• 8 مئی, 2024

حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار (قسط اول)

حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار
اور دنیا کے میرے دو پھول ہیں (حضرت محمدؐ)
قسط اول

یوں تو سارے سال، مہینے اور ایام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں لیکن بعض ایام ایسے ہیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ کے خاص نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے وہ ’’ایام اللہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ انہی دنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ سورۃ ابراہیم میں فرماتا ہے کہ لوگوں کو اللہ کے ایام یاد دلایا کرو۔

محرم کے ایام بھی ان ایام اللہ میں شامل ہیں جن سے بعض خاص الٰہی نشان اور خاص یادیں وابستہ ہیں اور آخری زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات پر مشتمل پیشگوئیاں اس ماہ سے خاص تعلق رکھتی ہے۔

محرم جس کے معنی حرمت والا، تعظیم کیا گیا کے ہیں۔ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ تاریخ کے اعتبار سے جو دو تکلیف دہ واقعات اس مہینہ میں رونما ہوئے وہ دو عظیم شہادتیں ہیں۔ یکم محرم کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اور 10 محرم 61ھ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی جس کا منظر آنحضورﷺ کو ان کی زندگی میں رویا میں دکھلادیا گیا تھا۔

روایت میں ہے کہ ایک خاتون حضرت ام المومنین ام سلمہؓ کے پاس آئیں تو ان کو روتے ہوئے پاکر وجہ پوچھی تو حضرت ام سلمہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو رویا میں دیکھا کہ آپؐ کا سراور داڑھی خاک آلود تھی۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیوں ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ابھی ابھی حسینؓ کی شہادت کا منظر دیکھا ہے۔

(جامع ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین)

حضرت عائشہؓ سے بھی مروی ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبرائیلؑ نے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسینؓ شہید کیا جائے گا۔

(تہذیب التہذیب جلد2، صفحہ315، بیروت)

اسی طرح کے الفاظ ’’الامام الحسین‘‘ مؤلفہ عبدالواحد الخیاری الجزائری ص315،314 میں بھی درج ہیں۔

حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا واقعہ یوں ہے کہ جب یزید بن معاویہ نے آپ کی شہادت کا منصوبہ بنایا تو گورنر کوفہ عبداللہ بن زیاد کو اس کام پر مامور کیا۔ اس نے مفتی وقت، چیف جسٹس قاضی القضاہ شریح کو طلب کرکے حضرت حسینؓ کے واجب القتل ہونے کے فتویٰ کے لئے کہا۔ قاضی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تب گورنر کوفہ ابن زیاد نے اسی رات سونے کی چند تھیلیاں اس کے گھر بھجوادیں۔ صبح ہوتے ہی قاضی شریح نے کہا کہ میں نے رات اس پر بہت غور کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ’’حسین بن علی دین رسولؐ سے خارج ہوگیا ہے لہٰذا وہ واجب القتل ہے‘‘ چنانچہ اس نے قلم اٹھایا اور آپؓ کے قتل کا فتویٰ تحریر کردیا اور اس پر ایک سو قاضیوں اور مفتیوں نے مہریں لگائیں اور سرفہرست قاضی شریح کا نام تھا۔

(جواہر الکلام ازحاجی مرزا حسن، صفحہ88 مطبع علمی تبریز ایران)

حضرت امام حسینؓ کا عالی مقام

ایک دن حضرت رسول اکرمﷺ حالت سجدہ میں تھے کہ حسینؓ آپؐ کی پشت پر سوار ہوگئے۔ جب تک حسینؓ اتر نہ گئے آپؐ نے سجدے سے اپنا سر نہ اٹھایا۔ حضرت امام حسینؓ سے حضورؐ کی محبت اور قلبی تعلق کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے کہ
’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘

(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد2 زیرلفظ حسین بن علی ناشر داراحیاء بیروت)

پھر فرمایا اے اللہ! میں ان دونوں (حسنؓ اور حسینؓ) کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی اے اللہ! انہیں محبوب رکھ اور جو انہیں محبوب رکھے تو انہیں بھی محبوب رکھ۔

(اسدالغابہ جلد2 زیر لفظ حسین)

پھر ایک اور موقعہ پر فرمایا یہ میرے دونوں فرزند دنیا کے میرے دو پھول ہیں۔

(اسد الغابہ جلد2 زیر لفظ حسین)

حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حسن و حسین جو انان جنت کے سردار ہیں۔

(جامع ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن و الحسین)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑہ اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کومومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے … مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کرسکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ و ہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلشانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ544-546)

آل محمدؐ اور اہل بیت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است

ترجمہ: میری جان و دل حضرت محمدﷺ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمدؐ کے کوچہ پر قربان ہے۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ97)

پھر فرمایا:
’’اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنھما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الھدیٰ تھے وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرتﷺ کے آل تھے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15، صفحہ364-365 حاشیہ)

پھر فرمایا:
’’حضرت امام حسین سید المظلومین تھے۔‘‘

(ترجمہ عربی عبارت۔ سرالخلافہ، روحانی خزائن جلد8، صفحہ353)

عقیدت بھری کہانی

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رسول پاکﷺ کے ساتھ عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کو آپ کی آل و اولاد اور آپؐ کے صحابہؓ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:
’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریمؐ کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘

اس وقت آپؐ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور آنحضرتﷺ کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپ کا دل بہت بے چین ہورہا تھا اور یہ سب کچھ رسول پاکؐ کے عشق کی وجہ سے تھا۔‘‘

(سیرۃ طیبہ صفحہ36)

خدا نے امام حسینؓ کا بدلہ لے لیا

ایک دوست جو شیعہ تھے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے۔ ان کو مخاطب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:
’’آپ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ امام حسین سے جو کچھ ہوا خداتعالیٰ نے اس کا کیسے بدلہ لیا۔ یزید کے مرنے پر اس کے بیٹے کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ لوگوں کوجمع کیا اور کہا اے لوگو تم نے مجھے بادشاہ تو بنایا ہے۔ مگر میں اس کا حقدار نہیں۔ یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو مجھ سے زیادہ حقدار ہیں۔ تم ان کو بادشاہ بنالو اور اگر ان کو نہیں بناتے تو یہ خلافت پڑی ہے۔ انہوں نے اس کو بہت مجبور کیا۔ لیکن یزید کے بیٹے نے جو ایک نہایت نیک انسان تھا کہا کہ میں اس کا حقدار نہیں ہوں۔ جب گھر آیا تو گھر والوں نے کہا کہ تم نے تو خاندان کی ناک کاٹ دی ہے۔

اس نے کہا میں نے ناک کاٹی نہیں بلکہ ناک لگا دی ہے۔ اس طرح خداتعالیٰ نے امام حسین کا بدلہ لے لیا۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ، 5 جولائی 1960ء)

ایران کے نامور مؤلف علامہ السید صدرالدین صدر نے (بحوالہ تفسیر نیشا پوری، صفحہ440) اہلبیت نبویﷺ کی نسبت حسب ذیل آنحضرتﷺ کی قدیم الہامی پیشگوئی کتاب المہدی میں درج فرمائی ہے:

وہ لکھتے ہیں:
’’پیغمبر اکرمﷺ نے خیبر کے دن پرچم علیؓ بن ابی طالب کے سپرد کیا اور خداتعالیٰ نے علی علیہ السلام کے ہاتھ سے فتح اور کامیابی کے سامان پیدا کئے۔ بعدازاں رسولؐ خدا نے غدیرخم کے دن لوگوں میں اعلان کیا، علی ابن ابی طالب ہر مومن و مومنہ مردوزن کے آقا (سردار) ہیں اور علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے بعض فضائل بیان فرمائے۔ حتیٰ کہ فرمایا جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ علی، فاطمہ اور حسنین میرے بعد مظلوم ہو جائیں گے۔

یہ مظلومیت کی حالت باقی رہے گی یہاں تک کہ ان کا قائم کھڑا ہو۔ اس (بعثت قائم) کے بعد ان کی بات ہر بات پر فائق ہوجائے گی۔ امت ان کی محبت اور دوستی پر متفق ہو جائے گی۔ ان کی ملامت کرنے والے قلیل اور ان کے دشمن ذلیل ہو جائیں گے ان کی مدح کرنے والے زیادہ ہو جائیں گے۔ یہ وہ وقت ہو گا جب شہروں میں تغیر و تبدل رونما ہوگا۔ خداتعالیٰ کے مومن بندے ضعیف ہو جائیں گے اور آنحضرت (امام قائم) کے ظہور سے ناامید ہو جائیں گے اس وقت مہدی قائم جو میرے فرزندوں میں سے ہیں، ایک جماعت کے ساتھ ظہور فرمائیں گے۔ خداتعالیٰ ان کے ذریعہ حق کو ظاہر کرے گا اور ان کی شمشیروں کے ذریعہ باطل کو مٹادے گا۔

بعدازاں فرمایا اے لوگو! تمہیں (مہدی) کے آشکار ہونے (یعنی ظہور) کی خوشخبری ہو کیونکہ خدا کا وعدہ برحق ثابت ہوگا۔ قضا و قدر کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ خداتعالیٰ حکم کرنے والا اور باخبر ہے۔ خداتعالیٰ کی (طرف سے) فتح اور غلبہ قریب ہے۔‘‘

(کتاب المہدی، مؤلفہ علامہ السید صدرالدین صدر،
ناشر مکتبہ کتاب فروشی اسلامیہ تہران1966ء صفحہ18)

اوصاف و فضائل حضرت حسینؓ 

سیدالشہداء حضرت امام حسینؓ، آنحضورﷺ کے نواسے، شیر خدا حضرت علیؓ اور خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کے بیٹے تھے جو مدینہ منورہ میں 5 شعبان 4ھ بمطابق 20جنوری 626ء کو پیدا ہوئے۔ آنحضورﷺ نے آپؓ کے کان میں اذان دی اور حسین نام رکھا۔ یہ نام زمانہ جاہلیت میں کسی کا نہ تھا۔

(سراعلان النبلاء، ازعلامہ ذہبی، صفحہ188 اور اسدالغابہ جلد،2 زیر لفظ حسین)

سیدنا حضرت امام حسینؓ عابد شب بیدار تھے۔ کثرت سے روزہ رکھنا آپ کا معمول تھا۔

(العقد الفرید جلد15 صفحہ 133 ازعلامہ احمد بن محمد)

آپ فرمایا کرتے تھے ’’سچائی عزت، جھوٹ عجز، رازامانت، ہمسائیگی قرابت، معونت دوستی، عمل تجربہ، حسن خلق عبادت، خاموشی زینت، بخل فقر، سخاوت غنا اور نرمی فرزانگی ہے۔‘‘

(تاریخ الیعقوبی جلد2، صفحہ246)

آپؓ عالم و فاضل، بہت روزہ رکھنے والے بہت نمازیں پڑھنے والے، حج کرنے والے، صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کثرت سے بجالانے والے تھے۔ انہوں نے 25 حج پیدل جا کر کئے۔

(اسدالغابہ جلد2، صفحہ20، ابن اثیر جزری)

(ابو سعید)

(قسط دوم ہفتہ کو ان شاءاللہ)

پچھلا پڑھیں

خدام الاحمدیہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2022