• 9 جولائی, 2025

مولوی غلام محمد مرحوم

یاد رفتگان
دادا جان مولوی غلام محمد مرحوم

خاندانی پس منظر

میرے دادا جان کا تعلق آزاد کشمیر کے گاؤں چرناڑی (گوئی) سے تھا جو کہ مولوی غلام محمد صاحب یا مولوی جی کے نام سے پکارے جاتے تھے۔

آپ کے ابا جان جن کانام منگو خان تھا نے محترم مربی صاحب محبوب عالم صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ دادا جان تین بھائی تھے سید محمد اور دین محمد جو کہ بعد میں ربوہ میں شفٹ ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں محترم مربی صاحب محبوب عالم صاحب کی تبلیغ اور کوشش سے گاؤں کے دوسرے لوگ جو کہ آپس میں رشتہ دار ہی تھے اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے اور اسی زمانے میں ندھیری، سنیارہ، سہنی، تھڑولا اور بھرموچ کے علاقوں میں بھی بہت سے لوگوں نے احمدیت قبول کی۔ یہ سب علاقے چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل ہیں اور اب اللہ کے فضل سے ہر گاؤں میں مربی یا معلم صاحبان تعینات ہیں۔ تقریباًہر ایک کی اپنی مساجد بھی ہیں اور تربیت کا کام ہو رہا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلَی ذَالِک۔

چرناڑی میں مسجد بھی محترم دادا جان نے ہی تعمیر کی تھی جو کہ پتھروں کو تراش کر بنائی گئی ہے۔ شروع میں دادا جان ہی مسجد میں با جماعت نماز اور نماز جمعہ بھی پڑھاتے تھے اور مولوی جی کے نام سے جانے جاتے تھے۔

1932ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کا اعلان کیا تو آپ تحریک جدید کے صف اوّل کے پانچ ہزار مجاہدین میں شامل ہیں آپ کا کوڈ نمبر 40-41 نمبر پر ہے۔

دادا جان مرحوم احمدیت کے سچے عاشق تھے۔ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافت سے دلی محبت و عقیدت تھی۔ آپ نے کسی مدرسہ سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن اردو پڑھ لیتے تھے اور کچھ حد تک لکھ بھی لیتے تھے۔ بچپن سے ہی سلسلہ احمدیہ کی کتب اور اخبار الفضل اور دیگر رسالہ جات کا کثرت سے مطالعہ کرتے دیکھا۔ ان کا ہنڈ بیگ، جو کہ ایک سادہ سے کپڑے کاتھیلا ہوتا تھا، اس میں روحانی خزائن کی کوئی نہ کوئی کتاب، تذکرہ اور الفضل کے پرچہ جات ضرور نظر آتے۔ بچوں اور بڑوں کو پڑھ کر سنانے اور سننے کی تحریک کرتے۔ مجھے بچپن میں کتابیں اور کہانیاں پڑھنے کا شوق دادا جان کو ہی دیکھ کر ہوا۔

دادا جان کی اولاد دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بچوں کو پڑھانے کا شوق ہی تھا کہ بڑے بیٹے وزیر محمد (میرے ابا جان مرحوم) کو تعلیم الاسلام سکول قادیان میں داخل کروایا اور قادیان ماسٹر نذیر حسین کے حوالے کرکے آئے۔ سات، آٹھ مہینے ہی پڑھا تھا کہ 1947ء میں پارٹیشن کی وجہ سے حالات خراب ہوگئے اور ابا جان کو واپس آنا پڑا۔ جنگ کی وجہ سے چرناڑی سے عارضی طور پر ہجرت کرنی پڑی اور کوٹلی شہر میں رہنا پڑا۔ اسی دوران بےسروسامانی، پریشانی اور کشمکش کےحالات میں دادی جان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت میری چھوٹی پھوپھی جان عائشہ تقریباً دو سال کی تھیں۔ اس مشکل وقت میں محترم پردادی جان نے بچوں کی پرورش میں دادا جان اور ابا جان کا بہت ساتھ دیا ابا جان نے مڈل پرائیویٹ طور پر کوٹلی میں پاس کیا اور بعد میں ربوہ میں 1952ء – 1953ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کی خدمت کی بھی توفیق پائی۔

پھر دادا جان نے ایک بیوہ عورت سے شادی کرلی جو کہ بہت بے نفس، خدمت کرنے والی اور سب سے حسن سلوک کرنے والی خاتون تھیں۔ ہم بچے انہی کو دادی جان سمجھتے اور بہت عزت اور پیار کرتے۔ جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ ہماری سگی دادی جان تو پارٹیشن کے دوران ہی فوت ہو گئیں تھیں (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرما)۔ آمین

اللہ کے فضل سے دادا جان کے چاروں بچے کثیر الاعیال ہیں اور جماعت کے ساتھ اخلاص وفا کا تعلق ہے اور کچھ مختلف ملکوںمیں رہائش پزیر ہیں۔ ایک پوتا معلم اور نواسے اور پڑ نواسے مربی کے طور پر خدمات بجا لا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ایمان واخلاص میں وفا اور خلافت کی محبت نسل در نسل بڑھاتا چلا جا۔ آمین

محترم مربی صاحب محمد حسین شاہد کا ذکر خیر

محترم دادا جان کی دعاؤں اور کوشش کا پہلا ثمر چرناڑی جماعت میں محترم مربی صاحب محمد حسین شاہد تھے۔ آپ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ ماں بچپن میں انتقال کر گئی تھیں۔ پانچویں جماعت پاس کرکے دادا جان کے ہمراہ جلسہ سالانہ ربوہ گئے۔ اور ربوہ میں پڑھنا چاہتے تھے۔ بہت بیمار اور کمزور تھے کہ ہائی سکول میں داخلہ نہیں ہورہا تھا۔ بڑی دعا اور مسلسل دو تین دن د فا تر اور امیرصاحب تک رسائی حاصل کرکے بچے کا داخلہ ممکن ہوا۔ اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت بھی عطا کی۔ جب واپس گاؤں پہنچے تومرحوم چچا جان کے والد صاحب جن کا نام فیروز دین تھا، کی سخت ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن دادا جان مرحوم بڑے تحمل اورصبر سے ان کو سمجھاتے کہ ایک دن آئے گا تم اپنے بیٹے پر رشک کرو گے اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔ اپنے بیٹے کی کامیابی پر بڑےخوش تھے۔ محترم دادا جان نے ان کی کامیابی کے لئے بہت دعائیں کیں۔ محترم مربی صاحب سلسلہ احمدیہ کے ایک بہت سادہ طبیعت، بے لوث خدمت کرنے والے اور سارے خاندان والوں کے لئے قابل فخر اور ہر دلعزیز شخصیت تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو سات بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ اللہ کے فضل سے ان کے دو بیٹے مربی سلسلہ اور دوسرے بچے بھی خلافت سے وابستہ اور کوئی نہ کوئی خدمت جا لا رہے ہیں۔ چرناڑی مسجد کے ساتھ ہی ان کی زمین اور گھر ہے اور آپ نے اپنا گھر بھی جماعت کو دے دیا ہے جو کہ اب مربی ہاؤس میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ چرناڑی جماعت کومزید ترقیات سے نوازتا چلا جائے۔ آمین

تربیت کے واقعات

جب ہم چھوٹے تھے تو سب سے پہلا سبق نماز جمعہ کی اہمیت کا تھا۔ آپ لکڑی اور معماری کا کام خوب جانتے تھے۔ جمعہ کے دن چھٹی کرتے۔ جمعہ المبارک کو نہانا، صاف کپڑے پہننا، حجامت کرنا، ناخن کاٹنا اورپگڑی تیار کروانا وغیرہ۔ پگڑی کا کپڑا (صافہ)، دادی جان پہلے اس کو دھوتیں اور چاول ابال کر اس کی (پچھ) یعنی پانی سے ململ کے کپڑے کو مائع لگاتیں پھر میں اور دادی جان اس کو پکڑ کر سکھاتے اور دادا جان کے سامنے پیش کرتے۔ آپ کا گول لکڑی کا میز، جو کہ آپ کےہاتھ کا بنا ہوا تھا اور اس کے اوپر پرانی طرز کا گول آئینہ رکھ کر، چارپائی پربیٹھ کر پگڑی کے کپڑے کو ایک خاص انداز میں (کلہ) پگڑی کے نیچے والا حصہ کے اوپر سیٹ کر کے باندھتے۔ اس دوران کبھی آپ کی عینک گر جاتی تو میں جلدی سے اٹھا کر دیتی توخوش ہو کر دعا دیتے۔ یہ سارا عمل ہمارے لئے بڑی کشش رکھتا تھا اور ہم بھاگ بھاگ کر سارے کاموں میں حصہ لیتے۔ نماز جمعہ کی تیاری کرتے اور دادا جان کے ساتھ گرتے پڑتے مسجد پہنچ جاتے۔ نماز کے بعد چشمے سے پانی بھر کر لے جانے کا شوق سوا تھا۔ گھر تک کا راستہ کافی دشوار اور اونچائی پر تھا کہ کئی دفعہ پانی بھی گرا اور چوٹیں بھی آئیں لیکن شوق میں پھر بھی کمی نہیں آئی۔ ہم اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں دو ماہ کشمیر گزارتے اور اپنے بزرگان کی صحبت میں رہتے۔ ان کی محبتوں اور شفقتوں کا وافر حصہ پایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

1974ء میں جب ابا جان نے ربوہ رہائش اختیار کی تو آپ اکثر ہمارے پاس آکر رہتے اور ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ شروع میں دارالعلوم میں مسجد نہیں بنی تھی۔ آپ اکثر مسجد مبارک میں باجماعت نماز ادا کرنے جاتے۔ ظہر وعصر ادا کر کے فقیر محمد کشمیری کے ہوٹل سے چائے پیتے اور مغرب سے پہلے گھر آجاتے۔ سب بچوں اور گھر والوں کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرتے۔ رکوع اور سجود میں بہت گریہ وزاری ہوتی کہ ہمیں بھی رونا آجاتا اور میرا چھوٹا بھائی عبدالرحمن ذرا آگے ہو کر دیکھتا اور پھر سوال کرتا کہ دادا اتنا روتے کیوں ہیں۔ نماز کے بعد تسبیح سے فارغ ہوکر کسی کتاب سے کچھ نہ کچھ سنا تے، کبھی کوئی کہانی یا کوئی اخبار الفضل کامضمون۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ آپ خلیفہ ثانی ؓکا کوئی اقتباس پڑھ کر سنا رہے تھے کہ احمدی احباب (مس۔ کڈ) پارٹیوں میں شرکت نہ کیاکریں یا اس سے ملتا جلتا فقرہ تھا (اصل لفظ میکسڈ یعنی Mixed ہے) اور مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ سوال کرنے پر دادا جان نے بتایا کہ جہاں آدمی اور عورتیں اکٹھے ہوں وہ پارٹیاں۔ لیکن ربوہ جیسے پاکیزہ ماحول میں ایسی پارٹیوں کا تصور بھی نہیں تھا سو سمجھانے پر بھی سمجھ نہیں آیا۔ جب آٹھویں، نویں میں انگریزی زبان پر کچھ عبور ہوا تو آپ کی بات سمجھ میں آئی اور بہت محظوظ ہوئے دادا جان کے انگریزی تلفظ پر اور حیران اس بات پر کہ علم کا اتنا شوق تو تھا کہ آپ کو اس لفظ کے معنی بھی آتے تھے۔ آپ گوجری زبان بولتے تھے جو کہ بخوبی سمجھ میں آجاتی تھی۔

اس کے علاوہ جتنا عرصہ ہمارے پاس رہتے روزانہ صبح یسر ناالقرآن کی کلاس لگاتے اور سکھایا کہ اپنے سے بڑے کو آپ کہہ کرپکارنا ہے۔ اور نام بگاڑ کر یا (نک نیم) سے نہیں بلانا۔ بڑی بہن کو باجی اور اس سے چھوٹے بھائی کو بھائی جان کہنا ہے۔ بچپن میںعادات پختہ ہو چکی تھیں اس لئے آپ نے کیکر کی دو پتلی پتلی سو ٹیاں جس کو وہ پہاڑی زبان میں (پھانٹ) کہتے تھے تیار کیں پہلےسب کو پیار سے سمجھایا لیکن جب دیکھا کہ اثر نہیں ہورہا تو پھانٹ کا استعمال کیا اور کھیل میں بھی ہمارے ساتھ رہتے جب کبھی ہم دوسرے نام سے ایک دوسرے کو پکارتے تو سوٹی کی ضرب لگتی جو کہ کافی کاری ہوتی۔ خیر اللہ اللہ کر کے آپ کی دو ہفتوں کی ٹریننگ سے ہم کافی اچھی باتیں سیکھ چکے تھے۔ الحمد للّٰہ۔

اسی طرح جب سے ہوش سنبھالا۔ آپ کو بڑے درد اور گریہ وزاری سے نماز تہجد پڑھتے دیکھا۔ سب کو جگاتے اور کوشش ہوتی کہ سب پڑھیں۔ رمضان المبارک میں چرناڑی مسجد میں اعتکاف بیٹھتے اور سب کو دعاؤں کی تحریک کرتے۔ در ثمین اور کلام محمود کی نظمیں بڑے شوق سے پڑھتے اور بہت سے اشعار آپ کو زبانی بھی یاد تھے۔ اس طرح مجھے بھی کافی اشعاریاد ہو گے لیکن مطلب نہیں آتا تھا۔ اکثر یہ اشعار پڑھتے،

یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سن لے پکار

اور یہ شعر کہ:

دن چڑھا ہے دشمنان دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہرکہ میں ہوں بے قرار

اور یہ شعر کہ:

خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے

اشعار پڑھتے جاتے اور آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو جاتی اور ہم حیران ہوتے کہ آپ اتنا روتے کیوں ہیں اب سمجھ میں آتاہے کہ آپ کے دل میں اسلا م احمدیت کی اور خلافت کی کتنی محبت تھی اور آپ نے کتنے کرب سے اپنی اولاد اور جماعت کےلئے دعائیں کی ہوں گی۔ شام کو محترم ابا جان اور ان کے بھائی سید محمد کی اور کبھی کوئی اور مہمان بھی ہوتا، بیٹھک میں گرما گرم محفل جمتی جو جماعتی ترقی اور حالات حاضرہ پر تبصرہ پر مبنی ہوتی۔ ایک مذہبی ماحول ہوتا۔

تبلیغ کا بہت شوق اور جذبہ تھا۔ ابا جان کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایک مربع زمین ملی تو کچھ عرصہ اس کی آباد کاری میں حصہ لیا اور تبلیغ بھی جاری رکھی۔ اس لئے اس رقبے کا نام (مرز یوں کا رقبہ) بھی مشہور ہو گیا اور قرب و جوار والے دکانداروں نےآپ کا بائی کاٹ بھی کر دیا اور مارا بھی۔ آپ زخمی بھی ہوئے اور آپ کو قریبی شہر جتوئی سے سودا سلف لانے کے لئے جانا پڑتالیکن تبلیغ کا سلسلہ جاری رہتا۔ کشمیر میں بھی آپ اپنے دوست احباب سے تبلیغ کرتے رہتے اور واقعات سناتے۔

مجھ یاد ہے کہ میرے ایف اے پاس کرنے کے بعد ہمارے مالی حالات کافی خراب ہو گئے کہ بی اے میں داخلہ کے لئے پیسے نہیں تھے اور امی جان بھی کافی مخالفت کر رہی تھیں کہ لڑ کی ہے آگے پڑھ کر کیا کرے گی لیکن میں آگے پڑھنا چاہتی تھی۔ سو میں نےدادا جان کی خدمت میں خط لکھا اور دعا کی درخواست کی۔ کچھ دنوں بعد آپ نے ایک بکری بیچ کر 500 روپے ابا جان کی طرف بھیجےکہ آگے داخلہ کروائیں۔ اس طرح میں نے جامعہ نصرت کالج ربوہ میں بی اے مکمل کیا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

آپ بہت زندہ دل، محنتی اور بچوں سے پیار کرنے والے تھے۔ 1965ء میں جب محترم ابا جان محاذ پر تھے تو دادا جان ہمارےساتھ تھے کہ میرے بھائی مبارک احمد کی ٹانگ گرنے کی وجہ سے ٹوٹ گئی پہلے فضل عمر ہسپتال پھر گھر پر آدمی علاج کے لئےبلاتے رہے لیکن چند دن بعد محسوس ہوا کہ ایک ٹانگ چھوٹی نظر آرہی ہے۔ بہت پریشانی اور بے سروسامانی کا عالم کہ بچے کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اسی کشمکش کے دوران امی جان نے (آپا جان طاہرہ صدیقہ حرم حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ) کے والدین جو کہ محلہ دارالعلوم میں رہتے تھےاور ان کے بڑے بھائی فوج میں آفیسر تھے، سارے حالات سے آگاہ کیاجنگ کی وجہ سے ابا جان کا آنا ممکن نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا کرے کہ ان کے والدین کی کوشش اور مدد سے میرےبھائی کا علاج سول ہسپتال سرگودھا میں ہو گیا اور ٹانگ بالکل صحیح جڑ گئی کہ اب اللہ کے فضل وکرم سے شائبہ تک نہیں ہوتا کہ کبھی ٹانگ ٹوٹی بھی تھی اس دوران دادا جان ساتھ رہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے اور یہ ان سب کااحسان اور صدقہ جاریہ ہے۔

اسی طرح ایک دفعہ میرے بھائی عبدالرحمان کو مغرب کے بعد بچھو نے کاٹ لیا۔ بچہ درد اور تکلیف سے بہت چیخ رہا تھا، چلا رہاتھا کہ محلے والے بھی جمع ہو گئے۔ آپ نے سچی بوٹی سے تیار کی ہوئی دوائی بچے کو کھلائی اور پاؤں پر لیپ کی صورت میں باندھی۔ پھر اپنے کندھے پر بٹھا کر لوریاں دیتے ہوئے باہر لے گے اور پہاڑیوں کے گرد چکر لگاتے رہے اور ہمیں کہا کہ سب سو جاؤ۔ جب صبح آنکھ کھلی تو بھائی کافی بہتر تھا۔

1983ء میں بی اے کے امتحان کے بعد دادا جان کی خواہش پر کشمیر میں تقریباً ڈیڑھ سال ٹیچینگکرنے کا موقع بھی ملا بہت زندہ دل اور کھلے دل کے مالک تھے اور پہاڑی سفر کے عادی تھے ان کے ساتھ کئے گے سفر میرے یادگار سفر ہیں اور میرے ماضی کاایک دلکش سرمایہ بھی۔ کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور مناظرسے کون واقف نہیں۔ جہاں کشمیر کی وادیاں اور بلند پہاڑ قدرتی حسن سےمالا مال ہیں تو دوسری طرف وہاں کے باسیوں کا طرز زندگی بھی مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ جہاں اس وقت زندگی کی بنیادی سہولیات بھی اکثر گھرانوں کو میسر نہیں تھیں اس وقت یہ علاقے بجلی اور سفر کی سہولیات سے محروم تھے۔ اس کے علاوہ برموچ، تھڑولا، دھنواں، نکیال (جندروٹ) اور آرام باڑی (تتہ پانی) کے علاقے بھی دیکھے اس دوران جو خاص بات تھی وہ آپ کا تبلیغ کرنا۔ سفر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی نہ کوئی کتاب یا جماعتی رسالہ ساتھ ہوتا۔ نماز سفر میں بھی وقت پر ادا کرنے کی عادت تھی۔

آپ کے ساتھ کوٹلی کا سفر ایک یادگار سفر ہے جو کہ دشوار گزار پہاڑی راستے، خوبصورت ندی نالوں پر مشتمل ہے۔ راستے میں علاقوں کا نام اور تعارف بھی کرواتے جاتے۔ ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک بڑے گول پتھر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ اس جگہ کا نام (ہاتھی ٹھول) ہے ذرا غور سے دیکھو کہ اس پتھر کی شکل ہاتھی سے ملتی ہے اس لئے اس کا نام (ہاتھی ٹھول) پڑ گیا ہے۔ واقعی جب میں نے مختلف زاویوں سے جائزہ لیا تو وہ ہاتھی کی ہی کی ہی شکل لگا اور میں بہت محظوظ ہوئی۔ راستے میں کئی جگہوں پر ندی کے کنارے پتھر کی بڑی بڑی سلیں قبلہ رخ نصب کی ہوئیں بھی دیکھنے کو ملیں جہاں نماز کا وقت ہوا دادا جی کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق بھی پائی۔ اور یہ نماز ادا کرنے کے لئے ہی نصب کی گئیں تھیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔

جب دادا جی ہمارے پاس آکر رہتے تو ہم سب بہن بھائی آپ کے گرد بیٹھ جاتے آپ بڑے لطیف انداز میں کوئی نہ کوئی کہانی اور ایمان افروز واقعات پڑھ کر سناتے جس میں مزاح کا رنگ بھی ہوتا۔ ان کی محبت و شفقت کا اثر ابھی تک میرے دل میں ہے۔ ان کی یادوں کا ایک بہتا دریا ہے جو کہ ختم نہیں ہوتا مگر مضمون کی طوالت کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتی ہوں۔

قارئین الفضل سے دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ پیارے دادا جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

اور ہمیں اور ہماری اولادوں کو اسلام احمدیت کا بہترین فرد بننے اور اسلام احمدیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(رضیہ بیگم۔ نیو یارک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی