• 29 مارچ, 2024

پولینڈ کا تاریخی سفر (قسط دوم)

پولینڈ کا تاریخی سفر
سفرنامہ (25اپریل تا 30اپریل 2010ء)
(قسط دوم)

وارسا (جس کو پولش میں وارشا کہتے ہیں) سے پولینڈ کے اس دوسرے نمبر کے بڑے شہر KARAKOW (جو ایک وقت ملک کا دارلحکومت بھی رہا ہےاور اب بھی سیاسی اور ثقافتی اہمیت کی وجہ سے بہت معروف ہے) تک آتے ہوئے راستہ میں، میں نے منیر منور صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے اس سفر میں یہ خاص بات نوٹ کی ہے کہ بیلجئم سے لے کر سارے جرمنی میں برلین تک اور بعد ازاں وارسا تک علاقہ ہموار رہا۔ معمولی نشیب و فراز تو آئے لیکن کوئی پہاڑ نظر نہیں آیا۔ واقعی یہ عجیب بات تھی۔ اس با ت کا ذکر ہوا تو اس کے بعد فوراً ہی ہم نے زیادہ نشیب و فراز والا علاقہ دیکھ لیا جو پہاڑوں یا سطح مرتفع جیسا تو تھا لیکن پوری طرح نمایاں پہاڑ نہ تھے۔ لیکن بتایا گیا کہ KARAKOW کے قریب ایک خوبصورت علاقہ ہے جو ایک خوبصوت Hill Station ہے وہ سارا پہاڑی علاقہ ہے جو پاکستان کے مری کی طرح ہے۔ اس سفر میں چونکہ مصروفیات بہت تھیں اور آج کا دن خاص طور پر بہت مصروف تھااس لئے اس جگہ جانے کی کوئی صورت ممکن نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پھر کبھی موقعہ بن سکے گا وَبِا للّٰہِ التَّوْفِیْق۔

آج KARAKOW آتے ہوئے ابتداء میں موسم قدرے سرد تھا۔ کچھ وقت بارش بھی ہوئی لیکن بعد میں موسم کھل گیا بلکہ گرمی بھی محسوس ہونے لگی۔ سڑک کے ساتھ دائیں بائیں کا علاقہ اچھا سرسبز تھا۔

دوپہر کے کھانے کے لئے یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر Dr. KONARD ہمیں لینے کے لئے کار پارک میں آگئے۔ ان کے ساتھ (مختصر بات چیت کے بعد) یونیورسٹی آگئے۔اس یونیورسٹی کا نام TISCHNER یونیورسٹی ہے اس کے شعبہ Peace and development studies میں لیکچر کا پروگرام ہے۔ اس شعبہ کے لیکچر ہال میں چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ یونیورسٹی پانچ سال پرانی ہے۔ جماعت کے دوستوں نے اجلاس کی تیاری کی۔ مہمانوں کے لئے لٹریچر کے پیکٹ تھلیوں میں ڈال کر لائے ہوئے تھے۔ بڑے انفارمل انداز میں لیکچر ہوا۔

وقت مقررہ پر پروفیسر مذکور نے پروگرام کا اور میرا تعارف کروایا اور اس کے بعد تلاوت قرآن کریم مکرم منیر منور صاحب نے کی۔ ترجمہ احمدی شامی دوست محمود صاحب نے پڑھا۔ اس کے بعد میں نے 40 منٹ تک انگریزی میں تقریر کی۔ تشہد و تعوذ اور بسم اللہ کے بعد سلام کہا۔ پھر پولینڈ میں ہونے والے درد ناک حادثہ پر پولش لوگوں سے تعزیت کی۔ یہ حادثہ 10 اپریل کو ہوا جس میں ملک کے صدر اور ان کی بیگم اور 94 اور سینئرحکومتی عمائدین سب اس حادثہ کی نذر ہو گئےتھے۔ (اس تعزیت کے ذکر کا سامعین پر بہت اچھا اثر ہوا)

تقریر میں نے لکھی ہوئی تھی اور جماعت کو پہلے سے بھجوا دی گئی تھی اس کا پولش ترجمہ جماعت نے تیار کر لیا تھا۔ اس کی ایک ایک کاپی سب حاضرین کو تقریب کے آخر میں لٹریچر کے تھیلہ میں ڈال کر دی گئی۔ تقریر میں نے پڑھ کر کی اور وقت پر مکمل ہو گئی (میں نے اپنے ذاتی چھوٹے ریکارڈ ز پر اسے اپنے لئے ریکارڈ بھی کر لیا ہے) تقریر کے بعد 50 منٹ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ اچھے عمدہ سوالات ہوئے اور حاضرین نے ساری کاروائی کو بہت توجہ سے سنا۔حاضرین یعنی مہمانوں کی تعداد 22 تھی جبکہ جماعت کے بھی قریباً دس افراد تھے۔ مہمانوں نے بعد میں بھی بعض احمدی احباب اور خواتین سے سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح الحمدللہ کہ یہ تقریب اچھی کامیاب رہی۔ سب مہمانوں کو لٹریچر دیا گیا۔ ڈاکٹر کونراڈ نے تقریب کے آخر میں جماعت کا شکریہ ادا کیااور اچھے تاثرات کا اظہار کیا۔اس تقریب سے فارغ ہونے کے بعد شام 7 بجے کے قریب ہم نے اس یونیورسٹی کے پروفیسر کو اپنے ساتھ شام کے کھانے کی دعوت دی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ ہمارے ساتھ آئے۔ پہلے ہم نے شہر کی کارمیں چلتے چلتے کچھ سیر کی ۔ اس کے آخرمیں وہ محل بھی دیکھا جس میں ملک کے بادشاہوں کے مزار بھی بنائے گئے ہیں اور جہاں پر چند روز قبل ملک کے صدر اوراہلیہ کو بھی دفن کیا گیا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ قبروں والا حصہ بند ہونے میں صرف چند منٹ باقی ہیں اس لئے ہم نے جلدی جلدی جا کر ان قبروں کو بھی دیکھ لیا۔ بہت لوگ آئے ہوئے تھے۔

اس کے بعد ہم ایک انڈین ہوٹل میں گئے جہاں کھانے کی بکنگ کروائی گئی تھی۔ یہ کافی دور تھا۔ وہاں جا کر کھانے کے انتخاب میں اور کھانے کی تیاری اورپھر کھانے میں کافی وقت لگ گیا۔ لیکن اصل مقصد اس پروفیسر سے بات چیت اور تعلقات کا استوار کرنا تھا۔ اس لحاظ سے اگرچہ اس کھانے میں بہت وقت لگا لیکن بات چیت کے لحاظ سے ملاقات بہت مفید رہی۔ رات 10 بجے کے بعد ہم فارغ ہوئے اور پھر واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔

واپسی کا سفر بہت لمبا لگا کیونکہ سارے دن کے سفراور پروگرام کی وجہ سے تھکان خوب ہو گئی تھی۔ واپسی پر میں سلیم جابی صاحب کے بیٹے وسیم جابی صاحب کی کار میں تھا۔ ساتھ محمود صاحب اور سلیم صاحب سے لٹریچر کی تیاری کے سلسلہ میں بات چیت ہوتی رہی۔ انہوں نے سارا راستہ بہت ہمت سے گاڑی چلائی۔ لمبا سفر تھا۔ راستہ میں ایک جگہ کار روک کرکار میں بیٹھے بیٹھے نماز مغر ب و عشاء با جماعت ادا کیں (دوپہر کو اسی طرح ہم نے کار میں بیٹھے بیٹھے ظہر و عصر کی نمازیں بھی با جماعت ادا کی تھیں) نیز گرم گرم کافی پی۔

میں کافی دیر وسیم صاحب سے بات چیت میں مصروف رہا۔ اس کے بعد گہری نیند آ رہی تھی اس لئے میں نے کچھ وقت کے لئے نیند بھی کر لی۔ میرا خیال ہے کہ کم از کم ایک گھنٹہ یا اس سے کچھ زائد نیند کی ہوگی۔ بالآخر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے رات کے تین بجے خیریت سے وارسا مشن ہاؤس پہنچ گئے۔ الحمد للہ۔

سفر کی بہت تھکان تھی لیکن یہ سوچا کہ اب سونے کا وقت نہیں ہے اس لئے وضو کر کے دو نفل اور تین وتر ادا کئے۔ اتنے میں 3:50 پر فجر کی آذان کا وقت ہو گیا۔ زبیر خلیل صاحب نے آذان دی اور میں نے نماز فجر گراؤنڈ فلور پر مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد ایک گلاس گرم دودھ کا پیا اور اس کے بعد آرام کرنے کے لئے لیٹ گیا۔ ساڑھے 4 بج گئے تھے۔ اس کے بعد گہری نیند آئی اور صبح ساڑھے 9 بجے بیدار ہوا۔

28 اپریل2010ء بدھ

رات الحمد للہ کہ آرام کا اچھا موقع مل گیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ نماز فجر کے بعد سونے کی اچھی صورت بن گئی۔ بیدار ہونے پر تھکان نہیں تھی۔ کچھ دیر کے بعد ناشتہ کیا۔

وارسا سے لندن واپسی کے لئے برٹش ائر کی فلائٹ پر میری سیٹ بک ہوئی تھی اس کی کنفرمیشن کے سلسلہ میں بذریعہ فون ان سے رابطہ میں بہت دقت پیش آرہی تھی کیونکہ وہاں کوئی موجود نہ ہوتا تھا۔آج صبح بڑی مشکل سے ایک کارکن سے زبیر خلیل صاحب کی بات ہوئی تو اس نے کچھ الجھن کا اظہار کیا۔ اس پر یہی فیصلہ کیا گیا کہ ائرپورٹ جا کر برٹش ائرویز کے دفتر سے براہ راست بات کی جائے۔ چنانچہ میں مکرم محمد منیر منور صاحب ( امیر آسٹریا۔ پولینڈ۔ چیک ریپبلک) کے ساتھ ائرپورٹ گیا۔ فکر مندی تھی کہ اس کام میں کوئی روک پیدا نہ ہو۔ دعائیں کرتےہوا گیا۔ ائرپورٹ پہنچ گئے۔ بہت اچھی اور خوصورت عمارت ہے۔ ہم سیدھے BA کے دفتر گئے۔ کاؤنٹر پر کوئی کارکن نہ تھا۔ ایک اور مسافر بھی وہاں انتظار میں تھا۔ اس سے بات چیت ہوتی رہی۔ کافی انتظار کیا۔ پھر ساتھ والے کاؤنٹر سے بات کی تو اس نے اچھا مشورہ دیا کہ ڈیسک پردستک دی جائے۔ چنانچہ یہ طریقہ اختیار کیا تو کاؤنٹر کے پچھلے حصہ سے ایک کارکن خاتون آئی۔ اس سے ہم نے بات کی۔ الحمد للہ یہ کام ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نے ہمیں کمپیوٹر سے سیٹ کنفرمیشن کا نوٹ پرنٹ کردیا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ اس طرح ساری فکر مندی دور ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکرادا کرتے ہوئے ہم واپس مشن ہاؤس آگئے۔

واپس آکر ہم نے نمازیں ادا کیں۔ کھانا کھایا جو ایک پولش احمدی خاتون اور ان کے میاں ڈاکٹر اعجاز صاحب نے بنایا تھا۔بہت عمدہ اور مزیدار کھانا تھا۔ اس کے بعد آج کے پروگرام کے سلسلہ میں، میں نے تقریرپر ایک نظر کی۔ تیاری کی اور باقی دوستوں کے ساتھ کاروں میں روانگی ہوئی۔

آج کی تقرب شہر کے مرکزی علاقہ میں ایک ہوٹل کے ہال میں منعقد ہوئی۔ ہوٹل کا نام Walling Rou ہوٹل تھا۔ اس کا نچلا حصہ اس تقریب کے لئے ریزرو کر دیا گیا تھا۔ اس میں بڑے قرینہ سے ہال کو سیٹ کیا گیا۔ دو ڈبوں کو اوپر نیچے رکھ کر ہوٹل والوں نے ڈائس بھی بنا دیا لیکن یہ میرے قد کے لحاظ سے ذرا اونچا بن گیا اور اس طرح پڑھنے میں کچھ دقت کا خیال تھا۔ اس کو نیچا کرناممکن نہ تھا تو اس کا علاج اس طرح کیا کہ پاؤں کے نیچے ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم لا کر رکھ دیا گیا۔ اس سے یہ سارا مسئلہ حل ہو گیا۔ مجھے یاد آیا کہ جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر بھی ہم اس طرح کا انتظام کیا کرتے تھے کہ سب لوگوں کے لئے سہولت کی صورت پیدا ہو جائے۔

اس تقریب میں بھی (کل کی طرح) جماعت کے قریباً سب احباب اور خواتین نے شرکت کی۔ یہ بات جماعت کی علمی ترقی اور تربیتی بہتری کے لئے مفید ہوتی ہے۔ اس جگہ میں احباب جماعت پولینڈ کا مختصر ذکر بھی کر دیتا ہوں۔ امیر و مبلغ انچارج مکرم مولانا محمد منیر احمد منور صاحب ہیں جو آسٹریا میں رہائش رکھتے ہیں۔ مقامی طورپر جماعت کے اعزازی مبلغ اور واقف زندگی مکرم زبیر خلیل خان صاحب جو فروری 2010ء سے یہاں آئے ہوئے ہیں اور جن کے آنے سےیہاں کی جماعت اللہ تعالیٰ کےفضل سے بہت بیدار ہے اور ان کی محنت اور کوشش سے جماعت کے کاموں میں بیداری اور بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ ان کی بیگم بھی ان کے ساتھ رہتی ہیں لیکن ان دنوں وہ جرمنی گئی ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور دوست مکرم وسیم جابی صاحب ہیں جو مکرم سلیم جابی صاحب کے بیٹے ہیں۔ یہ بھی مخلص احمدی ہیں اور جماعتی کاموں میں تعاون کرتے ہیں۔ ان کی بیوی ایک پولش خاتون ہیں جو دیندار اور سمجھ دار ہیں۔ یہ ان دنوں لجنہ کی صدر ہیں۔ (ضمناً ذکر کر دوں کہ ان دونوں میاں بیوی نے مل کر میری اس تقریر کا پولش زبان میں ترجمہ کیا ہے اوریہ ترجمہ جو خوبصورت ٹائپ پر تیار کیا گیا ہے اس کی ایک کاپی ہماری تقاریب میں آنے پر مہمان کو دیگر لٹریچر کے تحفہ کے ساتھ دی جارہی ہے نیز مقامی جماعت کی ویب سائٹ پر بھی ڈالی جائے گی۔) ایک اور دوست ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب جو روسی زبان بہت اچھی جانتے ہیں علاوہ ازیں پولش زبان بھی سیکھ گئے ہیں۔ یہ جماعت کے کاموں میں خوب تعاون کرنے والے ہیں۔ان کی بیوی پولش خاتون ہیں۔ وہ بھی کام میں میاں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ کھانا اچھا بناتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور دوست مکرم عطاء الرحمٰن صاحب ہیں۔ یہ بھی مخلص دوست ہیں۔ جماعت کے کاموں میں مدد کرتے ہیں ان کی شادی بھی ایک پولش خاتون سے ہوئی ہے۔ ایک اور شامی دوست محمود احمد صاحب ہیں جو وسیم جابی صاحب کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کی بیوی بھی پولش ہیں۔ ان کا ایک بچہ سالم ہے۔ یہ دوست محمود صاحب بھی بہت مخلص ہیں اور تبلیغ کا جذبہ رکھتے ہیں۔

یہ سب دوست جن کا میں نے ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کی تبلیغی تقریب میں شامل تھے۔ تقریب کا آغاز 5 بجے ہوا۔ تقریب کی صدارت کے لئے یونیورسٹی کے ایک پروفیسر DR. MAREK کو کہا گیا تھا جن سے جماعت کی پرانی واقفیت ہے۔ وہ مکرم منیر احمد منور صاحب کو پولش زبان پڑھاتے رہے ہیں۔ جماعت سے کافی واقف ہیں۔ انگریزی اچھی جانتے ہیں۔ ان کی کلاس کے 12 طلبہ بھی اس اجلاس میں شمولیت کے لئے بڑے شوق سے آئے اور بڑی توجہ سے انہوں نے ساری کاروائی کو سنا۔تلاوت اور ترجمہ کے بعد پروفیسر مذکور نے میرا مختصر تعارف کرادیا اس کے بعد میں نے 40 منٹ تعارف اسلام اور احمدیت کے بارہ میں تقریر کی جس میں عام طور پر اسلام کے بارہ میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا۔ جماعت کا مختصر لیکن جامع تعارف بھی تھا۔ الحمد للہ کے سب نے بہت توجہ سے تقریر سنی۔

اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جو قریباً 40 منٹ جاری رہا۔ سوالات محدود تھے لیکن بہت اچھے اور سنجیدہ سوالات تھے جن کے تفصیلی جواب دینے کا موقع ملا۔ سب حاضرین کو جماعتی لٹریچر بھی دیا گیا۔ تقریب میں مہمانوں کی تعداد (جو سب پولش تھے) 13 تھی۔ اگرچہ تعدداد بہت زیادہ نہ تھی لیکن سب نے کمال دلچسپی اور توجہ سے سب باتوں کو سنا۔ یہ سب یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی سے متعلق تھے اس لئے ان کو انگریزی میں کوئی روک یا دقت نہ تھی۔

آخر میں شکریہ اور دعا ہوئی۔ اس سے قبل پروفیسر مذکور نے جو صدارت کر رہے تھے اس عاجز کی تقریر کے بارہ میں بہت اچھی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے پر مغز اور بہت مفید قرار دیا۔

تقریب کے آخر میں سب مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ اس دوران بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ میں نے پروفیسر صاحب کو لندن آنے کی دعوت دی۔

کھانے کے آخر میں ایک جرنلسٹ خاتون سے انٹرویو ہوا۔ اس نےمتعدد سوالات پوچھے جن کے جوابات دئیے گئے۔ اس خاتون کو مقامی صدر لجنہ نے مدعو کیا تھا۔

الحمد للہ کہ ساری تقریب بہت عمدہ، مفید اور کامیاب رہی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ آگے سے آگےبڑھتا رہے اور تبلیغ کی راہیں کھلتی چلی جائیں۔

اس کے بعد ہم مشن ہاؤس واپس آگئے۔ واپس آتے ہوئے کار میں بیٹھے بیٹھے سٹی سینٹر کے علاقہ کو دیکھنے کا موقع ملا۔ مشن آکر منیر صاحب اور زبیر صاحب کے ساتھ بات چیت ہوئی اور بعض TV پروگرام بھی دیکھے۔ کل کے پروگرام کے بارہ میں مشورہ بھی ہوا۔

29 اپریل جمعرات

صبح سویرے اُٹھے اور نوافل ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اس کے بعد مسجد میں نماز فجر پڑھائی۔ اپنے کمرے میں آکر تلاوت کی۔ ایک سیب کھایا اس کے بعد پونے نو بجے تک آرام کیا۔ خوب اچھی نیند آئی۔ اس دوران فون وغیرہ بھی کوئی نہیں آیا جیسا کہ لندن میں اکثر ہوتا ہے۔ الحمدللہ کہ فریش ہو کر اٹھا اور اب یہ ڈائری مکمل کرنے کے بعد ناشتہ کے لئے جارہا ہوں۔

ناشتہ کے بعد آج کے پروگرام کے لئےروانگی کی تیاری کی۔ کاغذات ٹھیک کرنے کے بعد غسل کیا اور تیاری کی۔ دعا کے ساتھ کمرہ سے روانہ ہوا۔ کار میں بیٹھ کر روانگی سے قبل بھی سب کے ساتھ اجتماعی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آج کے اس تبلیغی پروگرام کو بہت کامیاب کرے اور غیر معمولی تائیدو نصرت کا نشان دکھائے۔آمین۔

ساڑھے گیارہ بجے ہم وارشا یونیورسٹی کے باہر پہنچ گئے۔ وہاں جا کر Faculty of oriental studies کی Dean پروفیسر Jolanta سے رابطہ کیا۔ انہوں نے دفتر میں آنے کا کہا۔ اس پر ہم ان کے دفتر میں گئے۔ ملاقات ہوئی۔ تعارف کے بعد ان کے دفتر میں چائے پی اور مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔

بارہ بجے ہم دفتر سےنکل کر ان کے ساتھ اس بڑے کلاس روم میں آئے جہاں یہ تقریب ہونی تھی ۔ یہ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ ہمارے آنے سے قبل یہ بڑا کمرہ قریباً، قریباً بھرا ہوا تھا۔ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات بڑے شوق سے آ ئے ہوئے تھے۔ چند منٹوں کے بعد پروفیسر صاحبہ نے کاروائی کے آ غاز کا اعلان کیا۔ تلاوت و ترجمہ کے بعد انہوں نے میرا تعارف کروانے کے بعد تقریر کی دعوت دی۔ خاکسار نے تعارف اسلام اور تعارف احمدیت کے موضوع پر 40 منٹ تقریر کی جو غیر معمولی توجہ اور دلچسپی سے سنی گئی ۔ اس کے بعد سوال و جواب کے سلسلہ کا آغاز ہوا ۔ پروفیسر صاحب نے اور طلبہ و طالبات نے متعدد سوالات کیے جو بہت عمدہ تھے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل اور تائید سے ان سوالات کے تفصیلی جوابات دینے کی توفیق دی ۔ بعض بہت گہرے اور علمی سوالات تھے الحمد للہ کہ تسلی بخش جوابات دینے کی توفیق ملی۔ میں نے خود محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خاص مدد اور راہنمائی فرمائی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

اس اجلاس میں 45 سے زائد طلبہ و طالبات نے اور علاوہ ازیں جماعت کے ممبران نے شرکت کی ۔ جس توجہ سے سامعین نے میری تقریر اور سوالات کے جوابات کو سنا وہ بہت نمایاں طور پر غیر معمولی بات تھی دیکھ کر واضح طور پر معلوم ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اس پیغام کو خوب سمجھ رہے تھے اوربعض جوابات سن کر تائید اور اطمینان کے طور پر سر بھی ہلا رہے تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

آخر میں پرو فیسر صاحبہ نے بہت عمدہ الفاظ میں تقریر پر شکریہ ادا کیا اور اس کی تعریف کی۔ جملہ طلبہ کو لٹریچر کا تحفہ ایک بیگ میں ڈال کر دیا گیا۔ اس طرح یہ تقریب عمدگی کے ساتھ مکمل ہوئی سوال و جواب کا دورانیہ 50 منٹ تھا۔

بعد ازاں پروفیسر صاحبہ ہمارے ساتھ ایک قریبی انڈین ہوٹل میں کھا نے کے لئے گئیں۔ کھانے پر ان کے علاوہ مبلغ انچارج منیر صاحب اور مکرم زبیر خلیل صاحب اور خاکسار تھے۔ بہت اچھے، بے تکلف ماحول میں بات چیت ہوتی رہی۔ کھانا بھی عمدہ تھا سب نے بہت شوق سے کھایا۔ اس کے بعد ہم نے پروفیسر صاحبہ کو واپس یونیورسٹی چھوڑا۔

اس کے بعد ہم تینوں وارسا شہر کے بعض علاقوں میں سیر کےلئے گئے۔ ایک خوبصورت پارک کی سیر کی۔ اس میں مور بھی تھے۔ متعدد تصاویر لیں اور پیدل کافی لمبی سیر کی۔ زبیر خلیل صاحب کو واپس یونیورسٹی میں چھوڑا جہاں ان کا ایک سبق تھا پھر ہم دو نوں (میں اور منیر منور صاحب) وارسا شہر کے پرانے حصہ کی سیر کے لئے گئے۔ یہ علاقہ بھی بہت قابل دید ہے۔ پرانے شہر کے آثار پرانی عمارتیں بھی تھیں اور ساتھ ساتھ جدید عمارتیں بھی۔ بہت سے خوش منظر نظارے بھی دیکھے اور متعدد تصاویر لیں۔ شہر میں ایک لائبریری کو بھی باہر سے دیکھا۔ اس کے ساتھ ایک خوبصورت پارک ہے جو عمارت کی چھت پر ہے۔ اس کو دیکھنے گئے لیکن اس کو دیکھنے کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اس وجہ سے وہ نہ دیکھ سکے۔ پارک میں نماز ظہر ادا کی۔ اس کے بعد ایک پولش نوجوان سے اچانک تعارف ہوا اور کچھ دیر تعارفی اور تبلیغی رنگ کی بات چیت ہوئی ان سے زبیر خلیل صاحب کا رابطہ کروایا جائے گا۔

راستہ میں ایک جگہ کافی بھی پی جو بہت مزیدار تھی۔ اس کے بعد شام ساڑھے 7 بجے ہم ایک احمدی دوست کی کھانے کی دکان پر گئے جہاں وہ کام کرتےہیں۔ وہاں شام کا کھا نا کھایا جو کافی ثقیل محسوس ہوا۔ بہر حال ان سے ملاقات ہوگئی۔

اس کے بعد ہم واپس مشن ہاؤس میں آئے۔ ساڑھے 9 بجے پہنچے یہاں پر وسیم جا بی صاحب اور محمود اللہ صاحب اور صدر لجنہ آئے ہوئے تھے۔ ہم سب نے نمازمغرب و عشاء جماعت کے ساتھ ادا کیں۔ میں نے نمازیں پڑھائیں ۔ اس کے بعد جماعتی امور پر کافی دیر بات چیت ہوتی رہی۔ میں نے ایک تقریر میں تین باتوں کی طرف توجہ دلائی۔

  1. نمازوں کا اہتمام اور دعاؤں پر خصوصی توجہ
  2. چندوں کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا
  3. جماعتی کاموں کےلئے وقت دینا۔

آخر میں دعا کروائی۔ اس طرح یہ مجلس برخاست ہوئی۔ الحمدللہ کہ اس گفتگو اور مجلس کا اچھا اثر ہوا۔ وسیم جابی صاحب محمود اللہ صاحب سے الوداعی ملاقات بھی کرلی کیونکہ ان شاءاللہ تعالیٰ کل صبح لندن کے لئے روانگی ہے۔ ان کے جانے کے بعد ہم تینوں نے ایک ایک کپ چائے کا پیا۔ اور کچھ دیر بات چیت ہوئی۔ اس کے بعد اپنے کمرہ میں آکر ڈائری لکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد سونے کا ارادہ ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔

30 اپریل جمعہ

آج کی ڈائری لکھنے سے قبل چند ایک متفرق امور کا ذکر کرتا ہوں۔

پولینڈ کے اس سفر کے دوران میرا قیام جماعت کے مشن ہاؤس میں رہا جو غالباً 1990ء میں خریدا گیا تھا۔ اسکے فرسٹ فلور پر ایک کمرہ میں میرا قیام تھا۔ ساتھ ہی غسل خانہ اور بیت الخلاء تھا جس سے بڑی سہولت رہی الحمدللہ۔

کل کے اجلاس کی صدارت جس خاتون پروفیسر نے کی بتایا گیا تھا کہ اس کا رویہ ابتدائی دنوں میں کچھ ایسا ہمدرد انہ نہ تھا لیکن کل کے پروگرام سے پہلے ملاقات ۔ پھر پروگرام اور پروگرام کے بعد کھانے کے موقع پر بات چیت سے اس کا رویہ بہت بدلہ ہوا تھا ۔ اس نے ایک موقع پر بغیر ہماری طرف سے کسی سوال کےازخودیہ اظہار کیا کہ تقریر میں جو باتیں کہی گئیں ہیں وہ بہت واضح ہیں اور بہت اچھے رنگ میں وضاحت کی گئی ہے۔ الحمد للہ۔

کل بھی اور اس سے قبل پرسوں اور ترسوں کے اجلاس میں ، میں نے اپنی تقاریر میں سلام کا تحفہ پیش کرنے کے بعد ، پولینڈ میں فضائی حادثہ پر پولش قوم سے تعزیت کا اظہار کیا ۔ اس بات کا تینوں جگہ سامعین پر بڑا اچھا اثر ہوا اور انہوں نے اسلام کے بارہ میں نیک تاثر لیا ۔ الحمد للہ۔

کل بعد دوپہرپروگرام کے بعد جب ہم سیر کرر ہے تھے تو ہم نے صدارتی محل کو بھی دور سے دیکھا۔ اس کے سامنے تعزیتی پھول رکھے ہوئے تھے لو گ آجا رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک بڑے پارک کے باہر (جس کی ہم نے سیر کی تھی) صدر مملکت کے جنا زہ سے متعلق بہت بڑی بڑی تصاویر بڑے اہتمام سے اس طرح سجائی گئی تھیں کہ سڑ ک کے کنارے پر چلتے ہوئے لوگ ان کو دیکھ سکیں ۔ یہ اہتمام بہت عمدگی سے کیا گیا تھا۔ اب اس ڈائری کا آ خری ورق لکھتا ہوں۔

صبح جلدی اٹھنے کی توفیق ملی ۔ نوافل ادا کئے۔ اس کے بعد مسجد میں جا کر نماز فجر پڑھائی۔ پھر سفر کی کچھ تیاری کی۔ سامان ٹھیک کر کے پیک کیا۔ پھر ناشتہ کیا ۔ اسکے بعد سفر کی تیا ری مکمل کر کے مشن ہاؤس سے روانہ ہوئے۔ مکرم منیر منور صاحب اور مکرم زبیر خلیل صاحب کار میں مجھے ائیرپورٹ چھوڑنے کے لئے آئے۔ راستہ میں رش نہیں تھا ۔ جلدی ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ فوراً چیک ان کر لیا ۔ صرف ایک سوٹ کیس تھا ۔ ہاتھ میں چند کاغذات رکھے ۔ جلدی اندر آکر ائیرپورٹ پر گھومتا پھرتا رہا۔ وقت کافی تھا ۔ آرام سے ائیرپورٹ دیکھا۔ اس کے بعد بیٹھ کر آج کی یہ ڈائری لکھ رہا ہوں۔ ایسی جگہ بیٹھا ہوں جہاں سے سامنے رن وے نظر آرہا ہے۔ کچھ جہاز گردش میں ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد جہاز اترتا ہے اور ایک روانہ ہو جاتا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں ان شاء اللہ جہاز پر سوار ہوں گا۔ 8:10 پر جہاز کی روانگی ہو گی۔ لندن ہیتھرو آمد کا وقت 9:45 ہے۔ پرواز اڑھائی گھنٹے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ خیریت سے پہنچائے۔ آمین یہ پروگرام اس طرح رکھا ہے کہ میں بروقت جمعہ کے لئے پہنچ سکوں اور حضور انور سے، حضور کے مسجد بیت الفتوح آنے پر سلام اور ملاقات ہو سکے نیز حضور انور کے خطبہ جمعہ کا انگریزی ترجمہ کرنے کی سعادت بھی حاصل ہو جائے۔ آمین۔

الحمد للہ پولینڈ کا یہ میرا پہلا سفر بہت عمدہ رہا۔ تینوں دن بھرپور مصروفیات رہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین

(مولانا عطاءالمجیب راشد۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ