جو گھڑی ہاتھ سے نکل جائے
وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی
یہ عطائے کریم ہے ورنہ
عقل تو عمر بھر نہیں آتی
تیر ترکش کے تم چلا بیٹھے
اب کماں ہاتھ پر نہیں آتی
ہر جتن تم نے کر کے دیکھ لیا
اس کی نصرت مگر نظر نہیں آتی
شرم اپنے کیے پہ ہی تم کو
شاید آجائے، پر نہیں آتی
روشنی لامکاں پہ جا پہنچی
کیوں تمہارے نگر نہیں آتی
بوئے گلشن تو کُو بہ کُو پھیلی
اِک تمہارے ہی گھر نہیں آتی
ہم پہ سورج سدا چمکتا ہے
تم پہ لیکن سحر نہیں آتی
روزِ محشر جواب کیا دو گے
بات واں بول کر نہیں آتی
جب تلک آنکھ وا نہیں کرتے
بات بنتی نظر نہیں آتی
(عطاءالمجیب راشد۔ لندن)