اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡغٰفِرِیۡنَ ﴿۱۵۶﴾ وَ اکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ۔
(الاعراف: 156۔157)
ترجمہ: تُو ہی ہمارا ولی ہے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ اور (اے ہمارے رب) ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنہ لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ یقیناً ہم تیری طرف (توبہ کرتے ہوئے) آگئے ہیں۔
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدا سے رحم وبخشش اور دنیا و آخرت کی حصولِ حسنات کی پیاری دعا ہے۔
اس دعا سے پہلے کی قرآنی آیات میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کی غیر موجودگی میں حضرت ہارون علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کردی۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تو اپنی قوم پر افسوس کیا اور اپنے اور اپنے بھائی کے لئے بخشش کی دعا کی۔پھر اس کے بعدآپؑ نے اپنی قوم کے لئے بھی رحم وبخشش کی دعا ان الفاظ میں کی کہ اے اللہ کیا تو ہمیں اس فعل کی بنا پر جو ہمارے نادانوں سے سرزد ہوا ہلاک کر دے گا۔ اس کے بعد قرآن کریم میں آپؑ کا مذکورہ بالا الفاظ میں رحم وبخشش اور دنیا و آخرت کی حصولِ حسنات کی دعا کرنا مذکور ہے۔
(مرسلہ: مریم رحمٰن)