• 6 مئی, 2024

آؤ! اُردو سیکھیں! (سبق نمبر 70)

آج سے ہم دوبارہ اس موضوع کی طرف لوٹ رہے ہیں جس پر گزشتہ کئی اسباق سے بحث جاری ہے۔ ہم اردو زبان میں چیزوں، رویوں، عادتوں، کیفیتوں، جذبات و احساسات کے نام بنانے کے طریقوں پر بات کررہے ہیں۔

اسمائے آلہ Names of tools

یہ عام طور پر فعل یعنی verb سے بنائے جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آلات یعنی Tools کا تعلق کام یا عمل یعنی work and action سے ہے۔

1۔پس اردو زبان میں فعل کے بعد اگر نی، نا، ن کا اضافہ کردیں تو اسمائے آلہ بن جاتے ہیں۔ جیسے دھونکنا ایک مصدر ہے یعنی infinitive جس کا مطلب ہے آگ بھڑکانایا سلگتی ہوئی آگ کو ایندھن یا ہوا کی مدد سے خوب تیز کرنا۔ تو اس سے اسم آلہ بنے گا۔

دھونکنی: Bellows

یہ ایک چمڑے کا تھیلا ہوتا ہے جس کے آگے دھاتی نال ہوتی ہے جس کے ذریعے آگ کو ہوا دی جاتی ہے۔ اسی کام کے لئے لوہے یا دھات کی ایک نال یا پائپ بھی استعمال ہوتی ہے جسے پھونکنی کہا جاتا ہے اس میں براہ راست یعنی direct منہ سے پھونک ماری جاتی ہے۔

بیلن: روٹی وغیرہ کو پھیلانے کے لئے استعمال ہونے والا لکڑی یا دھات کا گول اوزار۔ بیلنا : Sugarcane crusher، چھلنی یا چھننی اور اب بگڑ کر چھانی یا چھاننی ہوگیا ہے اس کو انگریزی میں Sieve کہتے ہیں اور یہ کسی چیز سے ایسا مادہ الگ کرنے یا فلٹر کرنے کے کام آتی ہے جو بے کار ہو یا اس کی نوعیت یا استعمال مختلف ہو۔ جیسے چائے کی کھلی پتی کو چائے بن جانے کے بعد چھاننی سے چھان لیا جاتا ہے یعنی الگ کردیا جاتا ہے، اسی طرح گندم کے آٹے کو چھانا جاتا ہے تا کہ گندم کا ایسا بُور یا چھلکا الگ کیا جاس کے جو پسنے میں بچ گیا ہو۔

ایک اور صورت اسم بنانے کی یہ بھی ہے کہ کسی اسم کے بعد ’’یل‘‘ کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جیسے ناک سے نکیل Cavesson / noseband یعنی کسی جانورکی ناک کے نتھنے کو چھید کر اس میں ایک چھوٹی سی چوبی میخ، لکڑی یا لوہے کی کیل ڈال کر اس میں رسی باندھ دیتے ہیں تاکہ جانورقابو میں رہے۔اسی طرح کھپرا A kind of tile سے کھپریل Shingle وغیرہ۔

2۔ بعض فارسی الفاظ کے بعد ہ کا اضافہ کرنے سے بھی اسما بن جاتے ہیں۔ جیسے دست یعنی ہاتھ سے دستہ یعنی ہینڈل چھری یا کلہاڑی وغیرہ کے ساتھ لگا ہوا لکڑی کا وہ حصہ جس سے اسے پکڑتے ہیں۔ چشم یعنی آنکھ سے چشمہ یعنی عینک یا زمین سے پانی نکلنے کی جگہ۔ روش صدیقی صاحب نے کیا خوب کہا ہے:

؎اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

پس چشمہ کا ایک مطلب ذخیرہ بھی ہے۔ جیسے کہتے ہیں معرفت کا سرچشمہ وغیرہ۔

اسی طرح فارسی الفاظ کے آخر پر ’’آنہ‘‘ کا اضافہ کرنے سے بھی نئے اسما یعنی nouns حاصل ہوجاتے ہیں جیسے انگشت یعنی انگلی سے انگشتانہ thumbstall انگشتانہ ایک خول ہوتا ہے جو چوٹ یا سوئی سے حفاظت کی خاطر درزی، کڑھائی کرنے والے یا تیر انداز شہادت کی انگلی یعنی index finger یا انگوٹھے پر پہنتے ہیں۔ دستانہ یعنی glove یہ عام فہم ہے اور دست کے بعد آنہ لگانے سے بنا ہے۔

3۔ اسمائے ظرف: یہ ایسے اسما ہوتے ہیں جو وقت اور جگہ کے معنی دیتے ہیں۔ اگر جگہ کے معنی دیں تو انہیں اردو میں ظرفِ مکان کہتے ہیں اور اگر وقت کے معنی دیں تو ظرفِ زمان کہتے ہیں۔ یہاں ہم یہ دیکھیں گے کہ اس طرح کے نام یا اسما بنانے کا کیا طریقہ ہے۔

ا۔ بارہ، وارا، واری کا اضافہ کرنے سے جیسے امام باڑہ اسے امام بارہ بھی کہتے ہیں یعنی امام کے رہنے کی جگہ شیعہ فرقہ یہ عمارت حضرت امام حسینؓ کی یاد میں بناتے ہیں، گردوارہ سکھوں کا مقدس مقام جہاں ان کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کی تلاوت کی جاتی ہے، پھلواری یعنی چھوٹا سا باغ کیاری وغیرہ۔ ایسے کپڑوں کو بھی کہتے ہیں جن پر پھول بوٹے بنے ہوں۔

ب۔ ’’ستان‘‘ کا اضافہ کرنے سے بھی اسما بنتے ہیں۔ جیسے پاکستان، افغانستان، راجستھان وغیرہ۔

ج۔ لہ کو اضافہ کرنے جیسے ہمالہ،سانگلہ، جنگلہ وغیرہ۔

د۔ ’’ال‘‘ کا اضافہ کرنے سے بھی اسم بنتے ہیں جیسے سسرال، ننہال، ددھیال وغیرہ۔

ہ۔ سال اور سالہ کے اضافے سے جیسے ٹکسال mint روپیہ پیسہ بنانے کا کارخانہ۔ دھرم سالہ یعنی charitable institution۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اسی طرح ہر ایک شخص کا اپنے مقاصد کا ایک بت ہوتا ہے اور وہ اس تک پہنچنا چاہتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہوتا ہے کہ اس تک پہنچا دے یا اس کی عمر کا پہلے ہی خاتمہ کردے۔ وہ اپنے مال یا عزت وآبرو، بال بچوں یا دوسری حوائج کے لئے تڑپتا ہے اور بے خود ہوتا ہے اور بسا اوقات لوگ انہیں مشکلات میں پڑ کر خود کشی کر لیتے ہیں مگر وہ شخص جو خدا کی طرف سے مامور ہوکر آتا ہے اس کا یہی جوش خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے ہوجاتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشوں کی بجائے خداتعالیٰ کی توحید کے لئے مضطرب اور بے خود ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں یہ الفاظ خداتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں کہ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنی توحید بہت ہی پیاری ہے یہ توحید تھی جس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے کبھی وبا کبھی قحط اور کبھی اپنے پیارے علیہم السلام کے ہاتھ کی تلوار سے اس کے قیام کے واسطے ہزاروں مشرک جانوں کو تباہ کردیا۔ مکہ و مدینہ کے حالات بھی صرف اسی کی خاطر پیچیدہ ہوئے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ بھی اسی توحید کے لئے تھا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ2 ایڈیشن 2016ء)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

مقاصد کا بت: مقصد کی جمع ہے مقاصد اور بت سے مراد ہے کہ دنیا کے مقاصد ہی کو سب کچھ سمجھ لینا۔ گویا کہ ایک بت ہے جس کے گرد گھومتے ہیں۔

مال: دولت، جائیداد، زمین، مویشی، سرمایہ، ملازمت۔

عزت و آبرو: شہرت، انا، خاندانی فخر وغیرہ۔

بال بچوں: بیٹے بیٹیاں، آل اولاد، گھر کے افراد۔

حوائج: حاجت کی جمع یعنی ضروریات۔

بے خود ہونا: اپنے آپ سے بے خبر ہونا۔ دنیا کمانے میں ایسی مصروفیت کے انسان کو ارد گرد کی خبر ہی نہیں رہتی۔

بسا اوقات: بعض اوقات، یعنی ایسا بھی ہوتا ہے۔

مشکلات میں پڑ کر: مشکل کی جمع یعنی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے۔

توحید: خدا تعالیٰ کو معبود واحد یقین کرنا، اس کا ہر طرح سے ایک ہونا۔

مضطرب و بےخود: بے چین اور کھویا ہوا۔

وبا: وہ مرض جو بہت دور دور تک پھیل جائے اور ایک سے دوسرے کو لگتی جائے۔

قحط: کمی، خوراک پانی، وسائل کی شدید کمی۔

تلوار: وہ جنگیں جو خداتعالیٰ کے حکم سے لڑی گئیں۔

پیچیدہ: جو سادہ نہ ہو، لجھا ہوا، مشکل، خطرناک۔

موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ: یعنی موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے مقابلہ۔

(عاطف وقاص۔ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی