• 26 اپریل, 2024

ربوبیّت کے دو مظہر

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’عارضی اور ظلی طور پر دو اور بھی وجود ہیں جو ربوبیت کے مظہر ہیں۔ ایک جسمانی طور پر، دوسراروحانی طور پر۔ جسمانی طور پر والدین ہیں اور روحانی طور پر مرشد اور ہادی ہے۔ دوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ بھی ذکر فرمایا ہے وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا (بنیاسرائیل:24) یعنی خدا نے یہ چاہاہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو اور والدین سے احسان کرو۔ حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں ماں کیاکیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمات کا کس طرح متکفل ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبرگیری کے لیے دو محل پیدا کر دیئے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پرتَو محبت کا اُن میں ڈال دیا،مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے اور جب تک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القاء نہ ہو، کوئی فرد بشر خواہ وہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو یا کوئی حاکم ہو، کسی سے محبت نہیں کر سکتا اور یہ خدا کی کمال ربوبیت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفل میں ہر قسم کے دکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لیے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ پس خدا تعالیٰ نے تکمیل اخلاق فاضلہ کے لیے رَبِّ النَّاس کے لفظ میں والدین اور مرشد کی طرف ایما فرمایا ہے تا کہ اس مجازی اور مشہود سلسلہ شکرگزاری سے حقیقی رب و ہادی کا شکرگزاری میں لے لئے جائیں۔ اسی راز کے حل کی یہ کلید ہے کہ اس سورہ شریفہ کو رَبِّ النَّاس سے شروع فرمایا ہے اِلٰہِ النَّاس سے آغاز نہیں کیا؛چونکہ مرشد روحانی تربیت خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق اس کی توفیق و ہدایت سے کرتا ہے۔اس لئے وہ بھی اس میں شامل ہے۔ پھر دوسرا ٹکڑا اس میں مَلِکِ النَّاسِ ہے۔تم پناہ مانگو خدا کے پاس جو تمہارا بادشاہ ہے۔یہ ایک اور اشارہ ہے، تا لوگوں کو متمدن دنیا کے اصول سے واقف کیا جاوے اور مہذب بنایا جاوے۔حقیقی طور پر تو اللہ تعالیٰ ہی بادشاہ ہے، مگر اس میں اشارہ ہے کہ ظلی طور پر دنیا میں بھی بادشاہ ہوتے ہیں اور اسی لئے اس میں اشارۃً ملک وقت کے حقوق کی نگہداشت کی طرف بھی ایما ہے۔ یہاں کافر اور مشرک اور مؤحّد بادشاہ ، کسی قسم کی قید نہیں بلکہ عام طور پر ہے۔ کسی مذہب کا بادشاہ ہو۔ مذہب اور اعتقاد کے حصے جدا ہیں۔قرآن میں جہاں جہاں خدا نے محسن کا ذکر فرمایا ہے وہاں کوئی شرط نہیں لگائی کہ وہ مسلمان ہو اور مؤحّد ہو اور فلاں سلسلہ کا ہو بلکہ عام طور پر محسن کی نسبت فرمایا خواہ وہ کوئی مذہب رکھتا ہو۔ ہَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ (الرحمان:61) کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ 428)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2020