• 15 مئی, 2024

جماعت کی خدمت پر مامور ہر شخص کو اپنے جائزے لینے کی ضروت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
خاص طور پر ہر اُس شخص کو جس کو جماعت کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عام طور پر ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ حقّ بیعت زبانی دعووں سے اور صرف ماننے سے ادا نہیں ہوتا بلکہ عمل کی قوت جب تک روشن نہ ہو، کچھ فائدہ نہیں۔ پس ہم اگر یہ اعلان کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے کہ کوئی بشر موت سے باہر نہیں رہا۔ اگر ہمارا یہ اعلان ہے کہ خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبی بھیج سکتا ہے اور آج بھی جس سے چاہے کلام کر سکتا ہے اور وحی کر سکتا ہے کیونکہ اُس کی کوئی صفت محدود اور خاص وقت کے لئے نہیں اور ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور آپ کی پیروی اور محبت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر شرعی نبی کا اعزاز دے کر بھیجے گئے ہیں اور ہم نے اُن کو مانا ہے۔ اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم وہ آخری شرعی کتاب ہے جو چودہ سو سال سے اپنی اصلی حیثیت میں محفوظ چلی آ رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لی ہے اور کوئی دوسری شرعی کتاب آج اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں۔ جب ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ تم جتنا شور مچا لو کہ قرآنِ کریم اپنی اصلی حالت میں نہیں یا چند صدیاں پہلے لکھی گئی ہے۔ جیسا کہ آج کل اسلام مخالف ٹی وی پروگراموں میں اور تحریروں میں بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآنِ کریم نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں اترا تھا بلکہ یہ چھ سات سو سال پہلے لکھا گیا تھاتو ہم ثابت کرتے ہیں کہ تم غلط ہو۔ آج جماعت احمدیہ ان کو چیلنج کر کے دلائل سے ان کا منہ بند کرتی ہے اور ہمارے دلائل کا ہی اثر ہے کہ جس نے یہ دعویٰ کیا تھا اور ٹی وی چینل پر یہاں پروگرام بھی کیا تھا کہ قرآنِ کریم خدائی صحیفہ نہیں، اُس کو جب ہم نے مقابل پر بلایا تو اُس نے آنے سے انکار کر دیا۔

بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔ ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عیسیٰ کی بعثتِ ثانی کے طورپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانے میں بھیجا ہے۔ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی آخری شرعی کتاب آج تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے تو کیا یہ سب اور متفرق اعتقادی باتیں ہمیں ہمارا مقصد پورا کرنے میں کامیاب کر دیں گی!؟ تو جواب یہ ہے اور یقینا یہی جواب ہے کہ ’’نہیں‘‘۔ کیونکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو ثابت کرنے کے بعد عیسیٰ کی آمدِ ثانی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت میں سے ہونی تھی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے وجود سے ہونی تھی، اس بات کو اگر ہم وَّاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ(الجمعہ:4) کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ہوئیں تو صرف عقیدے پر قائم ہونا فائدہ نہیں پہنچائے گا۔

جب ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام وہی مسیح موعود ہیں جس کے آنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی اور آپ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا تھا تو پھر آپ کی تعلیم کا اثر بھی ہمیں اپنے پر ظاہر کرنا ہوگا۔ ورنہ صرف عقیدہ بے معنی ہے۔

اگر ہم قرآنِ کریم کو آج تک محفوظ سمجھتے ہیں لیکن اس میں بیان احکامات جو ہماری عملی زندگی کے لئے ضروری ہیں اُن پر عمل نہیں کرتے تو قرآنِ کریم کے دفاع میں صرف ہمارا اعلان ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ یہ اعلان تبھی پُر اثر ہو گا جب ہم اس تعلیم کو اپنی عملی حالتوں پر جاری کریں گے۔

پس یہ عقائد جو ہم پر عملی ذمہ داری ڈالتے ہیں اُنہیں پورا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی عملی حالتوں کی درستگی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم نے ادا کرنی ہے۔

(خطبہ جمعہ 6 دسمبر 2013ء بحوالہ خطبات مسرور جلد11 صفحہ678-679)

پچھلا پڑھیں

شاہد آفریدی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2022