• 16 اپریل, 2024

پہلی شرط بیعت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پہلی شرط جو بیعت کرنے والا کرتا ہے، احمدیت میں شامل ہونے والا کرتا ہے، جس پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو، شرک سے مجتنب رہے گا۔‘‘ شرک سے بچتا رہے گا۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خداتعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے۔ ان سب صورتوں میں وہ خداتعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے۔ بت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے اور ان پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل‘‘ (کوئی بات، کوئی چیز، کوئی عمل) ’’جس کو وہ عظمت دی جائے جو خداتعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بُت ہے……۔ یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزّہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعِز اور مُذِل خیال نہ کرنا۔‘‘ (یعنی کوئی ایسا شخص خیال نہ کرنا جو عزت دینے والا ہے یا ذلیل کرنے والا ہے بلکہ یہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ ہی عزتیں دیتا ہے اور ذلت دیتا ہے) ’’کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا۔ اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلل اسی سے خاص کرنا۔ اپنی امیدیں اسی سے خاص کرنا۔‘‘ (اُسی سے وابستہ رکھنا) ’’اپنا خوف اسی سے خاص کرنا۔ پس کوئی توحید بغیر ان تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی۔‘‘ (وہ کون سی تین قسم کی خاص باتیں ہیں۔ فرمایا) ’’اوّل ذات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ اس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا‘‘ (جو کچھ بھی دنیا میں موجود ہے اُس کی کوئی حیثیت نہیں) ’’تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا۔‘‘ (ہر چیز جو ہے وہ ہلاک ہونے والی ہے اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی، ختم ہونے والی ہے اور اُس کی کوئی حقیقت نہیں، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں سب جھوٹ ہے)۔ ’’دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری کسی میں قرار نہ دینا‘‘ (کہ ربّ صرف ہمارا خدا ہے وہی ہمارا پالنے والا ہے اور وہی ہے جس کو خدائی طاقت حاصل ہے جو تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور منبع ہے)۔ فرمایا ’’اور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رساں نظر آتے ہیں‘‘ (یہ مختلف قسم کے جو پالنے والے نظر آتے ہیں یا جن سے ہم فائدہ اُٹھاتے ہیں) ’’یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا‘‘ (یہ سب لوگ بھی، جن سے ہمیں فائدہ دنیا میں مل رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہی مل رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے نظام کا ایک حصہ ہیں)۔ ’’تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خداتعالیٰ کا شریک نہ گرداننا۔ اور اسی میں کھوئے جانا۔‘‘ (یعنی عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی کرنا۔)

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کاجواب، روحانی خزائن جلد12 صفحہ349-350)

(خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

کرونا وائرس سے حفاظت اور سادگی اپنانے کی ضرورت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 ستمبر 2021