حیاتِ نورالدینؓ
سوانحی خاکہ حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ
قسط14 حصہ سوم۔ آخری
اس حصہ میں آپؓ کی خلافت (27؍مئی 1908ءتا 14؍مارچ 1914) کے سالوں کے واقعات بیان کئے جارہے ہیں
1908ء مبارک دور خلافت کا آغاز
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی 26 مئی کو لاہور میں وفات ہوئی اور آپ کا جسد اطہر بذریعہ ریل قادیان لے جایا گیا۔ جماعت پر شدید غم کی کیفیت تھی۔27 مئی کو حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ کواللہ نے ویسے ہی کھڑا کیا جیسے آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کیا تھا۔
تمام احباب جماعت کی نظر آپ کی طرف اٹھی کہ آپ ہی بیعت لیں۔ چنانچہ آپؓ نے 27 مئی کو قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر کے طور پر احباب جماعت سے بیعت لی اور اس سے پہلے ایک پرمعارف خطاب بھی ارشاد فرمایا جس میں ایک ہاتھ پر جمع ہونے اور خلیفہ کی اطاعت پر زور تھا۔پھر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
بیت المال کا قیام
دور خلافت اولیٰ کے آغاز میں ہی آپؓ نے بیت المال کا ایک مستقل محکمہ قائم فرمایا۔
قادیان میں پہلی پبلک لائبریری کا قیام
حضرت صاحبزادہ سیدنا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے انجمن تشحیذ الاذہان کے تحت قادیان میں آپؓ کی اجازت سے 1908ء کے وسط میں ایک پبلک لائبریری قائم فرمائی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح نےاپنے پاس سے کتب اور چندہ بھی دیا۔
تمام بیعت کنندگان قادیان میں آئیں اور خلافت سے براہ راست فیض پائیں
حضرت خلیفۃ المسیح کا حکم ہے کہ تمام بیعت کنندگان کے لئے ضروری ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے کچھ نہ کچھ فرصت نکال کر ملاقات کے واسطے سب قادیان آویں۔ کیونکہ اس سے روحانی ترقی ہوتی ہے اور ایمان میں تقویت پیدا ہوتی ہے۔
خوشنویس حضرات کو مرکز میں آکر رہنے کی تحریک
حضور نے یہ تحریک فرمائی تھی کہ خوشنویس حضرات یہاں مرکز میں آکر رہیں تاکہ سلسلہ کے کام بروقت ہوسکیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں دینی مدرسے کے لئے تحریک
حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دل میں خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی یہ تحریک اٹھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی یادگار میں اعلیٰ پیمانے پر ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں واعظین تیار کیے جائیں۔ لہذا حضرت خلیفہ اول ؓکے حکم سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحبؓ، حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ، مولوی محمد علی صاحب نے یہ تحریک پوری جماعت کے سامنے رکھی اور بتایا کے اعلیٰ پیمانہ پر مدرسہ چلانے کے لئے عمدہ مکان اور بہترین لائبریری کا ہونا ضروری ہے۔
واعظین سلسلہ کے تقرر کی تحریک
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ مبارک میں انجمن کی طرف سے باقاعدہ کوئی واعظ تبلیغ سلسلہ کے لئے مقرر نہ تھے مگر اب خلافت اولیٰ کے شروع میں ہی اس کی پوری شدت سے ضرورت محسوس ہوئی اور خود حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے اس کی تحریک ہوئی۔
مبائعین کی مکمل فہرست تیار کرنے کی تحریک
ایک اہم تحریک آپ نے یہ فرمائی کہ جماعت کے مبائعین کی مکمل و مفصل فہرست تیار کی جائے تا قادیان سے جو کچھ شائع ہو جلد سے جلد جماعت کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔
بھیرہ کی جائیداد احمدیت کے لئے وقف کرنا
قادیان مستقل ہجرت کرنے سے قبل آپؑ کی بھیرہ میں انتہائی قیمتی جائیداد تھی۔ 1908 میں آپؓ نے خلیفہ بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ جائیداد صدر انجمن احمدیہ کے نام کردی۔ یہ جائیداد 5687 روپیہ اور بارہ آنہ میں فروخت ہوئی۔
مسجد مبارک میں اعتکاف اور درس قرآن
اس سال رمضان میں آپؓ نے اعتکاف فرمایا اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحب نےبھی ہمراہ اعتکاف فرمایا۔
لنگرخانہ کا انتظام صدر انجمن احمدیہ کی نگرانی میں
حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں یہ انتظام براہ راست حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ہاتھ میں تھا جسے آپ نے صدر انجمن احمدیہ کے سپرد کردیااور سالانہ بجٹ 12767 روپے منظور ہوا۔
دور خلافت کا پہلا جلسہ سالانہ قادیان
اس سال احباب جماعت کو غیر معمولی طور پر جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق ملی اور 2سے 3ہزار احباب جلسہ میں شامل ہوئے۔
منکرین خلافت کی مخالفانہ کارروائیوں کا آغاز
اسی سال کے آخر میں وہ لوگ جو بظاہر آپ کی بیعت میں آچکے تھے مگر دلی طور پر وہ انجمن کو حضرت اقدسؑ کی جانشینی کا اہل سمجھتے تھے نے اپنی معاندانہ کارروائیوں کا آغار کردیا۔ان لوگوں میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب نمایاں تھے۔
1909ء 31جنوری ایک یوم الفرقان
جیسا کہ منکرین خلافت شروع سے ہی ریشہ دوانیاں کرنے لگ گئے تھے اور آپؓ کو اسکا علم تھا۔آپ نے مسجد مبارک میں اس دن ایک عظیم تقریر فرمائی اور اس خیال کے حامل لوگوں بالخصوص (مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب) کی سرزنش فرمائی اور انہیں دوبارہ بیعت کا حکم دیا۔
یتامیٰ اور مساکین فنڈ کا قیام
جنوری 1909ء میں آپؓ نے یتامیٰ اور مساکین فنڈ کی اعانت کے لئے ایک تحریک فرمائی اور 100 روپیہ آپ نے خود بھی اس میں عطا فرمایا۔
مدرسہ احمدیہ کامستقل درسگاہ کی حیثیت سے آغاز
یکم مارچ 1909ء کو اسکی بنیاد رکھی گئی اور اس کا نام حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کی رائے کے مطابق مدرسہ احمدیہ رکھا گیا۔
انگریزی ترجمہ قرآن کے لئے کوششوں کا آغاز
اس سلسلہ میں کام کا آغاز ہوا اور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو نمایاں کام کی توفیق ملی اس کام کے لئے بجٹ بھی مخصوص کیا گیا اور دیگر انتظامات بھی حضورؓ کی اجازت سے کئے گئے۔
مسجد نور بھیرہ
حضرت صاحب کا ایک سہ منزلہ مکان مسجد سے متصل تھا جسے حضور نے ہبہ کردیا اور مسجد بنوا دی جو کہ آج مسجد نور کے نام سے موسوم ہے۔
اخبار نور کا اجراء
شیخ محمد یوسف صاحب نے اکتوبر 1909ء میں اس کا آغاز فرمایا جس کا مقصد سکھوں میں اسلام کی تبلیغ تھا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؓ کی ولادت باسعادت
15نومبر 1909ء کو حضرت مسیح موعودؑ کے دوسرے پوتےحضرت صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاحبؓ کی ولادت حضرت سیدنا مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کے ہاں ہوئی۔ حضرت سیدنا مرزا بشیر الدین محمود احمدصاحبؓ کو آپؒ کی ولادت کی پہلے سے خدا کی طرف سے خوشخبری مل چکی تھی کہ تجھے ایسا لڑکا دونگا جو دین کا ناصر اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا۔
مسیحی لیکچروں کے جواب میں اسلامی لیکچر
آخر 1909ء میں عیسائیوں کے لیکچروں کے جواب میں حضورؓ کے حکم سے لاہور میں جماعت کی طرف سے لیکچر دئے گئے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی کا فتویٰ کفر سے رجوع
مولوی صاحب نے گوجرانوالہ کی عدالت کے روبرو اپنے فتویٰ سے رجوع کیا اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے بیٹے ابواسحاق اور عبدالباسط کو حصول تعلیم کی غرض سے قادیان کے مدرسہ احمدیہ میں بجھوا دیا۔
1910ء مسجد نور کا قیام
5مارچ کو اس مسجد کی بنیاد دعاؤں کے ساتھ آپؓ نے پہلی اینٹ اپنے مبارک ہاتھ سے گارا لگا کر رکھی اور ایک پرمعارف تقریر بھی فرمائی۔پھر 23اپریل کو جب اس کا ایک کمرا تعمیر ہوچکا تھا وہاں نماز عصر بھی پڑھائی اورسورہ انبیاءکے چھٹے رکوع کا درس بھی دیا۔
بورڈنگ ہاؤس تعلیم الاسلام ہائی سکول
اس وسیع عمارت کی اسی سال بنیاد رکھی گئی جس کے تین پہلو ستمبر تک تیار ہوگئے۔
اخبار الحق کا اجراء
اس سال دہلی سے حضرت میر قاسم علی صاحب نے ایک اخبار نکالنا شروع کیا جس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح نےالحق تجویز فرمایا۔ اس کا مقصد مخالفین اسلام خصوصاً دیانندیوں کے اعتراضوں کا جواب دینا تھا۔
مسجد اقصیٰ کی توسیع
اس سال مسجد اقصیٰ کی توسیع بھی عمل میں لائی گئی اور ایک بڑا کمرا اور ایک لمبا برآمدہ تیار ہوا نیز زیر تعمیر منارۃ المسیح کے ساتھ مستورات کے لئے ایک چبوترہ بھی بنایا گیا۔
جلسہ سالانہ قادیان کا انعقاد
دسمبر 1909ء میں ملتوی ہونے والا جلسہ مارچ 1910ء میں ہوا جس میں بیعت لیتے وقت کچھ الفاظ کا اضافہ فرمایا۔
مدرسہ تعلیم الاسلام کے لئے وظائف
مدرسہ تعلیم الاسلام کے یتامیٰ اور مساکین کے وظائف کی مد میں چونکہ گنجائش کم تھی اس لئے اس میں بھی آپ ؓ نے اس سال اپنی جیب خاص سے 100 روپیہ عنایت فرمایا۔ یہ جون 1910ء کی بات ہے۔
سفر ملتان
جولائی 1910ء کے آخری ہفتہ میں آپؓ نے ملتان کا سفر اختیار فرمایا۔ جس کی وجہ یہ بنی کہ آپ نے عدالت میں ایک آدمی (یہ آدمی قادیان میں آپ کے زیرعلاج رہا تھا) کے اوپر جو مقدمہ اقدام قتل ہوا تھا اس سلسلہ میں گواہی دینی تھی۔ ملتان سے واپسی پر آپؓ نے احمدیہ بلڈنگ میں اسلام اور دیگر مذاہب کے عنوان پر پبلک تقریر فرمائی۔
گھوڑی سے گرنے کا حادثہ
18 نومبر کو یہ تکلیف دہ واقعہ پیش آیا کہ آپ گھوڑی پر سے گر پڑے اور آپ کے ماتھے پر چوٹ بھی آئی۔اس حادثہ کا شدید اثر آپؓ کی وفات تک آپ کی صحت پر رہا۔یہ حادثہ احباب جماعت کے لئے انتہائی تکلیف کا باعث تھا احباب آپ کے لئے دعائیں کرتے اور آپ کی عیادت کے لئے قادیان بھی آئے۔
جلسہ سالانہ 1910ء
اس سال جلسہ میں اڑھائی ہزار کے لگ بھگ احباب شریک ہوئے۔ آپ نے علالت طبع کے باوجود تقریر فرمائی۔
1911ء رسالہ احمدی کا اجراء
مولوی ثناءاللہ امرتسری اور مولوی محمد قاسم سیالکوٹی کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے حضرت میر قاسم علی صاحب نے جنوری میں اس رسالہ کا آغاز فرمایا۔
انجمن انصاراللہ کا قیام
فروری1911ء میں ایک رویا سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد صاحبؓ کو اللہ نے دکھائی اور اس کے نتیجہ میں آپؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کی منظوری سے انجمن انصاراللہ قائم فرمائی۔ اخبار البدر میں اس کا مفصل اعلان فرمایا تو حضرت خلیفۃ المسیح نے باوجود بیماری کے وہ سارا مضمون پڑھا اور فرمایا
میں بھی آپ کے انصاراللہ میں شامل ہوں۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لئے چندہ کی تحریک
چونکہ اس وقت ایک عام تحریک اسلامی یونیورسٹی کے ہندوستان میں قائم کرنے کے لئے ہو رہی ہے اور بعض احباب نے دریافت کیا ہے کہ اس چندہ میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہئے یا نہیں۔ اس لئے ان سب احباب کی اطلاع کے لئے جو اس سلسلہ میں شامل ہیں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگرچہ اپنے سلسلہ کی ضروریات بہت ہیں اور ہماری قوم پر چندوں کا بوجھ ہے تاہم چونکہ یونیورسٹی کی تحریک ایک مفید اور نیک تحریک ہے اس لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب بھی اس میں شامل ہوں اور قلمے، ؤقدمے، سخنے، درمے مدد دیں۔ نورالدین
حضرت چوہدری ظفراللہ خانؓ کا سفر انگلستان
آپ بیرسٹری پاس کرنے کے لئے حضور کی اجازت سے پہلی بار انگلستان گئے۔
نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے رخصت کے میموریل کی تحریک
شہنشاہ جارج پنجم کے دربار تاج پوشی کے موقع پر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے رخصت کے سلسلہ میں میموریل بھجوانے کی تحریک کی۔
خطاب جلسہ سالانہ 1911ء
یہ خطاب نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں آپؓ نے باہمی اتحاد وتفاق پر بڑا زور دیا ہے۔تفرقہ سے بچنے اور نکمی اور فضول بحثوں کو چھوڑنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
1912ء یادگاری دعائے خاص
آپؓ نے 10مارچ کو ایک یادگاری دعائے خاص کروائی۔
آخری سفر لاہور
15جون 1912ءکو یہ سفر اختیار فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش وئیر ہاؤس سے وعدہ فرمایاتھا کہ ان کے گھر کا سنگ بنیاد ہم رکھیں گے۔ چنانچہ وہ درخواست لے کر حاضر ہوئے۔ آپ نے اسے منظور فرمایا اور اسی سلسلہ میں آپؓ لاہور آئے اور اس شام سنگ بنیاد رکھا اور ایک پر معارف تقریر بھی فرمائی۔
16جون کو بھی آپ نے مسجد میں خلافت کے حوالہ سے پرمعارف تقاریر فرمائیں۔ گویا منکرین خلافت کے سامنے آپؓ نے خلافت کا مقام واضح فرمایا۔
مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر اخبا زمیندار کی بھی آپ سے لاہور میں ملاقات ہوئی جس نے آپؓ سے کہا کہ اگر آپ لوگ مرزا صاحب کو نبی نہ مانیں تو مسلمانوں سے مصالحت ہوسکتی ہے۔جس پر آپؓ نے فرمایا کہ اگر مرزا صاحب نبوت کو دعویٰ نہ کرتے تو آنحضرتﷺ کی بات غلط ہوجاتی۔
مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نورالدین کی اشاعت
اکبر خانصاحب نجیب آبادی کو حضورؓ نے اپنے یہ نوٹس خود لکھوائے تھے اس سال اسکی بھی اشاعت ہوئی۔
رسالہ احمدی خاتون کا اجراء
شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے احمدی مستورات کی تعلیم وتربیت کے لئے یہ رسالہ ستمبر 1912ء میں شروع کیا جوکہ خلافت ثانیہ کے آغاز تک جاری رہا۔
خواجہ کمال الدین صاحب کا سفر انگلستان
خواجہ صاحب انگلستان سفر پر جانے سے پہلے حضورؓ کے پاس آئے اور آپ نے انہیں نصائح کیں۔ مگر وہاں جاکر انہوں نے نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے کام شروع کیا۔ انڈیا سے چندے بھی اکھٹے کئے اور عملاً جماعت سے خلافت ثانیہ کے آغاز میں علیحدہ ہوگئے۔
کلام امیر کی اشاعت
کلام امیر کے نام سے اخبار البدر میں مستقلی ضمیمہ کی اشاعت شروع ہوئی جس میں حضور کے درس، ڈائری، سوانح آپ کے فرمودہ مباحث ولطائف اور خطوط درج ہونے لگے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ
کا سفر مصر وعرب
یہ سفر علوم عربیہ کی تحقیق، دنیائے عرب ومصر کے نظام تعلیم کا مشاہدہ، تبلیغ معاہدہ اور ادیار رسول کی زیارت اور حج کی غرض سے تھا۔ 26ستمبر کو اس غرض کے لئے سفر کا قادیان سے آغاز ہوا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے دعاؤں کے ساتھ آپؓ کو روانہ کیا۔
بنگال میں احمدیت
حضرت مولوی عبدالواحدؓ کی بیعت
آپ بنگال کے بہت بڑے عالم تھے اور1921ء تک آپ کی تبلیغ سے ڈیڑھ ہزار سے بھی زیادہ احمدی ہوئے۔
دو تحریکیں
دسمبر 1912ء کے آخر میں آپؓ نے درج ذیل دو تحریکیں فرمائیں
1:علم الرؤیا پر نئی کتاب تیار کرنے کی تحریک
2:خدا تعالیٰ کی ہستی، صفات، افعال، اور کلام پاک کی اشاعت پر رسالے اور ٹریکٹ شائع کئے جائیں نیز حدیث شریف کی اشاعت اور آنحضرتﷺ اور آپ کے خلفاء پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات دئے جائیں۔
انجمن مبلغین کا قیام
آپؓ کی اجازت سے قادیان کے بعض نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کا نام یادگار احمد بھی تھا۔اس کی غرض اسلام کی تائید اور باقی مذاہب کے ابطال میں ٹریکٹ شائع کرنا تھا۔سب سے پہلا ٹریکٹ کسر صلیب کے نام سے حضرت میر محمد اسحاق صاحب ؓ کے قلم سے نکلا۔
خطبات نور کی اشاعت
بابو عبد الحمید صاحب نے حضور کے خطبات کتابی شکل میں شائع کئے جس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور خطبات نور نام بھی آپؓ نے انہیں دیا تھا۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال سے خط وکتابت
ڈاکٹر صاحب نے حضورؓ سے عربی ادب کی اعلیٰ ترین کتب کی بابت رہنمائی چاہی۔ چنانچہ آپؓ نے انہیں 2دسمبر کو عربی کے ادبی لٹریچر کی فہرست بجھوائی۔
1913ء درس ہال تعمیر کرنے کی تحریک
حضرت خلیفہ اول نے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے سپرد یہ خدمت فرمائی کہ قرآن مجید کے درس کے لئے ایک خاص کمرہ تعمیر کیا جائے۔حضرت ام المؤمنین ؓ نے زمین کا ایک حصہ اس غرض کے لئے مرحمت فرمایا۔
کلمات قرآنی کی فہرست
حضور نے بعض خدام کو یہ کام سپرد فرمایا کہ قرآن مجید کے اسما، افعال اور حروف کی فہرستیں تیار کریں۔
بخاری شریف کے درس کا آغاز
آپؓ نے مارچ 1913ء سے قرآن کے درس سے پہلے بخاری شریف کا بھی عام درس دینا شروع فرما دیا۔
غیر احمدی صحافی کی قادیان آمد
ایک غیر احمدی صحافی محمد اسلم صاحب قادیان آئے اور انکے تاثرات کی اشاعت ہوئی۔
الفضل کا اجراء
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے 18جون 1913ء سے اخبار الفضل جاری فرمایا اور یہ نام حضرت خلیفۃ المسیح نے تجویز فرمایا۔
اس کے بالمقابل لاہور سے خلافت کے خلاف باغیانہ رویہ رکھنے والوں نے بھی ایک اخبار پیغام صلح شروع کیا۔ جس کا مقصد معاندانہ تھا۔
حضرت صاحبزادہ عبدالحئی کا نکاح
آپؓ کے فزرند صاحبزادہ عبدالحئی صاحب کا نکاح مؤرخہ21جون 1913ء کو آپؓ نے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ کی صاحبزادی فاطمہ صاحبہ کے ہمراہ خود پڑھایا۔
حضرت چوہدری فتح محمد سیال کا سفر انگلستان
یورپ میں سب سے پہلے احمدی مشن کا قیام بھی آپؓ کے مبارک دور میں ہوا۔
حضرت سید زین العابدین ؓ کو سفر مصر وشام
26جولائی کو حضرت زین العابدین شاہ صاحب عربی کی تعلیم کے حصول کے لئے انصاراللہ کے تحت مصر گئےاور حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے دعاؤں کئے ساتھ رخصت فرمایا۔
لاہور سے گمنام ٹریکٹوں کی اشاعت اور اخبار پیغام صلح کا ان کی تائید کرنا اور حضورؓ کا شدید ناراضی کا اظہار
وسط نومبر میں دو ٹریکٹ اظہارالحق کے نام سے شائع ہوئے۔ پہلا 4صفحات کا تھا اور دوسرا 8کا۔ ان کےآخر پر کسی کے نام کی بجائے داعی الی الوصیت لکھا ہوا تھا۔اور ان کا خلاصہ خلافت کے حوالہ سے باغیانہ رویہ رکھنے والوں کے خیالات کا پرچار تھا۔
حضورکو ان سے سخت تکلیف پہنچی اور آپؓ نے پیغام صلح کو پیغام جنگ سے تشبیہ دی۔ انصاراللہ کی طرف سے ان دو ٹریکٹو ں کو جواب دو ٹریکٹوں کی صورت میں حضورؓ کی اجازت سے دیا گیا۔اخبار الحق قادیان نےان ٹریکٹوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔
خلافت اولیٰ کے عہد کا آخری جلسہ سالانہ
26سے 28دسمبر یہ جلسہ پوری شان سے ہوا اور حضور نے اس میں دو تقاریر کیں۔
1914ء تبلیغ احمدیت کے لئے ملک گیر سکیم
حضرت خلیفۃ المسیح ؓ کی اجازت سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے ملک گیر دعوت الی اللہ کی تحریک شروع کی اور ساتھ ہی دعوت الی الخیر فنڈ کا قیام فرمایا۔
الحکم کے احیاء کی کوششیں اور اس میں آپؓ کی مالی قربانی
الحکم مالی بحران کا شکار تھا اور عین ممکن تھا کہ یہ عظیم اخبار بند ہوجاتا۔ آپؓ نے جلسہ سالانہ 1913 میں احباب جماعت سے اس اخبار کے لئے تحریک فرمائی اوراس کے مالی انتظام کے لئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ کو ناظم مقرر فرمایا۔ نیز اپنے پاس سے 1000 ایک ہزار روپیہ دینے کا وعدہ فرمایا۔
انگریزی ترجمہ قرآن
مولوی محمد علی صاحب نے آپ کو انگریزی ترجمہ قرآن کے نوٹس سنائے اور آپ نے انہیں نصائح بھی کیں۔
مرض الموت کا آغاز، وصیت ووفات
17-18 جنوری سے آپ کی طبیعت خراب ہونی شروع ہوئی۔ 27؍فروری کو آپؓ حضرت نواب محمد علی خانصاحب کی کوٹھی دارالسلام جو باہر کی سائیڈ پر تھی میں منتقل ہوگئے۔ 4مارچ کو آپ نے بعد ازنماز عصر جب ضعف زیادہ ہوا تو قلم کا غذ منگو اکر وصیت لکھی۔ اور وہ احباب کو تین مرتبہ سنائی گئی۔مولوی محمد علی صاحب نے پڑھ کر سنائی۔
14مارچ 1914ء کو دوپہر 2بج کر 20 منٹ پر آخر وہ تکلیف دہ گھڑی بھی آ گئی جب مسیح موعودؑ کے اس عاشق صادق کی روح اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
اے خدا بر تربت او بارش ِرحمت ببار
داخلش کن از کمالِ فضل در بیت النعیم
نوٹ: (مضمون ہذا کا مواد تاریخ احمدیت جلد سوم، مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین اور حیات نور سے لیا گیا ہے)
تمت بالخیر
(مریم رحمٰن)