• 8 مئی, 2024

نیشنل آن لائن اجلاس عام

مجلس خدام الاحمدیہ یو ایس اے نے ایک نیشنل آن لائن اجلاس عام 17 اکتوبر 2021ء بروز اتوار زوم کے ذریعے منعقد کیا۔ اس اجلاس کی صدارت محترم امیر جماعت یو ایس اے مرزا مغفور احمد صاحب نے کی۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس آن لائن اجتماع میں تقریباً 2000 خدام، اطفال اور والدین نے شرکت کی۔

پروگرام

اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک، خدام کے تجدید عہد اورنظم سے ہوا۔ صدر مجلس خدام الاحمدیہ یو ایس اے ڈاکٹر مدیل عبداللہ صاحب نے سال 2020ء۔2021ء کی مجلس کی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں ہر محکمے کے اعداد و شمار شامل تھے اور اہم کامیابیوں اور شعبوں کی بہتری کے لیے کچھ گزارشات کا ذکر کیا گیا۔ اس کے بعد 2019ء ۔2020ء کے خدام الاحمدیہ کے سال کے لیے مجالس کے ایوارڈز کا اعلان کیا گیا۔ فورٹ ورتھ مجلس کو علم انعامی ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اس پروگرام کے ایک اہم حصے کی کاروائی شروع ہوئی،جو سید طالع احمد شہید صاحب کی یاد میں تھا اور اس کا عنوان تھا:

’’سید طالع شہید: خلافت کا سچا پیروکار۔‘‘

اس حصہ میں سید طالع شہید کے بھائی سید عادل احمد صاحب بھی شامل ہوئے جنہوں نے اپنے مرحوم بھائی کے ایک مثالی خادم ہونے کی یادیں بیان کیں۔ پروگرام کا اختتام محترم امیر جماعت یو ایس اے کے ساتھ سوال وجواب کی نشست اور دعا پر ہوا۔

اہم پروگرام

ایک اہم حصہ پروگرام کا جو منعقد کیا گیا اس کا عنوان تھا:

’’سید طالع احمد شہید: خلافت کا ایک سچا پیروکار‘‘

اور اسکی صدارت کے فرائض مہتمم تربیت، ابراہیم چوہدری صاحب نے ادا کیے اور مہمان خصوصی سید طالع شہید کے بھائی سید عادل احمد صاحب تھے۔ اس پروگرام میں حضرت خلیفۃ المسیح (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کے خطبہ جمعہ (3 ستمبر 2021ء) کے کلپس شامل کیے گئے جو سید طالع احمد شہید کی زندگی کے متعلق تھے۔ اس کے علاوہ ایم ٹی اے دستاویزی فلم ’’خلافت کا ایک ہیرا‘‘ بھی پیش کی گئی۔ اس پروگرام میں سید عادل احمد صاحب نے اپنے مرحوم بھائی کے ذاتی واقعات بیان کیے جو خلافت سے ان کی مثالی محبت کو ظاہرکرتے ہیں۔ سید عادل احمد صاحب کی چند روایتیں درج ذیل ہیں:

دنیاوی خواہشات پر قابو پانا

عادل احمد صاحب کہتے ہیں:
طالع اور میں خوش قسمت تھے کہ ہمارے والدین نے ہمیں چھوٹی عمر میں ہی جماعت اور خلافت سے جوڑ دیا۔ ہمارے والدین کوشش کرتے رہے کہ ہم جماعت کی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ شامل ہوں۔

میرے بہن بھائی اور میں ہمیشہ یہی لکھیں گے کہ طالع سب سے زیادہ پسندیدہ تھا لیکن کبھی بھی برے انداز میں نہیں بلکہ محبت بھرے انداز میں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا ہماری امی جان کے ساتھ ہمیشہ دوست جیسا رشتہ تھا اور وہ ہمیشہ ان سے کسی بھی چیز کے بارے میں بات کر سکتا تھا جب بھی وہ کسی مشکل میں ہوتا۔ وہ سچا اور ایماندار تھا اور کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔

اس کا حضور سے بہت گہرا تعلق تھا۔ وہ ہمیشہ حضور انور کو خط لکھتا اور حضورانور کے ساتھ فیملی ملاقات کو بھی ممکن بناتا جب بھی حضور سے اجازت مل جاتی۔

وہ کبھی بھی کسی چیز کو ظاہری رکھ رکھاؤ کی وجہ سے ترجیح نہیں دیتا تھا، خاص طور پر اپنے ایمان کا دکھاوا نہیں کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ ہر چیز کو دل سے قبول کرتا اور اس کو سمجھنے کے لیے سوال کرتا، تحقیق کرتا کہ یہ معلوم کرسکے کہ یہ اسلامی تعلیم اسطرح کیوں ہے اور اس کی تائید کے کیا ثبوت ہیں۔ اس لئے اسے بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے مذہب اور جماعت کے بارے میں اچھی طرح سمجھ آگئی تھی۔

حضرت خلیفۃ المسیح کی محبت

عادل احمد صاحب کہتے ہیں:
حضور نے کووڈکے دوران اسلام آباد سے کہیں اور جانے کے لئے سفر نہیں کیا، لیکن طالع کی موت کی خبر سننے کے بعد حضور انور ہم سے ملنے تشریف لائے اور ہمیں تسلی دی۔ اس کے بعد حضور انور مسلسل ہماری خیریت معلوم رہےاور ہمیں اپنے آپ کو خط لکھنے کی ترغیب دلاتے رہے اور ہمارے خطوط کا جواب بھی دیتے رہے۔

حضور انور کا طالع کے بارہ میں خطبہ جمعہ ہمارے خاندان کے لیےباعث راحت اور سکون بنا۔ خطبہ بہت خوبصورت اور پیار بھرا تھا اور جس سے مجھے (سید طالع کی شہادت کے) غم کو کم کرنے میں مدد ملی۔

حضور انور نے دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہمیں عملی مشورہ دیا۔ حضور انورنے ہمیں خاص طور پر پہلے 5-6 ہفتے جماعت کے کاموں میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ حضور انور نے ہمیں بتایا کہ ہمیں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی ضرورت ہے اور اس شہادت پر غم میں ڈوبے رہنے کی ضرورت نہیں۔ حضور انور نے ہمیں فیملی میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا مشورہ بھی دیا۔

’’حضور انور چیز کو بہت خوبصورتی سے متوازن رکھتے ہیں اور اپنے وقت کی پابندی کرتے ہیں، اور ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔‘‘

سید طالع احمد شہید کی میراث

عادل احمد صاحب کہتے ہیں:
کبھی کبھی میں سنتا ہوں کہ ’ہم طالع کی طرح نہیں ہو سکتے اور ہم اس مقام کو کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے‘ لیکن یہ کوشش نہ کرنے کا بہانہ ہے۔ اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے ہم سب کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ یقیناً ہم کر سکتے ہیں۔ اللہ ہمیں کچھ بھی دے سکتا ہے اگر ہم سچے دل سے چاہیں اور اس کے لیے کام کریں۔ جس طرح طالع نے اسے حاصل کیا۔

ان کی شہادت کے بعد سے، مجھے آخرت کی زندگی کے بارے میں زیادہ شعور ہوگیاہے اور میں اس کے بارے میں روزانہ سوچتا ہوں۔ میں اپنے تقویٰ کو بڑھانے کے لیے شعوری کوششیں کر رہا ہوں اور میرے خیال میں آپ سب کو بھی ایسا کرنا چاہیے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کب اس دنیا کو چھوڑ کر اگلی دنیا میں چلےجائیں۔ ہر روز اپنا آخری دن سمجھیں اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی حقیقی اور مخلصانہ کوشش کریں۔
ایک اور بات یہاں کرتا چلوں، کہ طالع کی تبدیلی راتوں رات نہیں ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ ہوئی۔ اس نے جماعت کی ذمہ داریوں سے کبھی بھی گھبراہٹ محسوس نہیں کی اور پیچھے نہیں ہٹا، تبلیغ کے مواقع اپنے علم کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیے۔ ہم سب کو اپنے خالق کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھانے سے گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

طالع کی شہادت نے واقعی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میرے لیے یہ صرف ایک دکھ بھرا واقع ہی نہیں رہا بلکہ ایک طرح سے نعمت بھی بن گیا کیونکہ اس نے مجھے آخرت کی زندگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا اور وہاں تک پہنچنے کے لیے میں کیاتیاری کر رہا ہوں اوریہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں طالع سے ملنے کے لیے کیا تیاری کر رہا ہوں۔

(رپورٹ: مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین نومبر 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ