نوروں نہلایا وہ خود بھی نور ہوا
آنکھوں کی ٹھنڈک مرزا مسرور ہوا
صبحِ نَو کی ایک نئی تعبیر ہوئی
آخرِ شب جو اِک بندۂ منظور ہوا
اِک جلوے نے سارا عالم اوڑھ لیا
بیت الفضل ہی گویا کوہِ طور ہوا
دشمن کا ہر حربہ ٹوٹا اور اپنی
وحدت کا سِکہ بیٹھا مشہور ہوا
اس کا باطن عکسِ غلامِ احمد ہے
ظاہر میں تو وہ ابنِ منصور ہوا
طاہر سے بچھڑا تو بوجھل بوجھل تھا
پایا جب مسرور تو من مسرور ہوا
مت بھولو، ہم آن ملیں گے متوالو!
ہجر بھی تو دنیا کا اِک دستور ہوا
جب سے مانگا عارف اس کو سجدوں میں
لطف عبادت کا تب سے بھر پور ہوا
(عبدالسلام عارف)