• 3 مئی, 2024

خدام صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے فدائیت کے واقعات

’’۔۔میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا۔۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی انسان کی جسمانی اور روحانی نشو و نما کے سامان پیدا فرما دیئے۔ صفت رحمٰن کے تحت والدین عطا کردیئے جو ہر دم انسان کی جسمانی نشوونما، خوراک وغیرہ کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی طرح انبیاء کے ذریعہ انسان کی روحانی نشو و نما کا سامان مہیا فرما دیا۔ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ اور اس زمانہ میں آنحضرتﷺ کے غلام ِصادق حضرت اقدس مسیح موعودؑ تک تمام انبیاء نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اپنے ماننے والوں میں ایک روحانی انقلاب برپا کر دیااور تمام انبیاء نے اس کام کی تکمیل کے لئے مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (الصف: 15) یعنی کون ہے جو اللہ کے کام میں مددگار بنے گا؟ کا نعرہ بلند کیا۔ اس پر ہمیشہ انبیاء کی امتوں میں سے جواں مرد افراد نے نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ یعنی ہم ہیں جو اللہ کے کام میں مددگار ہوں گے (الصف: 15)کا جوابی نعرہ بلند کیا۔

تاریخ اُمم ان جواں مردوں کے انبیاء پر فدائیت کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن جس قسم کی فدائیت ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے اصحاب و خدام نے آپﷺ پر دکھائی اس کی نظیر تاریخ مذاہب میں نہیں ملتی۔ اس سبب سے حضرت رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم جس کسی کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے (للبیہقی 152)۔

پس اس زمانہ میں حضرت رسول کریمﷺ کے غلام صادق اور عاشق صادق حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک مرتبہ پھر ان صحابہ کی یاد کو زندہ کرتے ہوئے، دوبارہ اس روحانی مقام کو حاصل کرنے کے راستے دکھائے اور اپنے منظوم کلام میں فرمایا۔

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فسبحان الّذی اخزی الاعادی

پھر جب آپؑ کے اصحاب نے محبت رسولﷺ و اصحابہ کا مے پی لیا اور صحابہ رسولﷺ کے رنگ میں رنگیں ہو گئے تو آپؑ نے اپنے اصحاب کے متعلق یہ گواہی دی کہ ’’میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہوجاتے ہیں۔ میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرے پر صحابہؓ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نُور پاتا ہوں۔ ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنی فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذو نادر میں داخل ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں۔ اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام مال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہونے کےلئے مستعد ہیں۔ پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا۔ مگر دل میں خوش ہوں‘‘

(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحہ150)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے علم کلام میں اپنے اصحاب کو نصائح کرتے ہوئے فارسی شعر کے اس مصرعے کا باکثرت استعمال فرمایا ہے کہ ’’گر جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری‘‘ یعنی جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے۔ آپؑ کے اصحاب نے آپ کی اس نصیحت کی خوب لاج رکھی اور جوانی میں ہی تعلق باللہ، عشق رسولﷺ اور محبت و اطاعت مسیح ؑ کا ایسا عملی نمونہ دکھایا جس کی نظیر یا تو دور اوّلین میں ہم کو ملتی ہے یا پھر آخرین کے اس دور میں ہمیں نظر آتی ہے۔ ذیل میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے خدام صحابہ کے فدائیت یعنی جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے واقعات پیش ہیں۔ جیسا کہ خدام الاحمدیہ کا عہد بھی ہم سے اسی قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔

صحابہؓ کا جان کی قربانی کے لئے پیش پیش رہنا

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں سب سے بڑھ کر انسان کی جان قیمتی ہے۔ لیکن صحابہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے حضورؑ کے لئے جان کی قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا اور ہمیشہ صحابہ رسول اللہﷺ کی طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی حفاظت کے لئے حاضر رہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے 29 ستمبر 1891ء کو تبلیغ و اشاعت کے لئے دہلی کا سفر کیا۔ اہل دہلی کے ایک طبقے نے خدا کے مسیح کے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھا جیسا ماموران الٰہی کے ساتھ منکرین حق ابتداء سے کرتے چلے آئے ہیں۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے پیغام حق پہنچانے اور اہل دہلی جو علماء کے زیر اثر خطرناک غلط فہمیوں اور مخالفت و تشدد میں مبتلا تھے ان کو راہ راست پر لانے کے لئے 2 اکتوبر1891ء کو مولوی نذیر حسین صاحب اور شمس العلماء مولوی عبد الحق حقانی صاحب کو بذریعہ اشتہار وفات و حیات مسیح پر بحث کی کھلی دعوت دی۔ اس کے جواب میں مولوی عبدالحق صاحب نے تو عرض کی کہ ’’حضرت میں تو آپ کا بچہ ہوں۔آپ میرے بزرگ ہیں۔ آپ کا مقابلہ بھلا مجھ جیسا ناچیز آدمی کیا کرسکتا ہے۔ میرا نام اس اشتہار سے کاٹ دیں‘‘۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اچھا آپ ہی اپنے ہاتھ سے کاٹ دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے اپنا نام کاٹ دیا لیکن مولوی نذیر حسین صاحب نے مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے مجبور کرنے پر حضورؑ سے بحث کرنے کی حامی بھر لی۔

اس پر بالآخر 20 اکتوبر 1891ء کو دہلی کی جامع مسجد میں تحریری بحث یا قسم کھانے کے متعلق پروگرام طے پایا۔ مخالف عنصر نے حضورؑ کے مسجد میں قتل کے منصوبے بنا لیئے۔ 20 اکتوبر کی صبح ہی سے یہ پیغام آنے لگے کہ آپ جامع مسجد میں ہر گز نہ جائیں فسادکا اندیشہ ہے، دہلی کے لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح تھی۔ مگر حضرت اقدس مسیح موعودؑ بار بار فرماتے تھے کہ کوئی بات نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَاللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ کی حفاظت کافی ہے۔

ظہر و عصر کی نماز، ظہر کے وقت ہی جمع کی گئی اور دو تین بگھیاں کرایہ کی منگائی گئیں۔ ایک بگھی میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ، سید امیر علی شاہ صاحب، مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور ایک اور بزرگ سوار ہوئے۔ ایک بگھی میں پیر سراج الحق صاحب، غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی اور محمد خاں صاحب کپورتھلوی اور ایک اور بزرگ اور تیسری میں حکیم فضل دین صاحب بھیروی اور بعض اور بزرگ بیٹھ گئے جن سب کی تعداد حضرت مسیح ناصریؑ کے حواریوں کی مانند بارہ تھی۔ ان بزرگوں میں سے باقی چھ کے نام یہ ہیں۔ شیخ رحمت اللہ صاحب، منشی اروڑا خان صاحب، حافظ حامد علی صاحب، میر محمد سعید صاحب، سید فضیلت علی صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی تھے۔ راستے میں کئی بد بخت گھات میں بیٹھے گئے کہ بندوق سے حضور پر فائر کر دیں۔ لیکن خدا کی قدرت جس راہ سے بگھی والوں نے جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے۔ حضور بخیریت جامع مسجد کے جنوبی دروازے کی سیڑھیوں تک پہنچ کر جو آدمیوں سے بھری ہوئیں تھیں۔ گاڑی سے باہر تشریف لائے۔ خدام کچھ حضور کے دائیں بائیں ہو گئے اور کچھ عقب میں اور حضور نہایت متانت و وقار سے سیڑھیاں طے فرما کر دروازہ مسجد کے اندر داخل ہوئے اور صحن مسجد سے گذر کر وسطی محراب مسجد میں رونق افروز ہوگئے۔ مسجد میں بھی ہزاروں کا مجمع تھا۔ حضورؑ کے دائیں بائیں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب وغیرہ بیٹھے۔

حضورؑ کی طرف سے مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کے ساتھیوں کو وفات و حیات مسیح پر بحث شروع کرنے کا کہا گیا مگر وہ نہ مانے۔ پھر حضور نے قسم کھانے کا کہا تو اس پر بھی وہ نہ مانے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بحث نہ کر نے کے لئے عذر کیئے۔ اس پرایک شخص نے کھڑے ہو کر بڑے درد سے کہا کہ ’’آج تو شیخ الکل صاحب نے دہلی کی عزت خاک میں ملادی اور ہمیں خجالت کے دریا میں ڈبو دیا‘‘۔ اس پر نادان اور جاہل مشتعل ہوگئے اور اپنے خونی پروگرام کی تکمیل کے لئے آمادہ ہوگئے۔ پولیس کی طرف سے مباحثہ ختم کرنے کا اعلان ہوگیا۔ اس موقع پر بھی حضور کے خدام نے آپ کو گھیرے میں لے لیا اور باہر آگئے مگر بگھی والوں کو مخالفین نے بھگا دیا تھا۔ پھر سپرنٹنڈنٹ پولیس نے گاڑی پر حضور کوکوٹھی روانہ کیا اورجب تک حضور کو کوٹھی تک پہنچا کر گاڑی واپس نہیں آگئی حضور کے خدام اور فرض شناس سپرنٹنڈنٹ سیڑھیوں پر ٹھہرے رہے۔ پھر خدام حضور کی خدمت میں پہنچ گئے۔

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ421-430)

اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دو صحابہ حضرت میاں عبد الرحمٰن صاحب کو20 جون 1901ء کو اور حضرت صاحبزادہ عبد الطیف صاحب شہید کو 14 جولائی 1903ء کو حضور کی حیات مبارکہ میں افغانستان میں شہید کیا گیا۔ ان دونوں شہداء کاواقعہ شہادت حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتیں میں بیان فرمایا ہے۔

صحابہؓ کا مالی قربانی کے لئے پیش پیش رہنا

اس دنیا میں جان کی اہمیت کے بعد عموماًمال کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر جوانی کی عمر میں تو مال سے محبت اور بھی زیادہ ہوتی ہے۔ حضورؑ کے صحابہؓ نے مال کی قربانی سے بھی کبھی دریغ نہیں کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی تھے۔ آپ 1863ء میں پیدا ہوئے اور آپ کو 26 سال کی عمر میں 23 مارچ 1889ء کو حضرت اقدسؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ دل و جان سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر فدا تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ ایک کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں فرمایا کہ کپورتھلہ کی جماعت اس کی اشاعت کا خرچ برداشت کرے۔ حضرت منشی صاحب نے فوراً جا کر اپنی اہلیہ محترمہ کا زیور فروخت کیا اورخود ہی اشاعت کا خرچ برداشت کیا۔

(313،اصحاب صدق و صفا صفحہ36)

حضرت اقدسؑ کے ایک صحابی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ تھے۔ آپ 1866ء میں پیدا ہوئے اور 26سال کی عمر میں1892ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ حافظ قرآن بھی تھے۔ آپ کی بیٹی حضرت رشیدہ بیگم صاحبہ (المعروف حضرت محمودہ بیگم) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے عقد میں آئیں اور ام ناصر تھیں۔ آپ کو جماعت کے لئے غیر معمولی مالی قربانی کی توفیق ملی یہاں تک کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے گورداسپور میں مقدمہ کے وقت مالی تحریک فرمائی تو جس دن انہیں تنخواہ ملی اسی دن اس مالی تحریک کا علم ہوا اور ساری تنخواہ 450 روپے حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیئے۔ کسی دوست نے گھر کی ضرورت کے لئے کچھ پیسے رکھنے کا کہا تو جواب دیا کہ ’’خدا کا مسیح کہتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے۔ تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں‘‘۔

(313 اصحاب صدق و صفا صفحہ204)

صحابہؓ کا اپنی اولاد کو حضورؑ پر فدا کرنا

قرآن کریم نے مال اور اولاد کی محبت کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔ اولاد دنیوی نعمتوں میں سے انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ صحابہؓ نے اپنی اولاد کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے قدموں پر فداء کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔گویا کہ صحابہ رسولﷺ کےفداک امی و ابی یا رسول اللہﷺ کے انداز تخاطب کو فداک ذریتی یا مسیح الزمان کے انداز میں پیش کردیا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت میاں محمد خان صاحب کپورتھلوی تھے۔ آپ 1860ء میں پیدا ہوئے اور 29 سال کی عمر میں 23 مارچ 1889ء کو حضرت اقدسؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بیٹے بشیر اول کی وفات ہوئی تو آپ نے صدمہ سے ان جذبات کا اظہار کیا کہ ’’اگر میری ساری اولاد بھی مرجاتی اور ایک بشیر جیتا تو کچھ رنج نہ تھا‘‘۔ حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ نے اس موقع پر فرمایا کہ ’’یہ شخص تو ہم سےبھی آگے نکل گیا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت میاں محمد خان صاحبؓ کی اس فدائیت کی گواہی آپؓ کی وفات پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو الہام کی صورت میں اس طرح دی کہ الہام ہوا ’’اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے‘‘

مجلس میں بیٹھے حاضرین کو تعجب ہوا۔ درایں اثناء مجلس میں حضرت میاں محمد خاں صاحبؓ کی وفات کی خبر ملی تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ الہام انہی کے بارہ میں تھا۔ آپ کی وفات یکم جنوری 1904ء کو ہوئی۔

(313، اصحاب صدق و صفا صفحہ34)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت سید عزیز الرّحمٰن صاحبؓ تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’میرا ایک لڑکا تھا جو کافی بڑا ہوگیا تھا اور وہ کھیلتا پھرتا تھا مگر میں نے اس کا نام نہیں رکھا تھا۔ میری نیت یہ تھی کہ میں اسے قادیان لے کر جاؤں گا اور حضرت صاحب سے اس کا نام رکھواؤں گا۔ کوئی اسے کسی نام سے پکارتا تھا کوئی اور کسی نام سے۔ ان دنوں صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کی تازہ ہی شہادت ہوئی تھی۔ حضورؑ کی مجلس میں صاحبزادہ صاحب کا ہی ذکر ہورہا تھا۔ نیر صاحب نے یہ کہہ کر بچہ پیش کیا کہ حضور یہ سید عزیز الرّحمٰن صاحب کا بچہ ہے۔ حضور اس کا کوئی نام تجویز فرمائیں۔ حضور نے اس محبت کی وجہ سے جوحضور کو شہید مرحوم کے ساتھ تھی فرمایا: اس کا نام عبد الطیف رکھ دو۔ میں (سید عزیزالرحمٰن) اس کو شہید کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ اس کی ماں اس بات پر چیں بجیں ہوتی تھی۔ خدا کی قدرت کچھ عرصہ بعد اس کا ہیضہ سے انتقال ہوگیا۔ اس وقت حضور کی خدمت میں عرض کی گئی کہ اسے مقبرہ بہشتی میں دفن کردیا جائے؟ مگر حضور نے فرمایا کہ دوسرے قبرستان میں دفن کر دو۔ وہ لڑکا شہید ہے۔ اس طرح حضور کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہوئے‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 13تا 19 جنوری 1995ء صفحہ13،سیرت المہدی)

صحابہؓ کی وقت کی قربانی

وقت کی اہمیت کو ہر دور میں سمجھا گیا ہے اور اس زمانہ میں وقت کی قدرو قیمت اور بھی بڑھ گئی ہے جبکہ اداروں کی طرف سے گھنٹوں کے حساب سے معاوضہ مقرر کیا جاتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابہ نے رسول اکرمﷺ کے اصحاب صفہ کی طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا در پکڑا اور پھر سارا وقت آپ کے در پر اپنی جھولیوں کوپھیلائے ہوئے خدا کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے بیٹھے رہے۔ ان صحابہ نے حقیقی معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کر دکھایا۔

انہی اصحاب میں سے ایک حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی تھے۔ آپؓ 1858ء میں پیدا ہوئے اور 21 مارچ 1889ء کو 31 سال کی عمر میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کی۔ آپ 1898ء میں سیالکوٹ سے ہجرت کرکے قادیان تشریف لے آئے۔ حضرت اقدسؑ کا ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ والا مضمون جلسہ اعظم مذاہب عالم میں حضرت مولوی صاحب نے ہی پڑھ کر سنایا تھا۔ اس کے علاوہ خطبہ الہامیہ کو دوران خطبہ ساتھ ساتھ لکھتے رہے اور اس کا ترجمہ بھی کیا۔ حضرت اقدسؑ کا لیکچر لاہور اور لیکچر سیالکوٹ بھی جلسہ عام میں پڑھنے کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی۔

(313، اصحاب صدق و صفا صفحہ41)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ازالہ اوہام میں آپؓ کے متعلق فرمایا کہ ’’حبّی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی: مولوی صاحب اس عاجز کے یک رنگ دوست ہیں اور مجھ سے ایک سچی اور زندہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے اوقات عزیز کا اکثر حصہ انہوں نے تائید دین کے لئے وقف کر رکھا ہے‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ523)

اسی طرح حضورؑ کے ایک جوان صحابی حضرت صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب نعمانی سرساوی تھے۔ آپ کے والد کا نام شاہ حبیب الرّحمٰن تھا اور آپ نبیرہ قطب الاقطاب شیخ جمال الدینؒ احمد و حضرت امام المسلمین نعمان ابوحنیفہ کوفی کی اولاد میں سے تھے۔ آپ 1855ء میں پیدا ہوئے اور 34 سال کی عمر میں 23 دسمبر 1889ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ حضورؑ کی خط و کتابت میں معاونت کرتے اور آپکو حضورؑ کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب ’’تذکرۃ المہدی‘‘ بھی تصنیف کرنے کی توفیق ملی۔

(313 اصحاب صدق و صفا صفحہ61)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’صاف باطن یک رنگ و للّٰہی کاموں میں جوش رکھنے والے اور اعلائے کلمہ حق کے لئے بدل و جان ساعی و سرگرم ہیں‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ534)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا نام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے جلیل القدر صحابی اور سلسلہ کے دیرینہ خادم تھے۔ آپ 1873ء میں پیدا ہوئے اور 18 سال کی عمر میں 1891ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے چہرہ مبارک پر فدا ہوگئے اور بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کرلینے کی طرف کشش کی سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہو سکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہے‘‘

سنہ 1900ء میں آپ ایک سرکاری عہدے سے مستعفی ہو گئے اور خدمت سلسلہ کے لئے قادیان ہجرت کر لی۔ آپ کو بطور ایڈیٹر اخبار البدر اور مبلغ سلسلہ انگلستان و امریکہ خدمت کی توفیق ملی۔ اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو انگریزی اخبارات اور کتب کا ترجمہ سنایا کرتے تھے۔ انگریزی زبان میں خط و کتابت آپ ہی کہ ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے الہامات اور ملفوظات بھی آپ کو لکھنے کی توفیق ملی۔

(313، اصحاب صدق و صفا صفحہ113)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگرچہ منشی محمد افضل صاحب مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر بقضائے الٰہی فوت ہوگئے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے۔ یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک بزرگ رکن جوان، صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں یعنی تھی، محمد صادق صاحب بھیروی قائمقام محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں۔میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کا ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا یہ کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے‘‘۔ آمین

(ریویو آف ریلجنز اپریل 1905ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت میاں عبد اللہ صاحبؓ پٹواری سنوری تھے۔ آپ 1861ء میں پیدا ہوئے اور آپ کو اپنے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بارہ میں علم ہوا۔ حضور اس وقت براہین احمدیہ تصنیف فرما رہے تھے۔ چنانچہ آپ21 سال کی عمر میں 1882ء میں قادیان چلے گئے اور حضور کے ساتھ براہین احمدیہ حصہ چہارم کے طبع میں خدمت کی توفیق پائی اور بالآخر 29 سال کی عمر میں 22مارچ 1889ء کو بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس وقت تک میں نے براہین احمدیہ یا اس کا اشتہار خود نہیں دیکھا تھا۔ یہاں آکر بھی کوئی دلائل حضور یا کسی اور سے نہیں سنے بلکہ میری ہدایت کا موجب صرف حضور کا چہرہ مبارک ہی ہوا‘‘

سرخ چھینٹوں والے واقعہ کے بھی آپ عینی شاہد تھے اور سرخ چھینٹوں والا کرتہ آپ کی حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر فدائیت کا ثبوت بن گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ آپ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’حبی فی اللہ میاں عبد اللہ سنوری۔ یہ جوان، صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفادار دوستوں میں سے ہےجن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا‘‘

(313 اصحاب صدق و صفا صفحہ77)

صحابہؓ کا دنیوی مقاموں کو چھوڑ کر
حضور کے قدموں میں بیٹھ جانا

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب تھے۔ آپ 1875ء میں پیدا ہوئے اور 17 سال کی عمر میں 1892ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا اور جوانی میں ہی آپ کی وفات ہوگئی۔ آپ کا خاندان مغل برلاس قوم سے تعلق رکھتا تھا اور مورث اعلیٰ مرزا عبد الحکیم بیگ صاحب تھے۔ ان کا بنا کردہ گاؤں موضع حکیم پور تھا اور فوج کے سرداروں میں سے تھے۔ حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کے پڑدادا مرزا عبد الرحیم صاحب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مصاحبوں میں سے تھے اور سکھ حکومت سے قبل ریاست ٹونک میں وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ آپؓ کے والد مرزا نیاز بیگ صاحب ضلعدار نہر پراونشل درباری تھے۔ آپ کے قدیم معزز خاندان کا ذکر ضلع گرداسپور کے سرکاری گزٹ میں جو بحکم سرکار 1891ء، 1892ء میں طبع ہوا پایا جاتا ہے۔

حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ نے دور طالبِ علمی میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کی اور اخلاص و وفا میں غیر معمولی ترقی کر گئے۔ آپؓ نے کبھی بھی اپنے حسب و نسب اور خاندانی جاہ و حشمت کو اپنے ایمان اور فدائیت کے درمیان حائل ہونے نہیں دیا۔ بلکہ عاجزی اور درویشوی کا رنگ ہمیشہ آپ کی پاکیزہ فطرت سے ظاہر ہوتا رہا۔

حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اتنی تڑپ تھی کہ کوئی مہینہ نہ گزرتا تھا جس میں ایک دو مرتبہ حضورؑ کی زیارت سے مشرف نہ ہو آتے تھے۔ جب دو چار روز کی رخصت ہوتی تو قادیان جا گزارتے۔ آپ قادیان میں آکر اپنا وقت حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحبؓ کے درس میں گزارتے۔ اس طرح آپؓ نے قریباً سارے قرآن مجید کی تفسیر پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ موسم گرما میں جب ڈیوڑھی کے باہر مسقف کوچہ میں آرام کرتے تو آپؓ پاؤں اور بدن دباتے اور کبھی نیند آجاتی تو چار پائی پر حضورؑ کے ساتھ ہی سو جاتے۔بارہا آپ نے حضورؑ کی کمر کو بوسہ دیا اور ان کی عادت تھی کہ بوسہ دیتے اور جسم دباتے وقت تضرّع کے ساتھ اپنے لئے دعا بھی کرتے تھے۔ آپؓ حضورؑ کے پرانے کپڑے اور بال تبرکاً اپنے پاس رکھتے اور حضورؑ کے لئے نئی رومی ٹوپی لاتے اور پرانی خود لے لیتے۔ مجلس میں حضور کے بہت زیادہ قریب بیٹھتے اور ٹکٹکی لگا کر چہرہ مبارک کو دیکھتے۔ اور پاؤں یا بازویا کمر وغیرہ دباتے۔ اور درود و استغفار پڑھتے رہتے۔

1898ء میں جب مدرسہ احمدیہ پرائمری کا آغاز ہوا اور اسی سال ہی مڈل کی کلاسز بھی شروع ہوئیں تو آپ کو مڈل کا ہیڈماسٹر مقرر کیا گیا۔

حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کی وفات جوانی میں سن 1900ء میں ہوئی۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آپ کی وفات پر تعزیت نامہ میں فرمایا کہ ’’۔۔۔ ایک جوان، صالح، نیک بخت، جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھا اور ایک پودہ نشو و نما یافتہ جو امید کے وقت پر پہنچ گیا تھا۔ یک دفعہ اس کا کاٹا جانا اور دنیا سے ناپدید ہوجانا، سخت صدمہ ہے۔ اللہ جلّ شانہ سوختہ دلوں پر رحمت کی بارش کرے۔ اس خط کے لکھنے کے وقت جو ایوب بیگ مرحوم کی طرف توجہ تھی کہ وہ کیونکر جلد ہماری آنکھوں سے ناپدید ہوگیا۔ اور تمام تعلقات کو خواب و خیال کر گیا۔ یکدفعہ میں الہام ہوا مبارک وہ آدمی جو اس دروازے کے راہ سے داخل ہو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو۔۔۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ‘‘

(اصحاب احمدجلد اول صفحہ79-110)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت صاحب دین صاحبؓ آف تہال گجرات تھے۔ آپ 1874ء میں پیدا ہوئے اور 18 سال کی عمر میں 1892 ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ تہال میں امام مسجد تھے۔ آپ ٹائیپسٹ بھی تھے اور حضرت اقدسؑ کے لئے ان کے دستاویزات ٹائپ کرکے دیا کرتے تھے۔

آپ بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں اطلاع ملی کہ حضور فلاں وقت لاہور پہنچ رہے ہیں ہم ریلوے اسٹیشن گئے۔ اس وقت فٹن گاڑی کا رواج تھا۔ ہم نے گھوڑے الگ کئے اور گاڑی کو خود کھینچنے کی سعادت حاصل کرنا چاہی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ ہم انسانوں کو ترقی دے کر اعلیٰ مدارج کے انسان بنانے آئے ہیں نہ یہ کہ ان کو جانور بنا دیں۔ گھوڑے جوڑ دو۔ یہ سن کر ہم نے فوراً گھوڑے جوڑ دیئے۔ میں سارا وقت گاڑی پر کھڑا حضور پر چھتری تانے رہا۔ مجھے یہ سعادت ملی کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا چَھتربردار ہوں۔

(313 اصحاب صدق و صفا صفحہ298)

فدائیت کے لئے اخلاص ہونا چاہیے

اب مضمون کے آخر پر خاکسار ایک سوال جو اس مضمون کو پڑھ کر ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ فدائیت کے لئے کون سی صفات ضروری ہیں؟ اس کا مختصر جواب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی کی زندگی کے واقعات کی روشنی میں پیش کرتا ہوں۔

حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی تقریباً 1878ء میں پیدا ہوئے اور 19 سال کی عمر میں1897ء کو حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ آپ صاحب رؤیا و کشوف والہام بزرگ تھے۔

آپ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ سن1899ء میں، میں اور مولوی امام الدین صاحبؓ جب قادیان پہنچے اور حضور کی خدمت اقدس میں پیش ہونے لگے تو اندرونی زینہ پر چڑھنے سے قبل حضورؑ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کے لئےمیں رک گیا۔ مولوی صاحب اتنی دیر میں مسجد کے اوپر بارگاہ نبوت میں جا پہنچے۔ حضورؑ نے مولوی صاحب کو مصافحہ کا شرف بخشتے ہی فرمایا کہ ’’وہ لڑکا جو آپ کے پیچھے آرہا تھا اس کو بلاؤ‘‘۔ چنانچہ مولوی صاحب واپس لوٹے اور زینہ پر آکر کہنے لگے میاں غلام رسول آپ کو حضرت صاحب یاد فرما رہے ہیں۔ میں یہ سنتے ہی حضور کی خدمتِ عالیہ میں جا پہنچا اور جب مصافحہ اور دیدار مسیح سے مشرف ہواتو اس وقت مجھ پر کچھ ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں بے ساختہ حضور کے قدموں میں گر گیا اور روتے روتے ہچکی بند گئی۔ حضور انور اس وقت نہایت ہی شفقت سے میرے سر اور اور میری پیٹھ پر دست مسیحائی پھیرتے جاتے تھے اور مجھے دلاسا دیئے جاتے تھے۔

(حیات قدسی صفحہ18-19)

اسی طرح آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں قادیان میں حضور اقدسؑ کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا۔ اتفاق سے اس وقت میرے پاس کافی رقم نہ تھی کہ خدمت عالیہ میں مناسب نذرانہ پیش کرتا۔ اس لئے جذبۂ محبت و عقیدت سے دو آنہ کے پتاشے ہی لے کر حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور نماز عصر کے بعد پیش کردیئے۔ حضور اقدسؑ نے بڑی مسرت سے انہیں قبول فرمایا اور ایک خادم کے ذریعہ اندرون خانہ بھجوا دیئے۔

(حیات قدسی صفحہ 72)

پس فدائیت کے لئے بہت مالدار ہونا، عمر میں زیادہ ہونا یا خوبصورت لباس کو زیب تن کئے ہونا ضروری نہیں بلکہ اخلاص و وفا میں بڑھے ہونا اور باأدب ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ کے دو آنے کے پتاشوں کو بھی حضور نے نہایت مسرت سے قبول فرمایا اور آپ کے اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

حرف آخر

آج ہم بھی اپنی جوانی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ جس میں رجوع الیٰ اللہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت مقبول ہوتا ہے اور پیغمبروں کا شیوہ جانا جاتا ہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کےتحت ہمیں اپنی روحانی صلاحیتوں کو بڑھانے اور جماعت کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کا ایک زریں موقع مہیا ہے۔ ہمارا خدام الاحمدیہ کا عہد بھی اس بات تقاضا کرتا ہے کہ ہم ہر وقت ہر قربانی کے لئے تیار رہیں اور بوقت ضرورت اپنی قربانیاں پیش کرتے رہیں۔ جیسا کہ عہد کے الفاظ ہیں کہ ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ دینی، قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا۔ اسی طرح خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہوں گا اور خلیفہٴ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا‘‘۔ (ان شاء اللہ)

(لائحہ عمل مجلس خدام الاحمدیہ صفحہ1)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’جب ہم حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو ان کی نیک فطرت، ان کی صداقت کی پہچان کے لئے تڑپ، ان کی جان مال قربان کرنے کے لئےتڑپ اور کوشش اور ان کے حضرت مسیح موعودؑ سے عشق و محبت کے اپنے اپنے ذوق اور سمجھ کے مطابق معیار اور اس کا اظہار نظر آتا ہے۔ غرضیکہ یہ وہ آخرین تھے جو پہلوں سے ملنے کے لئے اپنے اپنے رنگ میں حق ادا کرنے والے بننے کےلئے کوشش کرنے والے تھے۔ ہر ایک کا اپنا انداز تھا اور ان کو دیکھنے والوں اور ان سے قریبی تعلق والوں نے بھی ان صحابہ کے ہر انداز اور اخلاق و کردار سے اپنے اپنے رنگ میں نصیحت حاصل کی یا بعض باتوں سے نتائج أخذ کئے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 7 اگست 2015۔روزنامہ الفضل 22 ستمبر 2015 صفحہ2)

’’رفقاء حضرت مسیح موعود کی روایات ہماری نسلوں کیلئے نصیحت اور بعض مسائل کا حل پیش کرنے والی ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18 ستمبر2015۔روزنامہ الفضل 22 ستمبر 2015 صفحہ2)

خاکسار نے مندرجہ بالا مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے خدام صحابہ کے جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے چند واقعات بیان کئے ہیں۔ تاریخ احمدیت ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ واقعات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان باتوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابن زاہد شیخ)

پچھلا پڑھیں

خدام الاحمدیہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2022