• 20 اپریل, 2024

حضرت مصلح مو عودؓ کی خوبصورت عائلی زندگی

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَاماً

(الفرقان:75)

ترجمہ: اے ہمارے ربّ! ہمىں اپنے جىون ساتھىوں اور اپنى اولاد سے آنکھوں کى ٹھنڈک عطا کر اور ہمىں متقىوں کا امام بنا دے۔

شادی سے مرد اور عورت کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہےجو بعض اوقات اس کی توقعات کے مطا بق نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہر مرد اور عورت ہر وقت یہ دعا پڑھتے رہا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانیا ں پیدا کرے۔

دنیا میں بعض لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بھی ایک ایسے ہی عظیم انسان تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓکی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بہت سی بشا رات عطا فرمائیں۔ 1914ء میں آپ جماعت کے امام منتخب ہوےٴ اور اس کے ساتھ ہی جماعت میں ترقیات اور اصلاحات کے ایک عظیم دور کا آغاز ہوا۔

آج میں حضرت مصلح موعود ؓ کی عائلی زندگی کے کچھ پہلو قا رئین کے سامنے رکھوں گی جس سے ظا ہر ہو گا کہ اس مر دِ خدا کی سا ری زندگی اور ہر سوچ کا مدار صرف جماعت کی تر قی اور تعلیم وتربیت تھا۔

حضور ؓ اپنی بیوی حضرت سارہ ؒ سے نکا ح کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’جب امۃ الحی مرحومہ کی وفات کے بعد مجھے سلسلہ کی مستورات کی تعلیم کی نسبت فکر پیدا ہوئی تو مجھے اس بچی کا خیال آیا۔ اتفاق سے اس کے والد مولانا عبدالما جد صاحب بھاگلپوری جلسہ پر تشریف لاےٴ ہوےٴ تھے۔ میں نے ان سے ذکر کیا اور انہوں نے مہربانی فرما کر میری درخواست کو قبول کیا۔ 1925ء میں اس سال کی مجلس شوریٰ کے موقع پر سارہ میرے نکا ح میں آ گئیں۔ ان کا خطبہ نکاح میں نے خود پڑھا اور اس طرح ایک مردہ سنت زندہ ہو گئی۔‘‘

(انوارالعلوم جلد13 صفحہ74اور75)

یعنی آپ نے جماعت کی خواتین کی تعلیم وتربیت کی خاطر حضرت سارہؒ سے شادی کی کیونکہ وہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور خود بھی تعلیمی قابلیت رکھتی تھیں۔ اس طرح آپ حضرت مصلح موعود ؓ کی رہنمائی میں جماعت کی خواتین کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ آپ کے علمی کاموں میں بھی آپ کی معاونت فرماتی تھیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’آخر سارا اپنے گھر آ گئیں اور ایک ہفتہ آئی کو نہ ہوا تھا کہ تعلیم میں مشغول ہو گئیں۔ پہلے میں نے انہیں انگریزی شروع کروائی کہ وہ اس زبان سے با لکل نا آشنا تھیں اور پھر اس خاص کلا س میں داخل کروا دیا کہ جو کسی قدر تعلیم یا فتہ مستو رات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے میں نے کھولی تھی… (سارہ) فا رسی اور عربی میں اچھی خاصی مہارت رکھتی تھیں۔ فارسی شعر انہیں بہت یاد تھے۔عربی میں صرف و نحو انہیں خوب آتی تھی حتٰی کہ وہ بعض وقت اپنے نئے استا دوں کو دق کر دیتی تھیں … انہوں نے 1929ء میں پنجاب یونیورسٹی کے مو لوی کا امتحان دیا اور پنجاب میں تیسرے نمبر پر آئیں۔‘‘

(انوارالعلوم جلد13 صفحہ77)

حضرت مصلح موعود ؓنے حضرت سارہؒ کی تعلیم مکمل کروائی تاکہ وہ بہتر رنگ میں جماعت کی خدمت اور آپ کی معاونت کے قا بل ہو سکیں۔ چنانچہ حضرت سارہؒ بھی آپ کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے آپ کی بہترین معاون ثابت ہوئیں۔ جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’سارہ بیگم کا خط بہت اچھا تھا، بہت سے مردوں سے بھی زیادہ اچھا تھا اور میرے خط سے تو بہت ہی بہتر تھا۔ خوب تیز لکھ سکتی تھیں اور کئی مضامین میں نے ان سے ہی لکھواےٴہیں۔ ان کی ذود نویسی کی وجہ سے خیا لات میں پریشا نی نہ ہوتی اور میں آ سانی سے انہیں مضمون لکھوا سکتا۔‘‘

(میری سارہ۔انوار العلوم، جلد13، صفحہ78اور79)

حضرت ر سول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان مرد اور عورت کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ عورت کی تعلیم اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ عورت کی گود میں نئی نسل پروان چڑ ھتی ہے۔ اسی لیے حضرت مصلح موعودؓ نے عورتوں کی تعلیم پر بہت زور دیا۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ ان پر یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کی اولین ذمہ داری ان کا گھر اور بچے ہیں۔اسلام نے مرد کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ پیسہ کمائے اور اپنی بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری کرے اور عورت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کا خیال رکھے اور بچوں کی تربیت احسن رنگ میں کرے۔ یہی وہ سنہری اصول ہے جس پر عمل کر کے گھروں میں امن اور سکون قائم ہو سکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں حضرت مصلح موعود ؓ حضرت سارہؒ ہی کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
’’میں مستورات کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی تعلیم اور مرحومہ کی تعلیم میں ایک فرق ہے۔ دوسری مستورات اپنی ذاتی اغراض کے لیے تعلیم حاصل کر رہی ہیں لیکن مر حو مہ کی غرض صرف خدمتِ دین تھی اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی۔ پس ان میں سے بھی جسے اللہ توفیق دے وہ دنیا طلبی کا خیا ل چھوڑ کر خدا کی رضا کو مقدم رکھے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قادیان میں ہما رے گھر کی مستورات کو دیکھ کر تعلیم کا عام چرچا ہے۔ لیکن بہت سی لڑکیاں محض روٹی کمانے کے لیے پڑھ رہی ہیں حالانکہ عورت کا کام نوکری کرنا نہیں۔‘‘

(میری سارہ۔ انوارالعلوم جلد13 صفحہ 94)

عا م طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک انسان کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان میں انصاف نہیں کر سکتا۔اور بیویا ں بھی ایک دوسرے سے پیارو محبت سے نہیں رہ سکتیں اور نہ ہی بچوں کو پیار سے رکھ سکتی ہیں لیکن حضرت مصلح موعود ؓکی زندگی میں ہمیں ایک اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہےکہ کیسے آپ کی بیو یاں بھی آپس میں محض اللہ اور رسول کی محبت اور رضا حاصل کرنے کے لیے حسن سلوک اور اتفاق سے رہتیں اور کس طرح حضور ؓسب کے ساتھ انصاف کا سلوک فرما تے اور جذبات میں بھی کسی سے ناانصافی نہ کرتے جیسا کہ حضرت مریم ؓ (ام طاہر) کے با ر بار اصرار کے باوجود کے حضورؓ اپنی کس بیوی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں؟ سے ظاہر ہےکہ حضرت مریم (ام طاہر) اپنے نسوانی جذبات کی وجہ سے یہ سننا چاہتی تھیں کہ حضورؓ یہ فرمائیں کہ حضورؓ انہیں سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں لیکن حضورؓ نے کیا ہی خوبصورت جواب دیا:
’’مریم مجھے خدا کا حکم اس سوال کا جواب دینے سے روکتا ہے۔‘‘

(میری مریم ازحضرت مصلح موعودؓ۔ انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 355)

حضورؓ کی ایک اہلیہ حضرت امۃ الحی صاحبہ کی وفات ہوئی تو ان کے تین چھوٹے بچے تھے۔ اس موقع پر حضورؓ فرماتے ہیں:
’’امۃ الحی کی وفات کی پہلی رات میں نے مریم سے کہا: مریم! مجھ پر ایک بوجھ آ پڑا ہے، کیا تم میری مدد کر سکتی ہو؟ اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار بر کتیں ان کی روح پر ہوں، وہ فوراً بول پڑ یں ہاں میں ان کا خیال رکھوں گی۔‘‘

(انوار العلوم جلد17 صفحہ 351،352)

چنانچہ حضرت مریمؒ نے ان تین بچوں کو ماں بن کر پالا جس کے بارے میں خود حضوؓر فرماتے ہیں کہ شاید خود ان کی ماں بھی اس قدر ان کا خیال نہ رکھ سکتی تھیں۔ یعنی اس وقت ان کویہ خیال نہیں آیا کہ یہ میری سوکن کے بچے ہیں۔ انہیں صرف حضور ؓ کی خو شنودی منظور تھی چنانچہ انہوں نے مرتے دم تک اس ذمہ داری کو نبھایا۔

حضرت مصلح موعود ؓ کے گھر کا ماحول بہت سادہ تھا۔ آپ اپنی ازواج کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی بہت محبت اور پیار کا تعلق رکھتے تھے۔ بسا اوقات آپؓ بچوں کی مجالس میں لطائف بھی سنا یا کرتے اور بچوں سے بھی لطیفے سنتے تھے۔ اسی طرح کبھی بچوں کو رات کو کوئی کہانی سنا دیتے۔ آپؓ مختلف طریقوں سے بچوں کی دلداری فرماتے اور ان کو تعلیم دیتے۔ چنانچہ آپ نے اپنی بیٹی مکرمہ امۃ المتین صاحبہ کو بچپن میں بالکل بچوں والی دو نظمیں لکھ کر دیں۔ تیسری نظم جو آپؓ نے مکرمہ امۃ المتین صاحبہ کے کچھ بڑے ہونے پر لکھی آج وہ ترانۂ اطفال کے نام سے کلام محمودؓ میں شامل ہے اور آج ہمارے بچے بھی اس پاک کلام سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔اس نظم کا ایک شعر یہ ہے: ؎

مری رات دن بس یہی اک صدا ہے
کہ اس عالم کون کا اک خدا ہے

حضرت مریم صدیقہؒ بتا تی ہیں :
’’حضرت مصلح موعودؓ کی اولاد مختلف ماوٴں کے گھروں میں پلی ہے لیکن سب کی یہ خوبی ہے کہ پلیٹوں میں کھانا نہیں چھوڑتے اور یہ بات حضور کی تر بیت کا نتیجہ تھی۔‘‘

(گلہاےٴ محبت۔ صفحہ 94)

حضرت مصلح موعودؓ کی بیگم حضرت مریم صد یقہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ ان کا اور حضورؓ کا کھانا پکانے کا مقابلہ ہوا۔کھانا تیار ہونے پر انھوں نے حضورؓ سے کہا کہ میری sauce آپ کی sauce سے اچھی ہے۔ اس پر حضورؓ نے فر مایا: تم نے بالکل ٹھیک کہا، وا قعی تمہاری ساس (حضرت اماں جانؓ) میری ساس سے زیادہ اچھی ہیں۔

(گلہاےٴ محبت۔ص 95)

دیکھیے! کس خوبصورتی سے انگریزی لفظ ساس (sauce) کو اردو لفظ ’’ساس‘‘ سے بدل کر اس میں مزاح کا رنگ پیدا کر دیا۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے جو آپ کی عائلی زندگی کی سادگی اور خوبصورتی پر دلالت کرتا ہے۔ مر یم صدیقہ صاحبہ بیا ن کرتی ہیں کہ ایک دفعہ ان کا اور حضورؓ کا دال پکانے کا مقا بلہ ہو گیا۔ انھوں نے عام روایتی طریق سے دال پکائی لیکن حضورؓ نے مرغ کی یخنی میں دال پکائی جو ظا ہر ہے بہت مزیدار تھی۔ جب کہا گیا کہ اس طرح تو ہم بھی بنا سکتے تھے تو حضورؓ نے مسکراتے ہوےٴ فرمایا: تو بنا لینی تھی۔

(گلہاےٴ محبت۔ ص95)

کس قدر پیار کا تعلق تھا حضورؓ کا اپنی ازواج کے ساتھ۔ آپ کا اصل مقصد اپنی ازواج کے ذریعہ سے جماعت کی عورتوں کی تر بیت کرنا تھا تاکہ آپ کی بیویاں براہ راست آپ سے تربیت حاصل کر کے جماعت کی مستورات کی تر بیت کر سکیں۔ جماعت کی مستورات کی تربیت ہوگی تو ان کی گودوں میں پلنے والی آئندہ نسلوں کی تربیت ہو جائے گی۔ حضور ؓ کو ایک الہام ہوا تھا کہ ’’اگر پچاس فی صد عور تیں تعلیم یا فتہ ہو جا ئیں تو جماعت کی تر قی یقینی ہے۔‘‘ (الازہار لذوات الاخمار جلد1) اس لیے حضورؓ نے عور توں کی تعلیم پر بہت زور دیا اور اس کا آغاز آپ نے اپنے گھر سے کیا اور اپنی ازواج اور بیٹیوں کو تعلیم دلوائی تا کہ وہ دوسری عورتوں کے لیےنمونہ بن سکیں ۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ازواج کو احمدی خوا تین کی تعلیمی اور تربیتی خدمت کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ حضرت مرزا طا ہر احمدصاحبؒ سوا نح فضلِ عمرؓ میں فرماتے ہیں:
’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی ازواج کا ایک تنظیم کی لڑی میں منسلک ہوتے ہوےٴ ایک دوسرے کے تا بع ہو کر سال ہا سال تک اس طرح خدمتِ دین بجا لانا کہ تنظیمی ڈ ھا نچے میں ایک ادنی ٰ سا رخنہ بھی نہ پڑا ہو اور اس نازک رشتہ کے باو جود تعا ون کے رشتہ پر بال برابر بھی آنچ نہ آئی ہو۔ یہ ایسی بات ہے جو ان مبارک خواتین کی عظمت کردار سے بڑھ کر اس عظیم شوہر کی عظمتِ کردار کا پتہ دیتی ہے۔ وہ نظم و نسق قائم رکھنے کی حیرت انگیز صلا حیتیں رکھتا تھا۔ آپ ایک ایسے عظیم الشان مربی تھے کہ بسا اوقات ایک لفظ زبان سے کہے بغیر آپ کی شخصیت سے تر بیت کا از خود ہونے والا تر شح گردو پیش کو ریڈیائی لہروں کی طرح اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتا تھا اور ما حول کی ہر چیز خود بخود ٹھیک ٹھاک اپنے مقام پر بیٹھ جاتی تھی اور اپنے دائرہ کار سے تجاوز نہ کرتی تھی۔

بہرکیف حضرت خلیفۃ المسیح کو اس امر کی حاجت نہ تھی کہ اپنی ازواج کو بار بار تعاون کی تلقین کریں۔ یعنی کاموں میں اختلاف اور جھگڑوں سے منع کریں یا آےٴ دن ان کے چھوٹے چھوٹے اختلا فات کو سلجھانے میں اپنا قیمتی وقت صرف کریں۔ نہیں کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوٴا۔ جب سے میں نے ہوش سنبھا لا اپنی والدہ کی وفات تک ایک دفعہ بھی ایسا واقعہ نہ دیکھا نہ سنا کہ ہماری بڑی والدہ ام نا صر نے حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں یہ شکایت پیش کی ہو کہ مر یم نے فلاں دینی معاملہ میں میرے ساتھ تعا ون نہیں کیا یا اس کے بر عکس کبھی میری والدہ نے کو ئی شکوہ اس نو عیت کا حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا ہو کہ لجنہ اماء اللہ کے معا ملات میں حضرت سیدہ ام ناصرؒ نے میرے ساتھ یہ غیر مشفقا نہ سلوک کیا ہے۔ سال ہا سال تک لجنہ اماء اللہ کی مجلسِ عا ملہ کے اجلاس ہمارے گھر میں منعقد ہوتے رہے۔ کبھی ایک مرتبہ بھی میں نے کو ئی تکرار نہیں سنی کوئی خلا فِ ادب بات نہیں دیکھی۔ گویا رشتوں کی طبعی رقا بت کو اس مقدس دائرے میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ جیسے کسی عامل نے اپنی جادو کی چھڑی سے ان اجلاسات کے ماحول میں ایک دائرہ سا کھینچ دیا ہو کہ یہ رقا بت اس دائرے کے اندر قدم رکھنے کی قدرت نہ پائے۔‘‘

یہ مزاج شناس بیویاں اپنے خاوند کے مزاج پر نظر رکھتی تھیں اور ان کے دل اس کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ہم آ ہنگ ہو کر دھڑکتے تھے۔‘‘

(سوانح فضلِ عمر جلد دوم صفحہ 361 تا 362)

حضرت مصلح موعود ؓ اپنی بیو یوں کی دلجوئی فرماتے۔ اپنی کتاب سیرِ روحانی کا ذکر کرتے ہوےٴ حضرت سیدہ مریم صدیقہ کے بارے میں حضورؓ فرماتے ہیں۔
’’میں اس کتاب کو مریم صدیقہ کے نام معنون کرتا ہوں کیونکہ انہی کو حیدر آباد دکھانے کے لیے یہ سفر اختیار کیا گیا، جس میں یہ مضمون خدا تعالیٰ کے فضل سے کھلا ہے۔‘‘

(دیباچہ ’’سیرِ روحانی‘‘ شائع کردہ فضل ِعمر فاوٴنڈیشن)

آپ کی بیویاں آپ کے لیے پرائیویٹ سیکریٹری کی خدمات بھی انجام دیتیں۔ ضرورت پڑتی تو حضورؓ کے کا تب کے فرائض بھی نبھاتیں۔کبھی حضورؓ کے مشورہ سے دوائی بنا کر ضرورت مندوں کو دیتیں۔ غرض کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ حضور کی مصروفیات میں مدد کر کے حضور کا ہا تھ بٹا سکیں۔

یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات کو اعلیٰ دینی مقاصد کے لیے قربان کر دیا ۔ ان کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔جن کا جینا ، مرنا ، سونا اور جاگنا حقیقتًا خداکے لیے تھا۔ اللہ کی ہزاروں ہزار برکتیں اور رحمتیں ان پر نازل ہوں۔ اللہ کرے کہ ہم ان عظیم ہستیوں کے نمونہ پر عمل کرنے والے بنیں۔آمین

(مرسلہ: ستارہ انجم۔ جماعت فارنہام یوکے)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

آنحضورﷺ کا معجزہ