• 2 مئی, 2024

میرے پیارے ابوجان

میرے پیارے ابوجان
(اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ)

میرے پیارے ابو جان محترم عزیز احمد باجوہ صاحب (اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ کر رکھے اور اپنا قرب عطا فرمائے۔آمین) 12 ستمبر 2020ء کو ہمیشہ کے لئے اس جہان فانی سے رخصت سفر باندھ گئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ رٰجعون

آپ کاآبائی تعلق کتھووالی گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا۔ آپ کے والد کا نام محترم امیر احمد باجوہ صاحب تھا۔آپ اپنے والدصاحب کی کل چھ اولاد (چار بھائی اور دو بہنوں) میں سے تیسرے نمبر پر تھے۔آپ کی تاریخ پیدائش 14 اپریل 1946ء ہے۔ آپ کی شادی اپنی پھوپھوزاد محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ (بنت محترمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ محترم ثناء اللہ نمبردار آف کتھو والی پسرور ضلع سیالکوٹ) کے ساتھ ہوئی تھی جس سے خداتعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔

ابوجان اپنی زندگی میں وطن عزیز کی حفاظت پر مامور ایک نڈر اور سخت جان فوجی ہی نہ تھے بلکہ ایک مخلص، عبادت گذار، دعاگو اور داعی الی اللہ احمدی بھی تھے۔ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عمر بھر اپنے قول اور فعل سے یہ ثابت کیااور اس بات کی گواہی اپنے تو اپنے بیگانے بھی دیتے ہیں۔ ہمسائے اور اہل محلہ بھی آپ کی ان سب خوبیوں کے معترف تھے۔

آپ محنتی اور اواالعزم انسان تھے۔ بہت سی خوبیوں کے مالک میرے ابوجان کے فوج کے زمانہ کے ساتھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف اسکولوں میں بطور پی ٹی ٹیچر ساتھ کام کرنے والے ساتھی سب ان کی نیک نامی،امانت، شرافت اورجرأت کے قائل تھے۔ آپ نے اپنی زندگی ہمیشہ ایک صلح جو، ہمدرد اور شریف النفس انسان کی حیثیت سے گزاری ۔ ہمیں بھی ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ ہم احمدی ہیں اور ہماری تعلیم صبر ہے۔ ہمارا یہ کام ہونا چاہیے کہ کبھی برائی کا جواب برائی سے نہ دیں بلکہ ہمیشہ کسی کی برائی کے بدلے اس سے اچھائی کرنی ہے ۔آپ کا اخلاق دیکھ کر اگلا خود ہی شرمندہ ہوجائے گا۔ اس ضمن میں اپنا اسکول کی ملازمت کے زمانہ کا ایک واقعہ بھی سنایا کرتے تھے کہ احمدی ہونے کی وجہ سے دوسرے ٹیچرز نے آپ کی مخالفت شروع کردی اور میرے کھانے پینے کے برتن بھی نشان لگا کر الگ کردیئے ۔ بریک میں جب میں چائے پینے کے لئے کپ لینے لگا تو وہ ایک طرف الگ رکھا ہوا تھا ۔ میں نے چپڑاسی سے پوچھا یہ کیوں کیا ہے ؟اس نے وجہ بتائی تو میں نے ہنس کرالزامی جواب کےرنگ میں کہا کہ یہ تو اچھا ہوا میں ان کے جھوٹے برتن استعمال کرنے سے بچ جاؤں گا۔

اپنا احمدی ہونا کبھی نہیں چھپایا بلکہ آپ ایک پرجوش داعی الی اللہ تھے۔ دوران ملازمت یا سفر، بیماری یا تندرستی میں کبھی بھی کوئی موقع ملتا تو حضرت مسیح الزمان ؑ کی آمد کی خبر غیر کو ضرور پہنچا دیتے اور ہمیشہ کہتےتھےکہ ہمارا جو کام ہے وہ تو ہم کریں یعنی پیغام پہنچا کر اور نیک نمونہ دکھا کر۔

کیا احمدی اور کیا غیر احمدی سب متفق ہیں کہ آپ نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا اور بلاتفریق مذہب غریب سے ہمدردی اور ضرورتمند کی مدد کی۔انصاف دلانے کی کوشش کی۔ اپنے معاملات ہمیشہ صاف اور سیدھے رکھا کرتے تھے۔ہر کام سلیقہ سے کرتے تھے۔ فوج میں ملازمت کے دوران بطور کوارٹر ماسٹربھی کام کیا اور اس دوران بھی سب ساتھی آپ کی امانتداری اور بہتر منصوبہ بندی سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے تھے۔ اپنی تنظیم سازی اور ایمانداری نیز محنت کی وجہ سے ہر اہم موقع پر ایک اچھے منتظم کی حیثیت سے ہمیشہ اپنے آفیسرز اور جماعتی عہدیداران کی نظروں میں رہتے تھے اور ایک بہترین ممد و معاون اورمددگار ثابت ہوتے تھے۔

آپ نے جماعت احمدیہ گوجرہ شہر کی عاملہ میں ایک لمبا عرصہ مختلف عہدوں پر بطور سیکرٹری مال، سیکرٹری جائیداد، زعیم انصاراللہ اور نائب صدر و نائب امیرکے طور پربھی خدمات سر انجام دیں۔

آپ محنت کے کسی کام میں کبھی کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد روزگار کمانے کے لئے ایک عام دوکاندار کی حیثیت سے جوتیوں کی دکان ڈالنے میں بھی کوئی ہتک محسوس نہ کی۔ گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں مشغلہ کے طور پر سبزیاں اگائیں جو گھر میں بھی استعمال ہوتی تھیں اور ان سے کئی ضروررتمندوں کی مدد بھی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ گاؤں جاکرزراعتی امور میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔ پیدل چلنا آپ کو پسند تھااور سائیکل پر وزن اٹھا کر دوردراز تک کا سفر کرنا آپ کے لئے کوئی مشکل نہ تھا ۔ آپ ایک باہمت شخصیت کے مالک تھے۔جب کسی کام کی ٹھان لیتے تو اس کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچاتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری ایام میں بھی پیدل چلنے کی کوشش کرتے تھے۔باوجود اپنی بیماری کے کبھی پیدل اور کبھی سائیکل پر نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مسجد ضرور جاتے ۔ آپ پنجوقتہ نماز کے پابند اور باقاعدہ تہجد گذار تھے۔ گاؤں میں ہوتے یا شہر میں، گرمی ہوتی یا سردی ، حالات کیسے بھی ہوتے ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ دن کی تمام نمازیں مسجد میں جاکر اداکریں۔گاؤں میں مسجد کی طرف جاتے ہوئے جہاں جہاں سے گزر تے سب کو نماز کی دعوت دیتے جانا آپ کا شیوہ تھا۔ ہمیشہ کہتے تھےجو نماز نہیں پڑھتا وہ مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا۔ تلاوت قرآن کا بھی باقاعدہ التزام فرماتے تھے۔ہر روز تہجد کے نوافل کے بعد بآواز بلند تلاوت قرآن کریم کرتے۔ رمضان کے روزے بھی باقاعدگی سے رکھتے تھے اور اس مہینہ میں کئی بار قرآن کریم کادورختم کرتے تھے۔

آپ صفائی پسند تھے۔ ہمیشہ صاف ستھرا رہتے۔ غسل اور مسواک باقاعدگی سے کرتےاور جسم کو مضبوط رکھنے کے لئے اکثرتیل کی مالش بھی کرتے تھے۔گھر میں، گھر کے سامنے اور ارد گرد بھی صفائی رکھتے تھے۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سےگاؤں کے قبرستان میں بھی اکثر وقار عمل کیا کرتے۔جب بھی وہاں دعا کے لئے جاتے تو قبروں پرا ور قبرستان کے احاطہ میں اگنے والی جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے میں لگ جاتے اور گاؤں والوں خصوصاً اپنے عزیزوں کو قبرستان کی صفائی کی طرف توجہ دلاتے تھے۔آپ گوجرہ شہر کے پرانے باسیوں میں سے تھے اور آبائی گاؤں 312 ج ب کتھو والی بھی اس کے قریب تھا۔اس وجہ سے ارد گرد کے تمام علاقہ اور خاندانوں کو بخوبی جانتے تھے۔

آپ فضول خرچ ہرگز نہ تھے۔ اپنی استطاعت کے مطابق ہمیشہ باقاعدہ چندوں کی بروقت ادائیگی کرتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی نصیحت کرتے تھے۔ صدقات اور دوسری مالی تحریکات میں بھی حصہ لیتے تھے۔ جھوٹ اور جھوٹے سے سخت نفرت تھی۔ کسی کی اگر کوئی بات بری لگتی یا کسی کے متعلق کچھ گمان کرتے تو اس کے متعلق جو بات دل میں ہوتی اس کو کہہ دیتے۔کبھی کوئی بغض یا کینہ نہ رکھتے تھے۔

چھوٹو ں کی تربیت کا بھی بہت خیال کرتے تھے۔انہیں ان کی ہرغلط بات پر سمجھاتے۔ لڑائی کی صورت میں صلح کرواتے۔انہیں ہمیشہ تعلیم حاصل کرنے اور نماز پڑھنے کی نصیحت کرتے۔ کسی طالبعلم کا اگر ان سے سامنا ہوجاتا تو اس کی پڑھائی کا پوچھتے اور آزمائشی سوالات بھی ڈالتے۔امتحانی نتائج سے متعلق پوچھتے اور کامیابی کے نسخے بتاتے۔ آپ کا حساب بھی بہت اچھا تھا۔ بڑےبڑےسوال زبانی حل کرلیتے تھے۔ جن اسکولوں میں پڑھانے کا موقع ملا وہاں بچوں کو پی ٹی کروانے اور ڈسپلن سکھانے کے علاوہ ان کی خوشخطی کے لئے فکرمند ہوتے اور اکثر کو قلم خود بناکر دیتے۔ سیاہی بنانے کا طریقہ بتاتے کہ کسی طرح وہ خوشخط لکھنے والے بن جائیں۔ایک زمیندار گھرانے سے تعلق کی وجہ سے اگر کوئی زراعت پیشہ مل جاتا تو اس سے تمام معلومات لیتے اور بہتری کے لئے مفید مشورے بھی دیتے۔اگر کوئی مزدور پیشہ ملتا تو اس کا بھی حوصلہ بڑھاتے اور حلال روزی کمانے کی نصیحت کے ساتھ نت نئے طریقے بھی بتاتے۔ اگر کوئی سرکاری ملازم یا جماعتی کارکن سامنے آجاتا تو اس سے اس کے کام کی نوعیت جانتے اور اپنی زندگی کے تجربات شیئر کرتے۔

آپ دل کے بہت نرم تھے ۔کسی کی بیماری یا تکلیف کا سن کر فوراً پریشان ہوجاتے ۔ اس کی خبر گیری کرتے اور اس کے لئے دعا کرتے تھے۔ کوئی مالی پریشانی میں مبتلا ہوتا تو اس کے دکھ کو بھی محسوس کرکے رو دیتے اور ہمیشہ صبر اور دعا کی نصیحت کرتے تھے۔ ہمیشہ صلہ رحمی کا کام کرتے۔اہل ثروت رشتہ داروں کو اپنے غریب بہن بھائیوں کی مدد کا ہمیشہ درس دیتے تھے۔ خو د اپنے ہر رشتہ دار سے ایسی محبت رکھتے کہ ہر کوئی سمجھتا کہ یہ میرے ہی عزیز ہیں۔ آپ خوش لباس اور خوش خوراک تھے۔ طبیعت میں بہت سادگی تھی۔ آپ کی جوتی ہمیشہ چمکتی ہوئی پالش رہتی تھی۔

زندگی میں آپ پر کئی کٹھن ادوار آئے اور زمانے نے کئی جگہوں پر آزمایا ۔ اس سے آپ کی ظاہری صحت پر تو اثر پڑا مگر وہ آپ کے دل کو کمزور نہ کرسکے۔ آپ کے ایک چھوٹے بھائی محترم مبارک احمد باجوہ صاحب کے اغواہوکر غائب ہونے اور پھر کچھ سال بعد شہادت کی خبر ملنے کے معاملہ پرجہاں سارے خاندان کو رنج اور دکھ ہوا وہاں آپ کو بھی اس صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ جب سے بھائی اغوا ہوا تھا بہت پریشان رہنے لگےتھے ۔ دعا ؤں کے ساتھ ان کی اولاد اور اہلیہ جو نسبتی ہمشیرہ بھی تھیں (خاکسار کی چھوٹی خالہ محترمہ شاہدہ بیگم صاحبہ)، کے لئے بہت فکر مند رہتے اور ان کی خبر گیری کرتے۔نیز بھائی کی بھی خبر لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کسی کے کہنے پرتاوان کی رقم ادا کرنے کے لئے بھی بارڈر پار تک کا سفر کرنا پڑا مگر حالات کے ستائے ہوئے ابوجان کو بے خبر ہی لوٹنا پڑا تب بھی ہمت نہ ہاری ۔یہاں تک کہ 2014ء میں پہلی بار جب جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کے لئے لندن آئے تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت اقدس میں بغرض ملاقات حاضر ہوئے ۔ دروازہ سے اندر داخل ہوتے ہی بھرے ہوئے لہجہ اور نم آنکھوں سے کہنے لگے کہ حضور!میں تو صرف اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ اپنے گم شدہ بھائی کی خبر لگنے کے لئے دعا کی درخواست پیش کرسکوں۔ خدا کی شان کہ اس وقت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی زبان مبارک سے جو الفاظ تحریک بن کر نکلے تو لازماً فرشتے اسی وقت تائید میں لگ گئے ہونگے۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ بیٹھیں تو سہی باجوہ صاحب، ان کا بھی پتہ لگ جائے گا۔ ان شاء اللہ۔

یہ واقعہ ہمارے تمام خاندان کے ازدیاد ایمان اور خلافت پر مزید یقین کامل کا باعث بنا۔

میرے ابوجان جب اس سفر سے واپس پاکستان پہنچے تو کچھ روز بعد پولیس والوں نے ان کو بلایا اور کہا کہ ضلع گجرات کی پولیس نے کچھ دہشت گرد، اغوا کار اور سہولت کار گرفتار کئے ہیں۔ تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ آپ کے بھائی کو بھی ان لوگوں نے اغوا کیا تھا۔یہ فوراً وہاں پہنچے اور گرفتار مجرموں میں سے ایک سہولت کار کو بھی پہچان گئے جو اسی گھر میں ایک نوکر کے طور پر پلا تھا ۔ جس نے ہمارے چچا کے اغوا ہونے کے بعد تیز دھار آلہ سے ان کا سر تن سے جدا کرکے نعش کے ٹکڑے کرکے نہر میں بہانے کی سفاک خبر سنا کر اعتراف جرم کرلیا۔ کئی سالوں سے لاپتہ آپ کے چھوٹے بھائی کی دنوں میں خبر لگ گئی۔اس تمام عرصہ کے دوران آپ پر جو بیتی وہ تو اپنی جگہ مگر اس ظلم کی خبر سن کر ان پر کیا گزری ہوگی یہ وہ جانتے ہونگے یا ان کاخدا جانتا ہے۔ مگر پھر بھی ا ٓپ معاملہ خدا کے سپرد کرتے ہوئے یہ بوجھ دل میں اٹھائے بڑے حوصلہ سے گھر لوٹے۔اور پھر یہ پتہ چلا کہ پولیس نے ان مجرموں کو ایک پولیس مقابلہ میں کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت ہمارے ان شہید چچا کا خطبہ جمعہ میں ذکر کرنے کے بعد نمازجنازہ غائب بھی پڑھائی۔ ایک شہید کی فیملی ہونے کے سبب اب ان کی اہلیہ اور ایک بیٹا کینیڈا شفٹ ہوچکے ہیں۔

ایسا وقت بھی آیا کہ خاندان پر جیسے مصیبتوں کا پہاڑ ہی ٹوٹ پڑا ہو مگر تب بھی میرے ابو جان اپنا پہاڑ جیسا سینہ لے کر اس دور کا مقابلہ کرتے رہے۔

ایک بھائی تو یوں جدا ہوا مگر خدا کو شاید ابھی کچھ اور بھی منظور تھا۔بڑے بھائی محترم رشید احمد باجوہ صاحب جو کچھ عرصہ انتہائی علیل رہ کر فوت ہوئے۔ان کا صدمہ بھی برداشت کیا۔اور جس دن بڑے بھائی کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ایک اور خبر بجلی بن کر ٹوٹ پڑی کہ آپ کےبڑے بھائی کے جنازہ کے دوران آپ کےچھوٹے بھائی محترم محمد احمد صاحب کو دل کا دورہ پڑا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔

ایک ہی دن میں دوبھائیوں کے جنازے کسی بھی باہمت کی کمر توڑ دیتے ہیں مگر میرے ابوجان نے اس کوخدا کی رضا سمجھتے ہوئے نہایت صبر اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا۔

بہرحال انسان تو انسان ہی ہےلہٰذااندر ہی اندر یہ سب غم آپ کوکھائے جاتے تھے۔ ان کی صحت دن بدن بگڑنے لگی تھی اور اب وہ خوداعتمادی اورحوصلہ کی بنا پر اپنی بیماریوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے۔ انہیں سال میں کئی مرتبہ طاہر ہارٹ ربوہ میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ خون میں پلیٹ لیٹس کی کمی کے باعث ہمیشہ نیا خون لگوانا پڑتا۔خون کا گروپ بھی نایاب تھا جو بڑی مشکل اور تگ و دو کے بعد ملتا۔ پھروفات سے قبل ان کے گردوں کی بھی صفائی ہونا شروع ہوگئی تھی جو اپنی جگہ ایک تکلیف دہ امر تھا مگر میرے ابوجان نے ان تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

سال 2020ء میں حالات ایسے تھے کہ عالمی وبائی مرض کرونا نے دنیا بھر کو بالکل جام کرکے رکھ دیا تھا۔سوائے ٹیلی کمیونیکیشن کے آمدورفت کے ذرائع بھی بند ہوکر رہ گئے تھے۔ان دنوں ابو جان کی بیماری کا سن کر ہم اور بھی ڈرے ہوئے تھے کہ ایک تو ایسی وبا کی وجہ سے ہسپتال بھی بند ہیں۔ سوائے دعا کے دواکا بھی کوئی چارہ نظر نہیں آتا تھا۔

ایسی بے بسی کی حالت میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے عرض کیا کہ ان کی بیماری میں اب ان کو ضرورت ہے کہ ہسپتال منتقل کیا جائے مگر حالات ایسے ہیں کہ ملکی لاک ڈاؤن کیوجہ سے کسی ہسپتال میں اس کی اجازت نہیں اور نہ کوئی ڈاکٹر میسر ہے۔

اس خط کے جواب میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ انہیں ربوہ لے جائیں۔حضور کی دعا سے نہ صرف وہاں ان کو چیک کیا گیا بلکہ فوری طبی امداد کے لئے داخل بھی کرلیا گیا۔

پھر یہ کہ اپنے ابوجان تک کیسے پہنچیں۔ کیسے ان کی اس حالت میں خدمت کریں۔مگر حضور کی دعائیں ساتھ تھیں اور کہتے ہیں ناں مارنے والے سے بچانے والا زیادہ بڑا ہے۔ مسلسل حضور انور کی خدمت اقدس میںبارباردعاکا لکھ رہے تھے۔ایک روز ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ہمیں اطلاع ملی کہ اسوقت معاملہ زیادہ سنجیدہ ہے۔ دعاؤں کے ساتھ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان پہنچنے کے لئے کوشش کرنے لگے کہ ایسی حالت میں ہمارے والدین کو ہماری زیادہ ضرورت ہے۔بے شک ان کی خدمت اور بیماری میںان کا خیال رکھنے کےلئے ہمارا ایک چچا زاد اور خالہ زاد بھائی اپنے بیوی بچوں سمیت ہمیشہ مستعد رہتے تھے مگر ہم بھی اب اس سعادت سے محروم نہیں رہنا چاہتے تھے کہ شایداب ہمارے ان کے پاس رہ کر خدمت کرنے سےہمارے ابو جان کی ہمت بڑھے اورصحت سنبھل جائے۔ اللہ کا صدہا شکر ہے کہ ایسی حالت میں ہم دونوں بہنیں ان کے پاس پہنچ گئیں۔ہماری والدہ بھی ضعیف العمر ہیں اور وہ ابو جان کی بیماری سے پہلے ہی بیمار رہنے لگی تھیں۔ میرے ابوجان نے اپنی بیماری بھول کر ہمیشہ ان کی صحت کا خیال رکھا تھا۔ باوجود اپنی بیماری کے ان کی دوائی اور تیمارداری میں زیادہ مصروف رہتے تھے۔

ہمارے پاکستان پہنچنے کے بعد واقعی ان کی طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی۔ مگر اب انہیںکمزوری اتنی ہوچکی تھی کہ بستر پر ہلنا جلنا اور بغیر سہارے کے چلنا پھرنا مشکل ہوگیا تھا۔ مگر اس حالت میں بھی ابوجان کو ہماری والدہ کی فکر زیادہ لاحق رہتی۔ ان کے لئے دعا کرتے ۔

ابوجان اپنی بیماری کے ایام میں بھی نماز، نوافل اور دعا نہیں بھولے تھے۔ ہم نے ہمیشہ دیکھا کہ صبح نوافل کے وقت اور نماز کے وقت عبادت میں مصروف ہوجاتے اور ہمیں دعائیں دیتے رہتے۔

ایک اور خوبی جو ان کی زندگی میں تو پتہ ہی تھی مگر وفات کے بعد بھی سامنے آئی کہ اپنے مالی معاملات ہمیشہ صاف رکھتے اور حساب کتاب پکا رکھتے تھے۔ وفات سے قبل انہوں نے اپنی وصیت اور متعلقہ چندے وغیرہ سب ادا کر دئیے ہوئے تھے ۔ان کی رسیدیں اور جو کوئی امانت تھی تو وہ علیحدہ لکھ کر الگ رکھی ہوئی تھیں۔ اپنی بیماری میں علاج کے لئے اور کسی بھی مشکل وقت کے آنے کی صورت میں استعمال کے لئے کچھ رقم اور ایک بلینک چیک لکھ کر رکھا ہوتا تھا کہ میری اولاد کو ایمرجنسی میں ضرورت پڑنے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔

وفات سے قبل جب ہماری واپسی کا سوچتے تو غمگین ہوجاتے تھے۔ یہ غم ان کے چہرے اور آنکھوں سے نظر آجاتا تھا۔ مگر خدا بھی اس پدرانہ محبت اور بیٹیوں کی خدمت کا باہمی تعلق اور جذبات دیکھ رہا تھا ۔اس نے ایسی تدبیر کردی کہ وبائی حالات کیوجہ سے ہماری واپسی کی فلائیٹ کینسل ہوگئی۔ طبعی طور پر کئی دنوں سےاپنے بچوں سے دوری کا سوچ کر ان کی بھی فکر ہوتی تھی۔اس لئے وقتی طور پر اس کی کچھ پریشانی بھی ہوئی مگر تسلی بھی ہوئی کہ ہمیں کچھ روز مزید ابوجان کی خدمت کا موقع مل گیا ہے۔ مگر جدائی توجدائی ہے، دونوں اطراف میں یہ ڈر تو ہر وقت لگا رہتا تھا کہ آخر کو تو جانا ہی ہے۔ ہمارایہ سوچ سوچ کر دل ڈوب جاتا تھا کہ ایسی حالت میں کیسے ان کو چھوڑ کر جائیں۔

مگر ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ عارضی جدائی اب ایک مستقل جدائی میں بدلنے والی تھی اور خدا کی تقدیر غالب آنے والی تھی۔

جس روز ہماری واپسی کی فلائیٹ تھی اس سے ایک دن قبل طاہر ہارٹ ربوہ میں میرے ابوجان کے گردوں کی صفائی ہونا تھی۔ میری بڑی بہن ان کے ساتھ چلی گئی کہ اپنی نگرانی میں یہ سب کام مکمل کروا کر جانے سے پہلے ایک دفعہ ڈاکٹرصاحب سے مل کر ساری معلومات بھی لے لیں۔ باپ بیٹیوں کے دل تو جدائی سے ڈرے ہی ہوئے تھے کہ کل جب واپسی کےسفر پر روانگی ہو گی تو کیسے ایک دوسرے کو الوداع کریں گے۔ دل اس لمحے کا سوچ کر بھی بند ہونے لگتا تھا۔

مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ خدا کی تقدیر کچھ اور کرنے جارہی تھی۔ہمارے ابو جان ہماری واپسی کے سفر سے پہلے ہی رخت سفر باندھنے والے تھے اور ایسے سفر پرروانہ ہونے جارہے تھے کہ جس پر الوداع ہونے کے بعد کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ ہاں وہی سفر جو ہمیشگی کا سفرہے۔

میرے موبائل فون پر آنے والی مس کالز اور پھر کال ملنے کے بعد قیامت خیز خبر نے ہلا کر رکھ دیا کہ میرے ابو میرے پیارے ابو جان اب اس دنیا میں نہیں رہے اور ہسپتال میں ہی ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ وہ ہم سے پہلے ہمیں الوداع کہہ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ رٰجعون

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

فلائیٹ کینسل ہونے کی وجہ اب سمجھ میں آنے لگی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو،پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ ہمارے ہی جسموں سے جان نکل گئی ہو۔مگراب راضی برضائے الٰہی رہتے ہوئے ان کی تجہیز وتکفین اور جنازہ و تدفین کے انتظام میں لگ گئے کہ جیسے ان کی روح اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گئی ہے اب یہ امانت بھی اس خدا کے سپرد کر دی جائے۔ یہ تمام انتطامات ربوہ میں ہی ہماری خالہ جان محترمہ طاہرہ بیگم کے گھر انجام پائے۔ اللہ تعالیٰ ان جملہ اعزّا و اقربانیز اہل محلہ کو اس گھڑی میں ساتھ دینےکی بہترین جزا سے نوازے۔ آمین

ان کے پاس پہنچنے سے پہلے عالمی وبائی حالات کی وجہ سے ان کی بیماری کے ایام میں جو خوف تھا وہ تو تھا ہی، یہ پریشانی بھی تھی کہ سفر کی بھی ممانعت ہے اور کسی قسم کا میل جول بھی منع ہے۔ اس لئےان کی لمبی عمر ، صحت کے لئے دعا کرتے اور حضور انور کی خدمت میں بھی دعاکےلیےتحریر کرتے تھے۔ یہ پریشانی رہتی تھی کہ اگر ایسا موقع آیا تو کیا ہوگا کیسے ہوگا،کئی خوف کئی اندیشے لاحق تھے۔ مگر میرے ابوجان کی دعاؤں نے جہاں اپنی زندگی میں ہمارے گرد حفاظتی دائرہ بنائے رکھا، دنیا سے جاتے ہوئے بھی وہ حصار ہمارے گرد چھوڑ گئے تھے۔ محض خدا کی دی ہوئی توفیق اور حضرت خلیفۃ المسیح کی دعاؤں کے طفیل ہم نے ابو جان کی زندگی کے آخری ایام میں حسب استطاعت خدمت کرلی ۔پھر تینوں بھائی بہنوںنےان کے جنازہ میں بھی شامل ہوکر اپنے ہاتھوںسےان کی آخری رسومات اداکیں۔

ایسے وبائی حالات اور گرمی کی شدت کے باوجود رشتہ دار اور احباب کی ایک کثیر تعداد ان کی بخشش کی دعا کے لئے جنازہ میں شامل ہوئی اور موصی ہونے کیوجہ سے ربوہ بہشتی مقبرہ میں ان کی تدفین ہوئی۔ اس کے بعد کئی روز تک تعزیت والوں کا تانتا بندھا رہا ۔تعزیتی پیغامات اور فون بھی آتے رہے۔جو سب میرے ابوجان کی اعلیٰ اوصاف اور خوبیوں کا تذکرہ کرتے تھے اور یہی سلسلہ یہاں جرمنی آکر بھی جاری رہا۔ اللہ تعالیٰ ان سب تعزیت کرنیوالوں کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین

میرے ابو جان، میرےپیارے ابوجان تھے ہی اتنے پیارے۔ اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی ہمیشہ ان پر پیار کی نظر ڈالتا رہے اور روحانی درجات بلند کرتا چلا جائے۔ آمین ثم آمین

(عتیقہ عزیز باجوہ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2021