• 3 مئی, 2024

اسلام کی کسی ایک بات کو بطور ماٹو چننا درست نہیں


حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ،حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ پیش فرماتے ہیں:۔
… پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کو سامنے رکھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کسی ایک بات کو بطور ماٹو چننا درست نہیں پس بے شک ’’فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات‘‘ ایک عمدہ ماٹو ہے اسی طرح ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گ‘‘ بھی عمدہ ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ آیت بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی (الأعلی: 17۔ 18) یعنی نادان لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ آخرت یعنی دین کی زندگی کا نتیجہ دنیوی زندگی سے اعلیٰ اور دیرپا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 562 تا 563 خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اگست 1936ء)

اکثر ہم جمعہ پر سورۃ میں یہی آیت پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بے شمار تعلیم قرآن کریم نے دی ہے۔ پس قرآن کریم کی وہ کون سی تعلیم ہے جو ماٹو نہ بن سکے، جو مطمح نظر نہ بن سکے۔ جس پر نظر ڈالیں اور اس پر غور کریں تو وہ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

اس تمہید کے بعد پھر آپ نے یہ فرمایا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْر کا مصداق تھا۔ کوئی خرابی ایسی نہ تھی جو اس زمانہ میں پیدا نہ ہو گئی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل ہیں، اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ بھی اس زمانے کا ظل ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی تمام قسم کی خرابیاں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں۔ اس لئے آج مذہب کی بھی ضرورت ہے۔ اخلاق کی تمام اقسام کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کی ہر خوبی اور ترقی کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں لوگوں کے دلوں سے ایمان اٹھ گیا ہے وہاں اخلاق فاضلہ بھی اٹھ گئے ہیں اور حقیقی دنیوی ترقی بھی مٹ گئی ہے کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ نفسانیت کا ایک مظاہرہ ہے۔ چاہے وہ ذاتی طور پر ہو یا بین الاقوامی طور پر دیکھ لیں کیونکہ اس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیں وہ صرف اپنی ذات کے لئے مفاد ہے۔ وہ دنیا کی ترقی نہیں کہلا سکتی کیونکہ اس سے دنیا کا ایک حصہ فائدہ اٹھا رہا ہے اور دوسرے کو غلام بنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ سیاسی غلامی ہو یا معاشی اور اقتصادی غلامی ہو کسی نہ کسی صورت میں ایک حصہ غلام بن رہا ہے اور ان کے لئے بہرحال یہ ترقی نہیں ہے اور جو ترقی کر رہے ہیں ان کے بھی اپنے مفادات ہیں، نفسانیت ہے جس کو وہ ترقی کا نام دیتے ہیں۔ پس ایسے وقت میں یہ کہنا کہ فلاں آیت کو مطمح نظر بناؤ اور فلاں کو چھوڑ دو یہ غلط ہے بلکہ قرآن کریم کی ہر آیت ہی ہمارا مطمح نظر اور نصب العین ہے اور ہونا چاہئے۔ پس ہمارا ماٹو تو تمام قرآن کریم ہی ہے لیکن اگر کسی دوسرے ماٹو کی ضرورت ہے تو حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے مقرر کر دیا اور وہ ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ۔ اور یہ تمام قرآن کریم کا خلاصہ ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام تعلیمیں اور تمام اعلیٰ مقاصد توحید سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح بندوں کے آپس کے تعلقات اور بندے کے خدا تعالیٰ سے تعلقات یہ بھی توحید کے اندر آ جاتے ہیں۔ اور توحید ایسی چیز ہے جو بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے ظاہر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ لگا دیا گیا ہے کہ حقیقی معبود کی تلاش یا خدا تعالیٰ کو اگر دیکھنا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے دیکھو۔ گویا آپ ہی وہ عینک ہیں جس سے معبود حقیقی نظر آ سکتا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد لی جائے تو الحمد سے لے کر الناس تک ہر جگہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا مضمون نظر آئے گا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہی ہے جن کے آنے سے دنیا میں توحید حقیقی قائم ہوئی ورنہ اس سے پہلے بعض لوگوں نے حضرت عزیر کو بعض نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ بعض لوگ ملائکہ کو معبود بنائے بیٹھے تھے۔ ایسے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ہر قسم کے فسادوں کو دور فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی توحید کے قیام کے لئے کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہی دنیا میں پھر توحید قائم ہوئی اور یہی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ماٹو ہے جو ہم اپنی اذانوں کے ساتھ بھی بلند کرتے ہیں۔ جب کسی شخص کو اسلام میں لایا جاتا ہے تو اسے بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہلوایا جاتا ہے کیونکہ حقیقی اسلام اسی کا نام ہے۔ اگر کسی میں دینی کمزوری پیدا ہوتی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اس کے سامنے سے ہٹ گیا ہوتا ہے ورنہ اگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہر وقت سامنے ہو توانسان دینی کمزوریوں سے محفوظ رہے۔

(ماخوذاز خطبات محمود جلد17 صفحہ563تا565 خطبہ جمعہ فرمودہ 28اگست 1936ء)

(خطبہ جمعہ 9؍ مئی 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2020