دبستانِ حیات
قسط دوم
مکرم منور احمد خورشید صاحب۔واقفِ زندگی 1975ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہوئے اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ گیمبیا ،سینیگال اور برطانیہ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے ہیں ۔آپ کا ایک مضمون ’’مادر علمی جامعہ احمدیہ ربوہ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ الفضل آن لائن کی 20؍نومبر 2020ء کی اشاعت میں شائع ہوچکا ہے ۔اسی تسلسل میں آپ نے دیگر حالات و واقعات بھی تحریر کئے ہیں جو قارئین کے استفادہ کے لئے پیش ہیں ۔
میرا بچپن جہاں گزرا۔میرا گاؤں فتح پور
ارشاد نبوی ﷺہے۔ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَان۔ وطن سے محبت جزو ایمان ہے۔ اسی لئے دینِ فطرت نے وطن کی حرمت و ناموس کی خاطر جان دینے کو شہادت کا درجہ دیاہے۔ہمارے آقا ومولی حضرت محمد ﷺ کو معاندینِ اسلام کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جانے پر ارشادِ ربّانی کے مطابق مکّہ سے مدینہ ہجرت کرنی پڑی۔جب آپ مکّہ شہر سے روانہ ہونے لگے تو مکّہ کی طرف رخِ انور کرکے فرمایا۔‘‘اےمکّہ! ہم تم سے محبت کرتے ہیں’’۔آپ ﷺ ہمیشہ اپنے آبائی شہر مکۃ المکرمہ کے لئے دعا گو رہے ۔ اسی رشتۂ محبت اور ذکرِ خیر کی خاطر میں نے اپنے مادرِ وطن کےمتعلق کچھ لکھنے کے لئے قلم اٹھایا ہے۔ اللہ تعالی اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمين
تعارف فتح پور
میرے گاؤں کا نام فتح پور ہے۔جو ضلع گجرات پنجاب پاکستان کی ایک خوبصورت بستی ہے۔اس عاجز کو دنیا کے تین برّاعظموں کے تقریبا تیس سے زائد ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ۔اللہ تعالی نے اس دنیا میں ہر جگہ کو مخصوص خوبصورتی،افادیت ،شہرت اور تقدّس سے نواز رکھا ہے۔لیکن انسانی فطرت میں یہ چیز ودیعت ہے کہ پہلے وہ اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے،پھر کچھ اور،ایسے ہی مجھے جو پیار،محبت اور نسبت فتح پور سے ہے۔کوئی مقام اس کا متبادل نہیں بن سکتا۔کیونکہ ہرانسان کااپنےمولد ومسکن سے انس ومحبت ایک فطری رشتہ ہے۔ کہتے ہیں ہر انسان کی جنت اس کی اپنی ہی ماں کے قدموں میں ہوتی ہے۔
میں نےاسی گاؤں میں آنکھ کھولی،بچپن گزارا،ماں باپ ،بہن بھائی، گلیاں کوچے،اہل محلہ آج بھی دل ودماغ میں ایسے ہی زندہ ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ جب بھی میں آنکھیں بند کرکے چشم ِتصور میں فتح پور کا نقشہ سامنے لاتا ہوں۔ محبت بھرا ماحول زندہ ہوجاتا ہے۔یہاں تک کہ مرحوم ماں باپ ،عزیز رشتہ داروں ،بہن بھائیوں اورہمجولیوں کی باتیں بھی فضا میں سنائی دیتی ہیں۔
آئیے !!آپ کو فتح پور کی سیر کراتے ہیں۔فتح پور ضلع گجرات کا ایک معروف گاؤں ہے۔جو گجرات شہر سے سولہ کلو میٹر شمال میں ہے۔اس کے مشرق میں جلال پور جٹاں کا شہر ہے مغرب میں دولت نگر کا تاریخی قصبہ ہے۔شمال میں اعوان شریف ہے۔یہ وہی مقام ہے جہاں پر 1965 میں ہندوستان کی افواج نے بمباری کی۔بعد ازاں پاک و ہند جنگ کا آغاز ہوا تھا۔یہ مقام چھمب جوڑیاں کے قریب ہے۔اس بارڈر پر جنرل ملک اختر حسین کے زیر کمان جنگ لڑی گئی ۔جس میں انہیں تاریخی فتح حاصل ہوئی اوراس جنگ میں ہندوستان کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔کیونکہ اس وقت ساری قوم یک جان تھی۔
1965 کی جنگ میں ہم محاذ پر گولہ باری کی ہولناک آوازیں سنتے تھے۔ بلکہ رات کی تاریکی میں تو گولہ باری سے پیدا ہونے والی آگ کے شعلے بھی نظر آتے تھے۔ ہمارے گاؤں کے بہت سے نوجوانوں کو فوج میں جاک رمادرِ وطن کی حفاظت کا اعزاز حاصل ہے۔وطنِ عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کرتےہوئے پانچ چھ جوانوں کو تو جام شہادت پینے کی سعادت بھی ملی ہے۔ فتح پور قدیم سے ہی علاقہ بھر میں ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔مضافات کے سب چھوٹےدیہات اپنے آپ کو فتح پور کے نام سے ہی منسو ب کرتے ہیں۔
ڈلی (برساتی ندی)
فتح پور کی شرقی جانب ایک بہت ہی خوبصورت ندی بہتی تھی۔جس میں صاف شفاف ،آئینہ کی طرح چمکدار پانی سال بھر بہتا رہتا تھا۔اس زمانہ میں پورے گاؤں میں چند ایک کنویں تھے جن میں سے لوگ بنیادی ضروریات ،نہانے دھونے اور پینے کے لئےپانی حاصل کیا کرتے تھے۔باقی ندی کا سدا بہار بہتا پانی سب افراد کی بہت سی متفرق ضروریات پوری کردیتا تھا۔کہتے ہیں یہ ندی کہیں دورکشمیر میں چشموں سے نکلتی تھی۔جو ہم سب کے لئے ایک بہت بڑی رحمت خداوندی تھی۔جس کے ساتھ ہمارےبچپن کی بہت ساری انمٹ یادیں وابستہ ہیں ۔سنا ہے اب تو اس کا نام ونشان بھی مٹ چکا ہے۔ کیونکہ شاید لوگوں کےرويّوںسے دل برداشتہ ہو کر اس کا بہاؤبند ہو گيا ہے۔
کچی سڑک
ہمارے گاؤں کے شمال میں ایک کچی سڑک ہے جو راولپنڈی اور سیالکوٹ کو ملاتی تھی۔ اس کے دونوں اطراف شیشم کے بلند و بالا درخت ہوتے تھے۔یہاں لوگ اکثر وبیشتر پیدل ہی سفرکیا کرتے تھے۔سال میں ایک دوبارافواجِ پاکستان اپنی سالانہ مشقوں کے سلسلہ میں ادھر سے گزرتیں۔ہم لوگ بڑے اشتیاق سے فوجی گاڑیوں اور بھاری بھرکم ٹینکوں کو دیکھا کرتے تھے۔یہ سڑک ایک اہم راہ گزر ہونےکے علاوہ ہمارے لئے ایک پارک کا درجہ رکھتی تھی۔بچے یہاں کھیل کر اپنا شوق پورا کر لیتے۔کوئی وہاں سے تھوڑا ایندھن لے آتا۔تازہ مسواکیں ہر آن میسر ہوتیں۔ہمارے اساتذہ کرام تو طلبہ کی گوشمالی اور انہیں قابل بنانے کےلئے ان شیشم کے درختوں سے صحت مند مولَی بخش (ڈنڈا) لے آتے تھے۔
فتح پور علم کے میدان میں
جب میں نے آنکھ کھولی۔اس دورمیں فتح پورمیں لڑکوں کاایک مڈل سکول تھا۔جو گاؤں کےشمال میں تھا۔ بچیوں کے لئے گاؤں کےجنوبی محلّہ میں ایک پرائمری سکول ہو اکرتا تھا۔ فتح پور کے مضافات سے تقریباً دس دیہاتوں کے بچے تحصیلِ علم کی خاطر فتح پور میں ہی آیا کرتے تھے۔ جب مَیں کلاس ہشتم کا طالب علم تھا اس وقت میری کلاس میں تقریباًپندرہ سولہ طالب علم تھے۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دور میں آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔سکول ہمارے گھر سے تقریباًنصف میل کی مسافت پر تھا۔ عمارت پختہ تھی۔کلاس رومز کے سامنے ایک برآمدہ تھا۔جس کی دیواروں پر بڑی خوش خطی سے جلّی حروف میں اشعار تحریر تھے۔ایک شعر آج تک مجھے یاد ہے۔
نہال اس گلستان میں جتنے بڑھے ہیں
ہمیشہ ہی نیچے سے اوپر چڑھے ہیں
سادہ ،پُروقار ،محنتی اور مخلص اساتذہ کرام، اہل خِرد نے استاذ کو باپ کا درجہ بخشا ہے۔ کیونکہ یہ استاذ ہی ہے۔ جو بچے کی فکری اور عملی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے اس کو شرفِ انسانیت سے متعارف کراتا ہے۔ اس لئے اپنے اساتذہ کرام کا ذکرِ خیر اور ان کے لئے نیک تمنائیں شاملِ حیات رہنی چاہیں۔ انہی ہستیوں کا ہماری شخصیات کو کسی اعلَی مقام پر پہنچنے اور ہماری پسِ پردہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بڑا عمل دخل ہے۔
اس دور میں چونکہ ماحول میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا قحط الرّجال تھا۔اس لئے ان مدارس میں اساتذہ کی تعلیم بظاہر بہت ہی بنیادی ہواکرتی تھی۔ آپ کو اس بات سے اندازہ ہوجائے گا ۔ کہ ہمارے سکول میں ایک استاذ مکرم سیّدکرم شاہ صاحب ہوتے تھے۔جو آٹھ جماعتیں پاس تھے اور آٹھویں جماعت کو ہی پڑھایاکرتے تھے۔لیکن ایک بات ہے کہ وہ اساتذہ کرام اپنے کام میں بہت زیادہ مخلص ہوتےتھے۔سکول میں آٹھ کلاسز تھیں اور آٹھ ہی اساتذہ تھے۔مکرم چوہدری حاکم علی صاحب آف شیر گڑھ اس ادارہ کے ہیڈ ماسٹر تھے۔جو غالباً بی اے بی ایڈ تھے۔ بڑی بارعب شخصیت کے مالک تھے۔
مجھے یاد ہے۔جب میں کلاس ہفتم میں تھا۔ہمارے ایک استاذ مکرم محمد خان صاحب جو فتح پور کے ایک مضافاتی گاؤں کریم داد سے آیا کرتے تھے۔ان کی ایک ٹانگ کمزور تھی۔ جس کی وجہ سےلنگڑا کر چلتے تھے۔یہ موصوف اپنے گاؤں سے سائیکل پر سوار ہو کر سکول آتے تھے۔سردی ہو یا گرمی ہمیشہ ہی قبل از وقت سکول آجاتے۔رستہ میں انہیں ڈلی (برساتی ندی) عبور کرنی پڑتی۔جو ایک معذور آدمی کے لئے کوئی آسان کام نہ تھا۔الغرض سب اساتذہ اس قدر اخلاص اور فرض شناسی سے طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی سعی مسلسل کرتے کہ آج بھی میرے دل و دماغ میں ان شفیق اور مخلص اساتذ ہ کےنقوش رقم ہیں۔
امتحان کلاس ہشتم۔ورنیکلر فائنل
جب میں آٹھویں کلاس میں تھا۔اس دور میں آٹھویں کلاس کا امتحان ورنیکلر فائنل کا امتحان کہلاتا تھا۔ہمارے علاقہ کے جملہ مدارس کا سنٹر دولت نگر نامی قصبہ تھا۔ تمام قریبی مدارس کے طلبہ وہاں امتحان کے لئے آتے تھے۔اور ان ایام میں ان سب طلبہ اور اساتذہ کاقیام دولت نگر ہائی سکول کی عمار ت میں ہی ہوتا تھا۔سب طلبہ کلاس رومز میں ٹاٹ پر سوتے تھے۔ یہ قیام غالباً دس روز کے قریب ہوتا تھا۔دولت نگر ہمارے گاؤں سے تقریبا پانچ میل کی مسافت پر تھا۔اپنے استاذ مکرم محمد اکرم صاحب کی نگرانی میں ہم پیدل ہی دولت نگر گئے۔سب طلبہ نے غالباً دودو روپے فی کس کے حساب سے ادائیگی کی تھی۔ہم نے کھانے پینے کا سامان ایک گدھے پر لادا اور دولت نگر پہنچ گئے۔ہمارے ساتھ ہمارے محلہ سے ایک رمضان نامی بزرگ تھے۔جن کا کام ہمارے لئے کھانا تیار کرنا تھا۔
اس دور میں یہ ہمارا پہلا طویل ترین سفر تھا۔ ہمارے گاؤں میں تو صرف چند ایک دكانیں تھیںلیکن دولت نگر میں باقاعدہ ایک بازار تھا۔جو ہمارے لئے ایک بڑی بات تھی۔ہماری زندگیوں میں یہ ایک نیا تجربہ تھا۔امتحان سے فارغ ہو کر واپس اپنے گاؤں لوٹے۔اس مختصر سے سفری تجربہ نے ہمیں یہ احساس بخش دیا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں جس سے باقی لوگ نابلد ہیں۔ ہم لوگ کئی روز تک اہل خانہ اور اپنےدوستوں کو بڑے فخریہ انداز میں دولت نگر میں قیام کے دوران اپنے تجربات اور مشاہدات بتاتے رہے۔ ہمار ےبزرگ ہماری سادگی پر بس مسکرا دیتے۔
میرے ایک پروفیسر دوست کی بچی سکول داخل ہوئی۔اس کی ٹیچر نے اسے بتایا کہ زمین گول ہے۔بچی نے گھر آکر بڑے فخریہ انداز میں اپنے ابو جان سے کہا۔پاپا پتہ ہے کہ زمین گول ہے۔پروفیسر صاحب نے اثبات میں سر کو جنبش دی اور چند بنیادی باتیں نظام شمسی کے بارے میں بچی کو بتائیں۔جس پر بچی بڑی حیرانی سےبے ساختہ بولی۔ابو آپ کو یہ کیسے معلوم ہے ۔ آپ کو یہ کس نے بتایا ہے۔ اسے ہی بچپن کہتے ہیں۔
اس ادارہ کے لئے یہ بات قابل صد فخر ہےکہ اس مادرِعلمی کی آغوش سے بہت سے قابلِ قدرجواهرپيدا ہوئے۔ جنہیں مختلف صورتوں میں ملّی اورقومی خدماتِ جلیلہ کی سعادت ملی ۔ جن میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز،دانشور،کاروباری شخصیات سیاست دان،وکلاء، اور پولیس اور فوج کے افسران بھی شامل ہیں۔
ادب واحترام ۔رشتوں کی پاسبانی
میرے بچپن کے دور میں ہمارے گاؤں کی تین اطراف میں بڑے بڑے تالاب ہوا کرتے تھے۔جو اب لالچ اور ہوس پرستی کی نذر ہوچکے ہیں۔ان تالابوں میں برساتی پانی بھرجاتا تھا جوسال بھر جمع رہتا۔ لوگ اپنے مال مویشیوں کو وہاں سے پانی پلاتے ،نیز یہ آبی ذخیرہ بہت سی دیگر ضروریات کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا۔ یہ تالاب اس دور کے سوئمنگ پول بھی ہوا کرتےتھے ۔ کیونکہ یار لوگ یہاں تیراکی کا شوق بھی پورا کر لیا کرتے تھے۔ایک دفعہ چند مرغابیاں تلا شِ معاش میں اڑتی اڑتی ہمارے محلے کے تالاب میں اتر گئیں ۔اس دور میں ہمارے گاؤں میں چند ایک لوگوں کے پاس بندوقیں ہوتی تھی۔جن میں مکرم سید منظور حسین شاہ صاحب بھی شامل تھے۔ شاہ صاحب کو تالاب میں مرغابیوں کی آمد کا علم ہوا۔انہیں بھی شکارکا شوق پیدا ہوا ۔وہ اپنی بندوق لے کر تالاب کی طرف چل پڑے۔انہیں دیکھ کربےشمار لوگ تالاب کے قریب جمع ہوگئے۔میں بھی ان تماش بین لوگوں میں شامل ہوگیا اور اتفاق سے جہاں پر شاہ صاحب مرغابی کی جانب بندوق تانے نشست لئے بیٹھے تھے۔میں بھی ان کے قریب ہی کھڑا تھا۔ہمارے گاؤں میں اس قسم کے شکار کا یہ پہلا موقع تھااور پہلی بار ہی لوگوں نے بندوق کو اپنےاتنے قریب سے چلتے دیکھا تھا۔اس لئے لوگوں میں کافی جوش وخروش نظرآرہا تھا۔شاہ صاحب اچھے نشانہ باز تھے۔پھر بھی احتیاط برتنی لازمی تھی۔جب شاہ صاحب بندوق چلانے کے لئے بالکل تیارہوگئے۔ اتفاق سےعین اسی وقت ہمارے محلّے کی ایک خاتون جس کا نام اللہ رکھی تھا۔وہ اپنی زمینوں کی طرف سے آرہی تھی۔ اس نے بھی یہ سار ماجرا دیکھا۔ وہ جب شاہ صاحب کے قریب پہنچی ۔اس نے زور سےکہا ۔ لوگو اگر ایک بے چارہ معصوم ساپرندہ تمہارے گاؤ ں میں آ ہی گیا ہےتوکیوں ساراگاؤ ں اس کو مارنے کے لئے اکٹھا ہوگیا ہے ۔جیسے ہی منظور شاہ صاحب کے کانوں میں اس خاتون کی یہ آواز پہنچی۔ اس بزرگ خاتون کی درخواست یا خواہش کے احترام میں اسی وقت انہوں نے بندوق اٹھائی اور اپنی راہ ہو لئے۔
پیار محبت اور امن کا گہوارہ
بنی نوع انسان میں فکری ،علمی،معاشی اور مذھبی اختلاف تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ ابنائے آدم ہابیل اور قابیل کے قصہ سے ہم سب آشنا ہیں۔ انسانی فطرت میں یہ جو فکری اختلاف ہے۔ اس کے غلط اور بےجا استعمال سے ا ختلافات پھر لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ہمارے دور میں بھی لڑائی جھگڑے ہوتے تھے۔اکثر تو صرف زبانی کلامی اورگالی گلوچ تک ہی ہوتے ۔کبھی کبھار ہاتھا پائی تک بھی نوبت آجاتی تھی۔چونکہ ڈانگ ،سوٹے کا دورتھا۔اس لئے بد نتائج محدود ہوتے تھے۔
مجھے یاد ہے۔غالباً۱۹۶۳ میں ہمارے گاؤں میں پہلی بار دو گروپوں کے مابین باقاعدہ آتشیں اسلحہ سے لڑائی ہوئی تھی۔جس میں کسی قریبی گاؤں کا ایک آدمی اکبر نامی قتل ہو گیا تھا۔اس واقعہ کے بعد کافی عرصہ تک فتح پور کی فضا میں خوف وہراس کے سائے لہراتے رہے۔ ایک لمبا عرصہ تک اس لڑائی اور پھرخاص طورپرقتل کے واقعہ سے درودیوار گونجتےرہے۔ ہمارے سکول کے بچے لکڑیوں کو رسیاں باندھ کر بندوقیں بنالیتےاورپھرآپس میں لڑائی کرتے۔جس کے نتیجہ میں ہربار وہی اکبر نامی آدمی قتل ہوجاتا تھا۔اب تو سنا ہے بہت سے بچوں کے پا س اصلی پستول بھی ہوتے ہیں۔جن سے وہ محض کھيلتے ہی نہيں بلکہ حقیقت میں قتل بھی کردیتے ہیں۔
کیا زمانہ تھا۔سارا گاؤں ایک خاندان کی طرح جیتا تھا۔سب کی خوشیاں اورغم مشترکہ ہوتی تھیں ۔لوگ اکٹھے بیٹھتے، گھنٹوں باتیں کرتے۔بچے اپنے دوستوں کے ساتھ کھلے میدان میں کھیلتے ۔بچیاں اپنی سکھی سہیلیوں کے ساتھ ہنستی،کھیلتی تھیں۔ہرکوئی اپنے سے بڑے کو بھائی،چاچا ،ماموں کہتا۔ہربڑی عورت بہن،خالہ یا پھوپھی کہلاتی تھی۔مذہبی رواداری تھی۔
عصر حاضر کا فتح پور
کہتے ہیں ۔دنیا کی ترقی میں سب سے اہم اور بنیادی کردار پہیےکا ہے۔کیونکہ اگر پہیہ جام ہوجائے۔ تو سارے کام دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ نقل و حمل نہ ہونے کے برابر ہو جائے۔ ترقیات کی فلک بوس عمارت زمین بوس ہو جائے۔
فتح پور میں جب سے کھاریاں سے سیالکوٹ والی سڑک بنی ہے۔ جس کی وجہ سے فتح پور چوک وجود میں آگیا ہے۔ اس سے گاؤں کی اہمیت، شہرت اور افادیت فرش سے عرش پر پہنچ گئی ہے۔ کہاں چند ٹانگے بھاگا کرتے تھے۔اب گاڑیوں کی ریل پیل ہوگئی ہے۔ کچی گلیاں پختہ ہو چکی ہیں۔کچے مکان کوٹھے عالیشان عمارات کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ آب گھر میں میسر ہےا گرچہ «اب خوش آب» نہیں رہا۔ ایک وہ دور تھا جب لوگ گاؤں سےگجرات تک پیدل ہی جایا کرتے تھے۔اب توایک محلہ سے دوسرے محلہ میں جانے کے لئے بھی سواری میسر ہےاور اس کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔فتح پور میں گوشت کی اکلوتی دوکان ہوا کرتی تھی۔جہاں ہفتہ میں غالباً دو دن ایک ایک جانور ذبح کیا جاتا تھا۔اس جانور کو ذبح کرنے سے پہلے باقاعدہ بناؤ سنوار کے بعدپورے گاؤں کا چکرلگوايا جاتا تھا۔ لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لئے ایک ڈھولیا بھی ساتھ ہوتا تھا۔
فتح پور میں تین چار چھوٹی چھوٹی پرچون کی دوکانیں ہوتی تھیں۔اب سینکڑوں چھوٹی بڑی دوکانیں ہیں۔تعلیمی میدان میں بہت ترقی ہوچکی ہے۔بہت سے بچے اور بچیاں بی اے ،ایم اے تک تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔اب تو گجرات یونیورسٹی بھی ہمارے گاؤں سےچند کلو میٹر کے فاصلہ پربن گئی ہے۔ نئی تہذیب اور ترقی بام عروج پر پہنچ رہی ہے۔طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔اب تو سرکاری اسپتال کے علاوہ پرائیویٹ طبی سہولیات کے مراکز آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔الغرض ہر نعمت اور سہولت جس کا تصور آپ کسی بڑے شہر میں کرسکتے ہیں ۔وہ آج آپ کو فتح پور میں میسر ہے۔
لمحہ فکریہ
ایک وہ دور تھا جب پانچوں وقت مؤذن کی دلفریب آواز فضا گونجتی تھی اور لوگ پیار محبت سے مسجدوں میں آتے جاتے تھے۔اب لاؤڈ سپیکر کی آوازیں گرجتی ہیں مسجد وں میں جانے والے بے چارے نمازی سہمے ہوئے اور خائف نظر آتے ہیں۔ مساجد کے دروازوں پر گن مین بندوقیں تانے مستعد کھڑے ہوتے ہیں۔جوہرآنے والے نمازی کو بنظرِ غور دیکھتے ہیں۔ شاید یہ نمازی نہیں بلکہ کوئی حملہ آور ہے۔مساجد میں ذکر الہی اور تقدّس کے ماحول کی بجائے خوف و ہراس کا ماحول ہے۔
لیکن ان سب نعمتوں کہ باوجود جیسا کے اللہ تعالی قرآنِ كريم میں فرماتا ہے۔ ’’جب جہنم دھکائی جائے گی اور جنت قریب لائی جائے گی‘‘۔ عجیب کیفیت ہے ۔کوئی ایسا ہی معاملہ نظر آتا ہے۔سب ظاہری نعمتوں کے میسّرہونے کے باوجود سکون نہیں،امن،صلح جوئی،رواداری،تحمل بردباری اور شرم وحیا کی کمی ، رشتوں کا احترام ، چھوٹے بڑے کے فرائض اور حقوق کا فقدان عروج پر پہنچا ہوا ہے۔نشہ کی لعنت،چور بازاری، ڈاکے ، اغوا برائے تاوان اور قتل وغارت نے ہر شہری کوصلیب پر لٹکا رکھا ہے۔گھروں میں تو بڑی بڑی پختہ اور اونچی دیواریں بن گئی ہیں۔جن کے ساتھ ساتھ دلوں میں بھی نفرت وتعصب کی بلند وبالا اور مستحکم فصیلیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نفسا نفسی کے دور میں ہر شخص جو آپ کو خوش و خرم نظر آتا ہے۔اس کا سینہ کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی مسکراہٹ مصنوعی ہے۔بظاہر سکون کا لبادہ اوڑھے ہوئےہےلیکن اس کا دل ہرآگے پیچھے آنے والےسےخائف ہے۔
درد مندانہ التماس ہے :
ہم میں سے ہر شخص کواپنے گریباں میں جھانکنا چاہیے۔
حسد، کینہ، تعصب، لالچ ،بغض اوراناء نفس سے بالا ہو کر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ہم کیوں یہاں کھڑے ہیں۔ہم یہاں کیسے پہنچ گئے۔یہ ایک طویل کہانی ہے۔جسے سب جانتے ہیں ۔
اظہارِجرأت نہیں ہے۔ یہ ایک درد ہے ۔یہ ایک درد مندانہ ندا ہے۔یہ بات صرف فتح پور کی نہیں۔ پورے وطن عزیز کی ہے۔
اےاللہ تعالیٰ ہمیں انسانیت کی نعمت سے نواز ۔آمین
فتح پور میں شجرِ احمدیت
ہمارے ہمسائےمیں ایک خدا رسیدہ ،عالم وفاضل اور ولی اللہ بزرگ رہتے تھے۔ جن کا نام مکرم سید محمود احمد صاحب تھا۔ اس دور میں ہمارے علاقہ میں ان کے علم وفضل اور تقویٰ وطہارت کی بہت شہرت تھی۔ یہ بزرگ اپنے محلے کی مسجد کے امام الصلوٰۃ تھے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں قرآن پاک کی درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا تھا۔ جس میں علاقہ بھر سے طلبہ کی ایک کثیرتعداد دینی تعلیم حاصل کرتی تھی۔
میرے دادا مکرم حضرت میاں عبدالکریم صاحب کی یہ خوش بختی تھی کہ یہ بزرگ شاہ صاحب کے ہمسائےمیں ہی رہتے تھے ۔آپ کو شاہ صاحب جیسے عالی مرتبت بزرگ کی نیک صحبت بچپن سے ہی نصیب ہو گئی تھی۔ پھر شاہ صاحب کی نیکی اور اخلاقِ فاضلہ سے متاثر ہو کر ان کے حلقۂ معتقدین میں شامل ہو گئے اور اکثر اوقات ان کی روحانی اور علمی مجالس میں جاکر بیٹھے رہتے ۔
علامات ظہور مہدی
مکرم شاہ صاحب ایک پاک فطرت، نیک سیرت، صاحب رؤیا و کشوف اور عالم باعمل وجود تھے۔ آپ اس زمانہ کے مسلمانوں کی افسوسناک عَملی اورعِلمی صورتِ حال سے خاصے دل برداشتہ تھے۔ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلاَمِ اِلَّا اِسْمُهُ کا ماحول دیکھ کر باقی خدا ترس مسلمانوں کی طرح احیاءِ اسلام کے لئے،اللہ کی طرف سے ایک ہادی اور مُصلِح کے انتظار میں تھے۔
ایک دن مکرّم شاہ صاحب نے آسمان پر کچھ مخصوص ستاروں کی حرکات وسکنات کی طرف دیکھ کر اپنے دوستوں سے فرمایا کہ یہ نشان ظہورِمہدی کی علامات میں سے ہیں اور آخری زمانہ میں جس مہدی کی آمد کی خبر آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی تھی اب وہ امام مہدی ظاہر ہوچکے ہیں یا ظاہر ہونے والے ہیں۔
احمدیت سے ابتدائی تعارف
روایت ہےکہ ایک دن مکرم شاہ صاحب کسی کام کی غرض سے قریبی قصبہ جلال پور جٹاں گئے ہوئے تھے۔ گرمی کا موسم تھا ۔آپ بازار میں ایک ریسٹورنٹ میں تشریف لے گےاور ریسٹورنٹ کے مالک کو ایک گلاس لسّی کے لئے کہا۔جب آپ لسّی پینے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ بازار میں ایک آدمی کو بڑی بے رحمی سے زَدوکوب کر رہے ہیں۔ آپ فورا ًان لو گوں کے پاس گئے اور ان سے اس شخص کو اس طرح مارنے کا سبب دریافت کیا ۔ لوگوں نے اس شخص کے بارے میں برا بھلا کہتے ہوئے بتایاکہ ہم لوگ اس کو اس لئے مار رہے ہیں کہ یہ شخص ادھر کہتا پھرتا ہے۔کہ امام مہدی آگیا ہے۔ امام مہدی آگیا ہے ۔شاہ صاحب نے کہا۔ آپ اس بے چارے کو کیوں مار رہے ہیں؟ اگر مارنا ہے تو اسے جاکر ماریں جس نے دعویٰ کیا ہے۔ اس پر آپ نے ان لوگوں سے اس بےچارے کی جان چھڑائی اور اس کو اپنے ساتھ ہوٹل میں لے آئے۔اس کو لسّی پیش کی اور پھر پوچھا کہ یہ امام مہدی والا کیا قصہ ہے؟ یہ شخص احمدی تھا۔ اس نے حسبِ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے بارے میں آپ کو بتایا۔ مکرّم شاہ صاحب تو پہلے سے ہی اس نور کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ واپس گھر تشریف لائے اور اپنے چند مریدوں کو بغرض تحقیق قادیان بجھوا دیا جو فتح پور ضلع گجرات سے پا پیادہ قادیان گئے ۔ قادیان پہنچ کر انہوں نے اپنی فکر اور سمجھ کے مطابق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےحالات و واقعات کامطالعہ ومشاہدہ کیا اور واپس آکر شاہ صاحب کی خدمت میں پوری صورتِ حال بیان کر دی۔
شاہ صاحب کی قبول احمدیت
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد مکرم شاہ صاحب خود قادیان کے لئے روانہ ہوئے اور جا کر حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی دست بوسی اور شرفِ بیعت حاصل کیا اور تین سو تیرہ خوش نصیبوں میں شامل ہو گئے۔
اعلانِ احمدیت
قادیان سے واپس آکر مکرم شاہ صاحب نے اپنے دوست احباب کو بتایا کہ میں نے تو حضرت مرزا صاحبؑ کی بیعت کرلی ہے۔اب آپ لوگوں کی مرضی ہے کہ میرے پیچھے نماز ادا کریں یا نہ کریں۔اس پر گاؤں کے مولویوں نے آپ کی مخالفت شروع کردی جس سے اکثر لوگ خا ئف ہوگئے اور انہوں نےحق کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مگر چنددوستوں نے اس صداقت پر شاہ صاحب کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے احمدی ہونے کا اعلان بھی کردیا۔
حضرت مسیح ِپاک کا سفر جہلم
یہ1903ء کی بات ہے۔ یہ خبر ملی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک معاند کرم دین کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم کی ایک عدالت میں تشریف لارہے ہیں۔ (جہلم شہر ہمارے گاؤں سےتقریباً 40 میل کی مسافت پر ہے) یہ خبر سنتے ہی بہت سارے لوگ جہلم پہنچ گئےتاکہ حضرت اقدس کی زیارت کرسکیں۔ اس طرح بہت سارے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل اوراسکی عطا کردہ توفیق سے جہلم پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ جہلم شہر میں حضورپُرنور علیہ السلام کی زیارت کرنے والوں کا ایک جمِّ غفیر تھا۔اس کا اِس بات سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہےکہ وہاں پر صرف ایک دن میں 1200بیعتیں ہوئی تھیں اور ان بیعت کرنے والے خوش نصیب لوگوں میں ہمارے گاؤں کے احباب بھی شامل تھے۔
فتح پور جماعت کو ضلع گجرات میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک فعّال جماعت ہے۔ہمارے بزرگوں کی نسلیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور خدمت دین کی توفیق پارہی ہیں۔الحمد للہ على ذالك
(منور احمد خورشید ۔واقفِ زندگی)