• 4 مئی, 2024

خدام الاحمدیہ پر خلافت کی شفقتیں

دین حق کے کامل غلبہ کے لئے جب خدا تعالیٰ نے اس دور میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے آنحضرتﷺ کے بروز کے طور پر مہدی و مسیح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انکے ہاتھ سے اسلام کی تجدید اور اسکے حتمی غلبہ کی تخم ریزی فرمائی تو ساتھ ہی قدرت ثانیہ کی صورت میں اس تخم ریزی سے پیدا ہونے والے نظام عالم کی بنیاد بھی رکھ دی۔ اور پھر قدرت ثانیہ کےدور میں الٰہی نوشتوں کے رو سے اس مہدی دوراں کو ایک پسر موعود کی صورت میں ایک ایسا سلطان نصیر عطا کیا جس نے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ کی تقدیر سے وافر حصہ پاتے ہوئے ایک ایسے نظام عالم کی بنیادیں اس الٰہی جماعت میں مستحکم کرنے کی توفیق پائی جو آخرین کے دور میں لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ کا عظیم الشان مظہر ہو۔

جوانی کی عمر ایک انسان کی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ دین پر عمل کرنے اور خدمت دین کےلئے بھی اس عمر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسی پر انسانی کی بعد کی زندگی کی بنیاد ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی جوانی کی عمر کی اہمیت کے پیش نظر اس حوالے سے جماعت کو نصائح فرمائیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں۔
’’نوجوانوں کو خدمت دین میں دن رات مشغول رہنا چاہئے۔‘‘

(بدر یکم جنوری 1905ء)

نیز فرمایا۔
’’اب وقت تنگ ہے میں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی جوان یہ بھروسہ نہ کرے کہ اٹھارہ یا انیس سال کی عمر ہے اور ابھی بہت وقت باقی ہے۔ تندرست اپنی تندرستی اور صحت پر ناز نہ کرے اسی طرح اور کوئی شخص جو عمدہ حالت رکھتا ہے وہ اپنی وجاہت پر بھروسہ نہ کرے۔ زمانہ انقلاب میں ہے۔ یہ آخری زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ صادق اور کاذب کو آزمانا چاہتا ہے۔ اس وقت صدق و وفا کے دکھانے کے وقت ہے اور آخری موقعہ دیا گیا ہے۔ یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔ یہ وہ وقت ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں یہاں آکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس لئے صدق اور خدمت کا یہ آخری موقع ہے جو نوع انسان کو دیا گیا ہے۔ اب اسکے بعد کوئی موقع نہ ہوگا۔ بڑا ہی بدقسمت وہ ہے جو اس موقع کو کھو دے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ263 ایڈیشن 1984ء)

نظام جماعت کی بنیادی اینٹ تو حضرت مسیح موعودؑ نے پہلی بیعت لے کر 23مارچ 1889ء کو ہی رکھ دی تھی۔ بعد ازاں اس ابتدائی نظام میں دوسرا بڑا سنگ میل نظام وصیت کے قیام اور صدرانجمن احمدیہ جیسا ادارہ قائم ہونا تھا۔ جس سے کشتی نوح کے مثل اس نظام کے بنیادی خدوخال واضح ہونے لگے۔ قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر اور المصلح الموعودؓ کے مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد اس نظام میں سے خدائی تقدیر فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (الحج: 53) اور وعدوں کے موافق اس انجمن نے ایک نئے سرے سے پاک ہوکر خلافت کی اطاعت کا جوا اپنے سر رکھا۔ لیکن وہ تیز گام بڑھنے والا مصلح الموعودؓ لدنی فراست کی روشنی میں دیکھ رہا تھا کہ اسلام کو جو ترقیات اور غلبہ مقدر ہے وہ محض ایک انجمن کے قیام سے وابستہ نہیں ہے۔ لہٰذا ہر علم و عمل کے ہر پہلو اور فتح و ظفر کے پیش آمدہ تقاضوں کے پیش نظر آپؓ نے جہاں دیگر مرکزی انجمنوں تحریک جدید اور وقف جدید کو قائم فرمایا وہیں ذیلی تنظیموں کا قیام بھی بلا شبہ دینی و ملی فتوحات کےلئے ایک عظیم اور لازوال کارنامہ ہے۔

مضمون ہٰذا میں خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو خلافت سے جو فیوض، برکات اور ہر لحاظ سے راہنمائی اور سرپرستی حاصل رہی ہے اس پر مختصراً روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دور خلافت ثانیہ
پس منظر

جیسا کہ خدا تعالیٰ کا ابتدا سے ہی جماعت کے ساتھ یہ سلوک رہا ہے کہ جب کوئی ابتلا آتا ہے تو اسکے ساتھ ہی ترقیات کی ایک نئی راہ کھول دی جاتی ہے۔ خدام الاحمدیہ کی داغ بیل ڈالنے کا سبب بھی ایک ابتلا ہی ہوا۔ 1937ء کے اواخر میں جب شیخ عبدالرحمٰن مصری نے فتنہ کھڑا کیا اور خلیفہ وقت کی ذات پر مذموم حملوں اور عزل خلفا کا سوال اٹھایا تو ان حالات میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے نوجوانوں کو آگے لانے کا بھی فیصلہ کیا۔ آپؓ نے اس کی اولین ذمہ داری مکرم شیخ محبوب عالم خالد صاحب کو دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ نوجوانوں کو اس فتنہ کے مقابلے کے لئے تیار کیا جائے۔ جس پر مکرم شیخ صاحب نے اپنے مبلغین کلاس کے طلبا کو فوری طور پر اس کارخیر میں حصہ لینے کی تحریک کی۔ اس ضمن میں ابتدائی شاملین کا ایک اجلاس مورخہ 31جنوری 1938ء کو ہوا۔ بعدازاں اسی مجلس کی بابت مزید راہنمائی اور نام کے لئے جب حضورؓ کی خدمت میں درخواست کی گئی تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس مجلس کا نام ’’مجلس خدام الاحمدیہ‘‘ رکھا۔ اس مجلس کے پہلے صدر مولانا قمرالدین صاحب اور جنرل سیکرٹری مکرم شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے منتخب ہوئے۔

قیام

خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا قیام حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی ہدایات کے ماتحت 1938ء میں ہوا۔ اس تنظیم میں آپ نے عمر کا جو حصہ مقرر فرمایا وہ 15 سال سے 40 سال تک کا ہے۔ عمر کا یہ زمانہ نوجوانی کی ابتدا سے پختگی تک کا ہے۔ گویا ابتدا سے ہی احمدی نوجوان کو ایک ایسے نظام کا حصہ بنادیا جوکچی عمر سے پختگی کی عمر کو پہنچتے پہنچتے تربیت کے ابتدائی مراحل طے کرلے اور نظام کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوجائے۔ اور یوں نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ قومی رنگ میں ایک مربوط نظام تشکیل پاجائے اور ایک ایسا ذیلی نظام تیار ہو، جو عمر کے اس ابتدائی حصے میں کام اور نظام کو چلانے اور اس کا حصہ بننے کی تربیت حاصل کریں اور پھر یہی تربیت یافتہ افراد مرکزی نظام کو چلانے کے لئے مہیا ہوسکیں۔ آپؓ نے ابتدا سے ہی جماعت کو یہ سبق دیا تھا کہ ’’قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘

خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے ابتدائی اور بنیادی خدوخال

ابتدا میں اس مجلس کا کام علوم دینیہ کا مطالعہ کرنا اور جماعت اور خلافت کے خلاف اعتراضات کی تحقیق اور جواب دینا تھا جو حضورؓ کی ہدایات اور راہنمائی میں خوش اسلوبی سے سرانجام پاتا رہا۔ لیکن حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس تنظیم پر ازراہ شفقت غیر معمولی توجہ اور راہنمائی کا آغاز کردیا اور اپنے خطبات، خطابات میں اس تنظیم کے بنیادی خدوخال، دستور العمل اور تنظیم سازی کے لئے ہدایات سے نوازنا شروع کردیا اور یوں خدام الاحمدیہ وجود میں آتے ہی حضرت المصلح الموعودؓ کی غیرمعمولی اور خداداد راہنمائی سے مشرف ہونے کی سعادت پانے لگی۔ یکم اپریل 1938ء کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اپناولولہ انگیز خطبہ جمعہ خدام الاحمدیہ کو مخاطب کرکے اس تنظیم کی اہمیت، لائحہ عمل اور مقاصد کو بیان فرمایا۔ حضورؓ نے خدام الاحمدیہ کو حضرت طلحؓہ کا نمونہ اپنانے کی ہدایت فرمائی۔ آپؓ نے احد کے میدان میں حضرت طلحہؓ کا اپنا ہاتھ نبی کریمﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے کرنے اور اس پر تیر کھانے والے واقعے کا حوالہ دے کر فرمایا۔
’’دیکھو کتنا عظیم الشان سبق اس واقعے میں پنہاں ہے۔ طلحہؓ جانتے تھے کہ آج محمدﷺ کے چہرہ مبارک کی حفاظت میرا ہاتھ کررہا ہے۔ اگر میرے اس ہاتھ میں ذرا بھی حرکت ہوئی تو تیر نکل کر محمدﷺ کو جالگے گا۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہلایا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ہاتھ کے پیچھے محمدﷺ کا چہرہ ہے۔ اسی طرح اگر تم بھی اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو۔ اگر تم بھی یہ سمجھنے لگو کہ ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ اور اسلام اور محمدﷺ دو نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔ تو تم بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہوجاؤ اور تم بھی ہر وہ تیر جو اسلام کی طرف پھینکا جاتا ہے اپنے ہاتھوں اور سینوں پر لینے کے لئے تیار ہوجاؤ۔‘‘

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس تنظیم کے لئے علاوہ علمی تحقیق کے بعض مزید امور بھی اسکے لائحہ عمل میں شامل فرمائے۔ جن میں -1 اپنے ہاتھ سے روزانہ کام کرنا (وقار عمل) 2 – درس و تدریس (تعلیم و امور طلبا) 3 – پابندی نماز کی تلقین (تربیت) 4 – بیوگان معذور اور مریضوں کی خبرگیری 5 – تدفین و تکفین اور دیگر تقاریب میں امداد وغیرہ (خدمت خلق)۔

مجلس خدام الاحمدیہ کو عالمگیر مجلس بنانے کا ارشاد

گو ابتدا میں حضورؓ نے مجلس خدام الاحمدیہ کو صرف دو سال کے لئے قائم فرمایا تھا لیکن اسکے باوجود آپؓ نے اسے وسعت دینے کا پلان سامنے رکھ دیا تھا۔ لہٰذا آپ نے اپنے خطبہ فرمودہ یکم اپریل 1938ء میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اسی طرح میں اعلان کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عارضی طور پر سال دو سال کیلئے قادیان کی مجلس خدام الاحمدیہ کی بیرونی جماعتوں کی مجالس خدام الاحمدیہ شاخیں ہونگی۔ اور انکا فرض ہوگا کہ اس انجمن کے ساتھ اپنی انجمنوں کا الحاق کریں۔‘‘

چھوٹے بچوں کی ذمہ داری
خدام الاحمدیہ کے سپرد کرنا

قیام کے فوری بعد ہی حضورؓ نے 15 اپریل 1938ء کو 15 سال سے کم عمر بچوں کی تنظیم اطفال الاحمدیہ کے قیام کا ارشاد فرمایا اور 23 اپریل کو یہ تنظیم قائم ہوگئی۔ اس تنظیم کو آپؓ نے خدام الاحمدیہ کے ماتحت اور زیرنگرانی ہی رکھا۔

مجلس خدام الاحمدیہ کو
تحریک جدید کی فوج قرار دینا

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 18 نومبر 1938ء کو جہاں خدام الاحمدیہ کے کام کی تعریف فرمائی اور انکو اپنا کام استقلال سے جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا وہیں آپ نے خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید کی فوج بھی قرار دیتے ہوئے فرمایا۔
’’مجلس خدام الاحمدیہ تحریک جدید کی فوج ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس فوج میں داخل ہونگے اور اپنی عملی جدوجہد سے ثابت کردیں گے کہ انہوں نے اپنے فرائض کو سمجھا ہوا ہے۔‘‘

ذیلی تنظیموں میں شمولیت کو لازمی قرار دینا

حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جولائی 1940ء میں ذیلی تنظیموں انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ میں شمولیت کو لازمی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا۔
’’جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کےلئے لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں۔کوئی امیر نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اور کوئی سیکرٹری نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اگر پندرہ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اسکے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا۔۔۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے۔۔‘‘

جسمانی استعدادوں کو ترقی دینے سے متعلق ہدایات

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے خدام الاحمدیہ کو اپنی جسمانی استعدادوں کو ترقی دینے سے متعلق بھی خصوصیت سے ہدایات مرحمت فرمائیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو خدام الاحمدیہ کی تعلیم و تربیت کا کس قدر احساس تھا اور آپ خدام کو کس درجے کا علمی اور جسمانی صحت کا نمونہ دیکھنا چاہتے تھے۔ ذیل میں آپ کے بعض ارشادات اس حوالے سے پیش خدمت ہیں۔

’’میرے نزدیک تمام مشقوں میں سے ایک نہایت ہی اہم مشق جس سے دشمن کے مقابلے میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور جس طرف ہماری جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہئے۔ وہ حواس خمسہ کو ترقی دینے کی کوشش ہے۔ یہ ایک نہایت ہی اہم اور ضروری چیز ہے۔۔ ۔۔ مثلاً ناک کی حس ہے اور اس سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔اسی طرح بعض لوگوں کی مزے کی حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے اور یہ حس بھی بہت حد تک بڑھائی جاسکتی ہے۔۔۔اسی طرح کانوں کی حس ہے۔ اسکو بڑھا کر بھی حیرت انگیز کام لئے جاسکتے ہیں۔۔۔۔تو یہ مشقیں نہایت اہم ہیں۔ اسی طرح ذائقہ کی مشق ہے۔ لمس کی مشق ہے۔ ان تمام مشقوں سے بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہیں۔۔ ۔۔ اسی طرح لاٹھی چلانے کا فن نہایت اعلیٰ درجے کی چیز ہے۔۔۔‘‘

(خطاب بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ 18 اکتوبر 1942ء)

خدام الاحمدیہ کے سات سالہ پروگرام کا اجرا

1945ء میں جب خدام الاحمدیہ کے قیام کو سات سال گزرچکے تھے تو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے گزشتہ سات سالوں کے کام کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور اس کمی کو آئندہ سات سالوں میں پورا کرنے کا ٹارگٹ دیا۔ لہٰذا 1945ء کے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ سے خطاب فرماتے ہوئے حضورؓ نے کچھ شعبوں میں بہتری لانے کی تلقین فرمائی اور اس ضمن میں نہائیت موزوں رنگ میں خدام کی راہنمائی فرمائی۔ ان شعبوں کا مختصر جائزہ کچھ اس طرح سے ہے۔

وقارعمل: آپؓ نے فرمایا کہ ’’آئندہ سالوں میں ہاتھ سے کام کرنے،کی روح کو دوبارہ زندہ کیا جائےاور خدام سے ایسے کام کرائے جائیں جن میں ہتک محسوس کرتے ہوں اور وہ کام انفرادی طور پر کرائے جائیں۔۔۔

تربیت واصلاح: ’’خدام کی سختی کے ساتھ نگرانی کی جائے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘

تعلیم: ’’خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہئے کہ خدام کی پڑھائی کا خیال رکھا جائے۔اور اس بات کی نگرانی کی جائے کہ کون کون خادم سٹڈی کے وقت گلیوں میں پھرتا ہے۔‘‘

کام کا ریکارڈ رکھنا: ’’کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی معین صورت میں ہمارے سامنے آسکیں۔ اگر ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ ہوتو ہم اندازہ کرسکیں گے کہ پچھلے سال سے اس سال نمازوں میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔تعلیم میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔ اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔کتنے خدام پچھلے سال باہر کی جماعتوں سے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے آئے اور کتنے اس سال آئے ہیں۔۔ ۔‘‘

ذہانت و جسمانی صحت: خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ نوجوانوں کی صحت کی طرف جلد توجہ کریں۔ اور انکے لئے ایسے کام تجویز کریں جو محنت کشی کے ہوں اور جن کے کرنے سے انکی ورزش ہو اور جسم میں طاقت پیدا ہو۔۔‘‘

سائنس اور مشینری کے کام سیکھو: ہر جماعت میں جتنے پیشہ ور ہیں، ان سے کہا جائے کہ وہ خدام کو سائیکل کھولنا اور جوڑنا یا موٹر کی مرمت کا کام یا موٹر ڈرائیونگ سکھا دیں۔ یہ کام ایسے ہیں کہہ ان میں انسان کی صحت بھی ترقی کرتی ہے اور انسان بطور ہابی (hobby) کے سیکھ سکتا ہے۔۔۔ یہ سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے۔ اس لئے خدام الاحمدیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد سائنس کےابتدائی اصولوں سے واقف ہوجائے۔۔‘‘

تجارت اور صنعت و حرفت کی طرف توجہ کرنے کی ہدایت

مورخہ 28 دسمبر 1945ء کو حضورؓ نے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کو اب تجارت کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔ میں نے بارہا بتایا ہے کہ تجارت ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بہت بڑا اثر و رسوخ پیدا کیا جاسکتا ہے۔۔‘‘

اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا۔
’’پس میں اپنے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تعلیم محض اس لئے حاسل نہ کریں کہ اسکے نتیجہ میں انہیں نوکریاں مل جائیں گی۔ نوکریاں قوم کو کھلانے کا موجب نہیں ہوتیں۔ بلکہ نوکر ملک کی دولت کو کھاتے ہیں۔ اگرتم تجارتیں کرتے ہو۔ صنعتوں میں حصہ لیتے ہو۔ ایجادوں میں لگ جاتے ہو تو تم ملک کو کھلاتے ہو اور یہ صاف بات ہے کہ کھلانے والا کھانے سالے سے بہترین ہوتا ہے۔ نوکریاں بیشک ضروری ہیں لیکن یہ نہیں کہ ہم سب نوکریوں کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ پیشے اختیار کریں تاکہ ملک کو ترقی حاصل ہو اور کم سے کم ملازمتیں کریں۔ صرف اتنی جتنی ملک کو اشد ضرورت ہو۔‘‘

(فرمودہ 21 نومبر 1952ء، مشعل راہ جلد اول صفحہ648)

دور خلافت ثالثہ

1965ء میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی المناک رحلت کے بعد خدام الاحمدیہ کی تنظیم نے قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر کے دور میں قدم رکھا۔ اس وقت تک خدام الاحمدیہ کی تنظیم اپنے قیام کے بعد سے 27 سال کا عرصہ خلافت ثانیہ کے زیر سایہ گزار چکی تھی۔ اور اب ایک ایسی شخصیت کو خدا تعالیٰ نے خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا تھا جو خود خدام الاحمدیہ کے بانی کارکنان میں سے تھےاور اس تنظیم کی صدارت کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے جہاں ابتدا سے ہی خدام الاحمدیہ کو اپنی خداداد راہنمائی کی آغوش میں لے لیا وہیں آپؒ کی براہ راست نگرانی اور سرپرستی بھی خدام الاحمدیہ کو میسر رہی۔

خدام کو ماٹو دینا

حضرت خلیفةا لمسیح الثالثؒ نے مقام خلافت پر متمکن ہوتے ہی دسمبر 1965ء میں خدام الاحمدیہ کو ماٹو دیا جسکے الفاظ آپ نے یہ بیان فرمائے کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُس کو پسند آئیں۔‘‘

خدام الاحمدیہ کی مجالس کے کام کا جائزہ

حضور رحمہ اللہ نے مئی 1966ء میں مجلس کے مہتممین اور قائدین اضلاع سے خطاب فرمایا جس میں مجالس کے کام اور رپورٹس کے حوالے سے جائزہ لیا۔ اور اس حوالے سے کارکردگی میں جو کمی تھی اس بارے میں توجہ دلائی۔ آپ نے ایک بنیادی معیار کے حصول کے لئے ٹارگٹ مقرر فرمایا۔ آپ نے فرمایا۔
’’جب تک آپ کے ماتحت یا آپ کے علاقہ یا آپ کے ضلع میں ایک مجلس بھی ایسی ہے جو کم سے کم معیار پر نہیں آئی۔ اگر آپ اس بات سے تسلی پکڑ لیں کہ ہم چونکہ نسبتاً اچھا کام کرکے عَلم انعامی حاصل کرلیتے ہیں اس لئے ہم اچھا کام کرنے والے ہیں تو یہ غلطی ہوگی۔‘‘

(مشعل راہ جلد دوم صفحہ4)

احمدی نوجوانوں کو وقف زندگی کی تحریک

حضور رحمہ اللہ نے اسی سال یعنی جون 1966ء میں نوجوانوں کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی۔ آپ نے فرمایا۔
’’مشرقی افریقہ ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے حالات کا یہ تقاضا ہے کہ ہمارے احمدی نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنی زندگیاں وقف کریں اور یہاں مرکز میں رہ کر تربیت حاصل کریں اور اسکے بعد بیرون پاکستان جاکر تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیں‘‘

(مشعل راہ جلد دوم صفحہ8)

وقار عمل، خدمت خلق اور صحت جسمانی کی اہمیت کو از سر نو اجاگر کرنا

حضرت خلیفہ ثالثؒ نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1966ء سے مورخہ 23 اکتوبر کو باوجود طبیعت کی خرابی اور بخار کےخطاب فرمایا۔ اس خطاب میں آپؒ نے جہاں دیگر تربیتی امور کی طرف خدام کی توجہ دلائی وہیں خدام الاحمدیہ کے بعض شعبوں میں سستی کیطرف بھی نشاندہی فرمائی۔ ان شعبوں میں وقار عمل، خدمت خلق اور صحت جسمانی شامل تھے۔ اس خطاب سے بعض اقتباسات پیش ہیں۔

’’ہمارے سپرد ایک کام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ کیا تھا کہ ہم ایک خاص طریق پر وقار عمل منائیں۔ لیکن اب ہم نے اس طریق پر وقار عمل منانا چھوڑ دیا ہے۔ یا ہم ایک حدتک اس سے غافل ہوگئے ہیں۔۔۔وقار عمل کی روح یہ ہے کہ ہراحمدی نوجوان کو اس بات کی عادت ڈال دی جائے کہ وہ کسی کام کو بھی ذلیل اور حقیر نہ سمجھے اور جب تک یہ ذہنیت ہمارے نوجوانوں میں پیدا نہ ہو اس وقت تک وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل ہوہی نہیں سکتے جو ذمہ داریاں خدا تعالیٰ نے ان پر ڈالی ہوئی ہیں۔۔ ۔ہر ایک احمدی نوجوان کا فرض ہے کہ وہ خدمت خلق کی طرف بہت ہی توجہ دے۔ خدمت خلق جس منبع سے نکلی ہے پتہ ہے وہ کیا ہے؟ وہ منبع ہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ۔ اس آیت میں نبی اکرمﷺ کے دل کی کیفیت بتائی گئی ہے۔۔ ۔ اس ذہنیت کے سرچشمے سے خدام الاحمدیہ کی خدمت خلق کا جذبہ نکلا ہے۔۔۔ جہاں کہیں کوئی مصیبت زدہ ہو اسکی مصیبت دور کرنے کا پہلا فرض آپ کا ہے۔۔۔

تیسری چیز ہے صحت جسمانی۔ آپ کو پتہ ہی ہے کہ میں نے اپنی آدھی عمر خدام الاحمدیہ میں بحیثیت صدر کے گزاری ہے۔ لیکن ایک چیز جو مجھے سمجھ نہیں آتی تھی آج ہی سمجھ آئی ہے۔ جب میں آپ کےلئے سوچ رہا تھا تو میرے دماغ میں آیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے صحت جسمانی اور ذہانت کو بریکٹ کرکے ایک ہی شعبہ بنادیا تھا۔ جب میں سوچ رہا تھا تو یکدم میرے ذہن میں قرآن کریم کی ایک آیت کا ٹکڑا آیا اور وہ ٹکڑا یہ ہے اِنَّ خَیۡرَ مَنِ اسۡتَاۡجَرۡتَ الۡقَوِیُّ الۡاَمِیۡنُ (القصص:27) یہ فقرہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان دو لڑکیوں نے اپنے باپ کو کہا تھا جنکے جانوروں کو آپ نے پانی پلایا تھا۔ یعنی اگر تم نے کسی شخص کو اجرت پر ہی رکھنا ہے تو جس شخص کو اجرت پر رکھا جائے اگر اس میں دو خوبیاں پائی جائیں تو وہ بڑا ہی اچھا کام کرنے والا ثابت ہوگا۔ ایک تو وہ مضبوط جسم کا ہو اور دوسرے وہ امین ہو۔ اور لفظ امین میں ذہانت والا پہلو آجاتا ہے۔۔ ۔ پس صحت جسمانی کی طرف اور ذہانت کی طرف ہمیں خاص توجہ کرنی چاہئے۔‘‘

خدام الاحمدیہ کے رومال کا نمونہ

مرکزی سالانہ اجتماع کے موقع پر 5 اکتوبر 1972 کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خدام الاحمدیہ کے لئے ایک رومال تجویز فرمایا۔ اور فرمایا کہ ’’ہم نے خادم کی علامت کے طور پر ایک رومال تجویز کیا ہے۔۔ ۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں ہر خادم اسلام کے پاس یہ رومال ہونا چاہئے۔‘‘

سائیکل چلانے اور غلیل کے استعمال کی تحریک

حضور رحمہ اللہ نے مورخہ 2نومبر 1973ء کے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ سے خطاب فرماتے ہوئے خدام کو سائیکل چلانے کی تحریک فرمائی۔ اسکے مقاصد جو حضورؒ نے بیان فرمائے وہ جسمانی صحت میں بہتری، بیماریوں سے نجات اور وقت کی بچت تھی۔

اسی خطاب میں حضورؒ نے خدام کو غلیل کے استعمال اور اسے رکھنے کی تحریک بھی فرمائی۔

دور خلافت رابعہ

قدرت ثانیہ قیامت تک چلنے والا ایک دور ہے۔ لیکن جیسا کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور جماعت کے اندرونی تغیر پذیری تقاضا کرتی ہے، اللہ تعالیٰ ان تقاضوں کے ماتحت اپنی ایک نئی تجلی کے ماتحت ایک وجود کو قدرت ثانیہ کا مظہر بنا دیتا ہے۔ جو اس دور کی ضروریات اورحالات کے پیش نظر خدا کی عمیق حکمتوں کے موافق مقام خلافت پر سرفراز ہوجایا کرتاہے۔ یا دوسرے لفظوں میں جس وجود کو ان حالات میں خدا نے خلیفہ بنانا ہوتا ہے اسے ابتدا سے اپنی آغوش میں لے کر اپنے زیر سایہ اسکی ایسی فطرت تشکیل دیتا ہے اور تربیت کرتا ہے کہ وہ وجود خلافت کے مقام پر فائز ہونے تک اس دور کے تقاضوں کے مطابق دنیا کی خدا کی طرف راہنمائی کےلئےتیار ہوچکا ہوتا ہے۔

خلافت رابعہ کا سارا دور ہی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے میدانوں میں ایک غیر معمولی سرعت کا دور تھا اور اس دور کی سب سے نمایاں خصوصیت ایم ٹی اے کا اجرا، سوال وجواب کی محفلیں اور تبلیغی نشستیں تھیں۔ اس دور میں بھی خدام الاحمدیہ کو ان تمام شعبوں میں نہ صرف خلافت کی ہر موقع پر راہنمائی میسر رہی بلکہ خلافت کی ہر آواز پر لبیک کہنے کی توفیق ملتی رہی۔ نیز حضرت خلیفہ رابعؒ نے بھی ابتدا ہی سےاپنے پیش رو خلفا کی طرح خدام الاحمدیہ پر اپنی خصوصی دست شفقت رکھا۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا پہلا دورہ یورپ
اور بیت بشارت اسپین کا افتتاح

مقامِ خلافت پر سرفراز ہوتے ہی پہلے دورہ یورپ کے لئے حضرت خلیفہ رابعؒ 28 جولائی 1982ء کو روانہ ہوئے اور ناروے، سویڈن، ڈنمارک، مغربی جرمنی، آسٹریا، سوئٹزر لینڈ، فرانس، لکسمبرگ، ہالینڈ، سپین، برطانیہ اور سکاٹ لینڈ تشریف لے گئے۔ اس دوران آپؒ نے 10 ستمبر 1982ء کو 700 سو سال بعد بننے والی بیت بشارت پیدرو آباد سپین کا افتتاح فرمایا۔ اس پہلے اور تاریخی دورے پر حضور رحمہ اللہ نے خصوصی طور پر صدر صاحب خدام الاحمدیہ مرکزیہ کواپنی معیت میں لے جانے کی سعادت بخشی۔ اس دورے میں حضورؒ نے اگست 1982ء میں ناروے میں خدام سے خصوصی خطاب فرمایا اور مغربی جرمنی میں بھی خدام کے ساتھ میٹنگ کی۔

خلافت رابعہ کے دور کا پہلا اجتماع خدام الاحمدیہ
منعقدہ 15تا17 اکتوبر 1982ء

خلافت رابعہ کے پہلے اجتماع خدام الاحمدیہ کے موقع پر خدام الاحمدیہ کو ایک بار پھر یہ سعادت حاصل ہوئی کہ خلیفہ وقت نے اس اجتماع میں بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ نیز افتتاحی اور اختتامی خطابات کے ساتھ ساتھ کبڈی میچ میں تشریف آوری کی سعادت بھی بخشی۔ نیز اسی اجتماع پر مجلس سوال و جواب کا انعقاد بھی ہوا۔ اس مجلس میں بھی حضورؒ نے خصوصی طور پر شرکت فرمائی۔

اس اجتماع کے افتتاحی خطاب میں حضورؒ نے خدام کو مخاطب کرکے جن امور کی طرف توجہ دلائی ان کو دیکھنے سے آج کا انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ یہ ایسے امور تھے جو آئندہ آنے والے ابتلاؤں کے دور میں، جنکا اس وقت تصور محال تھا، خاص اہمیت کے حامل تھے۔ مثلاً حضور نے محبت کے مضمون سے خطاب شروع فرمایا اور اپنے دشمنوں سے بھی محبت کی اہمیت کا واضح فرمایا۔ پھر وطن سے محبت کی طرف بھی خاص توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا
’’کسی رنگ میں بھی احمدی نوجوان کو کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا جسکے نتیجےمیں وطن کے سکون اور امن کی فضا کسی رنگ میں بھی خراب ہو۔ وہ تیر چلاتے ہیں تو آپ تیر چلنے دیں۔ کیونکہ وہ تیر آپ کی طرف نہیں بلکہ دین کی طرف چلائے جارہے ہیں۔۔۔ ہمارا فیصلہ آسمان کےد ربار میں ہے۔۔۔ یہ تعلیم ہے احمدیت کی۔ اس تعلیم پر ہم نے بہرحال قائم رہنا ہے۔ اس محبت کے اعلان میں جو محمد مصطفیٰﷺ کی محبت کا اعلان ہے ہمیں اس بات کی کوئی بھی پرواہ نہیں کہ ہم پر دنیا کیا ظلم توڑتی ہے اور کیا کرگزرتی ہے۔۔۔ احمدیت مستقل قربانیوں کا ایک لائحہ عمل ہے اور باشعور قربانیوں کا لائحہ عمل ہے جو زندگیوں کے اندر انقلاب چاہتی ہیں۔‘‘

ہجرت یورپ اور خدام الاحمدیہ کا ایک نئے دور میں داخل ہونا

خلافت رابعہ کے ابتدا میں ہی پاکستان سے ہجرت اور یورپ میں خلافت کی ہجرت کا واقعہ پیش آگیا۔ پاکستان کے بگڑتے حالات اور امتیازی قوانین کی وجہ سے پاکستان سے مہاجرت میں روز افزوں اضافہ اور یورپی ممالک میں احمدیوں کی نقل مکانی اس دور کی ایک بڑی پیش رفت رہی۔ پھر یہی وہ دور تھا جس میں جماعت نے پہلی صدی کا سفر پورا کرکے دوسری صدی میں داخل ہونا تھا۔ خلیفہ وقتؒ کی آئندہ آنے والی صدی میں جماعتی ترقیات اور فتوحات کے لئے جو ضروری تیاری تھی اس پر بھی عمیق نظر تھی۔ حضورؒ نے ایسے وقت میں خدام الاحمدیہ کو اس نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کےلئے خصوصی توجہ اور سعی فرمائی۔ اسی ضمن میں یوکے اور جرمنی کے خدام الاحمدیہ کے اجتماعات الا ماشا اللّٰہ باقاعدگی سے حضورؒ کی بابرکت شمولیت سے باثمر ہوتے رہے۔

آئندہ جماعت کو یورپ میں مستقل قیام اور استحکام اور وسعت پذیری کے لئے جس طرح کے چیلنجوں کا سامنا تھا اس حوالے سے خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفہ رابعؒ کو غیر معمولی جوش و ولولہ، حکمت اور تبلیغ کا ملکہ عطا فرمایا تھا۔ یہ جوش اور ولولہ آپ نے جہاں ساری جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش فرمائی وہیں یورپ میں خدام الاحمدیہ کو بھی اس ضمن میں وقتاً فوقتاً تحریک اور راہنمائی فرماتے رہے۔ اس ضمن میں مجلس خدام الاحمدیہ کے چوتھے سالانہ یورپین اجتماع سے حضورؒ نے مورخہ 14 جون 1987ء کو خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں آپ نے نہائیت جامع اور پرمغذ انداز میں خدام کو یورپ میں پیش آمدہ مسائل اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے لائحہ عمل پیش فرمایا۔ آپ کے خطاب کے چیدہ چیدہ نکات پیش ہیں۔

’’یہ دین ان لوگوں کےلئے بالکل نیا ہے۔ وہ دین جس سے یہ متعارف ہیں وہ دین کی صدیوں سے بگڑی ہوئی صورت ہے۔۔ان نقوش کو پہلے ہمیں مٹانا ہوگا۔۔ عیسائیت نے بھی بہت لمبا عرصہ ان کے دل و دماغ پر حکومت کی ہے۔۔ ۔ آج کی نئی نسلوں پر وہ جادو ٹوٹ چکا ہے۔۔۔یہ عزم لے کر اٹھی ہیں کہ ہم کسی نظریے کسی دعویٰ کو نظریات کی بنا پر قبول نہیں کریں گی۔ بلکہ ہمیں لازماً سچائی کو دیکھنا ہوگا۔۔ ان کے سامنے جب اپنا دین پیش کریں گے تو محض زبانی دعووں پر ہر گز اسے تسلیم نہیں کریں گے۔۔۔ ان کو عملاً ایک تسکین بخش نظریے کی نہیں بلکہ ایک تسکین بخش نمونے کی ضرورت ہے۔۔۔ پس آپ اپنے گردو پیش کو اگر جیتنا چاہتے ہیں گو اپنے فیض کے ذریعہ ہی جیتیں، اپنی محبت کے ذریعہ جیتیں اپنے پیار کے ذریعہ جیتیں اور اپنے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے جیتیں تاکہ آپ کی طمانیت ان کے وجود میں اس طرح منتقل ہو جیسے Radiation ایک وجود سے دوسرے وجود میں منتقل ہوتی ہے۔۔ ۔۔ اس لئے لازماً دعوت الی اللہ کو بڑی سنجیدگی سے اختیار کریں۔ اور پاک اعمال اور دعاؤں کے ذریعہ انکے حالات بدلیں ورنہ آپ تبدیل کردیے جائیں گے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔۔۔‘‘

خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو ختم کرکے ہر ملک میں خدام الاحمدیہ کی الگ تنظیم کا قیام

سال 1990ء-1989 تک خدام الاحمدیہ مرکزیہ پاکستان میں قائم تھی اور دیگر ممالک میں قائم مجالس اسی مرکزی مجلس کے ماتحت تھیں۔ لیکن اب احمدیت کے عالمی افق پر روز افزوں پھیلاؤ اور وسعت کے پیش نظر 90۔1989ء سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مرکزی صدارت کو ختم کرکے ہر ملک میں ذیلی تنظیموں کے صدران کا نظام جاری فرمایا۔ اسکے بعد ہر ملک کی مجلس کا اپنا صدر بنا جو خلیفہ وقت کو براہ راست جوابدہ ہے۔ خدام الاحمدیہ کی تاریخ میں اس اقدام کو ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

خدام الاحمدیہ کو قوم کی ریڑھ کی ہڈی قرار دینا

حضورؒ نے مجلس خدام الاحمدیہ کے چھٹے سالانہ یورپین اجتماع سے اختتامی خطاب فرمودہ 17 ستمبر 1989ء میں خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’خدام الاحمدیہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور تمام دنیا میں جو ہم نے انقلاب برپا کرنا ہے اگرچہ اس میں انصاراللہ کو بھی غیر معمولی دخل ہے انکی عقل کی خدام کو ضرورت ہے۔ ان کے تجربے کی خدام کو ضرورت ہے۔ جو نیکیاں انہوں نے لمبی محنتوں سے کمائی ہیں ان نیکیوں کے نتیجے میں جو خدا کے فض ان پر نازل ہوتے، انکی دعائیں قبول ہوتی ہیں انکی بھی آپ کو ضرورت ہے۔ اسی لئے انصار اللہ سے تو آپ الگ نہیں ہوسکتے۔ لیکن جو بنیادی مضبوطی کے کام ہیں وہ خدام الاحمدیہ کو ہی کرنے ہیں۔ جو عظیم قربانیاں پیش کرنی ہیں وہ خدام الاحمدیہ کو ہی پیش کرنی ہیں۔ اس لئے مجلس خدام الاحمدیہ کو اپنی اس حیثیت کو سمجھنا چاہئے اور بڑے وسیع پیمانے پر اگلی صدی کے اس کنارے پر جہاں آج آپ کھڑے ہیں اتنی محنت کے ساتھ اپنے وجود میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں کہ جو پھر ماحول کے رنگ میں بدل سکیں اور اسکے بعد پھر ایسی پاک نسلیں آپ پیچھے چھوڑ سکیں کہ جن کی نیکیوں کا پھل پھر آئندہ نسلاً بعد نسلاً بنی نوع انسان کھاتے چلے جائیں۔۔‘‘

دور خلافت خامسہ

جیسا کہ خلافت رابعہ کا دور یورپ میں جماعت کے نفوذ اور ترقی و استحکام کے ساتھ ساتھ نشر و اشاعت کے میدان میں فتوحات کا دور رہا تو خلافت خامسہ کے دور کو بھی نہ صرف نشرواشاعت کی جدیدترین صورت سوشل میڈیا کے انقلاب کا دور کہا جاسکتا ہے۔ دنیا اس دور میں ہر انسان کے ہاتھ میں سمٹ آئی ہے۔ اس دور میں نہ صرف یہ کہ تربیت، تبلیغ اور دیگر انتظامی امور جیسے چیلنج ایک نئے رنگ میں ابھر کر سامنے آئے بلکہ ان جدید ذرائع اور وسائل کو بروئے کار لا کر انکے مثبت استعمال کی طرف راہنمائی بھی موجودہ دور خامسہ کا ایک خاصہ نظر آتی ہے۔

سوشل میڈیا کے بد اثرات سے
بچاؤ کے حوالے سے نصائح

جدید دور میں سوشل میڈیا اور اسکے منفی اثرات کے علاوہ نوجوان نسل میں پھیلنے والی دیگر برائیوں کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے خدام سے خطاب میں نہایت مدلّل انداز میں پُرحکمت نصائح کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:
’’اس کے علاوہ کئی اَور برائیاں اور گناہ ہیں جو آج کے معاشرے میں بداخلاقیاں پھیلانے کا باعث ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ مثلاً انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال عام ہوتا جا رہا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیوں کی آن لائن آپس میں نامناسب chatting شامل ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بیہودہ اور بد اخلاقیوں سے پُر فلمیں دیکھی جاتی ہیں جس میں pornography بھی شامل ہے۔ سگریٹ پینا اور شیشہ کا استعمال بھی پھیلنے والی برائیوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو یاد رکھیں کہ بعض اوقات جائز چیزوں کا غلط استعمال بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص آدھی رات تک ٹی وی دیکھتا رہے یا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جاگتا رہے اور اس کی فجر کی نماز ضائع ہو جائے۔ اگر چہ وہ اچھے پروگرام ہی کیوں نہ دیکھ رہا ہو۔ اس کے باوجود اس کا نتیجہ نکلا کہ وہ نیکی اور تقویٰ سے دُور ہو رہا ہے۔ پس اس پہلو سے ایک جائز چیز بھی برائی میں شمار ہوگئی جو ایک حقیقی مسلمان کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔

پس بنیادی طور پر اگر کسی بھی کام یا چیز کے زہریلے یا نقصان دہ اثرات کسی کے ذہن پر پڑتے ہوں تو قرآن مجید کے مطابق وہ چیز یا کام لغو شمار ہوگا۔‘‘

حضور انورایدہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃالمومنون کی آیت6 کے حوالہ سے مزید فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک اور خوبی کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ (المومنون: 6) اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اپنی عفّت وحیا کو قائم رکھنا صرف ایک عورت ہی کا کام نہیں ہے بلکہ مردوں پر بھی فرض ہے۔ اپنی عفّت کی حفاظت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ایک شخص شادی شدہ زندگی سے باہر ناجائز جنسی تعلقات سے بچتا رہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے ہمیں اس کا یہ مطلب سکھایا ہے کہ ایک مومن ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہر اُس چیز سے پاک رکھے جو نامناسب ہے اور اخلاقی طور پر بُری ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے ایک چیز جو انتہائی بیہودہ ہے وہ پورنوگرافی pornography ہے۔ اسے دیکھنا اپنی آنکھوں اور کانوں کی عفّت اور پاکیزگی کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ یہ بات بھی پاکبازی اور حیا سے متعلق اسلامی تعلیمات کے منافی ہےکہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آزادانہ طور پر آپس میں میل جول ہو اور ان میں باہم تعلقات اور نامناسب دوستیاں ہوں‘‘

(خطاب از خدام برموقع سالانہ اجتماع یُوکے 26؍ستمبر 2016 کنگزلے، سرے)

(مطبوعہ ہفت روزہ بدر قادیان 7؍ستمبر 2017ء)

آن لائن ملاقاتیں

گزشتہ دو سال سے وبا کے دنوں میں جو ایک نئی جہت خلافت اور جماعت کے مابین تعلق میں ابھری وہ خلیفہ وقت کا مختلف جماعتوں اور تنظیموں سے آن لائن رابطہ اور ملاقاتیں ہیں۔ یہ بلا شبہ ایک ایسا انقلاب ہے جس کا آج سے پہلے مذہبی دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ سے جہاں دنیا بھر کی جماعتوں اور ذیلی تنظیمیں آن لائن ملاقاتیں اور میٹنگز سے مستفید ہورہی ہیں وہیں خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیموں کو بھی شرف حاصل ہورہا ہے کہ اب نہ صرف حضور ایدہ اللہ انکے کام کا براہ راست جائزہ لے رہے ہیں بلکہ انکو براہ راست ہدایات اور لائحہ عمل سے بھی نواز رہے ہیں۔ اور اس طرح یہ ہدایات جب کسی ایک ملک کی عاملہ کو ملتی ہیں تو ایم ٹی اے کی بدولت ساری دنیا کی مجالس کو بھی یہ قیمتی نصائح اور ہدایات مہیا ہوجاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ حضور ایدہ اللہ کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے اور آپ کی راہنمائی میں دنیا بھر کی مجالس خدام الاحمدیہ کو شبانہ روز مقبول خدمت دین کی توفیق عطا ہوتی رہے۔

حرف آخر

تمام خلفا ِ مسیح موعودؑ نے وقتاً فوقتاً تعلیم و تربیت کے میدان میں جس طرح خدام کی راہنمائی فرمائی ہے اور ان خلفا کرام کی غیر معمولی توجہ اور شفقتیں اس تنظیم پر رہی ہیں انکا کماحقہ احاطہ کرنا اس مضمون میں ممکن ہی نہیں تھا۔ لہٰذا چند ایسے امور جو خدام الاحمدیہ تنظیم کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ان کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔

(عبید اللہ خان)

پچھلا پڑھیں

خدام الاحمدیہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2022