کچھ غیرازجماعت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف مسلمانوں کو ہی سلام کرنا اور اس کا جواب دینا چاہئے۔ یہ عقیدہ قرآن و سنّت کے بالکل خلاف ہے۔
سلام کا جواب
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۔
وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡھَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا
(النساء:87)
ترجمہ: اور اگرتمہیں کوئی خیرسگالی کا تحفہ پیش کیا جائے تو اس سے بہتر پیش کیا کرو یا وہی لَوٹا دو۔ یقیناً اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ صرف مسلمان ہمیں سلام کرے تو ہم اس کا جواب سلام سے دیں اور اگر کوئی غیرمسلم سلام کرے تو اسے جواب نہ دیں۔
حضرت ابراہیمؑ کا اپنے مشرک باپ کو سلام
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیۡکَ ۚ سَاَسۡتَغۡفِرُ لَکَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِیۡ حَفِیًّا
(مریم:48)
ترجمہ: اس نے کہا تجھ پر سلام۔ میں ضرور اپنے ربّ سے تیرے لئے مغفرت طلب کروں گا۔ یقیناً وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔
اس آیت میں دو باتوں کا ذکر ہے: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے مشرک باپ کو سلام کہنا اور اس کے لئے استغفار کا وعدہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مشرک باپ کے لئے استغفار کرنے سے تو منع کیا لیکن کسی جگہ بھی اسے سلام کہنے سے منع نہیں کیا۔
جاہلوں کو جواب میں سلام کرنے کا حکم
وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ھَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا
(الفرقان:64)
ترجمہ: اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔
لغو باتیں کرنے والوں کو سلام کرتے ہوئے ان سے اعراض کا حکم
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡہُ وَ قَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۫ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۫ لَا نَبۡتَغِی الۡجٰہِلِیۡنَ
(القصص:56)
ترجمہ: اور جب وہ کسی لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال۔ تم پر سلام ہو۔ ہم جاہلوں کی طرف رغبت نہیں رکھتے۔
کفار کو سلام کرتے ہوئے ان سے درگزر کا حکم
فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ؕ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ
(الزخرف:90)
ترجمہ: پس تو ان سے درگزر کر اور کہہ: ’’سلام‘‘۔ پس عنقریب وہ جان لیں گے ۔
اس آیت سے ماقبل آیات میں اللہ پر ایمان نہ لانے والوں کا ذکر کرکے ان پر حجت تمام کرنے کے بعد اُن سے درگزر کرنے اور سلام کہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان واضح آیات کے باوجود غیرمسلموں کا سلام کرنے یا اُن کے سلام کا جواب نہ دینے کا عقیدہ رکھنا قرآن کو پیٹھ پیچھے پھینکنے کے مترادف ہے۔
نبی اکرمؐ کا سلام
نبی کریم ﷺ ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست، مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ پھر نبی کریمﷺ نے اُن سب کوسلام کیا۔
(بخاری کتاب الاستئذان باب التسلیم في مجلس فیہ اخلاط من المسلمین و المشرکین)
اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں، بت پرست مشرکوں اور یہود کی مشترکہ مجلس کے تمام افراد کو سلام کرنے میں پہل کی۔ غیرازجماعت سُنن ابن ماجہ کتاب الادب باب ردُّ السلامِ علی اھلِ ذِمَّۃ اورمسند احمد مسند الشامیین میں عقبہ بن عامر الجہنی سے مروی ایک حدیث جس میں نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ کل میں سوار ہوکر یہود کی طرف جاؤں گا۔ تم اُن کو سلام میں پہل نہ کرنا۔ پس اگر وہ تم کو سلام کریں تو تم جواب میں وعلیکم کہہ دینا، سے استنباط کرتے ہیں کہ غیر مسلموں کو سلام میں پہل نہیں کرنی چاہئے۔ اوّل تو یہ استنباط مندرجہ بالا حدیث کے خلاف ہے۔ دوسرا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عام حُکم نہیں بلکہ ایک مخصوص واقعہ کا ذکر ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے صحابہ ؓ کو منع فرمایا کہ تم گفتگو میں پہل نہ کرنا۔ مزیدیہ کہ اس میں صرف یہود کا ذکر ہے تمام غیرمسلموں کا نہیں اور یہود بھی وہ جو مدینہ میں رہتے تھے اور ان کی طرف نبی اکرم ﷺ کسی خاص مقصد کے لئے سوار ہوکر جارہے تھے ورنہ مدینہ کے یہود تو روزانہ مسلمانوں سے ملتے رہتے تھے۔
اہل کتاب کے سلام کا جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں وعليكم کہو۔
(بخاری کتاب الاستئذان باب کیف یرد علی اھل الذمۃ السلام)
بعض لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو اس کا جواب ’’صرف‘‘ وعلیکم سے دیا کرو۔ حالانکہ اس حدیث میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس کا ترجمہ ’’صرف‘‘ سے کیا جاسکے۔ بلکہ اس میں حرف ’’فا‘‘ کے ساتھ ’’فقولوا وعلیکم‘‘ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’’پس کہا کرو اور تم پر بھی‘‘۔ صحیح بخاری کتاب استِتَابۃِ المرتدین والمعاندین و قتالِھِم میں اس حدیث سے پہلے ذکر ہے کہ ایک یہودی نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا تو اُس نے آپ ﷺ کو ’’السّام علیک‘‘ کہا۔ اس پر آپ ﷺ نے اسے وعلیک کہا۔ صحابہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ ہم اسے قتل نہ کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ جب اہل کتاب تمہیں سلام کیا کریں تو تم وعلیکم کہہ دیا کرو۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی اہل کتاب شخص مسلمان پر سلامتی بھیج رہا ہوگا تو مسلمان بھی جواباً ’’وعلیکم‘‘ کہہ کر یہی کہہ رہا ہے کہ تم پر بھی سلامتی ہو۔ لیکن اگر کوئی شرارت سے اَلسّلام علیکم کی بجائے السّام علیکم کہے جس کا مطلب ہے کہ تم پر موت آئے تب بھی وعلیکم کہہ کر یہی کہا جائے گا کہ تم پر بھی موت آئے۔
ہر شناسا اور اجنبی کو سلام کرنے کا حکم
ایک آدمی نے نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ اور سلامتی کی دعا کرو، جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی۔
(بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام)
اس حدیث کے مطابق مسلمانوں کو ہر شخص پر سلامتی کی دعا بھیجنی چاہئے یعنی سلام کرنا چاہئے، چاہے اسے وہ جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ یہ نہیں کہا گیا کہ پہلے اسے پوچھو کہ تم مسلمان ہو یا نہیں اور اگر وہ مسلمان ہو تو اسے سلام کرو ورنہ نہیں۔
(انصر رضا۔کینیڈا)