قرآن ِمجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں عنایت کردہ ایک مکمل ضابطہ حیات اور چشمہ ہدایت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلیّ اللہ علیہ وسلّم پر تقریبًا 23 سال کے عرصہ میں نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کواس کے روحانی کمالات کی بِناء پر ’خاتم النّبیین‘ کے خطاب سے نوازا اور آپ پر نازل شدہ کتاب ’خاتم الکتب‘ کا مقام پانے والی ٹھہری۔ اسی مضمون کی بابت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’خاتم النّبیین کا لفظ جو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم پر بولا گیا، بجائے خود چاہتاہےاور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں کیونکہ کلام ِالٰہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت ِقدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اسی قدر قوت و شوکت اس کلام کی ہوتی ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوّتِ قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔ اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوتِ قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقاماتِ کمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے۔ آپ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 26، ایڈیشن2003)
حضرت رسول ِکریم صلّی اللہ علیہ وسلّم نے قرآنِ کریم سے محبت وعشق کے ایسے متنوع انداز ہمارے لیےبطور اُسوہ حسنہ چھوڑے ہیں کہ جن کو اگر ہم اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو قرآن کریم کے توسط سے ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔قارئین! آئیے اپنے پیارے رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حیاتِ مبارکہ میں قرآن کریم سے محبت اور عشق کے مختلف انداز دیکھتے ہیں ۔
قرآنِ کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا
رسولِ کریم صلیّ اللہ علیہ وسلّم کی قرآنِ کریم سے محبت و عشق کا ہی یہ انداز تھا کہ آپ نے قرآن کریم کو جلدی جلدی پڑھ کر ختم کرنے کو ناپسند فرمایا۔ آپ چاہتے تھے کہ ہم اس کتابِ رحماں کو نہایت پیار سے سنوار کر اور خوش الحانی سے پڑھا کریں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب استحباب الترتیل فی القراۃ) حتّیٰ کہ آپ نے ایک بار خوش الحانی سے پڑھنے کی اس قدر تاکید کی کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب استحباب الترتیل فی القراۃ) گویا آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے نزدیک قرآن کریم کو محبت سے اورخوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک طرح کی عبادت تھی جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنے کو ایک طرح کی عبادت قرار دیا ہے
(الحکم 24 مارچ 1903)
قرآنِ کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا
قرآن کریم سے محبت کا ایک یہ بھی آپ کا انداز تھا کہ آپ نمازوں کے دوران پڑھی جانے والی آیات کے معانی پر غور فرماتے اور نہایت انہماک سے اور ٹھہر ٹھہر کر نماز میں تلاوت فرماتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ نماز فجر میں میں سورۃ المؤمنون کی تلاوت کرتے ہوئے جب حضرت موسیٰ اور ہارون علیھما السلام کا ذکر آیا تو خشیتِ الہٰی کے سبب آپ کو کھانسی شروع ہوگئی جس پر آپ کو رکعت ختم کر کے رکوع کرنا پڑا۔ (مسلم،کتاب الصلوٰۃ، باب القرآۃ فی الصبح) اسی طرح حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا گواہی دیتی ہیں کہ آپ نبی صلّی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرتے ۔ جس کی مثال آپ نے اس طرح دی کہ آپ الحمد للہ ربّ العالمین پڑھ کر توقف فرماتے پھر الرّحمان الرّحیم پڑھتے اور پھر توقف فرماتے۔(مشکٰوۃ المصابیح، کتاب فضائل القرآن) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کی بابت استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نبی صلّی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کرتلاوت فرمایا کرتے تھے۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الوتر،باب استحباب الترتیل فی القراۃ)
قرآنِ کریم کو جلدی جلدی ختم نہ کرنا
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی قرآن ِکریم سے محبت کا ایک اور انداز ملاحظہ ہو کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : قرآن ِکریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو ۔ اس پر میَں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے جلدی پڑھنے کی قوت پاتا ہوں ۔ اس پر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر ایک ہفتہ میں مکمل کر لیا کرو اس سے پہلے تلاوت ِ قرآن مکمل نہ کرنا۔
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فی کم یقرء القرآن)
قرآنِ کریم کی آیات پر دعائیہ کلمات کہنا
حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم کی محبتِ قرآن کا ایک یہ بھی اندازہمیں نظر آتا ہےکہ نماز میں تلاوت کرتے ہوئے جب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بابت کوئی آیت آتی تو آپ ٹھہر کر اللہ تعالیٰ کی رحمت مانگتے اور جب عذاب الٰہی کا ذکرآتا تو آپ رُک کر عذاب سے پناہ مانگتے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ) فتح مکہ کے دن جب اللہ تعالیٰ کے وعدہ پورا ہونے کا دن تھا اور ہر طرف خوشی اور فتح کے جذبات تھے آپ نبی صلّی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانے کے طور پر اپنے اونٹ پر سوار سورۃ الفتح کی آیات کو بار بار دُہراتے نظر آتے ہیں۔
(سنن ابی داؤد،کتاب الوتر،باب استحباب الترتیل فی القراۃ)
فرشتوں کے حصار میں آنا
رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کو قرآنِ کریم سے ایسا دلی لگاؤ تھا کہ آپ چاہتے تھے کہ ہم بحیثیت مسلمان تمام مل کر اللہ تعالیٰ کی اس پیاری کتاب کو پڑھا کریں جس کے نتیجہ میں ہم فرشتوں کے حصار میں آجائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سکینت کے مورد ٹھہریں گے۔ (سنن ابی داود کتاب الوتر،باب فی ثواب قرآۃ القرآن) چنانچہ آپ کی خواہش تھی کہ سب مسلمان اس کتاب کو دن رات پڑھنے والے ہوں۔ اور ہمارا کوئی دن ایسا نہ گذرے جس میں قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ پڑھا گیا ہو۔ چنانچہ آپ صلیّ اللہ علیہ وسلّم مسلمانوں کی حقیقی فلاح اور کامیابی اسی امر میں پنہاں سمجھتے تھے کہ وہ قرآن ِکریم سے ایسی محبت کرنے والے ہوں کہ اس کو پڑھے بغیر رات کو مت سوئیں اور دن رات اس کی نا صرف تلاوت کریں بلکہ اس کے معانی پر غور و فکر کرنے والے ہوں ۔
(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب فضائل القرآن ، الباب الاول)
قرآن کریم کو سننا
حضور صلی ّاللہ علیہ وسلم کی قرآن مجید سے محبت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپ دوسروں سے اس کی تلاوت کو سننا پسند فرماتے تھے۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ حضور صلیّ اللہ علیہ وسلّم نے آپ سے قرآن کریم سننے کی خواہش کا اظہار فرمایا تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے تعجب سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میَں آپ کو پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ آپ پر قرآن ِکریم نازل ہوا ہے۔ اس پر حضور صلیّ اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ مَیں پسند کرتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اَور سے قرآنِ کریم سنوں۔
(صحیح بخاری،کتاب فضائل القرآن، باب قول المقری للقاری حسبک)
قرآنِ کریم کے احکامات کی پیروی کرنا
قرآن ِمجید سے محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی زندگیاں اس کی تعلیمات کی روشنی میں گذارنے والے ہوں۔ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے۔ اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو عمدہ ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن ِ کریم پڑھتا ہے اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو عمدہ ہے مگر مزہ کڑوا ہے۔اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن ِ کریم نہیں پڑھتا ایسے کَڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی کَڑوا ہے اور خوشبو بھی کَڑوی ہے۔
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأی بقراۃ القرآن او تأکل بہ، او فجر بہ)
حضرت عائشہ کی گواہی
قرآن کریم کے احکامات اور تعلیمات پر ہمارے پیارے رسول صلیّ اللہ علیہ وسلّم نے خود عمل کر کے ہمارے لیے ایک بہترین اسوہ کی مثال قائم کردی ہےیہی وجہ ہے کہ جب ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے جب آنحضرت صلیّ اللہ علیہ وسلّم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم قرآن ِ کریم نہیں پڑھتے؟ یعنی رسول ِکریم صلّی اللہ علیہ وسلم کا عمل عین قرآنی تعلیمات کے مطابق تھا لہٰذا آپ کے اَخلاق بھی قرآنی احکامات اور تعلیمات کے مطابق تھے۔
(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃاللیل ومن نام عنہ او مرض)
تاج پہنائے جائیں گے
آپ صلیّ اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے کہ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن) یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جوقرآن کریم خودبھی سیکھتا ہے اوردوسروں کو بھی سکھا تا ہے۔ چنانچہ یہ امر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کی قرآنِ کریم سے محبت کا عکاس ہے کہ آپ نے ہمیشہ قرآن کریم کو پڑھانے والوں کوبھی ایک خاص مقام سے نوازا ہے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ جو والدین اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف خاص توجہ دیتے ہیں اور پھر ان کےبچے قرآن کریم کی تعلیمات پر چلتے ہیں تو قیامت کے روز ایسےشخص کے والدین کو اللہ تعالیٰ دوتاج پہنائے گا جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہو گی۔
(سنن ابی داؤد کتاب الوتر،باب فی ثواب قرآۃ القرآن)
اہل اللہ کون ہوتے ہیں؟
ایک مرتبہ رسول کریم صلیّ اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ کچھ لوگ اہل اللہ ہوتے ہیں۔ اس پر آپ سے پوچھا گیا اہل اللہ کون ہوتے ہیں؟ آپ صلیّ اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ 128 مطبوعہ بیروت) لہٰذا اگر ہم اہل اللہ کے گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم کو مہجور کی طرح نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ انسان جب اللہ تعالیٰ سے دوری اختیار کرلیتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا دل زنگ آلودہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ دلوں کو صیقل کرنے کے لیے اور ان کا زنگ اتارنے کا ایک نسخہ حضورصلیّ اللہ علیہ وسلّم نے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا بھی تجویز فرمایا ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الفضائل القرآن ، الفصل الثالث)
پس ہمیں ہمیشہ اپنے آپ کو قرآنِ مجید کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے دلوں کے زنگ اُتار کر اہل اللہ کے گروہ میں شامل ہونے والے ہوں اور اس پاک کتاب کو پڑھ کر اس کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق فرمائے۔ آمین
(مرسلہ: سہیل احمد ثاقب ۔مربی سلسلہ۔ قائد تعلیم القرآن مجلس انصار اللہ ۔کینیڈا)