• 10 مئی, 2025

’’سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے‘‘

کچھ خدا کے واسطے سوچو کہ کیوں بدحال ہو
کیا تماشا ہے کہ اپنے حال سے بے حال ہو
نعمتیں پا کر ہزاروں پھر بھی خستہ حال ہو
بس بدی اور ظلم کرنے میں ہی مالا مال ہو
وحشت و دہشت کی کچھ بگڑی ہوئی اشکال ہو
اب تو دنیا کے لیے عبرت کے خد و خال ہو
دشمنوں کی سازشوں پر کس قدر پامال ہو
یا تو سودائی ہو یا پھر عقل سے کنگال ہو
’’سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے‘‘

کس سبب سےزندگی بھر ٹھوکریں کھاتے رہے
کیوں فقط تم راستوں میں خواب دفناتے رہے
بعد کی نسلیں تمہاری مان لیں گی ایک دن
ایک مدت سے جسے تم لوگ جھٹلاتے رہے
کیوں بھلا دامن تمہارے خون سے رنگین ہیں
کیوں تمہارےگھرمیں سائے بھوت نچواتے رہے
کس ہزیمت سے پڑا پالا کہ شرمندہ رہے
کس کے کہنے پر مقدر تم سے شرماتے رہے
’’سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے‘‘

کون زخموں پر تمہارے درد سے لاچار ہے
کون سچ میں آج مسلم قوم کا غم خوار ہے
کس کے آنے سے خزاں جاتی رہی اسلام کی
کون ہے جو دینِ احمد کا سپہ سالار ہے
گالیاں سن کر دعا دینا ہے کس کا کام آج
کون اب توحید کا سچا علمبردار ہے
ایک مدت سے بلاتا ہے تمہیں اپنی طرف
کون ہے جو وقت کے مہدی کا دعویدار ہے
’’سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے‘‘

(مدثر احمد نقاؔش)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ