• 7 مئی, 2024

برکاتِ خلافت

خلافت اور خلیفہ کا کیا مطلب ہے؟

برکات خلافت گنوانے سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خلافت اور خلیفہ کا کیا مطلب ہے۔خلافت کسی پیشرو کی جانشینی کو کہتے ہیں اور خلیفہ بعد میں آنے والے یعنی جانشین کو کہتے ہیں ۔ اس سے مراد ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی دوسرے شخص کی نیابت میں یا اس کی عدم موجودگی میں یا اس کی وفات کے بعد اس کے کام کو اسی طرح سے اور اسی نہج پرآگے بڑھائے جس طرح وہ شخص چاہتا ہے یا اگر خود موجود ہوتا یا زندہ ہوتا تو آگے بڑھاتا۔ قرآن کریم، احادیثِ نبوی اور حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ خلافت کی مختلف صورتیں ہیں۔ اوّلین طور پر انبیاء علیہم السلام کو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ بنایا گیا۔ اس کے بعد بعض انبیاء بھی بعض کے خلیفہ بنے جس طرح حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے اور ایک حدیث کے مطابق بنی اسرائیل کے انبیاءؑ ایک دوسرے کے خلیفہ ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ غیر انبیاء بھی انبیاء کے خلفاء رہے ہیں جس طرح خلفائے راشدین آنحضرت ﷺ کے خلیفہ تھے۔ مسلمان صوفیاء میں بھی ان کی زندگی اور وفات کے بعد ان کے خلفاء کا تقرر کیا جاتا رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت ِ راشدہ کے بعد، جس میں ظاہری و روحانی دونوں خلافتیں جمع تھیں، آنحضرت ﷺ کی روحانی خلافت شروع ہوئی اور مجدّدین آنحضرت ﷺ کے روحانی خلیفہ بنے۔آخری زمانہ کیلئے مسیح ِ موعود اور امام مہدی ؑ کو آنحضرت ﷺ نے اپنا خلیفہ قرار دیا جو کہ اس امّت کے لئے خاتم الخلفاء ہیں۔ اب کوئی خلیفہ نہیں مگر وہی جو آپؑ میں سے ہے اور آپؑ کے عہد پرقائم ہے۔ آپؑ نے اپنے بعد ایک دائمی قدرتِ ثانیہ یعنی خلافت ِاحمدیہ کے قیام کی بشارت دی۔ چنانچہ یہ وہی خلافت ہے جو قیامّت تک رہنے والی ،مسلسل اور دائمی ہے۔ اگرچہ نبی اکرم ﷺ نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ خلافت راشدہ کے بعد کاٹ کھانے والی اور جوروجبر والی ملوکیت ہوگی لیکن بنوامیہ اور بنو عباس کے ادوار میں اور ان کے بعد بھی ظالم و جابر عیاش مسلمان حکمرانوں نے خود کے لئے خلیفہ کا لقب اختیار کرلیا اور اب غیراحمدیوں کے نزدیک بادشاہ اور خلیفہ ہم معنی الفاظ بن کر رہ گئے ہیں اور اب وہ مسلمان حکمرانوں کی سلطنت کے احیاء کو ہی احیائے خلافت سمجھتے ہیں۔

خلافت کے معنی سے آگاہی کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع یعنی برکاتِ خلافت کی طرف آتے ہیں اور خلافت کی بے پایاں برکات میں سے چند کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

خلافت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا اظہار ہے

آیت ِاستخلاف کے مطابق خلافت ایمان اور اعمال ِصالحہ کا انعام ہے۔ یعنی خلافت اپنی ذات میں ایک انعام ہے اور انعام اُسی کو دیا جاتا ہے جس سے کوئی راضی اور خوش ہو۔ چنانچہ خلافت اللہ تعالیٰ کی مؤمنین صالحین پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا اظہار ہے۔ اس سے بڑی کیا برکت ہوسکتی ہے کہ ہمارا خدا ہم سے راضی اور خوش ہو ،جس کی سب سے بڑی شہادت یہی ہے کہ ہم میں بفضلہٖ تعالیٰ و بحمدہٖ خلافت قائم ہے۔

خلافت الہٰی تعلق کے تسلسل کا نام ہے

ہم جانتے اور ایمان رکھتے ہیں کہ خلیفہ اللہ بناتا ہے۔ یہ امر نہایت بابرکت اور باعث ِمسرت ہے اور احمدیہ مسلم جماعت کی ایک امتیازی شان ہے کہ ہمارے درمیان ایک ایسا شخص نہ صرف موجود ہے، بلکہ مسلسل ہماری رہنمائی کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ اور تائید یافتہ ہے۔ غیروں کے ہاں ایسا کوئی ایک بھی شخص نہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اسے اما مت و خلافت کی یہ قمیض خدا نے پہنائی ہے۔اس حبل اللہ کے ذریعہ افراد جماعت اللہ سے ایک مضبوط تعلق قائم کرتے ہیں اوریہی الہیٰ تعلق دین کی روح، بنیادی اینٹ اور تمام برکات کا موجب ہے جس کے بغیر دین کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔

اتحاد

اسلام محض عبادات و رسومات کے مجموعہ کا نام نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کو وحدت کی ایک لڑی میں پرو کر ان میں اتحاد قائم کرنا اور انہیں ایک امّت بنانا اس کا بنیادی مقصد ہے۔ قرآن و سنّت اور احادیث کے ساتھ ساتھ علمائے سلف اس پر زور دیتے اور اس کے حصول کے لئے مسلمانوں کو وعظ و تلقین کرتے رہے ہیں۔ ان تصریحات سے یہ بات بھی واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ یہ مقصد ایک متحد جماعت اور اس کے واجب الاطاعت امام کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ خلافتِ احمدیہ کی دیگر بے شمار برکات میں سے ایک بڑی برکت یہ بھی ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی، علمی، قلبی اور ذہنی اتحاد قائم ہے جس کی واحد وجہ ہمارے درمیان ایک واجب الاطاعت خلیفہ کا موجود ہونا ہے۔ جماعت اپنی تبلیغی کاوشوں کے ذریعے لوگوں کے محض عقائد ہی تبدیل نہیں کرتی بلکہ بیعت سے پہلے ایک دوسرے سے اجنبی افراد کو بیعت کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد کردیتی ہے۔ یہ اتحاد کسی ایک خطے، علاقے یا ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں احمدیہ مسلم جماعت قائم ہے اور قائم ہورہی ہے وہاں وہاں افراد جماعت میں قدرتی اور فطری طور پر یہ اتحاد قائم ہوجاتا ہے۔

نظم

نظم یعنی تنظیم ایک واجب الاطاعت امام کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ بصورت دیگر ہر فرد اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کے مصداق جو چاہے کہتا رہے اور کرتا رہے۔ بے شک علمی سطح اور عقل و دانش مختلف ہونے کے باعث لوگوں کی آراء مختلف ہوسکتی ہیں اور نظامِ شوریٰ کے تحت وہ پیش بھی ہوتی ہیں لیکن آخری اور حتمی فیصلہ امام جماعتِ احمدیہ کا ہی ہوتا ہے جس کے سامنے ہر فرد سرِ تسلیم خم کرکے ایک منظم طریقے سے خدمتِ دین انجام دیتا ہے۔ یہ نظم بھی خلافت کی ہی ایک برکت ہے۔

اخوّت

اخوّت کے کئی درجے ہوتے ہیں۔ انسانی بنیادوں پر جہاں تمام اولادِ آدم یعنی ہر انسان کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا؛ افراد ا،قوام و قبائل کو ایک دوسرے کا بھائی کہا گیا یہاں تک کہ انبیاؑء کو ان کی منکر و مخالف اقوام کا جن میں وہ مبعوث کئے گئے تھے، بھائی کہا گیا، ایک خاندان اور ایک ہی صُلب سے پیدا ہونے والے افراد کو ایک دوسرے کا بھائی مانا گیا، وہاں تمام مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کا بھائی کہا گیا ہے اور اسی بناء پر ایک دوسرے کا مال جان اور عزت کو حرام کہا گیا ہے۔ بدقسمتی سے غیراحمدیوں میں نظام ِخلافت نہ ہونے کے باعث جہاں اُن میں اتحاد اور نظم مفقود ہے وہاں اخوّت بھی صرف ایک زبانی کلامی بات رہ گئی ہے۔ آئے دن غیراحمدی ایک دوسرے کے مال جان اور آبرو کو شیرِمادر سمجھ کر لوٹتے اور ہڑپ کرتے ہیں۔ بفضلہٖ تعالیٰ احمدیہ مسلم جماعت خلافت کی برکت سے اخوّت کی اس حسین لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔ اس عالمگیر اخوّت کا اظہار نہ صرف ہر ملک میں منعقد ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ میں بلکہ جلسہ سالانہ یوکے میں بڑی شان سے نظر آتا ہے جس میں ہر قوم رنگ نسل اور زبان کے افراد بشاشت بھرے چہروں اور محبت بھرے جذبات کے ساتھ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔

خوف کی امن سے تبدیلی

خلافت کی برکات میں ایک اہم برکت یہ ہے کہ اس کے افراد من حیث الجماعت امن میں زندگی گزارتے ہیں اور جب کبھی بھی خوف کے سائے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں یا کوئی عاقبت نااندیش حکمران احمدیہ مسلم جماعت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خلافت کی برکات سے اس کی خوف کو حالت کو جلد ہی امن مین بدل دیتا ہے۔ پاکستان کے حالات کے ساتھ ساتھ 9/11 کے بعد کے حالات و واقعات بھی اس بات کی قوی شہادت دیتے ہیں کہ جہاں دنیا بھر میں عمومًا اور مغربی ممالک میں خصوصًا غیراحمدیوں کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جانے لگا اور انہیں دہشتگرد قرار دیا جانے لگا وہاں احمدی مسلمان خلافت کے حصار میں ہونے کے باعث امن و عافیت میں رہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جیسا کہ اس کا وعدہ ہے کہ خلافت کا سایہ تا قیامت قائم رہے گا، ہمیں ایسے صاحبِ ایمان اور اعمالِ صالحہ کرنے والا بنائے رکھے جو اس انعام کے ہمیشہ مستحق اور مورد رہیں۔ آمین!

(انصر رضا۔ واقفِ زندگی، نمائندہ الفضل آن لائن برائے کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ