• 26 اپریل, 2024

آج کی دعا

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهَا وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ

(جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حدیث: 3449)

ترجمہ: اے اللہ میں تجھے سے اس (آندھی) کی خیر طلب کرتا ہوں، اور وہ بھلائی طلب کرتا ہوں جو اس میں ہے اور اس بھلائی کا طالب ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے۔

اور اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں، اس (آندھی) کے شر سے، اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے۔

یہ ہمارے پیارے رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی آندھی کے شر سے بچنے کی دعا ہے۔

ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں اور تا قیامت ہر آنے والے مومن کے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے حالات میں کیا عمل ہوتا تھا اور کیا حالت ہوتی تھی۔ اس بارہ میں حضرت عائشہؓ سے ایک روایت ہے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ:
’’جب تیز آندھی آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے کہ اے اللہ! مَیں تجھ سے اس آندھی میں مضمر ہر ظاہری اور باطنی خیر کا طالب ہوں اور اس کے ہر ظاہری و باطنی شر سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘

(سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ما یقول اذا ھاجت الریح حدیث 3449)

نیز آپ یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل گھر آتے تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور آپ کبھی گھر میں داخل ہوتے اور کبھی باہر نکلتے۔ کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے اور جب بادل برس جاتا تو آپ کی گھبراہٹ ختم ہو جاتی۔ کہتی ہیں کہ یہ بات مَیں آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیتی تھی۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس گھبراہٹ کا سبب پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ اس لئے ہے کہ کہیں یہ بادل قومِ عاد پر عذاب لانے والے بادل جیسا نہ ہو۔

قومِ عاد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے جب بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ تو ہم پر مینہ برسانے والاہے لیکن وہ عذاب لانے والا بن گیا۔

(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ما جاء فی قولہ: و ھو الذی یرسل الریاح بشرا حدیث 3206)

تو یہ ہے کامل بندگی اور خشیت کا اظہار، اُس خوف کا اظہار کہ وہ عظیم انسان جس سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار وعدے ہیں۔ ہر قسم کے نقصان سے بچانے کے بھی وعدے ہیں، ترقی اور غلبے کے بھی وعدے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی پتہ ہے کہ آپؐ کی زندگی میں کوئی آفت اور مصیبت مسلمانوں پر نہیں آ سکتی، بلکہ دوسرے بھی آپ کی برکتوں سے بچے ہوئے تھے۔ کسی دجّال کا دجل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی علم تھا کہ جب آندھی اور طوفان آئے تو آپ کے حق میں آتے ہیں۔ بدر کی جنگ ہو یا جنگِ خندق۔ آندھیاں اور طوفان دشمن کی بربادی اور ہزیمت کا باعث بنی تھیں لیکن پھر بھی آپؐ کو فکر ہے۔ اصل میں تو یہ خیال ہو گا کہ آسمانی آفت سے یہ لوگ صفحہ ہستی سے نہ مٹا دئیے جائیں۔ پس آپ کی بے چینی اُس رحم کے جذبہ کے تحت تھی جو اس رحمۃ للعالمین کے دل میں مخلوق کے لئے موجزن تھا اور آپؐ اس قدر بے چینی میں مبتلا ہو جاتے کہ جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا، بدل جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے بے نیاز ہونے کی وجہ سے آپ کو فکر ہوتی تھی کہ کہیں کچھ لوگوں کا تکبر اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی صحیح پہچان نہ کرنا پوری قوم کی تباہی کا باعث نہ بن جائے۔

(سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب و من سورۃ الواقعۃ حدیث 3297)

قوموں کی تباہی اور بربادی کا اس سورۃ میں ذکر ملتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حقیقی طور پر سمجھتے تھے اور آپؐ سے زیادہ کوئی اور سمجھ نہیں سکتا، آپؐ کو یہ فکر رہتی تھی کہ امت کا ہمیشہ صحیح رستے پر چلتے رہنا میری ذمہ داری ہے۔

(مرسلہ:مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2021