• 4 مئی, 2024

مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام اور اس کے مقاصد

ہرقوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام اس مبارک ہستی کے ذریعہ ہوا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا تھا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔ حضرت مصلح موعود صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانؓی نے عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے جن عظیم الشان تحریکوں کی بنیاد رکھی ان میں سے ایک اہم اور دور رس نتائج کی حامل عظیم الشان تحریک مجلس خدام الاحمدیہ ہے جس کا قیام 31جنوری 1938ء کو عمل میں آیا۔

مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام

حضو رؓ کو اپنے عہد خلافت کے ابتداء ہی سے احمدی نوجوانوں کی تنظیم و تربیت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی کیونکہ قیامت تک اعلائے کلمتہ اللہ اور غلبہ ٔ اسلام کے لئے ضروری تھا کہ ہر نسل پہلی نسل کی پوری قائم مقام ہو اور جانی اور مالی قربانیوں میں پہلوں کے نقس قدم پر چلنے والی ہو اور ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تربیت اس طور پر ہوتی رہے کہ وہ اسلام کا جھنڈا بلند رکھیں۔

حضرت امیر المومنین نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف انجمنیں قائم فرمائیں مگر ان سب تحریکوں کی جملہ خصوصیات مکمل طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور حضرت امیر المومنین کی براہ راست قیادت، غیر معمولی توجہ اور حیرت انگیز قوت قدسی کی بدولت مجلس خدام الا حمدیہ میں تربیت پانے کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایسے مخلص ، ایثار پیشہ ، دردمند دل رکھنے والے، انتظامی قابلتیں اور صلاحتیں رکھنے والے مدبر دماغ میسر آگئے جنہوں نے آگے چل کر سلسلۂ احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آئندہ بھی ہم خداتعالیٰ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نسل میں ایسے لوگ پیدا کرتا چلا جائے گا۔ ان شاء اللّٰہ العزیز

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس مجلس کی بنیاد رکھتے ہوئے پیشگوئی فرمائی تھی کہ
میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے (دشمن کے) ان کے حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا۔ ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اسی کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہیں اور درحقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے …… بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہےجو وہ اپنے کسی بندے (کو) دیتا ہے …… آج نوجوانوں کی ٹریننگ کا زمانہ ہے اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہورہا۔ مگر جب قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔ درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اٹھنے پر اٹھے اور ایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیداکردیا کرتی ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ445-456 ایڈیشن 2007ء)

مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجلس خدام الاحمدیہ کی تاسیس کے زمانہ میں واضح لفظوں میں اس کی غرض و غایت یہ بیان فرمادی تھی:۔
میری غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسلٍ دلوں دفن ہوتی چلی جائے۔ آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولادوں کے دلوں میں۔ یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہوجائے۔ ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کرے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔ اگر ایک یا دو نسلوں تک یہ تعلیم محدود رہی تو کبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ446 ایڈیشن 2007)

مجلس خدام الاحمدیہ کا ابتدائی لائحہ عمل

ابتدائی مراحل سے گذرنے کے بعد خدام الاحمدیہ کا اس وقت کا لائحہ عمل حسب ذیل قرار پایا اور اس کے مطابق مجلس کا کام بھی مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا:

  1. سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں کی تنظیم
  2. سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نوجوانوں میں قومی روح اور ایثار پیدا کرنا
  3. اسلامی تعلیم کی ترویج و اشاعت
  4. نوجوانوں میں ہاتھ سے کام کرنے اور صاف ماحول میں رہنے کی عادت پیداکرنا
  5. نوجوانوں میں مستقل مزاجی پیدا کرنے کی کوشش کرنا
  6. نوجوانوں کی ذہانت کو تیز کرنا
  7. نوجوانوں کو قومی بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے کیلئے ان کی ورزش کا اہتمام
  8. نوجوانوں کو اسلامی اخلاق میں رنگین کرنا (مثلاً سچ، دیانت اور پابندی نماز وغیرہ)
  9. قوم کے بچوں کی اس رنگ میں تربیت اور نگرانی کہ ان کی آئندہ زندگیاں قوم کے لئے مفید ثابت ہوسکیں
  10. نوجوانوں کو سلسلہ کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے کی ترغیب و تحریص
  11. نوجوانوں میں خدمت خلق کا جذبہ
  12. نوجوانان سلسلہ کی بہتری کے لئے حتیٰ الوسع ہر مفید بات کو جامہ عمل پہنانا

(تاریخ احمدیت جلد7 صفحہ556-557)

مجلس خدام الاحمدیہ کے بانی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتداء سے ہی اس مجلس پر شفقت فرماتے ہوئے اس کی ہمیشہ راہنمائی فرمائی اور زریں ہدایات سے نوازا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی راہنمائی میسر آئی۔ آپؒ کے بعد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مجلس خدام الاحمدیہ کی نشوونما کے لئے بیش قیمت ہدایت عطافرماتے رہے اور مجلس ہر آنے والے دن میں بہتر سے بہتر کارکردگی کی راہ پر آگے بڑھتی رہی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگرانی و راہنمائی میں مجلس خدام الاحمدیہ اپنے ترقی اورعروج کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ خدام الاحمدیہ سے متعلق خلفاء کرام کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بانیٔ تنظیم نے ارشاد فرمایا کہ
’’خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ تھی کہ نوجوانوں میں دینی روح پیداکی جائے اور ان کے قلوب میں دین کے لئے اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔‘‘

(مشعل راہ جلداول صفحہ294)

اسی طرح ایک اور موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ
خدام الاحمدیہ اس بات کو اپنے پروگرام میں خاص طور پر ملحوظ رکھیں کہ قومی اور ملی روح کا پیداکرنا نہایت ضروری ہے۔ اصولی طور پر ہر ایک سے یہ اقرار لیا جائے اور اسے بار بار دہرایا جائے۔

(مشعل راہ جلداول صفحہ101)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں کہ
’’میں آج اپنے عزیز بچوں اور بھائیوں کو اس بنیادی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا کرو اور ان بنیادوں پر ہی خدام الاحمدیہ کے سارے کاموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔اگر بنیاد نہ ہو تو پھر آپ ہوائی قلعے تو بنا سکتے ہیں لیکن و ہ مضبوط قلعے نہیں بنا سکتے جن کے متعلق بعض دفعہ خدا تعالیٰ یہ اظہار کرتا ہے کہ میرا محبوب محمدﷺ ان قلعوں میں پناہ گزین ہوتا ہے۔محمد رسول اللہﷺ صرف اس قلعہ میں پناہ گزین ہو سکتے ہیں صرف وہ قلعہ آپ کے دین کی حفاظت کر سکتا ہے صرف وہ قلعہ دشمن کے حملوں سے آپ کےلائے ہوئے اسلام کو بچا سکتا ہے۔ صرف اس قلعہ سے جوابی اور جارحانہ حملہ کیا جا سکتا ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے نام پر اور اللہ کے خوف اور خشیت کی بنیادوں کے اوپر کھڑا کیا جائے جو قلعہ ہوا میں بنایا جائے اس کے نتیجہ میں خیالی پلاؤ پکائے بھی جا سکتے ہیں اور شاید کھائے بھی جا سکیں۔ لیکن خیالی پلاؤ نے نہ آپ کو فائدہ دینا ہے اور نہ دنیا کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ان بنیادوں کو مضبوط کرنا ہمارے لئے ضروری ہے۔ ہر شخص کے لئے انفرادی طور پر اور جماعت کے لئے بحیثیت جماعت خصوصاً آنے والی نسلوں کو اس طرح تربیت دینا کہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور خشیت اللہ سے وہ معمور ہوں، بڑا ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارا کام ایک نسل پر پھیلا ہوا نہیں بلکہ کئی نسلوں نے اس کی تکمیل کرنی ہے۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ تو ہم یہ اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ہم ہر بڑے کااحترام کریں گے۔ کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ جوشخص بڑےکا احترام نہیں کرتا وہ میری فوج کا سپاہی نہیں جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے تو ہم یہ اعلان کررہے ہوتے ہیں کہ ہم چھوٹوں پر شفقت کرنے والے ہیں۔ کیونکہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص چھوٹو ں پر شفقت نہیں کرتا اور رحم کی نگاہ سے انہیں نہیں دیکھتا اور ان کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں کرتا وہ میری فوج کا سپاہی نہیں ہے۔‘‘

(مشعل راہ جلددوم صفحہ54)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
عبادات کے کئی مراحل ہیں اور آپ جوخدام الا حمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ آپ کا عبادت کا زمانہ ہے وہ لوگ جو جوانی میں عبادت نہیں کرنا جانتے ان کی بڑھاپے کی عبادتیں بھی بے کار ہوتی ہیں سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل غیر معمولی طور پر کسی کو توفیق عطافرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوانی ہی وہ دور ہے جس میں عبادت کرنے کا مزہ بھی آتا ہے اور عبادت کرنے کی توفیق بھی زیادہ ملتی ہے بڑھاپے میں تو کمزوریاں اور بیماریاں ہیں ہڈیاں دکھتی ہیں انسان خواہش بھی کرتا ہے تو بعض دفعہ آنکھ نہیں کھلتی، آنکھ کھلتی ہے تو دماغ سستی اور کمزوری کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔ طبیعت میں زور نہیں رہتا اور انسان اپنی عبادت میں جان نہیں ڈال سکتا۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے استثناء ہیں، جو استثناء آپ کو نظر آئیں گے ان میں سے اکثر وہ لوگ نظر آئیں گے جنہیں جوانی میں عبادت کی عادت پڑی تھی وہی عبادتیں ہیں جو پھر آگے بڑھاپے میں بھی ان کا ساتھ دیتی رہتی ہیں تو عبادت کرنے کی طرف توجہ کریں۔ اور بڑے اہتمام اور توجہ سے نماز باجماعت قائم کریں اور صرف نماز باجماعت ہی کو قائم نہ کریں بلکہ خدام کو بار بار یاد دہانی کروائیں کہ وہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے تعلق کو ہمیشہ یاد رکھا کریں اور زندہ رکھا کریں۔

(مشعل راہ جلدسوم صفحہ209)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خدام الاحمدیہ کو ذاتی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:
’’احمدیت کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں۔ معاشرے کےبرے اثرات سے بچیں اور اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کریں۔ تعلیمی میدان میں مقام پیداکریں، اچھا سائنسدان، ڈاکٹر، انجینیئر اور ماہر زراعت احمدی نوجوانوں سے ملنا چاہئے۔ سخت محنت کی عادت ڈالیں، سستیاں ترک کر دیں، جہاں بھی کام کریں اس روح سے کام کریں تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ نظام جماعت سے وفادار رہیں، اپنے عہد کے مطابق جان و مال اور وقت کی قربانی کے لئے تیار رہیں۔‘‘

(مشعل راہ جلدپنجم حصہ اول صفحہ160-161)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’خدام الاحمدیہ کے حوالے سے بتا دوں کہ خدام الاحمدیہ کا ایک کام، بہت بڑا کام خلافتِ احمدیہ کی حفاظت بھی ہے اور اس کے لیے وہ عہد بھی کرتے ہیں۔ اور حفاظت یہ نہیں ہے کہ صرف عمومی کی ڈیوٹی دے دی یا حفاظتِ خاص کی ڈیوٹی دے دی۔ یہ کام تو اور دوسرے بھی کر سکتے ہیں۔ اصل حفاظت یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کے الفاظ کو پھیلایا جائے۔ ان پر عمل کیا جائے۔ ان پر عمل کروایا جائے۔ اور نئی نسل کو سنبھالا جائے۔ صرف یہ دعویٰ کر لینا کافی نہیں کہ ہم دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ یہ لڑائی کا تو مسئلہ نہیں ہے۔ آج کل کی لڑائی، آج کل کا جہاد یہ ہے کہ باتوں پر عمل کیا جائے۔ اور یہی وہ اصل کام ہے جو خدام الاحمدیہ نے کرنا ہے۔ ہر قائد کا کام ہے، ہر زعیم کا کام ہے، ہر ناظم کا کام ہے، ہر مہتمم کا کام ہے اور صدر صاحب کا کام ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو باتیں کہی جاتی ہیں۔

(خطاب 25؍اکتوبر 2019ء بمقام مہدی آباد جرمنی)

(الفضل آن لائن 25 فروری 2020)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

خدام الاحمدیہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2022