حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
مَیں صرف اہل وطن کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عقل کے ناخن لو، حکومت بھی اور پڑھے لکھے عوام بھی کہ لوگوں کو خدا نہ بناؤ، خدا کا حقیقی خوف اپنے دل میں پیدا کرو۔ پاکستان کی سرزمین مسلمانوں کی آزادی کے لئے لی گئی تھی اور اس سوچ کے ساتھ قائداعظم نے یہ ملک بنایا تھا کہ مسلمانوں کو ظلم سے نکالا جائے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو لاگو کیا جائے، اس طرح کہ تمام مذاہب کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کا حق دیا جائے۔ انصاف کے ساتھ پاکستان کے ہر شہری کے حقوق ادا ہوں، بلا امتیاز اس کے کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اگر حکومتیں دوسروں کے مذہب میں دخل اندازی شروع کر دیں، اگر انصاف کا فقدان ہو، اگر ایک طبقے کے حقوق پامال ہوں اور دوسرے کے لئے کہا جائے کہ ٹھیک ہے جو کر رہا ہے وہ کرے، اگر ہتک ہے تو عدالت کی ہے تمہیں کیا ؟تو یہ انصاف نہیں، ظلم ہے۔ پس جب دنیاوی انصاف کے تقاضے بھی پورے نہ کئے جائیں اور اللہ والوں کو مذہب کے نام پر ظلم کی چکّی میں پیسا جائے تو ایسے لوگ، ایسی حکومتیں پھر خداتعالیٰ کے انعاموں کی حقدار نہیں ٹھہرتیں۔ اس لئے اہل وطن بھی اللہ کا خوف کریں، ہم احمدی بھی سب سے بڑھ کر اپنے وطن سے محبت کرنے والے ہیں۔ پاکستان کی خاطر ہم نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں۔ تقسیم کے وقت بھی جب پاکستان معرض وجود میں آیا، اُس وقت بھی ہم نے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور اس کے لئے بڑا کردار ادا کیا۔ پاکستان کی آزادی میں احمدیوں کا سب سے زیادہ کردار ہے اور مختلف جنگوں میں بھی۔ آج بھی ہم اہل وطن کی خدمت اور ملک کی ترقی کے لئے اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں جیسا کہ زلزلہ زدگان کی امداد کے سلسلہ میں بیان کر چکا ہوں۔ آج مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی احمدی ہی ہیں جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتے ہیں جوسب سے زیادہ پاکستان کی بقا اور سا لمیت کے لئے کوشش کرتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں اور ہمارا کام بھی یہی ہے کہ اس کوشش میں اہل وطن کو اپنے اپنے حلقہ میں جیسا کہ مَیں نے کہا بتا ئیں کہ خدا کا خوف کرو اور ملک کو داؤ پر نہ لگاؤ۔
پاکستان میں بہت بڑی تعداد احمدیوں کی ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ احمدیوں کی دعائیں ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے پاکستان بچا ہوا ہے۔ ورنہ یہ جو نام نہاد محب وطن ہیں، ان کے کام ایسے نہیں ہیں کہ جو پاکستان کو بچا سکیں۔ ان کی تو ہر کوشش ایسی ہے کہ پاکستان کے توڑنے کے درپے ہیں۔ ہر ایک نے پاکستان کو داؤ پر لگا یا ہوا ہے۔ حیرت ہوتی ہے خبریں دیکھ کر۔ یہاں یورپین پارلیمنٹ کی کارروائی مَیں نے ٹی وی پر دیکھی، وہاں ایک ممبر پارلیمنٹ اس بات سے سخت اختلاف کر رہی تھیں اور بڑی شدت سے اس بات کا ردّ کررہی تھیں کہ پاکستان کی امداد بند کی جائے کیونکہ بعض پاکستانی سیاسی حلقوں سے ہی یہ شور تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ غریب عوام پر اس کا اثر ہو گا۔ جس مقصد کے لئے ہم امداد دے رہے ہیں وہ جاری رہنی چاہئے۔ یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ پاکستان کو امداد لینی چاہئے یا نہیں، ضرورت ہے کہ نہیں لیکن مَیں سوچ بتا رہا ہوں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارے سیاستدانوں میں ایک لیڈر صاحبہ یہ فرما رہی تھیں اور اسی طرح دوسرے لیڈر بھی کہ یورپین یونین اور یورپی ممالک پہ زور دیاجائے کہ پاکستان کی امداد بند کریں اور پھر اس طرح حکومت دباؤ میں آئے گی۔ تو یہ ہیں ملک کے ہمدرد جو شور مچاتے ہیں کہ ہم ہی ملک کو بچانے والے ہیں۔ غیروں کو بلایاجاتا ہے، ان سے کوششیں کرائی جاتی ہیں کہ آؤ اور ہماری مدد کرو بلکہ بعض تو اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ گو الفاظ میں تو نہیں لیکن عملاً یہ دعوت دے رہے ہیں کہ آؤ اور ہمارے ملک کو سنبھالو۔ پس یہ لو گ تو ملک کے ہمدرد نہیں بلکہ ملک کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ اس بات پر فخر ہے، یہ لیڈر اس بات پربڑے خوش ہیں کہ ہم نے 90 سالہ مسئلہ حل کر دیا۔ اللہ رحم کرے ہمارے ملک پر بھی اور ان عقل کے اندھوں کی بھی آنکھیں کھولے۔ اگر ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو ایسے لیڈر ملک کو دے جو ملک کا درد رکھنے والے ہوں، غریبوں کا خیال رکھنے والے ہوں۔ اپنی ذاتی اَناؤں اور مفادات کی بجائے ملک کے مفاد میں کام کرنے والے ہوں۔ پس اس لحاظ سے ہر احمدی کو دعا کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ خاص طورپر پاکستانی احمدیوں کو جو پاکستان میں بھی رہتے ہیں اور باہر کی دنیا میں بھی رہتے ہیں۔ پھر انڈونیشیا کے جو جماعتی حالات ہیں ان کا مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ آج کل پھر وہاں اُبال آیا ہوا ہے۔ بعض دور دراز کے چھوٹے قصبوں میں جہاں احمدی تھوڑی تعداد میں ہیں انہیں پھر ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ مسجدوں پر حملے کرکے انہیں گرایا جا رہا ہے۔ ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے تاکہ جماعت چھوڑ دیں۔ اور مقامی طور پر اس کی پشت پناہی بعض حکومتی ادارے کر رہے ہوتے ہیں تاکہ اس فساد کے حوالے سے پھر حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ کیونکہ اس وجہ سے احمدیوں کی جانوں کو خطرہ ہے (وہی پاکستان والی حکمت عملی اور یا کم از کم جواب جو بیرونی دنیا کو پاکستانی حکومتیں دیتی ہیں کہ ان کی جانوں کو خطرہ ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہونے کا خدشہ ہے)۔ اس لئے ان کو اسمبلی میں حکومتی سطح پر غیر مسلم قرار دیا جائے تبھی امن قائم ہو سکتا ہے۔ تو بڑی پلاننگ سے اب انہوں نے یہ ترکیب استعمال کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کے تمام مکروں کو توڑنے والا ہے اور انشاء اللہ توڑے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ ان کا یہ خیال کہ ہم اس طرح احمدیت کا خاتمہ کریں گے کبھی بھی صحیح ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ ان لوگوں کی بڑی خام خیالی ہے۔ پچھلے سو سال سے زائد عرصہ سے یہ کوشش ہو رہی ہے لیکن جہاں بھی کوشش ہوئی ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں۔ اگر کسی انسان کا کام ہوتا توکب کی جماعت احمدیہ ختم ہو چکی ہوتی۔ لیکن یہ خداتعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ ہے کہ بڑھے گا اور پھولے اور پھلے گا انشاء اللہ۔ کوئی نہیں جو اس کو ختم کر سکے۔ پس اس بات کی تو کوئی فکر نہیں کہ یہ لوگ احمدیت کو ختم کر سکیں یا انڈونیشیا سے ختم کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی بڑے مضبوط ایمان کے اور قربانیاں کرنے والے احمدی ہیں۔ اگر کہیں کوئی اِکّادُکّا خوفزدہ ہو کر کچھ عرصہ کے لئے کوئی کمزوریٔ ایمان دکھاتا ہے یا یہ کسی کو خوفزدہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ مضبوط ایمان کے احمدی عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ یہی سلوک رہا ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دے کر اس زُعم میں کہ احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا کیا نتیجہ نکلا؟ احمدیت کو تو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بڑھ کر وسعت عطا کی۔ دوسرے نے اور بھی سخت قانون بنایا کہ اب تو کوئی راہ فرار نہیں ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تیزی سے احمدیت پھیلی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پیغام پہنچانے کے وہ وسائل بھی مہیا فرما دئیے جو اگر انسانی منصوبہ بندی ہوتی تو شایداس پر عمل کرنے کے لئے ہمیں مزید کئی سال درکار ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو وعدہ ہے کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا یہ ہر روز نئی شان سے پورا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی تو کوئی فکر نہیں کہ یہ احمدیت کو ختم کر سکیں گے یا احمدی کے ایمان کو متزلزل کر سکیں گے لیکن یہ فکر ضرور ہے اور اس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ انڈونیشیا کے احمدی اور دنیا کے رہنے والے ہر جگہ کے احمدی بھی ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ انہوں نے قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کسی مخالفت کی وجہ سے ہمدردی خلق سے ہاتھ نہیں اٹھانا۔ کسی مخالفت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو جو حقیقی اسلام کا پیغام ہے، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسوہ رسولﷺ کی تعلیم ہے اس کو پھیلانے سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ پس یہ کام تو ہم نے کرنا ہے۔ اس کے لئے قربانیاں بھی دینی پڑیں گی، ابتلاء بھی آئیں گے۔ الٰہی جماعتوں کے ساتھ ہمیشہ یہ سلوک ہوتا بھی رہا ہے۔ لیکن انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آئے گی۔ ہمیشہ آتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر اپنی قدرت کے نظارے اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے۔ ہمارا کام پیغام پہنچانا اور ہمدردی بنی نوع ہے جو ہم نے کرنی ہے۔ انڈونیشیا میں جب سونامی آیا تھا تو جس علاقے میں یہ سمندری طوفان تھا، اس میں اس سے پہلے بڑی شدیدمخالفت تھی۔ وہاں جا کر بھی ہم نے ان لوگوں کی ضرورتیں پوری کیں اور انہوں نے ہمارے سے مددبھی حاصل کر لی۔ تو ہمارے دل تو ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمدردی بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ تیار ہیں اور اس ہمدردی سے پُر رہتے ہیں۔ ہم نے خدمت کرنی ہے۔ ان لوگوں نے، جو ڈنگ مارنے والے ہیں، ان کی فطرت میں ڈنگ مارنا ہے جس طرح گائے اور بچھو کا قصہ ہے۔ ایک بچھو نے گائے کو کہا کہ مجھے دریا پار کر ادو۔ اس نے اپنی کمر پر اس کو سوار کر لیا۔ دریا پار ہوکے جب وہ بچھو اترنے لگا۔ تو اس نے گائے کو ڈنگ مار لیا۔ تو کسی نے کہا تمہیں بچھو کو دریا پارکرانے کی ضرورت کیا تھی۔ اس نے کہا میری فطرت میں جو اللہ تعالیٰ نے کام رکھا ہے وہ مَیں کر رہی ہوں اور اس کی فطرت میں جو ڈنگ مارنا ہے وہ اس نے کرنا ہے۔ تو ہم نے تو خدمت انسانیت کرنی ہے اور اگر کوئی مجبور ہے تو اس کی مدد کرنی ہے قطع نظر اس کے کہ ان لوگوں نے کیا سلوک کرنا ہے۔ جزا اُن سے نہیں لینی بلکہ خداتعالیٰ کے پاس ہمارے اجر ہیں اس لئے وہ تو ہم نے کرتے رہنا ہے۔ جو اُن کا کام ہے وہ یہ کرتے ہیں۔ ہمارا کام دنیا کو ہر لحاظ سے فیض پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر فیض پہنچانا ہے۔ پس اس کے لئے ہر احمدی کو اپنی بھرپور کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ دعاؤں اور صبر کے ساتھ یہ کام کرتے چلے جانا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2007ء)
٭…٭…٭