• 3 مئی, 2024

صحابہ رسول ؐ کی فدائیت کے واقعات

حضرت رسول اکرمؐ  نے اپنے صحابہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کے بارے میں فرمایا کہ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ (الاحکام لابن حزم: 6/244) یعنی میرے صحابہ رضوان اللہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس بھی جلیل القدر صحابی کے نمونہ پر چلو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔ رسول کریمؐ کی بعثت کے وقت تمام عرب علمی، اخلاقی، معاشرتی اور دینی غرض ہر پہلو سے پستی و ذلت کا شکار تھا۔ مگر کیا وجہ تھی کہ عرب کی بادیہ نشین وحشی قوم میں ایسا انقلاب برپا ہوا کہ وہ نہ صرف انسان بلکہ با اخلاق انسان اور با خدا انسان بن گئے۔

صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرَوْثٍ ذِلَّۃً
فَجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانِ

(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

آپؐ نے انہیں گوبر کی طرح ذلیل قوم پایا مگر آپؐ کی پاکیزہ صحبت نے سونے کی قیمتی ڈلی کی طرح روشن اور چمکدار بنا دیا۔ بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے چرواہوں کو تخت شاہی پہ بٹھایا تو غلاموں کو بادشاہ بنادیا۔ ایک ان پڑھ اور امی قوم کو دنیا کا استاد، معلم اور خدا نما وجود بنا دیا۔ اسی بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب فرمایا کہ:

کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں
وحشیوں میں دیں کا پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار
پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ
معنئ راز نبوت ہے اسی سے آشکار

(درثمین صفحہ165)

عرب کے وہ بادیہ نشین صحبت رسولؐ سے عشق الٰہی میں مخمور ایسے باکمال انسان بن گئے کہ بلا چون و چراں اپنی ہر شے کو خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت اور خوشنودی کے لئے قربان کر دیا۔

صحابہ کی قربانیوں کی بلند شان اور اسکی حکمت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’انصافا دیکھا جاوے کہ ہمارے ہادی اکملؐ کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسول کے لیے کیا کیا جانثاریاں کیں- جلا وطن ہوئے- ظلم اٹھا ئے- طرح طرح کے مصائب برداشت کیے۔ جانیں دیں۔ لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔ پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جانثار بنا دیا۔ وہ سچی الٰہی محبت کا جوش تھا جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی۔ اس لیے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے آپؐ کی تعلیم، تزکیہ نفس، اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرا دینا، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لیے خون بہا دینا، اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی۔ یہ مقام آنحضرتؐ کے صحابہؓ کا ہے-‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ42-43 سن اشاعت 1984ء مطبوعہ لندن)

صحابہ رسولؐ نے تو مکمل ایمان و یقین کے ساتھ اپنی جان، مال، وقت، عزت، وطن، غرض ہر شے ہر رنگ میں خدا اور خدا کے رسولؐ پر فدا کردی جس کے ہزاروں واقعات ہیں۔ مگر آج کے مضمون میں خاکسار صحابہؓ کی انہی قربانیوں اور فدائیت کے کچھ واقعات بیان کرنے کی کوشش کرے گا۔

آنحضورؐ نے جنگ بدر کے موقع پر صحابہ کو جمع کر کے ان سے مشورہ مانگا کہ دشمن کا مقابلہ مدینہ میں رہ کر کیا جائے یا مدینہ سے باہر نکل کر؟ تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے مشورہ دیا کہ یا رسول اللہؐ !ہم ہر قسم کی قربانی کے لیے حاضر ہیں اور حسب ضروت ہم باہر نکل کر بھی دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ حضرت عمرؓ نے بھی یہی مشورہ دیا۔ لیکن حضورؐ پھر بھی مشورہ طلب کرتے رہے۔ آپؐ کا روئے سخن انصار مدینہ کی طرف تھا کہ ان میں سے کوئی مشورہ دے۔ دریں اثناء حضرت مقداد بن اسود کھڑے ہوئے۔ انہوں نے ایسی پر جوش تقریر کی کہ جس کا اثر انصار و مہاجرین سب پر ہوا۔ اور سب ان جذبات سے سر شار ہو گئے جو حضرت مقداد کے تھے۔ انہوں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ ! ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں کہ یہ کہیں کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ خدا کی قسم ہم تو وہ وفا شعار غلام ہیں جو آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی۔ اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ یا رسول اللہؐ اگر آپ حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مقداد نے جب یہ جوش بھرے الفاظ کہے تو ہم نے دیکھا کہ آنحضورؐ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ بے شک اس وقت ایثار و فدائیت کے جذبے اگرچہ تمام صحابہ کے دل میں موجیں مار رہے تھے مگر ان کو زبان حضرت مقداد نے دی۔ اس لیے آنحضورؐ کے چہرہ پر رونق آنا ایک طبعی بات ہے کہ آنحضور کو خوش کرنے والے حضرت مقداد تھے۔ اسی لیے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جیسے بزرگ صحابی بعد میں بھی بجا طور پر کہتے تھے کہ ’’آج بھی میری یہ دلی تمنا ہے کہ وہ نظارہ جو میں نے مقداد سے دیکھا اے کاش میری تمام نیکیاں مقداد کی ہوتیں اور یہ نظارہ مجھ سے ظاہر ہوا ہوتا۔‘‘

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر)

جنگ احد کے بعد بعض لوگوں نے آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے قبائل میں تعلیم دین کے لیے قاری بھیجنے کی درخواست کی پھر ان کو ساتھ لے جا کر بئر معونہ کے مقام پر شہید کر دیا۔ ان ستر قاریوں میں سے صرف دو زندہ بچے تھے جنہیں کفار نے اسیر کر لیا تھا۔ اور ان میں سے ایک حضرت زیدؓ تھے جنہیں صفوان بن امیہ کے پاس فروخت کر دیا گیا۔ صفوان نے انہیں اپنے باپ کا قاتل سمجھ کر اس لیے خریدا تھا کہ شہید کر کے اپنے جذبہ انتقام کو فرو کرے۔ انہیں مقتل میں لے جایا گیا۔ اورعین اس وقت جبکہ وہ موت سے ہم آغوش ہونے کے لیے تیار کھڑے تھے ایک شخص نے کہا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس وقت تمہاری جگہ محمدؐ ہمارے قبضہ میں ہوں اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو تو تمہیں یہ بات پسند ہے یا نہیں۔ حضرت زید نے نہایت لاپروائی کے ساتھ جواب دیا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو۔ آنحضرتؐ کا نعوذ باللہ ظالموں کے پنجہ میں اسیر ہو کر مقتل میں کھڑا ہونا تو درکنار خدا کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرسکتا کہ محمدؐ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوں۔

(سیر انصار جلد1 صفحہ363)

حضرت زید بن حارثؓ گو ایک اچھے خاندان کے نونہال تھے مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے بچپن ہی میں ان کی متاع آزادی کو چھین لیا۔ اور عکاظ کے بازار میں بطور غلام فروخت ہو کر آنحضرتؐ کے حضور پہنچے۔ ان کے والد صاحب کو اطلاع ہوئی تو وہ مکہ پہنچے اور آنحضرتؐ سے بصد منت و الحاح عرض کیا کہ میرے لڑکے کو آزاد کر دیں۔ اور جو فدیہ چاہیں لے لیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ فدیہ کی ضرورت نہیں زید کو بلا کر پوچھ لیا جائے اگر وہ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ چنانچہ حضرت زید کو بلایا گیا۔ اور آنحضرتؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان لوگوں کو جانتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یہ میرے والد ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ جانا چاہو تو جا سکتے ہو۔ ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ بچپن میں ہی والدین، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے چھوٹ جانے والے کو اتنے لمبے عرصہ کی مایوسی کے بعد جب پھر ان سے ملنے کا موقعہ ملے اور پھر اپنے محبوب وطن میں جا کر ماں باپ، بہن بھائیوں دوسرے رشتہ داروں، دوست، احباب اور بچپن کے ہم جولیوں سے آزادانہ طور پر ملنے جلنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ اس کے رستہ میں حائل ہو تو اس کے جذبات ایسے وقت میں کیا ہوسکتے ہیں۔ سامنے سگا باپ اور چچا کھڑے تھے مگر حضرت زید نے جواب دیا کہ میں حضورؐ پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آپ ہی میرے باپ اور ماں ہیں۔ آ پؐ کے در کو چھوڑ کر میں کہیں جانا پسند نہیں کرتا۔ اس جواب کو سن کر ان کے والد اور چچا محو حیرت ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ زید کیا تم ہم پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو۔ حضرت زید نے کہا کہ ہاں مجھے اس ذات پاک میں ایسی خوبیاں نظر آتی ہیں کہ اس پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔

(ابن سعد جلد1 صفحہ28)

آنحضرتؐ جب ہجرت کے ارادہ سے مکہ سے نکلے اور غار ثور میں پناہ گزین ہوئے تو اس غار کے تمام سوراخ اگرچہ نہایت احتیاط کے ساتھ بند کر دیے گئے تاہم ایک سوراخ باقی رہ گیا۔ آنحضرتؐ حضرت ابو بکرؓ کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرما رہے تھے کہ اتفاقاً اس سوراخ میں سے ایک زہریلے سانپ نے سر نکالا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے محبوب آقا کے آرام میں کوئی معمولی خلل بھی گوارا نہ کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر فدائیت کے پُر جذبات سے اس سوراخ پر پاؤں رکھ دیا جس پر سانپ نے کاٹ لیا۔ زہر اثر کرنے لگا مگر آپ نے پھر بھی حضورؐ کے آرام کا اس قدر خیال رکھا کہ اُف تک نہ کی۔ اور معمولی سی معمولی حرکت بھی آپ سے سرزد نہ ہوئی۔ لیکن درد کی شدت بے قرار کر رہی تھی۔ اس لیے آنکھوں سے آنسو گر گئے۔ جن کا ایک قطرہ آنحضرتؐ کے رخسار مبارک پر گرا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی اور دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے۔ آنحضرتؐ نے لعاب دہن اس مقام پر لگایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے زہر دور ہوگیا۔

(زرقانی جلد1 صفحہ335)

شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو طلحہؓ کے گھر میں ہم جلیسوں کی ایک محفل جمی ہوئی تھی۔ مہمانوں کی تواضع کے لیے حسب دستور شراب بھی پیش کی جا رہی تھی کہ اسی اثناء میں مدینہ کی گلیوں میں ایک منادی نے یہ اعلان کیا کہ اے لوگو! سنو شراب حرام کر دی گئی ہے۔ اس اعلان کا سننا تھا کہ ابو طلحہؓ نے اس نوجوان کو جو شراب کے جام تقسیم کر رہا تھا حکم دیا کہ شراب کے سارے مٹکے فوراً توڑ دو اور ساری شراب بہا دو۔ کسی نے کہا کہ پہلے اس اعلان کی تصدیق تو کر لو مگر آپ نے فرمایا کہ جب ہمارے کانوں میں رسول اللہؐ کا پیغام پڑ گیا تو پھر پہلے اس کی تعمیل لازم ہے تصدیق بعد میں ہو گی۔ اور یوں راوی کہتے ہیں کہ اس دن مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی پھرتی تھی۔ یعنی تمام گھر والوں نے فوراً حضورؐ کے حکم کی اطاعت میں شراب نالیوں میں بہا دی۔

(صحیح البخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المائدہ)

حضرت سعد بن ربیع ؓجنگ احد میں سخت زخمی ہوگئے تھے۔ جنگ کے بعد آنحضرتؐ نے حضرت ابی بن کعب کو ان کے متعلق دریافت حال کے لیے بھیجا۔ وہ تلاش کرتے ہوئے بڑی مشکل سے آپ تک پہنچے۔ حضرت سعد اس وقت حالت نزع میں تھے۔ حضرت ابی نے ان سے دریافت کیا کہ کوئی پیغام ہو تو دے دو۔ اب ہر شخص اپنے دل میں غور کرے کہ ایسی حالت اگر اسے پیش آئے تو وہ کیا پیغام دے گا۔ یقینا اس کے سامنے اس وقت اس کے بیوی بچے عزیز و اقارب مال اور جائیداد اور لین دین کے معاملات ایک ایک کر کے آتے جائیں گے۔ لیکن اس سعید نوجوان کے سامنے اپنی بیوی کی بیوگی آئی، اور نہ اس کے سامنے بچوں کی یتیمی، نہ ان کے تعلق میں کوئی جملہ زبان سے نکالا۔ بلکہ اس نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ میرے بھائی مسلمانوں کو میرا پیغام پہنچا دینا اور میری قوم سے کہنا کہ اگر تمہاری زندگی میں رسول خداؐ کو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو یاد رکھنا کہ خدا تعالیٰ کے حضور تمہارا کوئی جواب مسموع نہ ہوگا۔ یہ الفاظ کہے اور جان دے دی۔

(موطا کتاب الجہاد باب ترغیب فی الجہاد)

جنگ بدر کے موقعہ پر آنحضرتؐ ایک تیر کے ساتھ اسلامی لشکر کی صفیں درست کر رہے تھے۔ ایک صحابی سواد نامی صف سے کچھ آگے بڑھے ہوئے تھے۔ آپ نے تیر کے اشارہ سے انہیں پیچھے ہٹنے کو کہا تو اتفاق سے تیر کی لکڑی آہستہ سے ان کے سینہ میں لگی۔ انہوں نے جرأت کر کے عرض کیا۔ کہ یا رسول اللہ آپ کو خدا نے حق و انصاف کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا۔ میں تو اس کا بدلہ لوں گا۔ صحابہ کرام ان کی اس بات پر دل ہی دل میں بہت پیچ و تاب کھا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ایسے گستاخانہ کلمات ادا کرنے والی زبان کاٹ ڈالیں۔ آنحضرتؐ جو سراپا انصاف اور مساوات تھے کب اس بات کو گوارا کرسکتے تھے کہ کسی شخص کے دل میں خیال رہے کہ آپ نے اس سے زیادتی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے فوراً فرمایا کہ بہت اچھا تم مجھ سے بدلہ لے لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میرا سینہ ننگا تھا۔ جس وقت آپ کا تیر مجھے لگا۔ یہ سن کر آنحضرتؐ نے بھی اپنے سینہ مبارک سے کپڑا اٹھا دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دنیائے عشق و محبت میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ حضرت سواد آگے بڑھے اور نہایت ادب کے ساتھ اپنے پیارے محبوب کے سینہ مبارک کو چوم لیا۔ یہ دیکھ کر آنحضرتؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ سواد یہ تمہیں کیا سوجھی۔ حضرت سواد نے رقت بھری آواز میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ! زبردست دشمن کے ساتھ مقابلہ ہے جنگ کا میدان ہے اور خدا جانے کون زندہ رہتا ہے اور کسے شہادت کا درجہ نصیب ہوتا ہے۔ میرے دل میں یہ خیالات موجزن تھے کہ معلوم نہیں پھر اس مقدس و اطہر جسم کو دیکھنے، چھونے کی سعادت کبھی حاصل ہو سکے گی یا نہیں اس لیے میں نے چاہا کہ مرنے سے قبل ایک مرتبہ آپ کے جسم مبارک کو تو چھو لوں اور اس کے لیے میرے دل نے یہی صورت تجویز کی۔

(سیرۃ ابن ہشام ذکر غزوہ بدر)

جنگ احد کے موقع پر جب گھمسان کا رن پڑا اور کفار کے شدید حملہ کی تاب نہ لا کر صحابہ کی سواریاں بدک گئیں۔ تب حضورؐ نے اپنی تلوار فضا میں لہراتے ہوئے پوچھا کہ کوئی ہے جو آج میری اس تلوار کا حق ادا کرے؟ حضرت ابو دجانہ وہ دبنگ انسان تھے جو نہایت عارفانہ شان کے ساتھ آگے بڑھے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! میں یہ عہد کرتا ہوں کہ اس تلوار کا حق ادا کر کے دکھاؤں گا۔ آپؐ نے یہ عزم و حوصلہ دیکھ کر تلوار ان کے حوالہ کر دی۔ پھر ابو دجانہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ اس تلوار کا حق کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ تلوار کسی مسلمان کا خون نہیں بہائے گی اور کوئی کافر دشمن اس سے بچ کے نہ جائے۔ ابو دجانہ نے وہ تلوار لے کر اپنے سر پر سرخ رنگ کا کپڑا باندھا اور یہ اشعار پڑھے۔ ’’آج میرے پیارے دوست اور میرے آقا حضرت محمدؐ نے مجھ سے ایک عہد لیا۔ ہاں۔ کھجوروں کے دامن میں۔ پہاڑوں کی اس گھاٹی میں یہ عہد آپ نے مجھ سے لیا کہ میں آپ کی اس تلوار کا حق ادا کر کے دکھاؤں‘‘۔ پھر یہ تلوار لے کر اکڑتے ہوئے میدان جہاد کی طرف چلے گئے۔ آنحضرتؐ نے جب ابو دجانہؓ کی یہ چال دیکھی تو فرمایا کہ ’’عام حالات میں بڑائی کا ایسا اظہار اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں لیکن آج میدان جنگ میں دشمن کے مقابل پر ابو دجانہ کے اکڑ کر چلنے کی یہ ادا خدا تعالیٰ کو بہت پسند آئی۔ (اسد الغابہ۔ جلد2 صفحہ352) غرض اُحد میں حضرت ابو دجانہ کے ہاتھ میں رسول اللہؐ کی عطا فرمودہ اس تلوار نے ایسے خوب جوہر دکھائے۔ ولیم میور جیسے مستشرق کو بھی لکھنا پڑا کہ ’’جب اپنی خود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابو دجانہؓ ان پر حملہ کرتا تھا اور اس تلوار کے ساتھ جو اسے محمدؐ نے دی تھی، چاروں طرف گویا موت بکھیرتا جاتا تھا۔‘‘

(لائف آف محمد صفحہ251 بحوالہ سیرت خاتم النبیین)

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب حضرت عثمانؓ کو مکہ میں سفیر بنا کر بھیجا گیا مگر آپ کو واپسی پر دیر ہو گئی اور یہ خبر پھیل گئی کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے تو اس موقع پر فدائیت کا ایک عظیم الشان نمونہ یوں ظاہر ہوا کہ رسول اکرمؐ نے موجود چودہ سو صحابہ سے موت پر بیعت لی کہ اب ہم جان دے دیں گے مگر عثمان کے خون کا بدلہ لیے بغیر نہیں ٹلیں گے۔ (صحیح البخاری- کتاب المناقت باب مناقب عثمانؓ) یہ تاریخ ساز واقعہ بیعت رضوان کے نام سے موسوم ہے کیونکہ اس بیعت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشنودی اور رضامندی کا اظہار قرآن شریف میں ہوا۔ (الفتح: 20)

مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ان کا ایک بڑا مسئلہ پانی کی فراہمی تھا۔ مدینہ میں ایک ہی بڑا کنواں تھا جس کا مالک یہودی تھا اور وہ اس کا پانی بیچا کرتا تھا جبکہ مسلمان انتہائی مفلسی کی حالت میں تھے۔ حضورؐ نے مسلمانوں کی تکالیف دیکھ کر تحریک فرمائی کہ جو بئر رومہ کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے مفت پانی کا انتظام کر دے میں ایسے شخص کے لیے جنت میں کنویں کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس وقت حضرت عثمانؓ آگے بڑھے۔ یہودی جانتا تھا کہ مسلمان انتہائی مجبور ہیں اور اس لیے مجھے منہ مانگے دام ملیں گے۔ تو وہ دام بڑھانے کی خاطر بیچنے سے انکار کر تا رہا۔ بالآخر جب راضی ہوا تو اس نے کہا کہ میں آدھا کنواں بیچوں گا۔ یعنی ایک دن میں خود پانی بیچوں گا اور ایک دن مسلمان مفت اس سے پانی حاصل کر سکتے ہیں۔ تب حضرت عثمانؓ نے اسی معاہدہ پر اس کی منہ مانگی قیمت یعنی بارہ ہزار درہم پر وہ کنواں خرید کر وقف کر دیا جو اس زمانہ کے لحاظ سے ایک بہت ہی بڑی قیمت تھی۔ آپ کا مقصد صرف خدا اور خدا کے رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرنا تھی۔ پھر خوشی خوشی جا کر وہ تحفہ حضورؐ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس پر حضورؐ بہت خوش ہوئے اور حضرت عثمان کو جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ بعد میں اس یہودی کو مزید آٹھ ہزار درہم دے کر وہ مکمل خرید لیا اورتمام انسانوں کے مفت پانی کے لیے وقف کر دیا۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقت عثمانؓ)

پھر مسجد نبوی میں توسیع کا معاملہ پیدا ہوا کہ ارد گرد کے مکانات خرید کر مسجد میں شامل کر لیے جائیں۔ تب حضرت عثمانؓ آگے بڑھے اور پندرہ ہزار درہم کی خطیر رقم حضورؐ کی خدمت میں پیش کی جس کے نتیجہ میں مسجد نبوی کی توسیع عمل میں آئی۔ (سنن نسائی کتاب الاحباس باب وقف المساجد)

فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ کی توسیع کا معاملہ درپیش ہوا کہ ارد گرد کے گھروں کو خرید کر مسجد الحرام میں شامل کر لیا جائے تو اس وقت بھی حضرت عثمانؓ آگے بڑھے اور دس ہزار دینار کی عظیم قربانی پیش کی۔

(مجمع الزوائد جلد9 صفحہ86)

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسلمان راشن ختم ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آج غروب آفتاب سے قبل تمہارے لیے رزق کے سامان پیدا فرما دے گا۔ حضرت عثمان کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول سچ فرماتے ہیں۔ یہ فرما کر انہوں نے غلہ سے لدے ہوئے نو اونٹ رسول اللہؐ کی خدمت میں بھجوائے۔ تب رسول اللہؐ نے ہاتھ اٹھائے اور حضرت عثمانؓ کے لیے ایسی دعائیں کیں کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد کسی کے حق میں ایسی دعائیں کرتے میں نے آپؐ کو نہیں سنا۔ آپؐ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ عثمان کو بہت دے۔ اے اللہ عثمان پر بہت فضل فرما۔

(مجمع الزوائد جلد9 صفحہ85)

حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے مال و جان سے دین اسلام اور رسول خداؐ کی اس طرح خدمت کی کہ ان پر عرش کے خدا نے بھی گواہی دی۔ چنانچہ جب سورہ الاحزاب کی آیت 24 نازل ہوئی۔ ترجمہ ’’مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سےعہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے۔‘‘ تو رسول خداؐ نے حضرت طلحہؓ سے فرمایا کہ اے طلحہ! تم بھی ان خوش نصیب مردان وفا میں شامل ہو جو اپنی قربانی پوری کرنے کی انتظار میں ہیں۔

(اسد الغابہ جلد3 صفحہ61 بحوالہ سیرت صحابہ رسول اللہؐ)

حضرت انسؓ کو بھی آنحضرتؐ سے غایت درجہ کا عشق تھا۔ مدینہ ہجرت کے بعد چھوٹی عمر میں ہی رسول اللہؐ کی خدمت کے لیے وقف ہو گئے اور پھر آخری سانس تک اسے خوب خوب نبھایا۔ جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو آپ کے پاس رسول اللہؐ کا ایک موئے مبارک تھا۔ فرمایا کہ یہ دفن کے وقت میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ اور رسول اللہؐ کی ایک چھڑی بھی آپ کے پاس تھی تو وہ بھی آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے پہلو میں دفن کی گئی۔ سبحان اللہ زندگی میں بھی اپنے آقا کے ہر حکم کے غلام اور ہر شے کے محافظ تھے مگر اپنے محبوب کی جو شے میسر تھی اس سے بوقت وفات بھی جدائی گوارا نہ کی۔

(سیرت صحابہ رسول اللہؐ صفحہ505)

آپ رسول اللہؐ کا حلیہ مبارک بیان کرتے تو ایک ایک خدو خال پر روشنی ڈالتے۔ آپ کا بیان کانوں میں امرت گھول دیتا ایک دفعہ اپنے محبوب رسول اللہؐ کا ذکر کرتے ہوئے بےاختیار کہہ اٹھے کہ ’’قیامت کے روز جب رسول اللہؐ کا سامنا ہو گا تو عرض کروں گا کہ غلام حاضر ہے‘‘ جب مجلس میں ذکر رسولؐ کرتے آقا کے لیے بے چین ہو جاتے تو گھر جا کر تبرکات نبوی نکالتے اور یوں دل بہلاتے۔

(ترمذی کتاب المناقب باب انس بن مالک)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب قاتلانہ حملہ میں زخمی ہوئے تو بوقت وفات آپ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سےجا کر میرا سلام عرض کرو اور ان سے کہنا کہ عمر بن الخطاب اپنے دونوں ساتھیوں یعنی رسول اللہؐ اور ابو بکرؓ کے ساتھ حجرہ عائشہ میں دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے اس پر فرمایا کہ میں نے یہ جگہ اپنی قبر کے لیے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں حضرت عمر کی خاطر انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہوئے قربانی کرتی ہوں۔ حضرت عمرؓ کو یہ اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ الحمد للہ! میری ذات کے لیے اس سے اہم کوئی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ یوں آپ کی تدفین اپنے آقا و مولیؐ اور ساتھی ابو بکرؓ کے ساتھ ہوئی اور آپ نے زندگی تو کجا وفات کے بعد بھی اس امر کو پسند نہ کیا کہ رسول اکرمؐ سے ایک لمحہ بھر بھی جدا ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب عمرؓ)

ایک مرتبہ حضورؐ مدینہ میں مسلمانوں، مشرکین اور یہودیوں کی مشترکہ محفل کے پاس سے گزرے۔ جس سواری پر آپ سوار تھے اس سے کچھ گرد سی اڑی جس پر عبد اللہ بن ابی (رئیس المنافقین) نے بڑی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم پر گرد مت اڑا ؤ۔ اس پر رسول اکرمؐ وہاں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر کچھ دیر رک گئے اور قرآن شریف سنا کر اپنا پیغام پہنچانے لگے۔ تو اس پر وہ دوبارہ بولا کہ اے شخص جو کچھ تو کہتا ہے اگر اس سے اچھا اور کچھ بھی نہیں تو بھی تم اپنے گھر میں بیٹھے رہو لیکن اس طرح ہماری مجالس میں آ کر ہمیں ایذا نہ دیا کرو اور ان کا ماحول خراب نہ کیا کرو۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جیسے ایمانی غیرت رکھنے والے فدائی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے فوراً تمام مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ یا رسول اللہؐ آپ ہماری مجالس میں ضرور تشریف لایا کیجیے۔ ہم پسند کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی باتیں سنائیں اور ہمیں یہ انتہائی محبوب ہے کہ حضور ہم سے مخاطب ہوں۔ یوں حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے اپنی غیرت ایمانی، فدائیت اور محبت رسول کا اظہار نہایت بےباکی اور دلیری سے کر دکھایا۔

(صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر باب فی دعاء النبی ؐ)

آنحضرتؐ کے ساتھ عبد اللہ بن رواحہؓ کی فدائیت اور اطاعت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضورؐ مسجد میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس دوران آپؐ نے فرمایا لوگو بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ مسجد سے باہر خطبہ سننے کے لیے حاضر ہو رہے تھے۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ کسی نے انہیں دیکھ کر کہا کہ حضورؐ کے مخاطب تو مسجد میں موجود لوگ تھے۔ مگر حضرت عبد اللہ نے کہا کہ میرے کانوں میں تو رسول اکرمؐ کا یہ حکم پڑا کہ بیٹھ جاؤ اور اس پر اطاعت لازم تھی۔ اگر اسی وقت میری جان نکل جاتی تو میں خدا کو کیا جواب دیتا کہ میں نے رسول اکرمؐ کا فرمان اپنے کانوں سے سنا مگر اس کی اطاعت نہ کر سکا۔ اس بے نظیر فدائیت پر رسول اکرمؐ نے بھی خوش ہو کر انہیں دعا دی اور فرمایا ’’اے عبد اللہ بن رواحہ! اللہ اور رسول کی اطاعت کا تمہارا یہ جذبہ اللہ تعالیٰ اور بڑھائے‘‘

(الاصابہ جزو4 صفحہ66)

حضرت طلحہ بن براء انصاریؓ ایک نو عمر لڑکے تھے۔ مدینہ میں جب حضورؐ تشریف لائے تو حضورؐ کو پہلی مرتبہ دیکھتے اور ملتے ہی حضورؐ کی گہری محبت ان کے دل میں گھر کر گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آپ میری بیعت قبول فرمائیں اور جو چاہیں حکم دیں میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ آپؐ نے ازراہ امتحان فرمایا کہ خواہ میں والدین سے قطع تعلق کا حکم دوں تو بھی مانو گے؟ یہ سوچ میں پڑ گئے۔ حضرت طلحہ نے جب تیسری مرتبہ پھر بیعت کے لیے عرض کیا تو آپ نے از راہ امتحان فرمایا کہ اچھا جاؤ پھر اپنے باپ کو قتل کر کے آؤ۔ اب طلحہ اٹھے اور تلوار نکال کر تعمیل ارشاد میں چل پڑے۔ رسول اکرمؐ نے فورا واپس بلوایا اور فرمایا مجھے قطع رحمی کرنے اور رشتوں کے کاٹنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ میں نے چاہا تھا کہ تمہاری آزمائش کروں کہ بیعت میں شک و شبہ کی کوئی کسر باقی تو نہیں۔ یوں صحابہ فدائیت کے اظہار میں کہے جانے والے جملہ ’’فداک ابی و امی‘‘ یعنی میرا باپ اور ماں دونوں آپ پر قربان ہوں کے عملی اظہار کے لیے بھی ہر دم تیار ہوا کرتے تھے۔

(الاصابہ جزو1 صفحہ149)

حضرت ابو ایوب انصاریؓ وہ انتہائی خوش بخت انصاری صحابی تھے جنہیں مدینہ میں سب سے پہلے رسول اللہؐ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت ابو ایوبؓ مکان کے اوپر کے حصہ میں رہائش پذیر تھے جبکہ نچلی منزل رسول اکرمؐ کو پیش کر دی۔ بعض اوقات آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ ساری رات اس خیال سے جاگتے رہتے کہ ہمارے نیچے رسول اکرمؐ  تشریف فرما ہیں تو کہیں کوئی بے ادبی سرزد نہ ہو جائے۔ ایک مرتبہ اتفاق سے رات کے وقت پانی کا برتن ٹوٹ گیا جس سے پانی بہہ نکلا۔ حضرت ابو ایوبؓ کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں چھت سے پانی نیچے نہ ٹپک پڑے اور رسول خداؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ سخت سردی کا عالم تھا مگر انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے فورا اپنا اوڑھنے والا لحاف پانی پر ڈال کر اسے خشک کر کے دم لیا اور خود دونوں میاں بیوی ساری رات سردی کے عالم میں اسی ٹھنڈے گیلے لحاف کو اوڑھے رہے۔ علی الصبح آپ رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ کہہ سنایا۔ اور درخواست کی کہ آپ اوپر کی منزل میں تشریف فرما ہو جائیں ہم نیچے مقیم ہوں گے۔ رسول اکرمؐ نے اسے قبول فرمایا اور بالا خانہ میں رہنے لگے۔

(الاستیعاب جلد2 صفحہ10)

حضرت ابو ایوبؓ کی رسول اکرمؐ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ تقریباً سات ماہ کا عرصہ حضور ان کے ہاں قیام پذیر رہے تو انہوں نے مہمان نوازی کا حق خوب ادا کیا۔ سارا عرصہ حضورؐ کے لیے باقاعدگی سے کھانا تیار کر کے بھجواتے رہے۔ جب کھانے کے برتن واپس آتے تو اس پر رسول خداؐ کی انگلیوں کے نشانات دیکھتے اور وہیں سے کھانا تناول کرتے۔ ایک مرتبہ رسول اکرمؐ نے کھانا تناول نہ فرمایا تو حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ناپسندیدگی کی وجہ پوچھی تو آپؐ نے فرمایا کہ آج کھانے میں لہسن تھا اور میں اسے پسند نہیں کرتا۔ ابو ایوبؓ نے فوراً عرض کی کہ حضور جسے آپ ناپسند فرماتے ہیں آئندہ سے میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں۔

(اسد الغابہ جلد2 صفحہ81)

فتح خیبر کے بعد یہودی سردار حی بن اخطب کی بیٹی حضرت صفیہؓ حضورؐ کے عقد میں آئیں تو رخصتانہ کی رات صبح جب حضورؐ فجر پڑھانے کے لیے اپنے خیمہ سے باہر آئے تو دیکھا کہ حضرت ابو ایوب ننگی تلوار سونت کر مستعد پہرے پر کھڑے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو انہوں نے عرض کی کہ اے جان سے عزیز آقا! صفیہ کے عزیز اور رشتہ دار ہمارے ہاتھوں جنگوں میں قتل ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے رسول اللہؐ کی حفاظت کے خیال سے میرے دل میں کئی اندیشے اور وسوسے اٹھتے تھے۔ اس لیے میں آج ساری رات حضورؐ کے خیمہ کا پہرہ دیتا رہا ہوں۔ رسول اکرمؐ کے دل میں اس وقت اپنے اس فدائی اور عاشق کے لیے خاص دعا کا جوش پیدا ہوا اور آپؐ نے ان کے لیے یہ دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! ابو ایوب کو ہمیشہ اپنی حفاظت اور امان میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے‘‘ اور رسول اکرمؐ کی یہ دعا ایسی مقبول ہوئی کہ آپ نے ایک طویل صحت و سلامتی والی عمر پائی۔

(اسد الغابہ جلد2 صفحہ81)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ مکہ میں ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے انتہائی معزز عمائدین مکہ میں سے تھے۔ مگر شعب ابی طالب میں دیگر صحابہ کے ساتھ آپ نے بھی سخت تکالیف اور مصائب کو انتہائی صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں رسول اللہؐ کے ساتھ پیشاب کرنے کے لیے نکلا تو پاؤں کے نیچے کوئی سخت چیز آئی۔ وہ اونٹ کی کھال کا ٹکڑ ا تھا۔ میں نے اسے اٹھا کر دھویا، پھر اسے جلاکر دو پتھروں سے باریک کر کے کھا لیا اور اوپر سے پانی پی لیا اور تین دن کے لیے اس سے قوت حاصل کی۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی اکرمؐ مدینہ تشریف لائے تو مخدوش حالات کی وجہ سے رات آرام کی نیند نہ سو سکے۔ ایک رات آپؐ نے فرمایا کہ آج خدا کا کوئی نیک بندہ پہرہ دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ تب اچانک ہمیں ہتھیاروں کی آواز سنائی دی۔ رسول اکرمؐ نے پوچھا کہ کون ہے؟ آواز آئی میں سعد (سعد بن ابی وقاصؓ) ہوں۔ فرمایا کیسے آئے؟ عرض کیا مجھے آپ کی حفاظت کے بارہ میں خطرہ ہوا اس لیے پہرہ دینے آیا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پہرہ دیا اور رسول کریمؐ آرام سے اس رات سوئے۔

(منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند جلد5 صفحہ71 بحوالہ سیرت صحابہ رسولؐ)

مردوں کی فدائیت تو کجا مسلم خواتین کو بھی آنحضرتؐ کے ساتھ ایسا بےنظیر اخلاص تھا کہ وہ حضورؐ کے وجود کو اپنے تمام اقرباء سے زیادہ قیمتی تصور کرتی تھیں۔ جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرتؐ بمع صحابہ کرام کے شام کے قریب مدینہ کو واپس ہوئے۔ چونکہ اس جنگ میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ آنحضرتؐ نے شہادت پائی ہے اس لیے مدینہ کی عورتیں عالم گھبراہٹ میں گھروں سے نکل کر رستہ پر کھڑی تھیں۔ اور عالم بے تابی میں منہ اٹھا اٹھا کر دیکھ رہی تھیں کہ اس طرف سے کوئی آتا ہوا دکھائی دے اور وہ آنحضرتؐ کے متعلق دریافت کریں۔ ایک انصاری عورت نے ایک شخص سے جو اسے احد سے واپس آتا ہوا دکھائی دیا آنحضرتؐ کے متعلق دریافت کیا۔ اس آدمی نے عورت کے سوال کا تو کوئی جواب نہ دیا لیکن یہ کہا کہ تمہارا باپ شہید ہوگیا ہے۔ اس عورت نے اپنی بے تابی کے باعث اس خبر کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے پھر حضورؐ کے متعلق پوچھا۔ اس نے پھر اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ کہا کہ تمہارا بھائی بھی شہید ہو چکا ہے۔ مگر اس عورت کے نزدیک یہ خبر بھی چنداں اہمیت نہ رکھتی تھی۔ اس کی نظر میں باپ اور بھائی بہن سب اس وقت ہیچ نظر آرہے تھے اور ایک ہی خیال تھا کہ اس محبوب حقیقی کی حالت سے آگاہ ہو۔ اس لیے اس نے نہایت بے تابی کے ساتھ پھر وہی سوال دہرایا۔ یعنی آنحضرتؐ کے متعلق دریافت کیا کہ آپؐ کیسے ہیں لیکن اب بھی اس شخص نے اسے اس کے خاوند کی شہادت کی اندوہناک خبر سنائی۔ مگر اس خبر نے بھی جو اس کے خرمن امن کو جلا کر خاکستر کر دینے کے لیے کافی تھی اس شمع نبوت کے پروانہ پر کوئی اثر نہ کیا۔ وہ عورت پھر بے چین ہو کر بولی کہ مجھے ان خبروں کی ضرورت نہیں۔ مجھے تو صرف یہ بتاؤ کہ رسول خداؐ کا کیا حال ہے۔ آخر جب اس نے اسے بتایا کہ آنحضرتؐ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیں اور صحیح و سالم تشریف لا رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر اس عورت کی جان میں جان آئی اور باوجود یہ کہ ایک لمحہ پہلے وہ اپنے تمام خاندان کی تباہی کی خبر سن چکی تھی لیکن آنحضرتؐ کی سلامتی کی خبر نے تمام صدمات کو اس کے دل سے محو کر دیا۔ اور ایک ایسی راحت اور تسکین کی لہر اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی کہ بےساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ کل مصیبۃ جلل۔ یعنی اگر آپؐ زندہ ہیں تو پھر سب مصائب ہیچ ہیں۔

(سیرۃ ابن ہشام جلد3 صفحہ105)

حضرت ام عمارہؓ ایک صحابیہ تھیں۔ غزوہ احد میں جب ایک اچانک حملہ کی وجہ سے بڑے بڑے بہادران اسلام کے پاؤں کچھ وقت کے لیے اکھڑ گئے تو وہ آنحضرتؐ کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے پہنچ گئیں۔ کفار آپ کو گزند پہنچانے کے لیے نہایت بےجگری کے ساتھ حملہ پر حملہ کر رہے تھے۔ ادھر آپ کے گرد بہت تھوڑے لوگ رہ گئے تھے۔ جو آپؐ کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں پر کھیل رہے تھے۔ ایسے نازک اور خطرناک موقعہ پر حضرت ام عمارہؓ آپؐ کے لیے سینہ سپر تھیں۔ کفار جب آنحضرتؐ پر حملہ کرتے تو وہ تیر اور تلوار کے ساتھ ان کو روکتی تھیں۔ آنحضرتؐ نے خود فرمایا کہ میں غزوہ احد میں ام عمارہ کو برابر اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قیمہ جب آنحضرتؐ کے عین قریب پہنچ گیا تو اسی بہادر خاتون نے اسے روکا۔ اس کمبخت نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ اس جانباز خاتون کا کندھا زخمی ہوا۔ اور اس قدر گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیا۔ مگر کیا مجال کہ قدم پیچھے ہٹا ہو بلکہ آگے بڑھ کر اس پر خود تلوار سے حملہ آور ہوئیں اور ایسے جوش کے ساتھ اس پر وار کیا کہ اگر وہ دوہری زرہ نہ پہنے ہوئے ہوتا تو قتل ہوجاتا۔

(سیرۃ ابن ہشام ذکر احد)

(حضرت ام عمارہؓ کے اسی فدائیانہ واقعہ کا ذکر ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ خطبہ جمعہ مؤرخہ 10جون 2022 میں بھی فرمایا ہے)

آخر پر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے نیک اور پاکیزہ نمونہ پر چلتے ہوئے خدا اور خدا کے رسولؐ کی راہ میں اسی طرح کی فدائیت، اطاعت اور محبت کے نمونے پیش کرتے ہوئے ایمان، اخلاص، اور اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(مجیب اللہ مانگٹ۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

خدام الاحمدیہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2022