• 26 اپریل, 2024

دبستانِ حیات (قسط ششم)

دبستانِ حیات
قسط ششم

مسجد احمدیہ میانوالی

سردی کےایّام تھے۔مَیں مسجد کے صحن میں اداس سا بیٹھا ہوا تھا۔اچانک باہر کا دروازہ کھلا اور ایک بڑی عمر کا شخص اندر داخل ہوا۔اس شخص نے میانوالی کا روایتی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ یعنی پگڑی وغیرہ باندھی ہوئی تھی۔صحن میں آکر اسنے سلام کہا۔ میں نےانہیں خوش آمدید کہا اور بیٹھنے کے لئے کرسی پیش کی۔لیکن وہ بیٹھا نہیں، مجھے کہنے لگا آپ جماعتِ احمدیہ کے مربّی ہیں؟ میں نےاثبات میں سرہلایا۔اسپر کہنے لگے آپ لوگ بہت جھوٹ بولتے ہیں۔میں اس شخص کے اندازِ کلام پر بڑامتعجب اور حیران ہوا۔میں نے عرض کی،آپ بیٹھیں،بات کرتے ہیں۔ لیکن صاحب کھڑے رہے۔میں نےعرض کی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟کہنے لگے۔ آپ کے اخبارات و جرائد ان مضامین سے بھرے پڑے ہوتے ہیں کہ ہم نے افریقہ کے فلاں ملک میں مسجد بنا دی،فلاں شہر میں مسجد بنادی ہے۔جبکہ میانوالی میں آپ کی مسجد کا یہ حال ہے۔اس کے بعد باوجود میری،میرے پاس بیٹھنے کی استدعا کے وہ اجنبی دوست تشریف لے گئے۔اور میرے دل ودماغ کے لئےایک سوال چھوڑ گئے۔

تعمیرِمسجد کا پروگرام

اسی روزمکرم صدرصاحب مسجد میں تشریف لائے۔میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ ہمیں ایک نئی مسجد بنانی چاہیے۔کہنے لگے۔ہماری قسمت میں مسجد کہاں۔پہلی بات تو ہماری مالی حالت ہی ایسی ہے۔ ہم صرف چند مزدور پیشہ دوست ہیں۔جو بمشکل اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔دوسرے شہر میں سخت مخالفت بھی ہے۔لوگ بڑے متعصب اور اجڈ ہیں۔

میں نے عرض کی۔ اگر ان دو کمروں میں جو آگے پیچھے ہیں۔ ان کی درمیان سے دروازہ اور دونوں کھڑکیاں نکال دیں تو پھر ایک چھوٹا سا ہال نما کمرہ بن جائےگا جس میں ہم نمازیں ادا کرلیا کریں گے۔اور اس پرزیادہ خرچ بھی نہیں آئےگا۔صدر صاحب راضی ہوگئے۔نمازِ عشاء کے بعد جب نمازی اپنے گھروں کو چلے گئے۔ میں نے ایک ہتھوڑا لیا اور اس کی مدد سے دونوں کمروں کے درمیان دروازہ اور دونوں کھڑکیاں نکالنی شروع کردیں۔ کافی تگ ودو کے بعد میں نے یہ کام مکمل کرلیا۔ صبح کی نماز پر دوست تشریف لائے۔ وہ مسجد کی صورت حال دیکھ کر سخت پریشان ہوگئے۔ بہر حال اب واپسی کا کوئی رستہ نہ تھا۔ مسجد میں صفائی کے لئے خدّام کو وقارِعمل کے لئے بلایا گیا۔ الحمد للہ صفائی ہوگئی اور جگہ نماز کے قابل ہوگئی۔

تکمیلِ مسجد کے معجزانہ اسباب

اب ہم نے سوچا اگر پوری دیوار کو ہی نکال دیں تو پھر یہ ایک باقاعدہ ہال بن سکتا ہے۔چند دن اسی کشمکش میں گزر گئے۔ایک دن مکرم صدر صاحب میرے پاس مسجد میں تشریف لائے۔ اتفاق سے ایک احمدی بھائی مکرم عبدالحمید صاحب انہی دنوں کسی اور شہر سے میانوالی میں بطور ایکسیئن ٹرانسفر ہو کر آئے تھے۔مسجد میں آگئے۔کہنے لگے ادھر آیا ہوا تھا سوچا آپ کو سلام کرلوں۔میں نے انہیں مسجد دکھائی اور عرض کی اگرہم چند ہزارروپے خرچ کرکےاس میں بیم ڈال دیں تو یہ ایک مناسب ہال بن جائے گا۔کہنے لگے یہ کام چند ہزارکا نہیں ہے۔یہ تو کم ازکم دس ہزارکا نسخہ ہے۔میں ان کی یہ بات سن کر قدرے پریشان ہوگیا۔اس پر کہنے لگے ۔آپ فکرنہ کریں آپ یہ پانچ ہزارمجھ سے ابھی لے لیں۔اور یہ کارِخیر شروع کردیں۔نیز کہنے لگے۔آپ اس مسجد پربیم ڈلوائیں،دیواروں کی چھلائی کرکے سارے نئے پلستر کریں فرش اکھاڑ کر بہترین چپس ڈالیں ،مسجد کے صحن کو اکھاڑ کر نئے فرش بنائیں،مسجد میں پانی کے لئے ایک موٹر لگوائیں۔انشاء اللہ اس کے سارے اخراجات میں ادا کروں گا۔مربّی ہاؤس کے لئے آپ لوگ جیسے ممکن ہے انتظام کرلیں۔مسجد کا سارا کام میں اکیلے ہی کروں گا۔ہم اللہ تعالی کی تائید ونصرت کے واقعہ پر حیران وششدررہ گئے۔پھر بفضل تعالی چند مہینوں میں ایک بہت ہی خوبصورت مسجد بن گئی۔الحمدللہ

اس کے بعد خدّام وانصار کی انتھک محنت اور قربانی اور مرکز کے تعاون سےایک خوبصورت سا مربّی ہاؤس بھی بن گیا۔الحمدللہ

اس معجزانہ کرشمہ میں سب خدّام اور انصار نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق دل کھول کرمالی قربانی دی۔مکرّم منیرالرحمان صاحب مرحوم و مغفور اور مکرم عبدالمؤمن محمود صاحب کے موٹرسائیکل بہت بڑی نعمت تھے۔جن پرسوارہوکرہم لوگ ضلع بھرمیں دورے کرتے رہے۔اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر عطافرمائے۔

مشکل میں ایک غیبی امداد

جن دنوں میانوالی میں مسجد زیرِتعمیرتھی۔شہر میں چند شرپسند مولویوں نے جماعت کے خلاف جلوس نکالنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ایک دن جمعہ کے روزایک مولوی نے ریلوے سٹیشن کے قریب مسجد میں بڑی دھواں دار تقریر کی اور لوگوں کو جماعت کے خلاف بہت اکسایا۔سامعین میں سے ایک آدمی کھڑا ہو گیا۔اس نے مولوی کو مخاطب ہو کر کہا۔تم کونسا اسلام پیش کررہے ہو۔تم ہمیں کوئی پیار محبت کی بات بتاؤ ۔تم توصرف نفرت اورتعصب اور ظلم وستم کا درس دے رہے ہو۔اس نامعلوم دلیراوربہادر آدمی نےمولوی سمیت سب کوٹھنڈا کردیا اور سب لوگ مسجد سےاٹھ کراپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔اس طرح معجزانہ طور پر اللہ تعالی نے جماعت کی حفاظت فرمائی۔

ایک نوجوان کا وقارِعمل

میانوالی میں مسجد زیرِ تعمیر تھی۔ ایک روز مسجد میں وقارِ عمل کے لئے اعلان کیا گیا۔ مقررہ دن پرکافی احباب تشریف لائے۔ان میں اکثر سرکاری ملازمین تھے۔ان میں سے ایک خاصی تعداد سرکاری افسران کی تھی۔ اگلے روز ایک نوجوان جو کہ ائر فورس میں فلائیٹ لیفٹیننٹ تھے۔ اور میانوالی بیس میں متعین تھے۔ خاکسار کے پاس آئے اور کہنے لگے ،کل کسی مصروفیت کی بنا پر میں نہیں آسکا اس لئے معذرت خواہ ہوں۔ آج میں فارغ ہوں اس لئے اب حاضر ہوگیا ہوں ۔مجھے کوئی کام بتائیں کہ میں کیا کام کرسکتا ہوں۔ انہیں بتایا کہ ہم نے توراستہ سے اینٹیں اٹھائی تھیں۔ اس طرح وہ کافی دیرتک اینٹیں گلی سے اٹھاتے رہے جو رستہ بلاک کررہی تھیں۔آج تک میرے دل ودماغ میں اس نوجوان آفیسر کیلئےجماعت کےساتھ اخلاص ومحبت اور اطاعت کے گہرے نقوش ثبت ہیں۔

کسی کو خدا نہیں بنانا چاہیے

مسجد کی تعمیر کا بیڑہ تو مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب ایکسیئن ضلع میانوالی نےاپنےذمّہ اٹھا لیا۔اب مربّی ہاؤس کے تعمیراتی اخراجات کا انتظام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔پروگرام ترتیب دیا گیا۔احبابِ جماعت سے چندہ کی اپیل کی جائے۔انتظامیہ نے بعض مخیّرحضرات کی فہرست تیار کی۔جن سے رابطہ کیا گیا۔سب دوستوں نے حسبِ استطاعت اس کارِخیرمیں حصہ لیا۔ایک دوست اس علاقہ میں ایک معروف ٹھیکیدار تھے۔ان کےبارےمیں علم ہوا۔دوستوں کوامید تھی کہ یہ صاحب مالی وسعت رکھتے ہیں۔ان سے پانچ ہزارروپے تو مل ہی جائیں گے۔ان سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے پچاس روپے دینے کا وعدہ کیا۔ہمیں اس سے سخت مایوسی ہوئی۔اس روز شام کوائر بیس ایک احمدی ونگ کمانڈر صاحب کےگھر کسی کام کے لئے جاناہوا۔ابھی میں گھر میں داخل ہی ہواہی تھا۔مجھےدیکھ کرکہنے لگے،مربّی صاحب مبارک ہو۔سرگودھا سےایک ڈاکٹرصاحب نے پانچ ہزارروپے ہماری مسجد کے لئے بھیج دئے ہیں۔اتفاق سےان تینوں کرداروں کا ایک ہی نام تھا۔

عَسَی اَنْ تَکْرَھُوْاشَیْئًافَھُوَخَیْرُلَّکُمْ

اب ضیائی دور کے تاریک کارناموں کا ذکر ہوجائے۔ جب ضیاءالحق نے جماعتِ احمدیہ کو کینسر قرار دے کراسے مٹانے کی ہرممکنہ کوشش کی۔لیکن سنّتِ الہی کے مطابق اللہ تعالی کےعذاب کا مورد بن گیا۔

اس دور میں ائرفورس میں احمدی ملازمین کو ایک سائڈ پر کرنےکی خاطرانہیں غیراہم مراکز میں تعیّنات کردیا گیا۔ اتفاق سے ان کی نگاہ میانوالی بیس پرپڑی۔ جس کے نتیجہ میں بہت سارے احمدی ملازمین میانوالی پہنچ گئے۔ اس دور میں میانوالی میں مقامی جماعت کے صرف چند گھرانے تھے، لیکن ان ملازمین کی آمد سے ہماری جماعت خاصی بڑی ہوگئی۔ جمعہ کے روز مسجد بھر جاتی۔ ان میں بڑے بڑے افسران اور دیگر شعبہ جات سے سب ہی مخلصانہ طور پر جماعت سے وابستہ تھے۔ ان سب نے مسجد کی تعمیر میں ہر قسم کا تعاون کیا۔ فَجَزَاھُمُ اللہ اَحْسَنَ الْجَزَاء

الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام
نُصِرْتُ بِالرُّعْب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالی نے الہامًا وعدہ فرما رکھا ہے۔ دشمن پرآپ اور آپ کے ماننے والوں کا رعب رہے گا۔جو ہم اپنی روزمرّہ زندگیوں میں باوجود اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے مشاہدہ کرتے ہیں۔

خاکسار کو پاکستان میں ایک لمبا عرصہ بطورِ مربّئ سلسلہ خدمت کی توفیق ملی۔اس دوران میں نے ہمیشہ یہ دستور اختیار کر رکھا تھا کہ جہاں بھی کسی اجنبی سےکہیں بھی ملاقات ہوتی۔تو سب سے پہلے میں اسے یہ بتا دیتا تھا کہ میں جماعتِ احمدیہ کا مربّی ہوں۔ عجیب اتفاق کی بات ہے، کہ حضرت مسیحِ موعود کے الہام اور خدائی وعدہ کی برکت سے کبھی بھی کسی نے بد تمیزی نہیں کی ،بلکہ ہمیشہ ہی احترام کیا۔یہی طریق میں نے میانوالی میں بھی اختیار کیاجس کی وجہ سے ہر کسی نے اپنوں اورغیروں نےاحترام کی نگاہ سے دیکھا۔الحمدللہ

جماعتِ اسلامی کے ممبرز سے ملاقات

میانوالی میں ایک بہت ہی شریف النفس پروفیسر تھے۔جن کا نام منوّر علی صاحب تھا۔ مقامی کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ شعروشاعری سے بھی شغف تھا۔ شہر میں ایک ادبی تنظیم کے سرگرم کارکن بھی تھے۔ ایک دفعہ ان سے ملاقات ہوئی ،انہیں بتایا کہ میں یہاں جماعت کا مربّی ہوں۔بڑے تپاک سے ملے۔ میں نے ان سے درخواست کی اگر ممکن ہو تو مجھے انگریزی کے اسباق دے دیا کریں، جو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔یہ دراصل ملاقات کا ایک بہانہ تھا۔ میں کئی دفعہ ان کے دولتخانہ پر حاضر ہوتا۔ ہمیشہ ہی احترام سے پیش آتے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک روز میں کسی کام کے سلسلہ میں انہیں ملنے کے لئےکالج گیا۔ اس تعلیمی ادارہ میں جانے کا یہ پہلا موقع تھا۔ کالج کی عمارت میں پہنچا وہاں اس وقت بریک ٹائم تھا۔ اس لئے ہر طرف طلبہ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میں نے ایک طالبعلم سے پوچھا کہ میں نے پروفیسر ڈاکٹر منوّر علی صاحب سے ملنا ہے۔اس نے مجھے پوچھا کہ آپ کون ہیں ۔میں نے جواب میں بتایا کہ میرا نام منوّر احمد ہے اور میں جماعتِ احمدیہ کا میانوالی میں مربّی ہوں۔ اس پر اس نے دور کھڑے ایک نوجوان کو آوازدی، ادھر آؤ، دیکھو یہ جماعت احمدیہ میانوالی کا ناظم ہے۔ میں بڑے اعتماد سے ادھر کھڑا رہا۔ اتنے میں پانچ چھ اور طالبعلم بھی ادھر آگئے۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ ہم جماعتِ اسلامی کی تنظیم کے ممبرز ہیں۔میں نے کہا مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ میری رہائش شہر میں ہے۔ آپ اگر میرے پاس تشریف لائیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی۔ تھوڑی دیر بات چیت ہوئی۔ بہرحال انہوں نے میرا بڑا احترام کیا۔ بلکہ ان میں سے ایک نوجوان کئی دفعہ مسجد میں مجھے ملنے بھی آتا رہا۔ وہ بی اے کا طالب علم تھا۔ میں نے اسکی عربی کورس کے سلسلہ میں ممکنہ معاونت اور رہنمائی بھی کی۔

دلچسپ تبلیغی واقعہ

ایک دن میں گجرات سے میانوالی بس پر جارہا تھا۔منڈی بہاؤالدین سے ایک دوست بس میں سوار ہوئے اور میرے ساتھ والی سیٹ پر تشریف فرما ہوگئے۔علیک سلیک ہوئی۔میرے پاس بخاری شریف تھی۔سوچا تھا ،سفر اچھا گزرجائے گا۔ جونہی سفر شروع ہوا۔ دوست کہنے لگے بھائی صاحب یہ کونسی کتاب ہے۔میں نے عرض کی یہ حدیث کی کتاب ہے۔انہوں نے چند ایک سوالات حدیث کے بارے میں پوچھے جن کے جوابات حسبِ علم دے دئے پھر کہنے لگے کہاں جانا ہے میں نے بتایا کہ میانوالی کا ارادہ ہے۔ کہنے لگے کیا کام کرتے ہیں میں نے بتایا کہ جماعتِ احمدیہ کا مربّی ہوں۔ کہنے لگے یہ احمدی کیا ہوتا ہے۔ میں نے حسبِ علم جوابات دینے شروع کردئے۔پڑھے لکھے دوست تھے۔ انہوں نے کافی سوالات پوچھے جن کے میں نےجوابات دئے۔سرگودھا سے کچھ قبل چکیاں موڑ کا سٹاپ آتا ہے۔میں نے عرض کی میں نے اب یہاں سے دوسری بس لینی ہے۔ان کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نےمیرا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد کہنے لگے الحمدللہ سفر اچھا گزر گیا ہے۔ میں دو گھنٹے تک اپنے گھر ربوہ پہنچ جاؤں گا۔ دراصل وہ احمدی دوست تھے، منڈی بہاؤالدین کے علاقہ میں کسی ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ لیکن کیا زمانہ تھا، شرافت زندہ تھی۔ برداشت اور رواداری کسی حد تک معاشرہ میں تھی۔ ہم لوگ اونچی آواز میں بات چیت کرتے رہے، کسی نے نہ برا منایا، بلکہ دیگر مسافر بھی سنتے رہے۔

عیسیٰ خیلْ

میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل ہے۔ یہ شہر بہت ساری بنیاد ضروریات حیات سے محروم ہے۔ ہمارے ایک احمدی دوست عیسیٰ خیل کالج میں بطور لیکچرارخدمات بجا لارہے تھے۔ ایک دفعہ میں انہیں ملنے وہاں گیا۔ان کا قیام کالج کے ہاسٹل میں تھا۔ان سے ملاقات ہوئی۔ان کے روم میٹ ایک شریف النفس غیراز جماعت دوست تھے۔میں نے احمدی دوست سے عرض کی کیا ہمیں اس ماحول میں تبلیغ کرنی چاہیے۔کہنے لگے دل کھول کر تبلیغ کریں۔مجھے کوئی فکر نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ اربابِ اختیارمیرا تبادلہ کہیں اورکرسکتے ہیں۔اور یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا کیونکہ پنجاب بھر میں اس سےزیادہ کوئی مشکل مقام نہیں ہے۔غیرازجماعت دوست کہنے لگے۔اس شہر کا نام اصل میں عیسیٰ جیل تھا جو غلطی سے عیسیٰ خیل بن گیا ہے۔یعنی یہ شہر ہر قسم کی بنیادی سہولیات زندگی سے محروم ہے۔

کیا ہمیں معذور کیا جارہاہے

جب ہم لوگ عیسیٰ خیل جارہے تھے۔رستہ میں ہم نے دیکھا کہ ایک پہاڑی کے دامن میں کافی لوگ مجمع لگائے بیٹھے ہیں اور خواتین دوسری جانب ڈیرہ لگائے بیٹھی ہیں۔ڈھول بج رہے ہیں۔چند نوجوان محوِ رقص ہیں۔ایک جانب بڑی بڑی دیگیں پک رہی ہیں۔سوچا کہ کوئی تقریب ہے۔لیکن اگلے روز جب ہم واپس آرہے تھے۔تو پھر وہی صورت حال تھی۔استعجابًا ایک دوست سے استفسار کیا کہ بھئی یہاں کیا ہو رہا ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ افغان مہاجرین ہیں۔ یہ ان کا روز مرّہ کا معمول ہے۔ کیونکہ گورنمنٹ ان کے نان ونفقہ کی ذمہ دار ہے اور یہ لوگ سالہا سال سے ایسے ہی مزے کررہے ہیں۔یہیں ان کی نسلیں پیدا ہوکرجوانی کی دہلیز پر آپہنچی ہیں۔

کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل انڈیا میں کچھ شیروں کو بعض نامساعد حالات کی وجہ سے چڑیا گھروں سے نکال کر جنگل میں چھوڑ دیا گیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ان شیروں کو دیگر جنگلی جانورکھا گئے ہیں کیونکہ حالتِ قید میں بغیرمحنت و مشقت وافر کھانا ملنے کی وجہ سے وہ شکار کرنا بھول گئے تھے۔ ان کی بہادری اور شکار کرنے کی صلاحیت معدوم ہو گئی۔جس کی وجہ سےوہ خود اپنے سے کمزور جانوروں کاشکاربن کر لقمہ اجل بن گئے۔

کالا باغ

۸۲ ۱۹ میں خاکسار کالا باغ جایا کرتا تھا۔ان دنوں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا میڈیا پربڑاچرچا تھا۔ مختلف ٹیمیں اپنے اپنے مفوّضہ کام سرانجام دے رہی تھیں۔ایک احمدی انجینئربھی کالاباغ میں ڈیم سے متعلقہ کسی ٹیم کے ممبر تھے ۔کبھی کبھا رخاکسار انہیں ملنے جایا کرتا تھا۔ ۱۹۸۳ میں میں بیرونِ ملک چلا گیا۔لیکن سننے میں یہی آتا ہے کہ ابھی تک کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا پروگرام زیرِ غور ہے۔

انسان جانور کے خادم

ربوہ کے ایک نوجوان وٹرنری ڈاکٹر صاحب ایک دفعہ میرے پاس میانوالی تشریف لائے۔انہوں نے بتایا کہ وہ امیر محمد خان نواب آف کالا باغ کے فرزندان کے ملازم ہیں۔داؤد خیل سے راولپنڈی روٹ پر کئی کلو میٹر پہاڑی وادی ان کی ملکیت ہے؛جہاں ان کے جانوروں کی طبی دیکھ بھال کرتا ہوں۔پہاڑیوں کے درمیان جانوروں کامختصر سا اسپتال ہے۔جہاں وہ چنددیگر کارکنان کے ساتھ ایک کوارٹر میں رہتے ہیں۔انہوں نے مجھے وہاں آنے کی دعوت دی۔ایک روز میں قریبی سٹیشن پر اتر ا اورپھر کافی دور چل کران کے ہاں پہنچ گیا۔وہاں جا کر معلوم ہواکہ یہاں میل ہا میل تک کوئی انسانی آبادی نہیں ہے۔صرف جانور ہیں جن کی دیکھ بھال پر یہ لوگ مامور ہیں۔بسااوقات توایک گدھے،بھیڑ،بکری کی تیمارداری کے لئے دوردراز پیدل جاکر انہیں طبّی سہولت فراہم کرنی پڑتی ہے۔ایک بات بڑی دلچسپ یہ تھی کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاںآبی ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے۔جس کی وجہ سے یہاں کے جانور کافی عرصہ پانی کے بغیر بھی گزارہ کرسکتے ہیں۔اللہ تعالی نےان کو ایسا نظام ودیعت کیا ہواہےکہ وہ سبز گھاس وغیرہ میں جو پانی کی مقدارہوتی ہے۔اسی پر ہی اکتفا کرسکتے ہیں۔ڈا کٹر صاحب بڑے ہی مہربان دوست تھے۔

بزرگ سب کے سانجھے ہوتے ہیں

جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا وصال ہوا۔اس زمانہ میں ٹیلیفون کی سہولت عام نہ تھی۔ ایک دوست جو ائرفورس میں تھے انہیں کسی طرح یہ افسوس ناک خبر ملی اور انہوں مجھے آکر بتایا کہ حضور کا اسلام آباد میں انتقال ہوگیا ہے۔میں نے سوچا پہلےاس کی تصدیق کرلینی چاہیے۔ کہیں یہ کسی دشمن نےنہ اڑائی ہو۔رات کا وقت تھا۔اسی وقت ٹیلیفون ایکسچینج گیا ۔ اسلام آباد مشن ہاؤس میں فون کیا ،وہاں پر مکرم عبدالرشید یحیٰ صاحب مربّئِ سلسلہ اسلام آبادسے بات ہوئی۔انہوں نے اس اندوہناک سانحہ کی تصدیق کردی۔ میں نے آپریٹر صاحب سے بل کے لئے درخواست کی۔تو اس شخص نے عجیب جواب دیا ۔ کہنے لگا، جی کوئی بل نہیں۔ بزرگ سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔یہ واقعہ بھی اس دور کی عکاسی کرتا ہے۔جب شرافت زندہ تھی۔

اطمینانِ قلب کی تلا ش میں

میانوالی ضلع میں ایک قصبہ جس کا نام اب مجھے یاد نہیں ہے۔وہاں پر ایک احمدی ڈاکٹر صاحب سرکاری اسپتال میں متعین تھے۔ان کے پاس مقامی آبادی میں سے ایک مریضہ آیا کرتی تھی۔جنہیں ڈاکٹر صاحب نے بڑی حکمت سے دعوتِ حق دینی شروع کردی۔اس نیک دل خاتون کو ڈاکٹر صاحب کی باتیں اچھی لگنی شروع ہو گئیں۔آہستہ آہستہ وہ دینِ حق کی طرف مائل ہوگئیں اورکچھ عرصہ کے بعد اس نے بیعت کرلی۔ اس خاتون کے علاقہ میں دور دور تک کوئی احمدی نہ تھا۔اس کے میاں اس علاقہ کے ایک معروف زمیندار تھے۔

ایک دفعہ مکرم مومن صاحب جو ائر فورس میں ایک مخلص آفیسر تھے۔ایک سرکاری جیپ لے کر آئے۔ہم پانچ چھ خدّام ان کے ڈیرے پر پہنچے۔انہوں نے ہمیں بڑے پرتپاک انداز میں خوش آمدید کہا۔بعد ازاں میں جلد افریقہ آگیا۔اس کے بعد کے حالات سے خبر نہیں۔

کالا باغ ڈیم

1982ء میں خاکسار کالا باغ جایا کرتا تھا۔ان دنوں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا میڈیا پر بڑا چرچا تھا۔مختلف ٹیمیں اپنے اپنے مفوضہ کام سرانجام دے رہی تھیں۔ایک احمدی انجینئر بھی کالاباغ میں ڈیم سے متعلقہ کسی ٹیم کے ممبر تھے ۔کبھی کبھار خاکسار انہیں ملنے جایا کرتا تھا۔ 1983ء میں میں بیرون ملک چلا گیا۔لیکن سننے میں یہی آتا ہے کہ ابھی تک کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا پروگرام زیر غور ہے۔

ایک سبق آموز حکایت
جہاں پھول وہاں کانٹا

کہتے ہیں :ایک بڑھیا کا ایک ہی بیٹا تھا۔جسے وہ دوسری ماؤں کی طرح اپنے بیٹے سے بہت زیادہ پیار کرتی تھی۔ اتفاق سے بچہ بیمار ہوا اور کچھ عرصہ کی علالت کے بعد ماں کو داغِ ہجرت دے کر ابدی نیند سو گیا۔اس دلخراش حادثہ نے ماں کو ہلا کر رکھ دیا۔اس کی دنیا لُٹ گئی۔وہ حواس باختہ ہو کراپنے مرحوم بیٹے کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہو گئی۔ہر کسی کے پاس مدد کی درخواست کرتی کہ کسی طرح اس کا کھویا ہوا بیٹا اسے واپس مل جائے۔کسی نے اسے بتایا کہ فلاں مقام پر ایک بزرگ اور خدا رسیدہ بزرگ ہیں۔ ممکن ہے وہ تمہاری مدد کرسکیں۔ بڑھیا ان کے درِدولت پر پہنچی، اپنی آہ و فغاں اور درد بھری بِپتا سنائی اوردادرسی کی درخواست کی۔

بزرگ نے بڑی ہمدردی کے ساتھ اس دل شکستہ بڑھیا کی داستان سنی ،اس سے اظہارِ ہمدردی کیا اوردلجوئی کی خاطر اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیااور بڑھیا سے کہا تم کسی ایسے گھر سے چند گھونٹ پانی لے آؤ جن کے گھر میں کوئی فوت نہ ہوا ہو تو میں اس کے ذریعہ تمہاری مدد کرسکتا ہوں اس پر وہ بڑھیا خوشی خوشی ایک قریبی گھر میں گئی اور پوچھا کیا آپ کے گھر میں کوئی فوت ہوا ہے۔انہوں نے بڑے دکھ سے اپنے کئی پیاروں کی جدائی کا قصہ سنا ڈالا۔اس کے بعد بڑھیا اگلے گھر پہنچی اس نے اپنا سوال دوہرایا اسے وہاں سے بھی وہی جواب ملا اس طرح بڑھیا بہت سے گھروں میں پہنچی ہر جگہ سے اسے سوائے مایوسی اور ناامید ی ہوئی۔اس پراسےاحساس ہوا اور سمجھ گئی کہ موت وحیات کا سلسلہ اٹل ہے اس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔اس کاواحد علاج صبر ہے۔اسی طرح ہر آدمی کی زندگی میں مختلف قسم کے امتحان اور مشکلات ہوتی ہیں، لیکن ہر ایک کی کیفیت اور حیثیت مختلف ہوتی ہے۔

ایک دن ہم چند دوست میانوالی میں ایک بہت بڑے سرکاری آفیسر کے گھر کسی کام کی غرض سے گئے۔ان کا عالیشان بنگلہ،نوکر چاکر اور دنیاوی جاہ وجلال واقعی متأثر کن اور ان کی خوش وخرم زندگی کی غمّازی کر رہے تھے۔ملاقات کے بعد جب ہم لوگ گھر سے باہر نکل رہے تھے ہمیں ایک جانب سےعجیب وغریب چیخ و پکار کی آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ہم نے ایک ملازم سے پوچھا یہ کیسی آوازیں ہیں۔اس پر اس نے بتایا صاحب خانہ کا ایک نوجوان بیٹا مخبوط الحواس ہے۔جسے ایک پنجرہ نما کمرے میں بند کررکھا ہے۔کیونکہ وہ مارپیٹ بھی کرتا ہے۔ہمیں یہ نظارہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ۔بظاہر دیکھنے میں موصوف کی زندگی بڑی ٹھاٹھ باٹھ کی تھی۔ دیکھنے والے اسے بڑا ہی خوش وخرم زندگی بسر کرنے والوں میں گردانتے ہونگے لیکن حقیقت میں اس کی بے بسی، بے کسی اور قلبی دکھ کا کون ادراک کرسکتا ہے۔

ایک نوجوان کا وقار عمل

میانوالی میں مسجد زیر تعمیر تھی۔ایک روز مسجد میں وقار عمل کے لئے اعلان کیا گیا۔مقررہ دن پر کافی احباب تشریف لائے۔ان میں اکثر سرکاری ملازمین تھے۔ان میں سے ایک خاصی تعداد سرکاری افسران کی تھی۔

اگلے روز ایک نوجوان جو کہ ائر فورس میں فلائیٹ لیفٹیننٹ تھے۔اور میانوالی بیس میں متعین تھے۔ خاکسار کے پاس آئے اور کہنے لگے ،کل کسی مصروفیت کی بنا پر میں نہیں آسکا اس لئے معذرت خواہ ہوں۔ آج میں فارغ ہوں اس لئے اب حاضر ہوگیا ہوں ۔مجھے کوئی کام بتائیں کہ میں کیا کام کرسکتا ہوں۔ انہیں بتایا کہ ہم نے تو رستہ سے اینٹیں اٹھائیں تھیں۔اس پروہ کافی دیر تک اینٹیں گلی سے اٹھاتے رہے جن کی وجہ سے رستہ بلاک تھا۔ آج تک میرے دل ودماغ میں اس نوجوان آفیسر کیلئے جماعت کے ساتھ اخلاص ومحبت اور اطاعت کے گہرے نقوش ثبت ہیں۔

(منور احمد خورشید ۔واقفِ زندگی برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2021