے انکی مہمان نوازی اور خدمت کرتے۔ کوئی بیمار ہوتا تو خود گاڑی کرایہ پر لیکر دور دراز علاج کے لئے لیکر جاتے ۔ امی جان کے سب بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کی زبان سے ہمیشہ ابوجان کی تعریف سنی ۔
ہمارے نانا جان و نانی جان ہر سال موسم سرما میں کوئٹہ سے ہمارے پاس تشریف لاتے تو ابو جان دل و جان سے ان کی خدمت کرتے۔ ہمارے دادا جان بھی ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ ان کا بھی بہت خیال رکھتے۔
مہمان نوازی کا خُلق ابوجان میں بہت نمایاں تھا۔ ہمارے گھر میں ہر وقت مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا۔ عزیز رشتہ دار ہوں یا دوست احباب،اپنے ہوں یا پرائے ہر ایک کے لئے ہروقت دستر خوان بچھا رہتا۔ہر مہمان کی دلی جوش ومحبت سے خدمت کرتے۔ کبھی تو یوں لگتا کہ ابوجان کا بس چلے تو گھر کے سامنے سے گزرنے والے ہر شخص کو کھانا کھلا کر بھیجیں۔ اس معاملہ میں ہماری امی جان کو بھی سلام ہے کہ ہر روز بہت محنت اور محبت سے کئی کئی کھانے بناتی تھیں۔ آپ والدین کی خدمت ، چھ بچوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہر دم مہمان نوازی کے لئے تیار رہتیں۔ اللہ تعالیٰ پیاری امی جان کو صحت والی فعال و لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین
جلسے کے ایام میں تو ہمارا گھر مہمانوں کے لئے وقف ہوجاتا۔ ایک بار تو بتاتے ہیں کہ ایک سو مہمان آگئے۔ پورا گھر ہم نے مہمانوں کو دے دیا۔ باہر ایک چھوٹے سے کھلے کمرے میں ریت پڑی تھی تو ہم دسمبر کی سردیوں میں اسی پر ایک چارپائی ڈال کرسوگئے ۔ خداتعالیٰ نے بھی ہمارے والدین کی اس نیکی کو ایسا قبول فرمایا کہ پھر قادیان کا جلسہ ہو یا پاکستان کا، لندن کا جلسہ ہو یا جرمنی کا، کینیڈا اور امریکہ کے جلسے ہوں یا تنزانیہ کا جلسہ، بے شمار جلسوں میں حاضری کی توفیق عطافرمائی۔الحمدللہ
خَیْرُکُمْ خَیْرُ کُمْ لِأَٔھْلِہٖ کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔ بیوی کے حقوق ہوں یا بچوں کے، سب کے حقوق احسن طریق پر اداکئے ۔امی جان کے ساتھ ان کا سلوک مثالی تھا۔ ان کی ہر ضرورت کا خوب خیال رکھتے۔ بہترین قوّام تھے ۔ بچوں کے لئے ایسا سائبان تھے کہ جسکے نیچے ہم پوری طرح محفوظ تھے۔ ہر تکلیف اپنے سینے پر لیتے اور ہم تک اسکی گرم ہوابھی نہ پہنچنے دیتے ۔آج ہم سب بہن بھائی جوبھی ہیں، جس بھی مقام پر ہیں، اللہ تعالیٰ کےفضل سے، والدین کی دعاؤں اور ان تھک محنت کے نتیجے سے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپکو تین بیٹوں اور چاربیٹیوں سے نوازا۔ سب کی دینی ودنیاوی تعلیم وتربیت کا بھر پور خیال رکھا۔ بچوں کی شادی کے موقع پر ہمیشہ دین کے پہلوکو ترجیح دی۔ جب خاکسار کی شادی کا معاملہ آیا تو ایک واقف زندگی کے رشتے کو فوقیت دیتے ہوئے فرمایاکہ مجھے رزق کی کوئی فکر نہیں۔ رازق تو خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں کو لَکھ سے کَکھ اور کَکھ سے لَکھ ہوتے دیکھا ہے ۔ جب خاکسار کی شادی ایک واقف زندگی محترم خواجہ مظفر احمد صاحب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ سے طے کی تو پیارے والد محترم نے تادم آخر ہمارا ساتھ دیا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے اپنے ایک خطبے میں فرمایا تھا کہ اگر خاندان میں کوئی ایک واقف زندگی ہو تو سارے خاندان کو وقف کی برکتیں حاصل کرنے کے لئے اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ جسطرح پیارے ابو جان نے دل و جان سے ہر قدم پر ہمارا ساتھ دیا ہے میں امید کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ محترم ابو جان کو اپنے حضور واقفین میں شمار کرے گا۔ہماری حوصلہ افزائی کے لئے دوبار ہمارے پاس تشریف لائے ۔ ایک بارکینیا میںاور ایک بار تنزانیہ میں ۔ ہمیں اور ہمارے بچوں کو اپنی قیمتی نصائح سے نوازا۔ کینیا میں جب گھر میں سبزی بیچنے والا آتا تواس کو بھی چائے بسکٹ کھلا کر بھیجتے۔ہمارے ساتھ مختلف دیہاتوں کے دورے کئے اور ان پراپنے اعلیٰ اخلاق کا نیک اثر چھوڑا۔ وہ لوگ آج تک ان کو یا د کرتے ہیں ۔
اپنی ذات کے لئے کسی کو تکلیف دینا پسند نہ کرتے۔ خود دوسروں پر دن رات احسانا ت کرتے ۔ آپ سے کوئی ذرہ سی بھلائی کرتا تو اتنی بار شکریہ اداکرتے کہ اسے شرمندگی ہونے لگتی۔بہت سے لوگوں کی خاموشی سے مدد کرتے رہے جس کا ہمیں ان کی وفات کے بعد پتہ چلا۔ اپنی گاڑی خریدی تو خود بہت کم استعمال کی ۔ اکثر لوگ اپنی ضروریات کے لئے لے جاتے اورآپ بخوشی انہیں دے دیتے ۔
آپ کا شمار ربوہ کی معروف شخصیات میں ہوتا تھا۔ سب آپ کی بہت عزت کرتے۔ تقریباًہر ہفتے ہمارے گھر ربوہ کی معروف شخصیات کی دعوت ہوتی تھی جس سے ابو جان بہت خوش ہوتے ۔ خاکسار ایک بار ابوجان کے ساتھ گول بازار گئی تو تقریباً ایک گھنٹے میں پہنچے ہر دو قدم پر کوئی نہ کوئی آپکو سلام کرتا اور آپ کھڑے ہوکر تسلی سے سلام کا جواب دیتے اور انکی خیریت پوچھتے ۔ جب آپ کے بڑے بیٹے مکرم منور احمد صاحب کا بہت خطرناک ایکسیڈنٹ ہوا اور خون کی اشد ضرورت تھی تو ایسا لگتاتھاکہ پورا ربوہ ہسپتال میں مدد کے لئے پہنچ گیا ہو۔ کئی لوگوں نے بڑھ بڑھ کر خون کی کئی بوتلیں دیں ۔ ہمارے محلے کے لوگ صبح آکر بتاتے تھے کہ ساری رات ہم نے کمر بستر پر نہیں لگائی ۔ دعاؤں میں رات بسر کی اور اللہ تعالیٰ نے انکی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے معجزانہ شفاء عطا فرمائی ۔ پھر جب ابو جان کا دل کا بائی پاس ہوا تب بھی لوگوں نے آپ کی صحت کے لئے بہت دعائیں کیں ۔ بعض تو محبت سے روتے اور کہتے کہ اللہ کرے میری زندگی چوہدری صاحب کو لگ جائے ۔
الحمد للہ !ابو جان سب بچوں سے بہت خوش تھے ۔سبھی کے پاس آتے جاتے رہتے ۔سب بیٹوں اور بہوؤں کو اور سب بیٹیوں اور دامادوں کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کی توفیق عطافرمائی۔اور سب نے آپکی خوب دعائیں لیں ۔ اللہ تعالیٰ وہ سب دعائیں ہم سب کے حق میں قبول فرمائے۔ آمین
چھوٹے بھائی مکرم مظفر صاحب کو تو جیسے خدا تعالیٰ نے والدین کی خدمت کے لئے چن لیا تھا۔ اپنے کاروبار اور فیملی کی مصروفیت کے باوجود ماں باپ کی کسی ذمہ داری سے غافل نہ ہوتے ۔ آخری بیماری میں بھی آپ ان کے پاس کینیڈا میں رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ،ان کی بیگم متحرمہ سمیرا صاحبہ کو خدمت کی سعادت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزا عطافرمائے ۔ آمین
برادرم مظفر صاحب بتاتے ہیں کہ ابوجان نے ان سے ذکر کیاکہ ایک رات جب مجھے بہت تکلیف تھی تو میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے اس بیماری سے بچا لے، میں تیرے پاس آنے کے لئے تیار ہوں تو معاًمجھے خیال آیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے بہت لمبی بیماری دیکھی ان کا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے ہے، تو مجھے بھی خداتعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا چاہئے ۔اور ہم سب نے دیکھا کہ انہو ں نے اپنی لمبی بیماری میں عظیم الشان صبر کا مظاہرہ کیا ۔ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ رہتی۔ ہم سب بہن بھائی جب بھی ابوجان کا حال پوچھتے تو چاہے کتنی ہی طبیعت خراب ہوہمیشہ ایک ہی جواب دیتے کہ الحمد للہ ٹھیک ہوں، مزے میں ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات کی خبر بھی پہلے ہی دے دی تھی ۔ امی جان سے آپ کی جب آخری ملاقات ہوئی تو ابوجان نے بتایاکہ آج رات مجھے کافی تکلیف تھی اور یہ میری زندگی کی آخری رات تھی اور اس کے بعد آپ نے کوئی بات نہیں کی ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری قیامت تک آنے والی نسلوں کو ابوجان کی نیکیوں اور خوبیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطافرمائےاور انکی دعاؤں کا بہترین وارث بنائے۔ آمین
ابو جان موصی تھے۔ آپ کی تدفین کینیڈا میں ہوئی ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ اللہ تعالیٰ محترم ابوجان کو اپنی رضاکی جنتوں میں رکھے ۔آمین
سبزوشاداب روشن مقامات ہوں
آپ ہوں اور جنت کے باغات ہوں
پھول، خوشبو، دعا، روشنی، دلکشی
یوں خدا کی ہمیشہ عنایات ہوں
پھر ملیں گے کبھی نہ جدا ہوں گے ہم
والد ِمحترم، والد ِمحترم،والد ِمحترم، والد ِمحترم
(رخسانہ مظفر ۔ تنزانیہ)