• 18 اپریل, 2024

اسم احمدؐ

اِسْمُہٗ اَحْمَدُ
تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ

قرآن شریف میں حضرت مسیح ناصری کی ایک پیشگوئی درج ہے، جو ان کے بعد کسی ایسے رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے جس کا اسم احمدؐ ہوگا۔ اصل الفاظ پیشگوئی کے جو قرآن کریم میں درج ہیں یہ ہیں:-

’’وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰٮۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ

(الصف:7)

یعنی فرمایا عیسیٰ بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک رُسول ہوں۔ مصدق ہوں اس کا جو میرے سامنے ہے۔ یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اور جس کا اسم احمد ہوگا۔‘‘

پیشتر اس کے کہ اور قرائن کے ساتھ اس موعود رسول کی تعیین کی جاوے ہم پہلے الفاظ اسمہٗ احمد کو ہی لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ الفاظ کس حد تک ہم کو تعیین کے کام میں مدد دیتے ہیں۔ پہلا لفظ اسم ہے یہ مشتق ہے۔ وسم سے جس کے معنی نشان لگانے کے ہیں تو گویا اس لحاظ سے اسم کے معنی ہوئے نشان اور چونکہ نشان کی غرض تخصیص وتعیین ہوتی ہے تو اس لئے اسم کے پورے معنی ہوئے وہ نشان وغیرہ جس سے کسی شے کی تعیین وتخصیص ہوجائے۔ اب اسم کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اسم سے مراد اسم ذات لیا جائے۔ یعنی وہ نام جس سے کوئی شخص عام طور پر معروف ہو۔ خواہ حقیقت کے لحاظ سے اس نام کا مفہوم نام بردہ میں پایا جاوے یا نہ پایا جاوے۔ مثلاً بیسیوں ایسے دہریہ مل جائیں گے جن کا نام عبداللہ یا عبدالرحمٰن وغیرہ ہوگا۔ حالانکہ اگر حقیقت کے لحاظ سے دیکھیں تو وہ عبداللہ اور عبدالرحمٰن کے ناموں سے کوسوں دور ہوں گے۔ ایسے اسم کو جس میں حقیقت کا ہونا نہ ہونا ضروری نہ ہو۔ اسم ذات کہتے ہیں۔ دوسری اسم کی یہ صورت ہے کہ مثلاًکسی شخص کا کوئی نام بطور اسم ذات کے تونہ ہو مگر اس نام کامفہوم نمایاں طورپر اس شخص میں پایا جاوے۔ مثلاً محمد رسول اللہ کا اسم ذات کے طورپر تو عبداللہ نام نہ تھا مگر عبداللہ کے مفہوم کے لحاظ سے محمد رسول اللہ سے بڑھ کر کوئی عبداللہ نہیں گزرا۔ ایسے نام کو اسم صفت کہتے ہیں۔

قرآن شریف میں بھی اسم کے معنے صفت کے آئے ہیں۔ ملاحظہ ہو

لَہُ الْاَ سْمَآءُ الْحُسْنٰی

(الحشر:25)

یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پاک ہیں غرض لفظ اسم دونوں معنوں میں آتا ہے۔ اسم ذات اور اسم صفت۔ کیونکہ یہ دونوں ایک حد تک تعیین اور تخصیص کرنے والے ہوتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں اسمہٗ احمدؐ والی پیشگوئی کس شخص پر چسپاں ہوتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دوشخص رسالت کے مدعی ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۔ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر ہوئی ہے تو پھر ان دونوں میں سے کسی پر ضرورچسپاں ہوگی۔ پہلے ہم لفظ اسم کے مفہوم اول یعنی اسم ذات کے لحاظ سے پیشگوئی کی تعیین کرتے ہیں۔ آنحضرتؐ کا اسم ذات محمدؐ تھا۔ یہی نام آپ کا آپ کے بزرگوں نے رکھا اور اسی نام سے آپ مشہور تھے۔ دوسری طرف مسیح موعود کا نام تھا غلام احمد یہی نام ان کا ان کے والدین نے رکھا۔ اور اسی نام سے وہ مشہور تھے۔ یہ سرسری نظر جو ہم نے ان دومدعیان رسالت پرڈالی تو ہم کو معلوم ہوا کہ یہ پیشگوئی کم ازکم اسم ذات کے لحاظ سے ان ہر دو میں سے کسی پر بھی چسپاں نہیں ہوتی تو پھر یہ ماننا پڑا کہ یا تو یہ پیشگوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی یا ہماری ظاہری نظر نے دھوکا کھایا۔ پہلی صورت چونکہ مسلمہ طور پر غلط ہے۔ اس لئے دوسری صورت کو صحیح سمجھ کر پھر نظر ڈالتے ہیں تاکہ اگر سرسری نظر نے لفظ احمد کو ان دو بزرگوں پر اسم ذات کے طور پر نہیں چسپاں کیا تو شاید پیشگوئیوں میں جو اخفاء کا پردہ ہوتا ہے۔ اس کو خیال رکھتے ہوئے ہم ذرا گہری نظر سے لفظ احمد کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسیح موعودؑ میں سے کسی کے ساتھ اسم ذات کے طورپر دیکھ سکیں۔ تاریخ اور احادیث صحیحہ (وضعیات الگ رکھ کر)شاہد ہیں کہ محمد رسول اللہ کا رسالت سے پہلے کبھی بھی احمد کے نام سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکتا۔ دعویٰ سے پہلے کی شرط اس واسطے ہے کہ دعویٰ کے بعد والا نام اوّل تو اسم ذات نہیں کہلا سکتا۔ دوسرے خصم پر حجت نہیں ہے۔ اگر دعویٰ سے بعد کا اپنے مُونہہ سے آپ بولا ہوا نام بھی اسم ذات ہوسکتا ہے تو پھر تو امان اٹھ جاوے۔ مثلاً پیشگوئی ہو کہ عبدالرحمٰن نام ایک شخص مامور ہوکر آئے گا تو ایک شخص مسمیٰ جمال دین اُٹھے اور کہے کہ میرا نام ہی عبدالرحمٰن ہے۔ تو وہ صحیح نہ سمجھا جائے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں تو یہ جھگڑا بھی نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اسم ذات کے طور پر دعویٰ کے بعد بھی کبھی اپنا نام احمد نہیں بتایا۔ اگر کوئی دعویٰ کرے تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے۔ غرض محمد رسول اللہ کے معاملہ میں تو ہماری گہری نظر بھی ماندہ ہوکر واپس لوٹی کیونکہ بلحاظ اسم ذات کے کُجا محمد اور کجا احمد۔ اب رہے مسیح موعود۔ ان کے متعلق بھی جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہماری سرسری نظر تعیین کرنے سے قاصر رہی۔ اب ذرا گہری نظر ڈالیں مسیح موعود کا نام جو عام مشہور تھا اور جو والدین نے رکھا غلام احمد تھا۔ یہ مرکب ہے لفظ غلام اور احمد سے۔ اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ان ہر دو میں سے نام کا اصل اور ضروری حصہ کونسا ہے۔ یاد رہے کہ نام ہوتا ہے تعیین اور تخصیص کے لئے اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم مسیح موعود کے خاندان کے ممبروں کے ناموں پر نظر ڈالیں اور تھوڑی دیر کے لئے تعصب کو الگ رکھیں تو امید ہے کچھ نہ کچھ ہم کو ضرور نظر آجائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے والد کے چار بھائی تھے۔ تو گویا کل پانچ ہوئے۔ ان میں سے تین یہ ہیںمرزا غلام حیدر، مرزاغلام مرتضیٰ، مرزا غلام محی الدین باقی دو بچپن میں فوت ہوئے۔ اس لئے ان کے نام کی ابھی تک تحقیقات نہیں کرسکا۔ مگر اتناپتہ یقینی چل گیا ہے کہ ان کے ناموں میں غلام کا لفظ ضرور تھا۔ تو اب غلام کا لفظ تو ان سب میں مشترک تھا۔ اس لئے یہ لفظ ان کے ناموں کا اصل حصہ نہیں کہلاسکتا کیونکہ اس نے تخصیص پیدا نہیں کی بلکہ تخصیص پیدا کرنے والے حیدر اور مرتضیٰ اور محی الدین لفظ تھے۔ پس اگر ان کو ہی اصل نام کہہ دیا جاوے تو حرج نہیں۔ اب آگے چلئے۔ حضرت مسیح موعودؑ دوبھائی تھے۔ آپ کا نام غلام احمد تھا اور آپ کے بڑے بھائی کا نام غلام قادر تھا۔ غور فرمائیں غلام کا لفظ پھر مشترک ہؤا۔ اسم کا کام ہے ایک حد تک تخصیص کرنا وہ تخصیص کس لفظ نے قائم کی؟ ہمارا ضمیر بولتا ہے کہ ایک طرف احمد نے اور دوسری طرف قادر نے۔ پس حرج نہیں کہ انہی کو اصل نام سمجھا جاوے۔ مسیح موعود کے چچا مرزا غلام محی الدین کی نسل میں بھی یہی سلسلہ چلا۔ ان کے تین بیٹے ہوئے۔ جن کے نام تھے مرزاکمال الدین، مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین۔ ان میں دین کا لفظ مشترک ہے اور امام اور نظام اور کمال نے تخصیص کی۔ پس وہی اصل نام ٹھہرے پھر آگے چلئے۔ مرزا غلام قادر جو مسیح موعود کے بڑے بھائی تھے۔ ان کے ہاں ایک بیٹا ہوا جس کا نام رکھا گیا عبدالقادر گویا اس نے اپنے باپ کے خصوصیت والے اصل نام کو ورثہ میں لیا۔ پھر یہی نہیں خود مسیح موعود کی اولاد کو لیجئے۔ دعویٰ کے بعد کی مثال تو آپ مانیں گے نہیں۔ دعویٰ سے بہت سال پہلے جب آپ ابھی جوان ہی تھے اور بالکل گوشہ تنہائی میں اپنے دن کاٹتے تھے اور بیرونی دنیا میں کوئی آپ کو نہ جانتا تھا۔ آپ کے ہاں دولڑکے پیدا ہوئے۔ جن کے نام رکھے گئے مرزا سلطان احمد اور مرزافضل احمد۔ دیکھئے باپ کے اصل نام کو ورثہ میں لے لیا وہ نام جس نے باپ کو چچا سے خصوصیت دی تھی پھر اور سنئے حضرت مسیح موعود کے والد نے دو گاؤں آباد کئے اور ان دونوں کو اپنے دو بیٹوں کے نام پر موسوم کیا۔ ایک کا نام رکھا قادرآباد اور دوسرے کا احمد آباد۔

ان سب باتوں سے نتیجہ نکلا کہ حضرت مسیح موعود کا گو پورا نام غلام احمد تھا لیکن نام کا اصل اور ضروری حصہ یعنی وہ حصہ جس نے آپ کی ذات کی خصوصیت پید اکی، احمدتھا۔ اس لئے کوئی حرج نہیں اگر یہ کہا جاوے کہ آپ کا اصل اسم ذات احمد ہی تھا وہوالمراد۔ مگر یاد رہے کہ یہ ہم نے شروع میں ہی مان لیا تھا کہ پہلی نظر ہم کو محمد رسول اللہ اور مسیح موعود دونوںکی طرف سے مایوس کرتی ہے لیکن ہاں اگر ان ہر دو رسولوں میں سے کسی ایک پرپیشگوئی کو ضرور اسم ذات کے طور پر ہی چسپاں کرنا ہے توعقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے کہ احمد جس کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ مسیح موعود ہی تھے۔ خاص کر جب ہم یہ بھی خیال رکھیں کہ سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں میں ضرور ایک حد تک اخفاء کا پردہ بھی ہوتا ہے اور وہ پردہ اس معاملہ میں غلام کے لفظ میں ہے۔ جو گو مسیح موعود کے نام کا اصل حصہ نہیں بلکہ ایک صرف زائد چیز ہے۔جیسا اوپر بیان ہؤا مگر پھر بھی آخر نام کے ساتھ ہی ہے۔

(مطبوعہ الفضل ١٥ تا ١٩ مئی ١٩١٧ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

آنحضورﷺ کا معجزہ