• 26 اپریل, 2024

’’اللہ تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کرنا‘‘

’’اللہ تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کرنا‘‘
(سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

(دستخط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ)

نوٹ از ایڈیٹر: یہ آرٹیکل بعد از ملاحظہ ،دعا اور اجازت اشاعت حضور انور ایدہ اللہ تعالی شامل اخبار الفضل آن لائن کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور بہت سوں کے لئے فائدہ کا موجب بنائے۔ آمین

آج میں نےڈیوائس کا مثبت استعمال کرتے ہوئے اپنے آئی پیڈ پر سورۃ الرحمٰن کی تلاوت مع ترجمہ لگائی۔یقین جانئے اللہ تعالیٰ (جو رحمٰن یعنی، بِن مانگے دینے والا ہے) کی قدرت کے حسین نظاروں اور بنی نوع انسان کو اس کی عطاہونے والی نعمتوں اور عنایات کی تفصیل سن کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہوگیا۔ جوں جوں مضمون آگے بڑھ رہا تھا اور بار بار ’’فآَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ‘‘ کا مختلف انعامات ِ خدا وندی کے اظہار کے بعد تکرار ہونے لگا تو اپنے پیارے اللہ کا شکر کا اظہار کرتے ہوئے اپنے وجود پر انعاماتِ الہٰیہ کو یاد کرتے کرتے الحمدللہ رب العالمین کا ورد کرنے لگا۔ ابھی اسی سوچ میں تھا کہ مجھے کمپوزنگ اور ایڈٹ کرنے والی دنیا بھر میں پھیلی میری ٹیم کی ایک رکن مکرمہ رضوانہ مسعود آف کینیڈا کے Icon پرآویزاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی متبرک تحریر میں لکھے الفاظ

’’اللہ تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کرنا‘‘

نظروں میں آئے۔ جو اَب حضور انور ہی کی تحریر میں سوشل میڈیا پربرکتیں بکھیرتے ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

یہ الفاظ پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنے مبارک قلم سے تحریر فرما کر آٹو گراف کے طور پر دیئے ۔جس میں آٹو گراف لینے والے خوش قسمت کے لئے تو پیغام ہے ہی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ میں جماعت کا ادنٰی اور اعلیٰ ہر شخص، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا خاتون، بوڑھا ہو یا نوجوان، بچہ ہو یا بچی مخاطب ہے۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو اس تحریر کا مخاطب سمجھنا چاہئے۔ اسی لئے خاکسار نے آج اِس پاکیزہ اور پُرمعارف مضمون پر مشتمل تحریر کو موضوع سُخن بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ خاکسار کو اس اہم موضوع پر قلم آزمائی کا صحیح معنوں میں حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دو الفاظ کے لغوی معنی

مضمون میں داخل ہونے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم موضوع میں موجود دو الفاظ اللہ اور بے وفائی کے لغوی و اصطلاحی معنی قارئین کے سامنے رکھے جائیں۔

اللہ

یہ خدا کا اسم ذات ہے ۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اللہ، جو خدائے تعالیٰ کا ایک ذاتی اسم ہے اور جو تمام جمیع صفات کاملہ کا مستجمع ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل ایڈیشن 2016ء صفحہ86)

پھر فرماتے ہیں:
’’اللہ اسم اعظم ہے اور جلالی نام ہے۔ اس کے ہمارے پاس دلائل ہیں ۔ سارے قرآن شریف میں اللہ ہی کو موصوف ٹھہرایا گیا ہے۔ لَہُ الْاَ سْمَآ ءُ الْحُسْنٰی۔ اس میں وہ سب نام داخل ہیں جو قرآن شریف میں ذکر کئے گئے۔ ان سب سے موصوف اللہ ہی ہے جو اسم اعظم ہے ۔ پس اسم اعظم کا ظہور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ ہونا چاہئے تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم ایڈیشن 2016ء صفحہ90)

پس اللہ (تعالیٰ) وہ با برکت ذات ہے جو وحدہ لا شریک ہے، وہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا اور اس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔ (سورۃ اخلاص) تمام نقائص سے منزہ اور تمام صفات ِ کاملہ جن کی تعداد یکصد سے زیادہ ہے سے متصف ہے۔ خالق ِ کائنات و ربّ العالمین ہے۔

وفا داری دو طرح سے ہے

اب اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہے کہ بے وفائی دو طرح سے ہے ایک مادی لحاظ سے شکر خداوندی کہ اس اللہ نے ہم سب کو اشرف المخلوقات بنایا اور دوم روحانی لحاظ سے کہ اس اللہ نے اس زمانے کے نبی اور امام مہدی کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔

اشرف المخلوقات کی تخلیق

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لاکھوں، کروڑوں کی اقسام اور تعداد میں ذی روح پیدا کئے۔ جو زمین اور پہاڑوں کی تہہ در تہہ مہیب چٹانوں میں چُھپے ہیں اور سات سمندر کے پانیوں کی اتھا گہرائیوں میں موجود ہیں۔ جن تک باوجود اس کے کہ آج کی دنیا سائنسی دنیا کہلاتی ہے، جدید ٹیکنالوجی کے ہر قسم کے ذرائع مہیا ہونے کے باوجوداس دور کے انسان کی رسائی ممکن نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خالق اور مالک ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو انسان ان کیڑے مکوڑوں، چرند پرنداور مختلف جانوروں سے بالکل نا واقف تھا، مگر آج جانوروں کی دنیا سے تعلق رکھنے والے زوآلوجی کے ماہرین اور سیاح حضرات اور ٹی وی چینلز نے اپنی دستاویزی پروگراموں اور فلموں کے ذریعہ کسی حد تک اللہ تعالیٰ کی نہاں در نہاں چھپی مخلوقات سے انسان کو آشکار کیا ہے۔ ان میں بعض کیڑے مکوڑوں کو دیکھ کر ترس بھی آتا ہے، ان میں بعض عجیب الخلقت ہیں۔ ان کا کھانا پینا، چلنا پھرنا عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ جو شاید آپس میں باتیں اپنی زبان کے اشاروں کنائیوں سے کرتے ہوں گے ۔ اپنا مافی الضمیر بھی بیان کرتے ہوں۔ لیکن دیگر جانوروں کی طرح شعور والی کوئی بات نہیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زرخیز سوچوں، شعور کی نعمت سے مالامال اور احسن تقویم پر مبنی دماغ صرف انسانوں کو عطا ہوا ہے۔ سورۃ التین میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ اس آیت کی روشنی میں انسان اشرف المخلوقات کہلایا۔ لہٰذا اس ناطے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے جس نے ہمیں کسی جانور یا چرند پرند اور کیڑے مکوڑے کی شکل نہیں دی۔ بلکہ ایک با شعور انسان بنایا، سوچنے کے لئے دماغ دیا۔ ظاہری بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی عطا کی۔ اپنی زندگیوں کی اونچ نیچ اور آرام و سکون سے گزارنے کے لئے با مقصداور قابل استعمال بنانے کے لئے ہاتھ دئیے اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے پاؤں دئیے۔ ہم اپنے مناسب حال اعضاء کو زیر استعمال لا کر اور دماغ سے سوچ سمجھ کر اپنے لئے مقصد حیات طے کرتے، روزی کماتے، اپنی بہترین، خوبصورت، رہن سہن کے مطابق اور با سہولت رہائش اختیار کرتے ہیں۔

پھر اس سوچ ، فکر اور شکر کا ایک اور انداز بھی ہے کیونکہ اشرف المخلوقات میں بعض نابینا ہیں، بعض سماعت سے محروم ہیں۔ بعض اولاد سے محروم ہیں۔ بعضوں کے ہاں نرینہ اولاد نہیں اور بعضوں کے گھروں میں معذور اولاد موجود ہے۔ کسی کے ہاتھ نہیں۔ کوئی ٹانگوں سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو صحیح سالم انسان بنایا۔ اس لحاظ سے اپنے اللہ کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے۔ ان حالات میں اپنے اللہ کی طرف جھکنا ،اس کی عبادات بجا لانا اور اس سے بے وفائی نہ کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’یہ بات قریب بہ کفر ہو جاتی ہے۔ اگر یہ تسلیم کریں کہ کوئی حرکت یا سکون یا ظلمت یا نور بدوں خدا کے ارادے کے ہو جاتا ہے اس پر ثبوت اوّل قدرت ہے ۔ انسان کو اللہ تعالی نے دو آنکھیں، دو کان ،ایک ناک دئیے ہیں۔ اتنے ہی اعضاء لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح عمر ہے اور بہت سے امور ہیں جو ایک دائرہ کے اندر محدود ہیں۔ بعض کے اولاد نہیں ہوتی۔ بعض کے لڑکے یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ غرض یہ تمام امور خدا تعالی کے قدیر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 24۔25)

**آئیں! اس کو ایک اور زاویے سے دیکھیں کہ ہم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو مختلف تکلیف دہ موذی اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں ۔ جن کو دیکھ کر جسم پر کپکپی اور خوف طاری ہو جاتا ہے۔ بعض بیماریاں تو ظاہری ہیں مگر بعض ایسی پُر اسرار ہیں جن کو ڈاکٹرز بھی سمجھنے سے قاصرہوتے ہیں، اس لئے بھی اپنے اللہ سے کبھی بے وفائی نہ کرنے کے عہدو پیمان باندھنے کی ضرورت ہے۔

**اسی مضمون کو اس لحاظ سے بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں موت وحیات کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے ۔ اللہ کوئی نعمت یا برکت دیتا بھی ہے تو لے بھی لیتا ہے جس کو انسان اپنی عقل کے مطابق جلد واپس لینا سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے شِکوہ و شکایت شروع کر دیتا ہے۔ حضرت ایوب ؑ جن کے صبر کےبارے میں قرآن کریم رطب اللسان ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ خداوند نے دیا، خداوند نے لے لیا۔ پس اس لحاظ سے بھی اپنے پیارے اللہ کا با وفا دوست بننے کی ضرورت ہے۔ کبھی بھی شکوہ و شکایت زبان پر نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کی انگنت نعمتیں اس جہان میں موجود ہیں جن سے انسان مالا مال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا (ابراہیم: 35) اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو کبھی ان کا شمار نہ کر سکو گے۔

(ترجمہ از:حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

**اللہ تعالیٰ سے وفا نبھانے کے مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور احادیث میں بھی مختلف انداز اور اچھوتے پیراؤں میں بیان فرمایا ہے۔ مثلاً سورۃ بنی اسرائیل آیت 84میں (یہ مضمون اور جگہوں پر بھی بیان ہوا ہے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور اپنا پہلو کتراتے ہوئے پرے ہٹ جاتا ہے اور جب اسے کوئی شر پہنچے تو سخت مایوس ہو جاتا ہے۔ (اللہ کو کوستا اور بُرا بھلا کہتا ہے) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس حوالہ سے ایک رہنما اصول وضع کر رکھا ہے۔ فرماتا ہے

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ

(ابراہیم: 8)

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔

(ترجمہ از: حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

حضرت لقمان ؑکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکمت کی باتیں عطا ہوئیں اس میں مرکزی نقطہ شکر ہی تھا۔ کیونکہ قرآن کے حکم کے مطابق شُکر کا فائدہ شُکر کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے ۔جیسے فرمایا: وَ مَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ

(النمل: 41)

**اللہ تعالیٰ سے تمام زندگی وفا سے کام لینا اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا اس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو مقامات (النمل: 20 اور الاحقاف: 16) پر حقیقی شکر ادا کرنے کی توفیق مانگنے کی دعا بھی سکھلا دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ

(النمل: 20)

اے میرے ربّ! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں۔ اور تُو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔

(ترجمہ از :حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

ہر دو مقام پر شکر کی دعا مانگنے کے ساتھ اس دُعا کا جن الفاظ سے اللہ نے اختتام فرمایا ہے وہ دونوں مختلف ہیں ۔ سورۃ النمل میں ذکر ہے کہ ’’تُو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک کار بندوں میں داخل کر‘‘ جبکہ سورۃ الاحقاف آیت 16میں اَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ کہ میرے لئے میری ذرّیّت کی بھی اصلاح کر دے کا ذکر ہے۔ اور ان دونوں معنوں کو عنوان بالا ’’اللہ تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کرنا‘‘ سے ملا کر دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کا وفا دار اور وفا پرست بن کر زندگی گزارنے اور اس کا شکر ادا کرنے کے نتیجہ میں اول نیک لوگوں میں شمار رہے گا اور دوم اولاد بھی صالحین میں لکھی جائے گی۔

اللہ نے مسیح و مہدی کو ماننے کی توفیق سے نوازا

عنوان بالا کے ذکر میں اشرف المخلوق کے حوالے سے پیدائش اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، فضلوں اورعنایات پر شکر خداوندی کے ذکر میں اللہ تعالی سے وفادار ہونے کا ذکر کر آیا ہوں۔

اس دوسرے حصہ میں روحانی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ذکر میں اللہ تعالی سے وفادار اور وفا شعار رہنے کا بیان ہوگا۔

یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہم میں سے بہتوں کے والدین، بزرگان، اباؤ اجداد اور اسلاف کو دور حاضر کے مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ماننے کی توفیق سے نوازا اور ہم اپنے بڑوں کے اس دور کے نبی کی بیعت کرنے اور قربانیاں دینے کی وجہ سے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اور پیدائشی احمدی بنے۔ اور بعض نیک فطرت احباب کو اللہ تعالیٰ نے خود احمدیت قبول کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

دوسری طرف ہم میں سے بعض خوش قسمت ہستیوں کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک سلام حضرت مسیح و مہدی علیہ السلام کو پہنچانے کی توفیق ملی اور صحابہ کہلائے۔ اس طرح وہ عظیم پیشگوئی کے مصداق ٹھہرے کہ اگر برفیلے پہاڑوں پر گھٹنوں کے بل بھی چل کر جانا پڑے تو میرے مہدی کو میرا سلام کہنا۔ اس سلام کو پہنچانے کے سلسلہ میں ان کو اپنوں اور غیروں سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، خاندان سے جدا کئے گئے، معاشرے سے کاٹ دیئے گئے اور بائیکاٹ کا سامنا رہا اور سماجی اور معاشی طور پر الگ تھلگ کر دیئے گئے۔ اور مجموعی طور پر دنیا کے بعض ایسے خطوں میں جیسے کہ پاکستان، الجزائر، بعض عرب اور مسلمان اسٹیٹس میں تمام احمدیوں کو ہی مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔ ہم پر پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات بنا کر ملک بدر ،معاشرہ بدر ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کاروبار اور جائیدادیں جلائی جاتی ہیں۔ اذیتیں دے کر شہید کیا جاتاہے۔ اس دنیا کی بد ترین مخلوق ملاں اور انتظامیہ کے ذریعہ مساجد گرائی جاتی ہیں ۔حتی کہ قبرستانوں میں احمدی وفات یافتگان بھی اُن کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں۔ قبروں کے کتبے توڑے جاتے ہیں اور نعشوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ان کو قبر میں سے نکال کر باہر رکھ دیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسیح و مہدی اور اس کی روحانی جماعت کووٹےاورسوٹے مارنے والوں میں شامل نہیں کیا اور احمدی گھرانوں میں پیدافرمایا، الحمدللّٰہ۔

میں جب لاہور میں مربی ضلع کےطور پر فرائض ادا کر رہا تھا تو ایک محفل میں جس میں جماعت کے عہدیداران، وکلاء اور بعض جماعتی بزرگ بھی تھے ۔وہاں جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ذکر چل پڑا۔ جس پر مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان اس وقت کے امیر جماعت احمدیہ ضلع لاہور نے شکر خداوندی کا اظہار اس طرح کیا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں احمدی گھرانوں میں پیدا کیا ورنہ کیا معلوم کہ ہم بھی ان مخالفین احمدیت کے ساتھ مل کر احمدی گھرانوں پر وٹے مارنے والوں میں شامل ہوتے۔ بس اس خوش قسمتی کے ناطے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری نبھانے کی ضرورت ہے۔ ایک اور اعزاز بھی اللہ کے آگے شکرانے کے لئے سجدہ کرنے پر زور دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور احسان کی وجہ س سوا سو سال سے خلافت احمدیہ کو انجوائے کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے راہ راست پر رہتے ہوئے زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اس کی تفصیل خاکسار اس طرح بیان کرنا چاہتا ہے۔

خلافت کا انعام بھی وفاداری بڑھانے کا ذریعہ ہے

روحانی معنوں میں اللہ تعالیٰ سے وفا داری اور وفا پرستی کرنے کا ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو خلافت سے نواز رکھا ہے۔ اور اس وقت اس کے پانچویں مظہر سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہیں۔ جن کے الفاظ ’’اللہ تعالیٰ سے کبھی بے وفائی نہ کرنا‘‘ پر ہی یہ مضمون واہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان کی اطاعت اور پیروی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند اور نمائندہ سمجھتے ہوئے کرنی اور ان سے وفا کا تعلق مضبوطی سے باندھ کر رکھنا ہم میں سے ہر ایک کیلئے ضروری اور لازم ہے۔ آپ کے ہر لفظ پر کان دھرنا ، خطبات، خطابات نصائح اور ارشادات سن کراپنی تربیت کے تشنہ پہلوؤں کو ٹھیک کرکے بہترین عملی شکل دینا ہم پر فرض ہے۔ کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خلافت کو خلافتِ راشدہ کا تسلسل ہی قرار دیا ہے، اور اس کا نام خلافت علی منہاج نبوۃ بیان فرمایا ہے۔ اگر ہم خلیفۃ المسیح سے وفاداری کریں گے تو یہ وفاداری اللہ سے ہو گی کیونکہ آپ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں۔ اور اللہ تعالی سے وفاداری یوں ہے کہ ہم احکام خداوندی پر کان دھریں۔ قال اللہ وقال الرسولﷺ کو حرز جان بنائیں۔ عبادات کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ نمازیں پڑھیں۔ نوافل پڑھیں۔ تسبیحات کریں۔ اس کے بندوں کے حقوق ادا کریں جو اس کی مخلوق ہیں اور اشرف المخلوقات داخل ہونے کے لحاظ سے احترام کے قابل ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اور احمدیت کی تاریخ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بزرگ اسلاف نیز مخلص احباب جماعت کی مالی، جانی عزت اور وقت کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔جماعت احمدیہ میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ اور حضرت عبد الرحمٰن شہید ؓکی کابل میں شہادتوں، پاکستان میں آئے دن ہونے والی شہادتوں بالخصوص 28 مئی 2010ء کو لاہور میں 85 کے مخلصین احمدیت احباب کی شہادتوں اور پھر بیرون پاکستان میں شہادتوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جنہوں نے اپنی جانیں محض للہ جان آفرین کے سپرد کردیں مگر اسلام احمدیت اور اپنے خاندان پر ذرہ بھر بھی حرف اور عزت پر آنچ نہیں آنے دی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہادت سے قبل بعض جماعت احمدیہ کے بہادر پہلوانوں کولالچ دیا گیا مگر ان وفاداروں نے اس لالچ کو جوتے کی نوک پررکھ کر رد کر دیا اور دشمنوں کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی قربانیوں کی بنیادوں پر جماعت احمدیہ کی ترقیات کی بلند و بالا عمارت ایستادہ ہے۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ اور یہی وہ وفا تھی جو صحابہؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے جماعت احمدیہ مسلمہ میں منتقل ہوئی اور مسلسل ہوتی جارہی ہے اور ان شاء اللّٰہ آئندہ بھی ہوتی چلی جائے گی۔

؎تری محبت کے جرم میں ہاں جو پیس بھی ڈالے جائیں گے ہم
تو اس کو جانیں گے عین راحت ، نہ دل میں کچھ خیال لائیں گے ہم

؎لوجو کچھ موت کے آنے سے پہلے ہو سکے
تیر چھٹ کر موت کا پھر کیا خطا ہو جائے گا

؎ادق ہے اگر تو صدق دکھا ،قربانی کر ہر خواہش کی
ہیں جنسِ وفاکے ماپنے کے دنیا میں یہی پیمانے دو

اس نادر موقع کو غنیمت جانتے ہوئے خاکسار تمام احباب جماعت اور قارئین الفضل کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت اقدس میں یہ عہد کرتا ہے کہ: یا سیدنا! آج ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ سے ہم اور ہماری اولادیں اپنی زندگیوں میں کبھی بھی بے وفائی نہیں کریں گے۔ خلافت احمدیہ کے مر تے دم تک وفادار رہیں گے اور آپ نے خلافت جوبلی کے موقع پر جماعت احمدیہ کو جو خلافت سے وفا و اطاعت کا عہد عطا فرمایا ہے، اس کے ہر لفظ پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل یقینی بنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

رہ ِخدا میں ہی جاں فدا ہو، دل عشقِ احمد میں مبتلا ہو
اس پہ ہی میرا خاتمہ ہو، یہی مرے دل کا مدعا ہے

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل کے حوالہ سے ایک تبصرہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 دسمبر 2021