• 27 جولائی, 2025

پَور پَور گواہی دے گی

حَتّٰۤی اِذَا مَا جَآءُوۡہَا شَہِدَ عَلَیۡہِمۡ سَمۡعُہُمۡ وَ اَبۡصَارُہُمۡ وَ جُلُوۡدُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۱﴾

(حٰمٓ سجدہ: 21)

یہاں تک کہ جب وہ اُس (آگ) تک پہنچیں گے اُن کے کان اور اُن کی آنکھیں اور اُن کے چمڑے اُن کے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کیسے کیسے عمل کیا کرتے تھے۔

قرآن کریم جا بجا تنبیہ کرتا ہے کہ بروز حشر تمھارے لیے کوئی جائے مفر نہ ہوگا۔ ہر انسان کے سامنے اس کا نامہ اعمال ہوگا جس پر وہ خود اپنے خلاف ہی گواہ ہوگا۔ متعدد احادیث بھی اس امر کی توثیق کرتی ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے اور فرمانے لگے، جانتے ہو میں کیوں ہنسا؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا؟ اللہ فرمائے گا ’’ہاں‘‘۔ تو یہ کہے گا، بس آج جو گواہ میں سچا مانوں، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے۔ اور وہ گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں۔ اللہ فرمائے گا، ’’اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ رہ‘‘، اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں گے۔ اس وقت بندہ کہے گا، تم غارت ہو جاؤ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو میں لڑ جھگڑ رہا تھا۔

(صحیح مسلم)

یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے جس نے ایسا اسلوب اختیار کیا ہے کہ مادی ترقی کے اس دور میں آج ہم ان رموز کو سمجھنے کے قابل ہو گئے ہیں جنہیں ماضی میں سمجھ پانا کافی مشکل تھا۔ قرآن بار بار غور و فکر و تدبر کی تلقین کرتا ہے اور مرور زمانہ اپنے معنی تدبر کرنے والوں پر عیاں کرتا ہے۔ یہ ایک بحر بیکراں ہے جس میں غوطہ زن ہونے والا بقدر فہم علم و حکمت کے خزانوں سے فیض پاتا ہے۔

قرآنی تعلیمات اوامر و نواہی سے پر ہیں،اطاعت گزاروں، نیکوکاروں کو خوشخبریاں دیتا ہے اور سرکشوں کو خبردار کرتا ہے کہ تمہارے لیے کوئی جائے مفر نہیں خواہ تم کتنی بھی کوشش کرو ۔ تمہاری پور پور تمہارے خلاف خود گواہی دے گی۔ عام مشاہدہ ہے کہ انسان اپنے بچاؤ کی تدبیر میں ہر ممکن حد تک جاتا اور ہرحربہ استعمال کرتا ہے۔ سوائے متقی کے جو اپنی نا سپاسی کا معترف ہو اور اپنے معاصی کا اقرار کر لے۔ تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عادی مجرم کیسے اپنے خلاف خود گواہ بن سکتا ہے؟

اس امر کی طرف توجہ تب پیدا ہوئی جب ایک دن موبائل کی اسکرین پر نوٹفکیشن جگمگایا۔ مجھے آگاہ کیا گیا کہ میں اس کی بورڈ پر لکھنے کے لیے پچاس ہزار بار اس کے بٹن دبا چکا ہوں جنہیں اس کی بورڈ نے اپنی یادداشت (memory) میں محفوظ کر لیا ہے۔ یہ پانچ ایم بی کا چھوٹا سا سافٹ ویئر سارا حساب کتاب رکھ رہا تھا۔ یہی نہیں موبائل میں موجود دیگر تمام چھوٹی چھوٹی ایپلی کیشنز اور سافٹ ویئر موبائل کی تصاویر گیلری ، فون کے کیمرہ ، مائکروفون، تمام رابطہ نمبر سمیت ہر چیز ان چھوٹے چھوٹے سافٹ ویئر کی دستریں میں ہیں۔ میرے تمام ای میل جو میں ٹائپ کر چکا ہوں، ان کے تمام پاس ورڈ، تمام بینکنگ ایپلی کیشن اور ان سے ہونے والی تمام ٹرانزیکشنز، میں کون کون سے الفاظ استعال کرتا رہا ہوں، کس کس سے ان بکس میں کیا کیا باتیں کر چکا ہوں، کس کس جگہ پر گیا ہوں اور میں نے کیا کیا باتیں کی ہیں، اور کیا کچھ آن لائن خریدا ہے اور اپنے موبائل سے کیا کچھ سرچ کر چکا ہوں۔ یہ بے وقعت سے چھوٹے سے سافٹ ویئر میرے موبائل پر ہونے والے ہر عمل کے گواہ ہیں اور مکمل حساب کتاب رکھتے ہیں۔

بعینہ ایسا ہی حساب کتاب رکھنے والا اور اس سے کئی گنا پیچیدہ سافٹ ویئر انسان کے اندر بھی ہے جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ ڈی این اے یعنی ’’ڈی آکسی رائبو نیوکلک ایسڈ‘‘۔ ہمارا جسم 37 ٹرلین (37,000,000,000,000) خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ہر خلیہ ایک مالیکیول پر مشتمل ہوتا ہے جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے۔ ڈی این اے کسی بھی انسان کا وہ جینیاتی کوڈ ہے جس کے ذریعے انسان کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ایک ڈی این اے میں انسان کی ظاہری شکل و صورت، اس کی زندگی اور شناخت سمیت معلومات کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے کہ انسانی عقل اب تک ڈی این اے میں موجود تمام معلومات کا احاطہ نہیں کر پائی۔

ایک ڈی این اے میں موجود معلومات کا ذخیرہ کتنا بڑا ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ذیل میں دیے گئے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ پورے انسانی وجود کے محض ایک خلیے کے ڈی این اے کو اگر لمبائی میں لکھیں تو 6 فٹ تک ہوگی۔ اگر انسانی جسم کے تمام خلیوں میں موجود ڈی این اے کو جوڑا جائے تو اس کی لمبائی 100 بلین میل تک پہنچ جائے گی۔ یہ فاصلہ اتنا ہے کہ ہم 14 بار اپنے پورے سولر سسٹم سے باہر نکل سکتے ہیں۔ یا پھر 600 بار زمین سے سورج تک کا سفر کر سکتے ہیں۔ ایک انسانی جینم 20000 جینز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ جینز ہمارے ڈی این اے کا 1 سے 2 فیصد ہوتے ہیں۔ باقی کا 98 فیصد سائنسدانوں کے نزدیک Non Coded DNA ہے ۔ مزید یہ کہ ابھی تک ہم صرف 20 فیصد ڈی این اے اور اس میں موجود معلومات کے بارے میں ہی جان پائے ہیں۔

انسانی ڈی این اے میں معلومات کا ذخیرہ اس قدر زیادہ ہے کہ ایک گرام ڈی این اے میں 700 ٹیرابٹ (TB) تک ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ ایک ٹیرابٹ ایک ہزار جی بی (GB) کے برابر ہوتا ہے۔ اب تک بنائے جانے والے سمارٹ فون میں زیادہ سے زیادہ 512 جی بی تک ڈیٹا محفوظ کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔

ایک گرام ڈی این اے میں کتنا ڈیٹا ہو سکتا ہے اسے یوں سمجھ لیں کہ 358000 گھنٹوں پر مشتمل ایچ ڈی وڈیوز اس میں آرام سے سما سکتی ہیں۔ اور یہ صرف ایک گرام ڈی این اے کی بات ہو رہی ہے جبکہ ایک انسانی جسم میں 50 گرام تک ڈی این اے ہوتا ہے۔ اب 700 کو 50 سے ضرب دے لیں حاصل جواب انسانی ڈی این اے کا کل حجم ہوگا، یعنی 35000 ٹیرابٹ۔انسانی جینم ڈی این اے کا ایک مکمل سلسلہ ہوتا ہے جس کی تعداد تین ملین جوڑوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ اگر ان کوڈز کو لکھنے بیٹھیں اور بنا رکے ہر منٹ میں 60 الفاظ ٹائپ کریں تو تمام کوڈز لکھنے میں 95 سال لگ جائیں گے۔

ہمارے جسم کے ایک خلیے کو اپنی کاپی بنانے میں 8 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ قدرت کی صناعی دیکھیے کہ اتنا پیچیدہ اور مفصل ہونے کے باوجود ہر شخص کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے انسانی جسم کے کسی بھی عضو مثلا ہڈی ، ہڈی کے گودے ، ناخن حتی کہ بال تک سے بھی نمونہ حاصل کرکے اس کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک شخص جو مر کھپ کر مٹی ہو چکا ہو اس کی باقیات سے ڈی این اے کا نمونہ حاصل کرکے اس کے بارے میں یہ جانا جا سکتا ہے کہ اس کی جنس کیا تھی، اس کے بالوں اور آنکھوں کا رنگ کیسا تھا ، جسمانی ساخت کیا تھی، اسے کون کون سی بیماریاں لاحق تھیں وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ سائنسدانوں کے مطابق ڈی این اے کی مدد سے مرنے والے شخص کی ہو بہو تصویر بھی بنائی جا سکتی ہے۔ کسی زندہ شخص کے ڈی این اے سے اس کے خاندان کا پتہ لگایا جا سکتا ہے، اسے کون سی بیماری ہے یا کون سی بیماری ہونے کا امکان ہے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ڈی این اے کے ذریعے اس بات کی بھی پیشن گوئی کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ شخص کی موت کس بیماری سے ہوگی۔ کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اگلے پیدا ہونے والے بچے میں وہ بیماری ہوگی یا نہیں۔

اب تک بنائی گئی جدید اور محفوظ ترین ہارڈ ڈرائیو میں سے بھی ڈیٹا کے ضائع ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں، لیکن ایک ڈی این اے میں موجود معلومات صدیوں تک ہر قسم کے موسمی تغیرات کے باوجود محفوظ رہ سکتی ہیں۔ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے سوائے جڑواں بچوں کے۔ کیونکہ ان کی پیدائش ایک ہی اسپرم اور بیضے سے ہوتی ہے۔ والدین، اولاد اور بہن بھائیوں کے ڈی این اے میں ایک خاص مشابہت ہوتی ہے جو کسی دوسرے انسان کے ساتھ نہیں پائی جاتی۔ اسے تیکنیکی اصطلاح میں ’’ڈی این اے فنگر پرنٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ڈی این اے کی اس خصوصیت کو بچوں کے والدین کی شناخت ، حادثات اور مجرموں کی پہچان میں استعمال کیا جاتا ہے۔

انسانی جسم کا آغاز صرف ایک خلیے زائیگوٹ سے ہوتا ہے۔ جو ماں اور باپ کی طرف سے آنے والے ایک ایک سپرم اور بیضے (Sperm & Egg) کے مدغم ہونے سے بنتا ہے۔ یہ زائیگوٹ تقسیم در تقسیم ہو کر کھربوں خلیوں پر مشتمل ایک انسان بناتا ہے۔ خلیے کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ڈی این اے بھی کاپی (Replicate) ہو کر ہر نئے بننے والے خلیے میں چلا جاتا ہے ۔ ڈی این اے کی کاپی تیار کرنے کا یہ نظام اتنا پیچیدہ اور حیرت انگیز ہے کہ عام حالات میں کاپیاں تیار کرتے ہوئے اربوں مالیکیولز میں سے ایک کی ترتیب بھی خراب نہیں ہوتی ۔ کسی چھوٹی سی بھی غلطی کا نتیجہ خطرناک بیماری ، معذوری یا جسمانی اعضاء کی تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے۔

بروز حشراعضاء کس طرح گواہی دیں گے اس کا ایک چھوٹا سا عملی نمونہ ہم اپنی زندگی میں تب دیکھتے ہیں جب کسی ملزم کو ڈی این اے کی گواہی کی بناء پر عدالت مجرم قرار دے کر سزادیتی ہے۔

ڈی این اے ایک نہایت ہی وسیع اور ٹیکنیکل موضوع ہے جس کا احاطہ چند صفحات پر کرنا ممکن نہیں۔ یہ معلومات نہایت اختصار کے ساتھ سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ حضرتِ انسان اب تک صرف 20 فیصد ڈی این اے کو ہی سمجھ پایا ہے، باقی کے 80 فیصد ڈی این اے میں خالق کائنات نے کون کون سے اسرار و رموز رقم کر رکھے ہیں یہ ابھی ہم نہیں جانتے۔ انسان کا بنایا چھوٹا سا سافٹ ویئر اگر اس کا حساب کتاب رکھ سکتا ہے تو پوری کائنات کے خالق کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی مخلوق سے خود اس کی زبان کو اسی کے خلاف گواہ بنا دے۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ۔

(ابو حمزہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ