• 25 اپریل, 2024

جامع المناھج والاسالیب (قسط 4)

جامع المناھج والاسالیب
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی شہرہ آفاق تصنیف تفسیر کبیر کا ایک اختصاصی مطالعہ
قسط 4

مسلکی منہج / رجحان

اس اسلوب اور منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر برصغیر میں کثرت سے ملتی ہیں۔ اس تفسیری توسّع کے بارہ میں ڈاکٹر عبیدالرحمٰن محسن اور ڈاکٹر حافظ محمد حماد اپنے تحقیقی مقالہ میں اس کے بارہ میں لکھتے ہیں۔
‘‘برصغیر میں تفسیر قرآن مجید پر وقیع اور وسیع علمی مواد موجود ہے۔اس لحاظ سے یہاں کے تفسیری رجحانات میں کئی لحاظ سے اس درجہ توسع ہے کہ شائد اس طرح کا توسع عالم عرب میں بھی موجود نہیں۔’’

(بحوالہ برصغیر میں قرآن فہمی کے رجحانات اور اثرات ڈاکٹر عبیدالرحمٰن محسن، ڈاکٹر حافظ محمد حماد القلم، جون 2018ء صفحہ 54)

اس اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے، مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ علماء نے اپنی تفاسیر میں اپنے اپنے مسلک و مذہب کاہی پرچار کیا اور اس کو درست قرار دیا۔اور دوسرے مسالک کو قابل تنقید و موٴاخذہ قرار دیا۔

اس منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر میں سے معروف تفاسیر مندرجہ ذیل ہیں۔

مسلکی منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر

  • تنزیہ القرآن عن المطاعن للقاضی عبدلجبار (معتزلہ) (359ھ تا 415 ھ)
  • الکشاف عن حقائق التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التاویل للزمخشری (معتزلہ) (467ھ تا 538 ھ)
  • مجمع البیان لعلوم القرآن لابی علی الفضل بن الحسین بن الفضل الطبری الطبرسی (شیعہ) (469ھ تا 548ھ)
  • الصافی فی تفسیر القرآن الکریم لملا محسن الکاشانی (شیعہ) (950ھ تا 1009ھ)

برصغیر میں مسلکی منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر

  • تفسیر خزائن العرفان از مولانا نعیم الدین مراد آبادی (بریلوی) (1887ء تا 1948ء)
  • تفسیر اشرف التفاسیر (تفسیر نعیمی) از مفتی احمد یار نعیمی (بریلوی) (1894ءتا 1917ء)
  • تفسیر بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی (دیوبندی) (1863ء تا 1943ء)
  • تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف (اہلحدیث) (1945ء تا 2020ء)

تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ میں احمدی علم کلام کے منہج کی چند مثالیں

اس سے قبل کے ہم اس منہج کی مثالیں دیں، یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور آنحضرتؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے احیائے دین اور اقامت شریعت کے لئے آنا تھا اور آپ نے اسلام کی ایسی تعبیر پیش کی کہ جو ہر مسلک سے اوپر تھی، ہر مذہبی سلسلہ سے آزاد تھی۔ وہی اسلام جس کو حضرت محمدؐ رسول اللہ دنیا میں لائے تھے۔ اب اس تعلیم کو اپنی تفسیر میں بیان کرنے کو اگر کوئی مسلکی تفسیر سے تعبیر کرے تو یہ اس کو اس کی سمجھ بوجھ پر محمول کرنا چاہیئے۔ اسی لئے ہم نے یہاں ’’مسلکی‘‘ مثالیں پیش کرنے کے بجائے جماعت کے علم کلام کی مثالیں پیش کرنے پر اکتفاء کیا۔

اس منہج کی اصل بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بیان فرماتے ہیں۔

توحید

’’اسلام توحید کے جس بلند ترین مقام پر بنی نوع انسان کو پہنچانا چاہتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان نہ تو کسی کو خداتعالیٰ کا شریک فی الجوہر سمجھے۔ نہ کسی کو اس کے کام میں شریک قرار دے خواہ اس کی عبادت کی جائے یا نہ کی جائے۔ نہ غیر اللہ میں سے کسی کی پرستش کی جائے اور نہ خدا اور اس کے انبیاء کے احکام کے خلاف کسی کی اس طرح اطاعت کی جائے جس طرح خداتعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ یہ تمام چیزیں توحید حقیقی کے منافی ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ326 مطبوعہ قادیان 2021ء)

توحید کے قیام کی کوششیں کرنے والوں (جماعت احمدیہ) کو ہی کافر قرار دیا جاتا ہے، اس بارہ آپ فرماتے ہیں۔
’’شرک کی انتہائی برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تم نے ایک ایساکام کیا ہے جو فطرت صحیحہ کے خلاف ہے اورجس کے متعلق اپنی ناپسندیدہ گی کے جذبات کے اظہار سے کوئی شریف آدمی رک نہیں سکتا۔یہ کسی فعل کی حددرجہ کی ناپسندیدگی کا ثبوت ہوتاہے کہ اس کے خلاف ہر انسان بے تحاشا احتجاج کرنے پرتیار ہوجائے اور اسے کسی صورت میں بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہو۔اس میں بتایا گیا ہے کہ شرک ایک ایسا فعل ہے جس کو ماننے سے فطرت انکار کرتی ہے اور یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عیسائیت اسلام کے اعتراضات سے ڈرکر خود تثلیث کے اور معنے کرنے لگ گئی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ تو کہتاہے کہ اس کے خلا ف ہر انسان کو آواز اٹھانی چاہئے مگر اس زمانہ میں جو لوگ اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھار ہے ہیں اور خداتعالیٰ اور خداتعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے رات دن کو ششیں کررہے ہیں وہی مسلمان کہلانے والوں کی نگاہ میں کافراور بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ وہ عیسائیوں کے ساتھ جو مسیح کو خداکاشریک قرار دیتے ہیں تو محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں مگر جو توحید کے قیام کے لئے عیسائیوں کوتبلیغ کرتے ہیں ان کو کافر قرار دیتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ379-380 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

آنحضرتؐ حقیقی نجات دہندہ

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32) اے محمد رسول اللہؐ! تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ تو میری اطاعت کرو اور میری بیعت میں شامل ہو جاؤنتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف تم نجات پا جاؤ گے بلکہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جاؤ گے۔ گویا محمدؐ رسول اللہ پر ایمان لانے سے انسان کو صرف نجات ہی نہیں ملتی بلکہ وہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ58 پرنٹ ویل امرتسر 2010)

مقام ختم نبوت

’’سب سے بڑا معجزہ جو اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے محمدؐرسول اللہ کو عطا فرمایا ہے وہ آپ کا خاتم النبیین ہونا ہے یعنی تمام کمالات نبوت آپ پر ختم کر دیئے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ276 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

قرآن کریم

’’نبأ عظیم کا لفظ قرآن کریم پر چسپاں ہو جاتا ہے اس لئے قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ساری خوبیوں کا جامع ہوں بلکہ گز شتہ تمام انبیاء کی کتابیں میرے اندر جمع ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنۃ: 4) پس اگر نوح ؑکے صحف نَبَأ تھے۔ اگر ابراہیم ؑکے صحف نَبَأ تھے۔ اسی طرح اگر عیسیٰ ؑکا کلام نَبَأ تھا۔ اگر کرشن کا کلام نَبَأ تھا۔ اگر رامچندر کا کلام نَبَأ تھا۔ اگر زرتشتؑ کا کلام نَبَأ تھا تو جس کلام میں یہ سارے ہی جمع کر لئے گئے ہوں وہ یقینا نَبَأ عظیم کہلائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ6 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

’’یہ قرآن ہی تھا جس نے ابو بکر کو ابو بکر ؓ۔ عمر کو عمرؓ۔ عثمان کو عثمانؓ اور علی کو علیؓ بنایا۔ بے شک ان لوگوں نے بڑی قربانیاں کیں۔ بے شک ان لوگوں نے دین کی بڑی خدمتیں کیں مگر یہ سب ہماری صفتِ رحمانیت کا نتیجہ تھا۔ یہ سب قرآن کا نتیجہ تھا۔ پس گوہم تمہارے لئے جزاء کا لفظ استعمال کر رہے ہیں مگر اس بات کو بھول نہ جاناکہ یہ محض ہماری صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۲﴾ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ﴿۳﴾ (الرحمن: 2-3) کہ اگر رحمن خدا کی طرف سے قرآن نازل نہ ہوتا۔ اگر اس کی طرف سے تم پر یہ علوم اور معارف کھولے نہ جاتے تو تم کو وہ مقام کبھی حاصل نہ ہو سکتا جس پر تم آج پہنچے ہوئے ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ59 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

’’حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں اس کا ایک ایک لفظ قابلِ عمل ہے اور یہ قیامت تک قائم رہنے والی شریعت ہے۔ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں کسی کو کہتا ہوں کہ قرآن کریم کا ہر لفظ اور ہر زبر اورہر زیر اپنے اندر معنے رکھتی ہے اور قرآن کریم میں چھوٹے چھوٹے فرق سے اُس کے معنی بدلتے جاتے ہیں اور اس میں جس قدر حکمتیں ہیں کوئی کتاب ان کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ ساری حکمتیں ہر شخص پر کھل جائیں۔ ہاں ہر زمانہ میں قرآن کریم کے کچھ نئے معنے کھلتے ہیں اور اُن کے علاوہ کچھ زائد معنے ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اگلوں کے لئے رکھے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔

جو لوگ قرآن کریم میں نسخ قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کے ثبوت کے طور پر اس قسم کی کوئی دلیل پیش نہیں کرتے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا ہو کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ فلاں آیت منسوخ ہے۔ یا آپؐ نے فرمایا ہو کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ آج رات یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے۔ وہ صرف استدلال کرتے ہیں کہ چونکہ فلاں آیت کا فلاں آیت کے مخالف مفہوم ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک ناسخ ہے اور دوسری منسوخ۔ گویا جو آیت بھی اُن سے حل نہیں ہوتی اُسے وہ منسوخ قرار دے دیتے ہیں۔اور یہ محض عدم علم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ اِدھر تو وہ یہ کہتے ہیں کہ احاداحادیث قرآن کریم کو منسوخ نہیں کرتیں اور یہ بات صحیح ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ ایک چھوڑ کروڑ احاداحادیث بھی قرآن کریم کا کوئی حصہ منسوخ نہیں کر سکتیں مگر دوسری طرف وہ اپنے ظن اور قیاس سے کام لے کر قرآن کریم کی آیات کو منسوخ قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 98۔99 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

وحی و الہام

’’وہ دائمی طور پر مسلمانوں سے یہ وعدہ کرتاہے کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۱﴾ نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَفِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَلَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَلَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ ﴿ؕ۳۲﴾ (حٰم السجدہ: 31) یعنی وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اورپھر وہ استقلال کے ساتھ اس عقیدہ پر قائم ہوگئے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام اورا س کے الہام سے نوازے جائیں گے اور خداتعالیٰ کے فرشتے ان پر یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ ڈرونہیں اورنہ کسی پچھلی کوتاہی کے بدنتائج کا خوف کرو۔ بلکہ اس جنت کے ملنے سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم اس دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اورآخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اوراس جنت میں جوکچھ تمہاراجی چاہے گا وہ تم کو ملے گا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ بھی تم کو دیاجائے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام ہر مومن کے لئے قرب الٰہی کے دروازہ کو کھلا تسلیم کرتاہے اور وہ بنی نوع انسان کو یقین دلاتاہے کہ اگر وہ سچے دل سے محمدؐ رسول اللہ کی اتباع کریں گے تو خداتعالیٰ انہیں یقیناً اپنا محبوب بنالے گا اور انہیں اپنے کلام اور الہام سے نوازے گا اور مشکلات میں ان کی مدد کرے گا اورانہیں غیر معمولی کامیابیوں اور برکتوں سے حصہ بخشے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ325 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

اشاری، سلوکی یا صوفیانہ منہج / رجحان

اس اسلوب اور منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر برصغیر میں ملتی ہیں۔ان تفاسیر میں علم تصوف کی روشنی میں آیات قرآنیہ کے نکات و لطائف کا بیان ہوتا ہے۔قرآنی آیات سے سلوک و جذب کے طریق اور روحانی فوائد کا استنباط ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں علماء نے اس طرح کی تفسیر کو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک کو نظری رجحان کہتے ہیں اور دوسرا اشاری فیضی رجحان کہلاتا ہے۔ نظری رجحان میں مختلف نظریات تصوف کو اپنی تفسیر میں دکھایا جاتا ہے جبکہ اشاری فیضی میں نظریات کے بجائے اپنے الہامات اور فیوض کو بیان کیا جاتا ہے۔

اس منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر میں سے معروف تفاسیر مندرجہ ذیل ہیں۔

صوفیانہ منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر

  • تنبیہ الافھام الیٰ تدبر الکتاب والتعرف علی الآیات والانبآء العظام (المتوفٰی 536ھ)
  • لطائف الاشارات لعبد الکریم بن ہوازن قشیری نیشاپوری (986ءتا1072ء)
  • تفسیر القرآن لامام محی الدین ابن عربی (1165ء تا1240ء)
  • روح البیان فی تفسیر القرآن لاسماعیل حقی (1653ء تا 1725ء)

برصغیر میں صوفیانہ منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر

  • تفسیر کاشف الحقائق و قاموس الدقائق لشیخ محمد بن احمد شریحی مریکلی (المتوفیٰ 684 ھ)
  • تفسیر مہائمی از شیخ علی بن احمد مہائمی (835ھ)
  • تفسیربیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی (دیوبندی) (1863ء تا1943ء)
  • تفسیر اسرار التنزیل از مولانا محمد اکرم اعوان (متصوف) (1943ءتا2017ء)

تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ میں صوفیانہ طرز کے منہج کی چند مثالیں

تزکیہ نفس

’’تزکیہ چونکہ قلب سے تعلق رکھتا ہے اور تلاوت آیت بھی ایمان سے تعلق رکھتی ہے اس لئے پہلے اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کو لے لیا جو ایمانیات اور روحانیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ اگر غور کر کے دیھکا جائے تو معلوم ہو گا کہ معرفت کے لحاظ سے سب سے پہلی چیز یہی ہے کہ انسان کو ایسی آنکھیں عطا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے نشانات کا مشاہدہ کرنے والی ہوں اور دوسری چیز یہ ہے کہ ان نشانات کا مشاہدہ اُن کے اندر ایسا تزکیہ پیدا کر دے کہ اس کا دل خدا تعالیٰ کا عرش بن جائے اور صفات الٰہیہ اس کے آئینہ قلب میں منعکس ہو جائیں۔ جب معرفت کا نور انسانی قلب کو ایسا جلا بخشتا ہے کہ اُس میں کوئی نفسانی قدرت اور آلائش باقی نہیں رہتی تو اس وقت وہ خدا کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے اور یہی انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ278 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

شراب۔۔۔شراب معرفت

’’پہلے اللہ تعالیٰ نے اَعْنَاب کا ذکر فرمایا تھا جن سے شراب بنتی ہے۔ اب یہ بتا یا کہ وہ مذکورہ بالا شرابِ معرفت میں اتنے متوالے ہوں گے کہ ان کا نشہ کبھی ختم ہی نہ ہو گا اور ان کی طبیعتوں میں کہیں سیری حاصل نہیں ہو گی۔ ایک پیالہ ختم ہو گا تو دوسرا پینا شروع کر دیں گے دوسرا پیالہ ختم ہو گا تو تیسر اشروع کر دیں گے یعنی ایک قربانی لیں گے تو دوسری کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ دوسری قربانی کریں گے تو تیسری کے لئے تیار ہو جائیں گے گویا محبت الٰہی کا پیالہ وہ سیر ہو کر زمین پر رکھیں گے ہی نہیں۔ ہر وقت اُن کا پیالہ بھرا ہوا رہے گا اور عشق الٰہی کے نشہ میں انہیں قربانی کی ایسی عادت پڑ جائے گی کہ کسی موقع پر بھی اُن کی طبیعت میں سیری نہیں ہوگی اور چونکہ اگلے جہاں کی لذتیں روحانی ہوں گی گو یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی ایک جسمانی شکل بھی ہو گی مگر بہرحال چونکہ اصلی لذت روحانی ہو گی اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ان کو ایسے پیالے ملیں گے جو ہمیشہ بھرے رہیں گے اُن میں کبھی کو ئی کمی نہیں آئے گی تو ان الفاظ کو جہاں اگلے جہا ں پر چسپاں کیا جاتاہے وہاں اس کے یہ معنے بھی ہوں گے کہ ان کے دل محبت الٰہی سے ہمیشہ لبریز رہیں گے۔قربانی ان کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹائے گی بلکہ ہر قربانی کے بعد ان کا دل چاہے گا کہ ہم اور قربانی کریں اور اپنے عشق کا مظاہر ہ کریں اور جب وہ دوبارہ اپنے عشق کا مظاہرہ کریں گے تو ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی کہ ہم اپنے عشق کا اب تیسرا مظاہرہ کریں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ55 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

روحانی سوزش

’’جب ابراہیمؑ سے اس زمانہ کے لوگوں نے یہ باتیں سنیں کہ بتوں کی پرستش ترک کردو اورخدائے واحد کی عبادت کرو۔ تو انہوں نے ایک دوسرے کوآپ کے خلاف اکسانا شروع کردیا اور کہا کہ آؤ اوراس کو قتل کر دو یا اس کو آگ میں ڈال کر جلادو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اسے آگ سے بچالیا۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طریق کاذکر کرتے ہوئے جس سے کام لے کر آپ کو بچا لیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ (انبیاء: 70) یعنی ہم نے اس وقت آگ سے کہا کہ اے جسمانی آگ! تیرے اند رایک روحانی آگ داخل ہورہی ہے۔ اب تیراکام یہ ہے کہ اس آگ کے مقابلہ میں سرد ہوجا۔ ابراہیمؑ کے دل میں میری محبت کی آگ بھڑک رہی ہے اورمیرے عشق کی آگ کاکوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ جس طرح سورج کے مقابل پرشمعیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ اسی طرح میری محبت کی آگ کے مقابلہ میں تیری آگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ پس ابراہیمؑ کے لئے توسرد ہوجا۔ جس طرح انگارہ کے مقابلہ میں کسی اور گرم چیز کی گرمی کم محسوس ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ایسی شدید ہے کہ دوسری تمام آگیں اس کے مقابلہ میں سرد پڑ جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ایک دفعہ الہام ہواکہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈراکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘

اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ ہمارے دل میں عشق الٰہی کی آگ شعلہ زن ہے۔ اس آگ کے مقابلہ میں ظاہری آگ کی کیاحیثیت ہے۔ ایک گرم تواانسان کے ہاتھ کو توجلادیتاہے مگر انگارے کونہیں جلاسکتا۔ اسی طرح آگ اس شخص کونہیں جلاسکتی جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑ ک رہی ہو۔چنانچہ اسی وقت بادل آیا اوربرسا اور وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اوریہ معجزہ دیکھ کراس کی قوم کے بعض لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا ہوگیا اور اس کے لئے سلامتی کے سامان پیداہوگئے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ613-614 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

تلاش نظم کا ادبی منہج / رجحان

اس اسلوب پر مسلمان علماء و مفسرین کی توجہ کافی کم رہی۔ آیات کا باہم ربط اور سورتوں کا آپس کا تعلق نئے اور عمدہ قرآنی مطالب کی طرف ایماء کرتے ہیں۔یہ رجحان ایک منفرد رجحان ہے۔ اس رجحان کی نمائندہ تفسیر برصغیر میں امین احسن اصلاحی (1904ء تا 1997ء) کی تدبر القرآن ہے۔ قرآن کریم کے نظم و سیاق کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔
’’نظم کسی کلام کا ایسا جزو لا ینفک ہوتا ہے کہ اس کے بغیر کسی عمدہ کلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ قرآن جس کو فصاحت و بلاغت کا معجزہ قرار دیا جاتا ہے اور جو فی الواقع معجزہ ہے بھی ایک بہت بڑے گروہ کے نزدیک نظم سے بالکل خالی کتاب ہے۔ ان کے نزدیک نہ ایک سورہ کا دوسری سورہ سے کوئی ربط و تعلق ہے اور نہ ایک سورہ کی مختلف آیات ہی میں باہم کوئی مناسبت و موافقت ہے۔ بس مختلف آیات مختلف سورتوں میں بغیر کسی مناسبت کے جمع کر دی گئی ہیں، حیرت ہوتی ہے کہ ایسا فضول خیال ایک ایسی عظیم کتاب کے متعلق لوگوں کے اندر کس طرح جاگزیں ہو گیا ہے۔۔۔میں نے اس تفسیر میں چونکہ نظم کلام کو پوری اہمیت دی ہے اس وجہ سے ہر جگہ میں نے ایک ہی قول اختیار کیا ہے بلکہ اگر میں اس حقیقت کو صحیح لفظوں میں بیان کروں تو مجھے کہنا چاہیئے کہ مجھے ایک قول اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کیونکہ نظم کی رعایت کے بعد مختلف وادیوں میں گردش کرنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا۔‘‘

تفسیر کبیر از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ میں
نظم و ترتیب قرآن کے منہج کی چند مثالیں

اس سے پہلے کہ ہم اس منہج کی کچھ مثالیں پیش کریں، نظم و ترتیب قرآن کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایک حوالہ اس ضمن میں پیش کرنا چاہتے ہیں جس سے واضح ہو گا کہ آپ اس کو تفسیر میں کتنی اہمیت دیتے تھے۔

آپ فرماتے ہیں۔
’’(اللہ تعالیٰ) فرماتاہے ہم نے اس وحی کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرکے نازل کیاہے اورسارے قرآن میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ464 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

ایک اور جگہ پر قدرے مفصل اس سلسلہ میں فرماتے ہیں۔
’’ہم نے اس قول یعنی قرآن کریم کو ایسا بنایا ہے کہ اس کی ہرآیت دوسری آیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور اس کے تمام مضامین میں نہایت اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں نے ترتیب قرآن کے مسئلہ کوہی نظر انداز کر دیا اوریہ کہنا شروع کردیا کہ نعوذ باللّٰہ یہ ایک بے جوڑ کلام ہے جس کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ گویا ان کے نزدیک مسلمانوں کویہ توایمان رکھنا چاہیئے کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھناچاہئے کہ انسانی کلام میں جویہ خوبی ہوتی ہے کہ اس میں ربط پایا جاتا ہے وہ اس میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے مفسرین میں سے ابن حیّانؒ کے سواکسی نے ترتیب کے مسئلہ کی طرف توجہ نہیں کی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرآن کریم کی فضیلت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے۔ تاکہ لوگ اس پر غور کر کے نصیحت حاصل کریں۔ لیکن یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ الہامی کتابوں کی ترتیب عام کتابوں کی ترتیب سے جداگانہ رنگ رکھتی ہے۔ عام کتابوں میں تویہ ہوتاہے کہ مثلاً پہلے مسائل وضو بیان کئے جائیں گے۔ پھرمسائل عبادت بیان کئے جائیں گے پھر ایک باب میں مسائل نکاح بیان کئے جائیں گے اسی طرح کسی باب میں طلاق و خلع کا اور کسی باب میں کسی اورچیز کا ذکرہوگا۔ مگرالہامی کتابوں میں یہ رنگ نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی ترتیب بالکل اَور قسم کی ہوتی ہے۔ جودنیا کی ترتیب سے بالکل نرالی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس میں کوئی ترتیب ہے ہی نہیں۔

اب سوال پیدا ہوتاہے کہ الہامی کتابوں میں دنیا کی تمام کتابوں سے نرالی ترتیب کیوں رکھی جاتی ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اس میں بھی کئی حکمتیں ہیں۔

(الف) اس ترتیب سے سارے کلام سے دلچسپی پیدا کرنی مدنظر ہوتی ہے۔ اگر الہامی کتاب کی ترتیب اس طرح ہو جس طرح مثلاً ہدایہ کی ترتیب ہے کہ وضو کے مسائل یہ ہیں۔نکاح کے مسائل وہ، توعام لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطابق انہی حصوں کوالگ کرکے ان پر عمل کرنا شروع کر دیتے اور باقی قرآن کو نہ پڑھتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سارے مسائل کو اس طرح پھیلا کررکھ دیاہے کہ جب تک انسان سارے قرآن کو نہ پڑھ لے مکمل علم اسے حاصل ہی نہیں ہوسکتا۔

(باء) لوگوں کو غوروفکر کی عادت ڈالنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب اختیار کی ہے۔ اگر عام کتابوں کی طرح اس میں مسائل بیان کر دیئے جاتے تولوگوں کاذہن اس طرف منتقل نہ ہوتا کہ ان مسائل کے باریک مطالب بھی ہیں۔ وہ صرف سطحی نظر رکھتے اور غوروفکر سے محروم رہتے۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اس طرح پھیلا دیا ہے اورایک دوسرے میں داخل کردیا ہے کہ انسان کو ان کے نکالنے کے لئے غور کرنا پڑتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سمندر ہے۔

(ج) یہ ترتیب اس لئے بھی اختیار کی گئی ہے۔ تاخشیت الٰہی پیدا ہو۔ مثلاً اگریوں مسائل بیان ہوتے کہ وضویوں کرو اور کلی اس طرح کرو۔ عبادت اس طرح کرو۔ اتنی رکعتیں پڑھو تو خشیت الٰہی پیدانہ ہوتی۔ جیسے عبادت وغیرہ کے تمام مسائل قدوری اور ہدایۃ وغیرہ میں موجود ہیں مگر قدوری اور ہدایۃ پڑھ کر کوئی خشیت اللہ پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن وہی مسئلہ جب قرآن میں آتاہے تو انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہوجاتا ہے اس لئے کہ قرآن ان مسائل کو خشیت اللہ کا ایک جز بناکر بیان کرتاہے اوردراصل نماز اور روزہ اورحج اور زکوٰۃ وغیرہ مسائل کا اصل مقصد تقویٰ ہی ہے۔ پس قرآن تقویٰ کو مقدم رکھتا ہے۔ تاکہ جب انسان کو یہ کہا جائے کہ وضوکروتو وہ وضوکرنے کے لئے پہلے ہی تیار ہو۔ اسی طرح جب کہاجائے کہ نماز پڑھو تو انسان نماز پڑھنے کے لئے پہلے ہی تیار ہو۔ اگر قرآن میں نماز کا ایک باب ہوتا تو اسے پڑھ کر خشیت اللہ پیدا نہ ہوتی۔

غرض الہامی کتاب چونکہ اصلاح کو مقدم رکھتی ہے اس لئے وہ سطحی ترتیب کوچھوڑ کر ایک نئی ترتیب اختیار کرتی ہے جوجذباتی ہوتی ہے یعنی قلب میں جوتغیر ات پیداہوتے ہیں الہامی کتاب ان کاذکر کرتی ہے یہ نہیں کہ وہ وضو کے بعد نماز کا ذکرکرے بلکہ وہ وضو سے روحانیت طہارت اورخداتعالیٰ کے قرب کی طرف انسان کو متوجہ کرے گی۔ کیونکہ وضو سے طہارت کے جذبات پیداہوتے ہیں۔ پھر جب نماز کامسئلہ آئے گاتویہ نہیں ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نماز کے مسائل بیان کرناشروع کردے بلکہ سجدہ اور رکوع کے ذکر سے جو جذبات انسانی قلب میں پیداہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرے گا۔ تاکہ جو جذبات بھی انسان کے اندر پیداہوں ان سے وہ ایسااثر لے جواسے خداتعالیٰ کے قریب کردے۔ غرض ترتیب قرآن ظاہر پر مبنی نہیں بلکہ قلب کے جذبات کی لہروں پر مبنی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 519-520 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

’’پہلی سورۃ (سورۃ النحل) میں جو بعض باتیں اشارۃً فرمائی تھیں اس سورۃ (سورۃ بنی اسرائیل) میں ان کو واضح کیا گیا ہے۔ مثلاً پہلی سور ۃ میں شہد کے متعلق فرمایا تھا کہ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِِ اوراس سے اشار ہ کیاتھا کہ کلام الٰہی میں بھی شفاہے۔ اس سورۃ میں اس مضمون کو بوضاحت بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَلَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا

(بنی اسرائیل: 83)

یہ سورۃ نزول میں سورۃ نحل سے پہلے ہے۔ مگر مضمون کی ترتیب کے لحاظ سے بعد میں رکھے جانے کے قابل ہے۔ اس لئے جمع قرآن کے وقت رسول کریمؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے سورہ النحل کے بعد رکھا۔ میں پہلے بتاچکاہوں کہ سورتوں کے نزول کی ترتیب اورتھی لیکن جمع قرآن کے وقت اس ترتیب کو بدل دیا گیا۔ کیونکہ سارے قرآ ن کو پڑھتے ہوئے اور بعد میں آنے والوں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری ترتیب کی ضرور ت تھی اوریہ امر قرآن کریم کے زبردست معجزات میں سے ہے۔ اس کی ہر سورۃ الگ الگ مضمون پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی اس کے اس کی سورتوں میں زبردست اتصال بھی پایا جاتا ہے۔ جب نزول قرآن کے وقت الگ الگ سورتیں نازل ہورہی تھیں اوراس وقت کی ضرورت مدنظررکھا جاتا تھا تب بھی پڑھنے والوں کو کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔ کیونکہ ہرسورۃ کامضمون مکمل تھا۔ مگرجب بعد میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسری ترتیب سے مرتب کیا توپھر علاوہ اس مضمون کے جو الگ الگ سورتو ں سے نکلتا تھا ایک اَورسلسلہ مضمون پیدا ہوگیا جس نے قرآنی مضامین کو اور زیادہ وسعت دے دی۔ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 278 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

’’میرا تجربہ یہی ہے کہ قریبًا ہر سورۃ کا دوسری سورۃ سے تعلق ہوتا ہے اور پھر میرے علم کے مطابق ہر سورۃ کا دووسری سورۃ سے ایک تعلقِ قریب ہوتا ہے اور ایک تعلقِ بعید ہوتا ہے یعنی ایک تعلق تو ایسا ہوتا ہے جو اسے پہلی سورۃ کی آخری آیتوں سے ملا دیتا ہے لیکن ایک تعلق ایسا ہوتا ہے جو سلسلۂ مضمون سے متعلق ہوتا ہے پھر آگے یہ تعلق دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک تعلق تو سورۃ کا قریب کی سورۃ یا اس کے ساتھ کی سورۃ سے ہوتا ہے اور مضمون میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے اور ایک تعلق ایسا ہوتا ہے جو چھ چھ سات سات بلکہ دس دس سورتیں پیچھے جا کر اس سورۃ کو پچھلی سورتوں سے ملا دیتا ہے یہ بھی ایک ایسا مضمون ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک میں نے سمجھا ہے۔ سورتوں کے آپس کے قریب کے تعلقات اور تسلسل مضمون کے اعتبار سے اُن کے آپس کے تعلقات بالعموم میں نے اخذ کئے ہیں لیکن مجھ پر اثر یہ ہے کہ سورتوں کا ایک تعلق بعید یا ابعد بھی ہوتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ274 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

(باقی آئندہ بروز منگل ان شاءاللہ)

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ مبلغ سلسلہ نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

نمایاں پوزیشنز لینے والے طلبہ و طالبات جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اکتوبر 2022