• 5 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم جولائی 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق تمام معجزات الله تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کسی انسان کا اِس میں دخل اور تصرف نہیں ہوتا

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعدزمانۂ حضرت ابوبکر صدیق ؓ میں مرتد باغیوں کے خلاف مہمات کے تذکرہ کے تسلسل میں بر تفصیل نویں مہم مزید ارشاد فرمایا!

حضرت عَلَاءؓ بن حضرمی کی حُطم پر فوج کشی

حضرت عَلَاءؓ نے حضرت جارُود رضی الله عنہ کو حکم بھیجا! تم قبیلہ عبدالقیس کو لے کر حُطم کے مقابلہ کے لئے حجر سے ملحق علاقہ میں جا کر پڑاؤ کرو اور آپؓ اپنی فوج کے ساتھ حُطم کے مقابلہ پر اُس علاقہ میں آئے۔ اہل دارِین کے علاوہ تمام مشرکین حُطم، اِس طرح تمام مسلمان حضرت عَلَاءؓ بن حضرمی کے پاس جمع ہو گئے۔ دونوں نے اپنے اپنے آگےایک خندق کھود لی، وہ روزانہ اپنی خندق عبور کر کے دشمن پر حملہ کرتے اور لڑائی کے بعد پھر خندق کے پیچھے ہٹ آتے۔

ایک مہینہ تک جنگ کی یہی کیفیت رہی

اِسی اثناء میں ایک رات مسلمانوں کو دشمن کے پڑاؤ سے زبردست شورو غوغا سنائی دیا، حضرت عَلَاءؓ نے کہا! کوئی ہے جو دشمن کی اصل حالت کی خبر لائے۔ حضرت عبداللهؓ بن حذف نے کہا! مَیں اِس کام کے لئے جاتا ہوں اور اُنہوں نے واپس آ کر یہ اطلاع دی کہ ہمارا حریف نشہ میں مدہوش و دُھت واہی تباہی بک رہا ہے، یہ سارا شور اِس کا ہے۔جب یہ سنا تو مسلمانوں نے فورًا دشمن پر حملہ کر دیا اور اُس کے پڑاؤ میں گھس کر اُن کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارنا شروع کیا۔ وہ اپنی خندق کی طرف بھاگ گئے، کئی اُس میں گر کر ہلاک ، کئی بچ گئے ، کئی خوفزدہ ہو گئے نیزبعض قتل یا گرفتار کر لئے گئے۔مسلمانوں نے اُن کے پڑاؤ کی ہر چیز پر قبضہ کر لیا، جو شخص بچ کر بھاگ سکا وہ صرف اُس چیز کو لے جا سکا جو اُس کے جسم پر تھی البتہ ابجر جان بچا کر بھاگ گیا۔

حُطم کی خوف و دہشت سے یہ کیفیت تھی

گویا اُس کے جسم میں جان ہی نہیں، وہ اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جبکہ مسلمان مشرکین کے وسط میں آ چکے تھے۔ اپنی بدحواسی میں حُطم خود مسلمانوں میں سے فرار ہو کر اپنے گھوڑے پر سوار ہونے کے لئے جانے لگا ، جیسا ہی اُس نے رکاب میں پاؤں رکھا وہ ٹوٹ گئی۔ حضرت قیسؓ بن عاصم نے اُسے واصل جہنم کیا۔

مشرکین کی قیام گاہ کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے بعد

صبح حضرت عَلَاءؓ نے مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیااور ایسے لوگوں کو جنہوں نے خاص طورسے جنگ میں بہادری دکھائی تھی مرنے والے سرداروں کے قیمتی کپڑے بھی دیئے۔ اُن میں حضرت عفیفؓ بن مُنذر، حضرت قیسؓ بن عاصم اور حضرت ثمامہؓ بن اُثال شامل تھے۔ حضرت ثمامہ رضی الله عنہ کو جو کپڑے دیئے گئے اُن میں حُطم کا ایک سیاہ رنگ کا قیمتی منقش چوغہ (جو بعد میں غلط فہمی کی بناء پر بنو قیس بن ثعلبہ کے چشمہ پر آپؓ کے لئے باعث شہادت بھی بنا) تھا، جس کو پہن کر وہ بڑے فخر و غرور سے چلا کرتا تھا۔ اِس مہم کی کامیابی کی اطلاع بذریعہ خط حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو دی گئی۔

حجر اور اُس کے مضافات پر حضرت عَلَاء ؓ کا قبضہ ہو گیا

لیکن بہت سے مقامی فارسی نئی حکومت کے مخالف رہے، وہ اکثر یہ خبر پھیلا کر لوگوں میں ہراس پیدا کرتے کہ بس کوئی دَم جاتا ہے کہ حجر میں حکومت مدینہ کی بساط اُلٹ جائے گی، مفروق شیبانی اپنی قوم تغلب اور نَمِر کی فوجیں لئے چلا آ رہا ہے۔یہ باتیں معلوم ہونے پر حضرت ابوبکرؓ نے عَلَاء رضی الله عنہ کو لکھا! اگر تحقیق سے یہ معلوم ہو جائے کہ بنو شیبان بن ثعلبہ تم پر حملہ کرنے والے ہیں اور شر پسند عناصر یہ خبر مشہور کر رہے ہیں تو سرکوبی کے لئے فوج روانہ کرنا ، اُن کو روند ڈالنا اور اُن کے عقب والے قبائل کو ایسا خوفزدہ کرنا کہ اُنہیں کبھی سر اُٹھانے کا حوصلہ نہ ہو۔ مرتدین دارِین (جزیرہ خلیج فارس) میں جمع ہو گئے، حضرت عَلَاءؓ سے شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ باغیوں کا ایک بڑا حصہ کشتیوں میں بیٹھ کر دارِین چلا گیا اور دوسرے لوگ اپنے اپنے قبائل کے علاقوں میں پلٹ گئے۔

بحرین میں فتنہ کی آگ بجھانے میں مُثَنّٰیؓ بن حارثہ کا بہت بڑا کردار

اُنہوں نے اپنی فوج کے ساتھ حضرت عَلَاءؓ بن حضرمی کا ساتھ دیا اور بحرین سے شمال کی طرف روانہ ہوئے، قطیف اور حجر پر قبضہ کیا۔ اپنے اِس مشن میں لگے رہے یہاں تک کہ فارسی فوج اور اُن کے عُمّال پر غالب آئے جنہوں نے مرتدین بحرین کی مدد کی تھی۔

حضرت عَلَاء رضی الله عنہ ابھی تک مشرکین کے لشکر میں ہی مقیم تھے

آپؓ کو بنو بکر بن وائل کو لکھے گئے خطوط کے جواب میں حسب مراد خبر مل گئی یعنی کہ وہ مسلمان ہیں، بغاوت نہیں کر رہے اور لڑائی نہیں کریں گے نیز اُن کو یقین ہو گیا کہ اُن کے جانے کے بعد پیچھے اہل بحرین میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا تو تمام مسلمانوں کو بطرف دارِین چلنے اور پیش قدمی کی دعوت دی۔

بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کشتیاں وغیرہ نہیں تھیں

جس پر سوار ہو کر وہ جزیرہ تک پہنچتے، یہ دیکھ کر حضرت عَلَاءؓ بن حضرمی کھڑے ہوئے اور لوگوں کو جمع کر کے اُن کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا! الله نے تمہارے لئے شیاطین کے گروہوں کو جمع اور جنگ کو سمندر میں دھکیل دیا ہے، وہ پہلے خشکی میں تمہیں اپنے نشانات دکھا چکا ہے تاکہ اِن نشانات کے ذریعہ سمندر میں بھی تم سبق سیکھو، اپنے دشمن کی طرف چلو، سمندر کو چیرتے ہوئے اُس کی طرف پیش قدمی کرو کیونکہ الله نے اُنہیں تمہارے لئے اکٹھا کیا ہے۔ اُن سب نے جواب دیا! بخدا ہم ایسا ہی کریں گے اور وادیٔ دہناء کا معجزہ دیکھنے کے بعد ہم جب تک زندہ ہیں اِن لوگوں سے نہیں ڈریں گے۔

الله کی قدرت

حضرت عَلَاء رضی الله عنہ اور تمام مسلمان اُس مقام سے چل کر سمندر کے کنارے آئے نیز خدا کے حضور یہ دعا کر رہے تھے، یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ یَا کَرِیْمُ یَا حَلِیْمُ یَا اَحَدُ یَا صَمَدُ یَا حَیُّ یَا مُحْیَ الْمَوْتِ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ یَا رَبَّنَا۔ آپؓ نے یہ دعا کرتے ہوئے لشکر کے تمام افراد کوسمندر میں اپنی سواریاں ڈالنے کے لئے کہا، چنانچہ سب نے اپنے سپۂ سالار کی پیروی کرتے ہوئے ایسا ہی کیااور پھر الله کی قدرت اِس خلیج کو بغیر کسی نقصان کے عبور کر لیا۔

معجزات کے بارہ میں اصولی رہنمائی

حضور انور ایدہ الله نے تصریح فرمائی! اِس میں شبہ نہیں مسلمان دارِین پہنچ گئے تھے مگر کس طرح الله بہتر جانتا ہے۔ مزید برآں آپ نے معجزات کے بارہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کے وقت سمندر کے پھٹنے والے قرآنی واقعہ کی تفسیر اور وضاحت کی بابت اصولی رہنمائی بیان فرمودہ حضرت المصلح الموعودؓ پیش کی نیز اِس تناظر میں مسلمانوں کے بحفاظت سمندر عبور کر کے جزیرۂ دارِین پہنچنے کے متعلق فرمایا! ہو سکتا ہے اِسی طرح کا کوئی مدّ وجزْر والا واقعہ ہؤا ہو۔

دارِین پہنچ کر فریقین کے مابین نہایت ہی خونریز جنگ ہوئی

سب باغی مارے گئے کوئی خبر دینے والا بھی نہ بچا۔مسلمانوں نے اُن کے اہل و عیال کو لونڈی و غلام بنا لیا نیز املاک پر قبضہ کر لیا، ہر ایک شہ سوار کو چھ ہزار اور ہر پیادے کو دو ہزار دِرہم غنیمت میں ملے۔

دسویں مہم، حضرت سُوَیْدؓ بن مُقرّن بطرف مرتد باغیان تہامہ (یمن)

ایرانی فتوحات میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے حضرت نعمانؓ بن مُقرّن کے بھائی ابو عدی حضرت سُوَیْدؓ بن مُقرّن مُزَنی نے پانچ ہجری میں اسلام قبول کیا۔ کتب تاریخ میں آپؓ کے تہامہ جانے اور وہاں مرتدین کے خلاف کاروائیوں کی تفصیل نہیں ملتی۔اہل تہامہ کے ارتدادو بغاوت کے حالات و واقعات کی تفصیلات میں ایک مصنف نے لکھا ہے، یہاں ارتداد کو کچلنے میں سرفہرست طاہرؓ بن ابی ہالہ تھے جو رسول الله صلی الله علیہ و سلم کی جانب سے تہامہ (وطن قبیلہ عَك اور اَشعر) کے حصہ پر والی تھے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے عامل سکون و سکاسک (حضر موت) عُکاشہؓ بن ثور کو حکم دیا کہ وہ تہامہ میں اقامت پذیر ہوں اور اپنے پاس اِس کے باشندوں کو اکٹھا کر کے حکم کا انتظار کریں۔ بجیلہ قبیلہ کے پاس حضرت ابوبکرؓ نے جَرِیرؓ بن عبدالله بَجلی کو واپس بھیجا اور اُنہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کے ثابت قدم رہنے والے مسلمانوں کو لے کر مرتدین اسلام سے قتال کریں اور پھر قبیلہ خثعم کے پاس پہنچیں اور اُن کے مرتدین سے قتال کریں۔ آپؓ اپنی مہم پر روانہ ہوئے اور حکم صدیق اکبرؓ بجا لائے، تھوڑے سے افراد کے علاوہ اُن کے مقابلہ پر کوئی نہ آیا، آپؓ نے اُنہیں قتل نیز منتشر کر دیا۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل

حضور انور ایدہ الله نے واقعۂ دہشت گردی میں شہید ہونے والے دوخدام مکرم ڈیکو زکریا صاحب و مکرم ڈیکو موسیٰ صاحب آف (ڈوری ریجن) برکینا فاسو، اِسی طرح تین مرحومین مکرم محمد یوسف صاحب بلوچ آف (بستی صادق پور ضلع عمر کوٹ) سندھ، واقفۂ نَو مکرمہ مبارزہ فاروق صاحبہ آف ربوہ اور لوکل معلم سلسلہ مکرم آنزومانا صاحب آف آئیوری کوسٹ کا تفصیلی تذکرۂ خیر نیز بعد از نماز جمعۃ المبارک جنازہ غائب پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ