• 3 مئی, 2024

خدا تعالیٰ کی صفت متین، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ

خدا تعالیٰ کی صفت متین، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ،
دعا کے ہتھیار سے پنڈت لیکھرام کی ہلاکت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں جو دکھا سکے اور نہ کوئی ہے جو دکھا رہا ہے۔ اور یہی آپ کی جماعت کا کام ہے۔ پس اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ’’(ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اُس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دُنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مُرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو)۔ ’’اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسّر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم مُنوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں‘‘۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 119-118)

فرمایا: ’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبییّن جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداءِ دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو‘‘۔

(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ 308)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔

پس یہ تھا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا اور یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں نے مختلف خوابیں دیکھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود میں دیکھا۔ یعنی دو وجود ایک ہی جان ہو گئے۔ پس ہمارا بھی کام ہے کہ آج اور ہمیشہ اپنی زبان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے تَر رکھیں اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ اسی طرح آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے والے ہوں اور اس میں بھی ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آج جلسے بھی بڑے ہو رہے ہیں، جلوس نکل رہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت منائی جا رہی ہے لیکن وہاں آپ کی تعلیم کا اظہار نہیں ہو رہا۔ ربوہ میں تو شاید اس وقت جو جلوس نکل رہے ہوں اُن میں سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان نہیں ہو رہی ہوگی بلکہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جا رہی ہوں گی۔ جماعت کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جا رہی ہوگی۔

پس ایک طرف تو یہ ان لوگوں کا سلوک ہے جو دنیا دار ہو چکے ہیں۔ مسلمان کہلانے کے باوجود اسلام سے دور ہٹ چکے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا سلوک جو صحابہ کے ساتھ تھا کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ظاہر کر رہا ہے، اُن کو دکھا رہا ہے، اُن کی تسلی کرا رہا ہے اور آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ اسی طرح کے نظارے اپنے نیک فطرت اور سعید لوگوں کو دکھا رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ جماعت میں آ رہے ہیں، قبول کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں بیعت میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی غلامی کو اختیار کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ لوگ جو مخالفین ہیں ان کی بھی آنکھیں کھلیں اور بجائے یہ نام نہاد مسلمان کہلانے کے حقیقی مسلمان بننے والے ہوں اور جو خدا تعالیٰ کی آواز ہے اُس کو سننے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 25؍ جنوری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدا تعالیٰ کی صفت متین اور پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آج بھی اللہ تعالیٰ کی صفت متین کام کر رہی ہے اور قائم ہے جیسے پہلے قائم تھی۔ اُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ کے نظارے خداتعالیٰ آج بھی دکھاتا ہے اور آئندہ بھی دکھائے گا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تلوار کے جہاد کے ذریعہ سے نہیں جیسا کہ مَیں نے کہا، ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پکڑنے کے اپنے طریقے رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ جو بانی ٔاسلامﷺ پر ظالمانہ طور پر الزام لگانے والے ہیں اور استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں، انہیں ایسے طریقہ سے پکڑے گا جس کے بارہ میں ہم سوچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کس طرح پکڑنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایسے لوگوں کو پکڑ کر پھر بتایا بھی۔ ان کو عبرت کا نشانہ بھی بنایا اور دنیا نے دیکھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے جو گُر بتایا ہے وہ یہ ہے کہ پکڑ تو میری آنی ہے لیکن جہاد کے ذریعہ سے پکڑ نہیں ہونی۔ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے طریقہ سے کرنی ہے تم لوگوں نے کیا کرنا ہے لیکن جو طریق کار اختیار کرنا ہے اس میں تمہارا حصہ یہ ہو کہ تم دعا کا ہتھیار استعمال کرو اور یہ دعا کا ہی ہتھیار ہے جس کو ہم نے دیکھا۔ اس ہتھیار نے پنڈت لیکھرام کو بھی کچھ عرصہ ڈھیل دینے کے بعد اپنے انجام تک پہنچایا۔ عبداللہ آتھم کو بھی، ڈوئی کو بھی انجام تک پہنچایا اور باقی مخالفین بھی اپنے انجام کو پہنچے۔

پس آج بھی جو لوگ آنحضرتﷺ کے بارہ میں استہزاء اور نازیبا کلمات کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ نہیں ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں یا لامذہب ہیں۔ قرآن کریم جو آنحضرت ﷺ کے واقعات کے علاوہ باقی انبیاء کے واقعات بھی بیان کرتا ہے کہ جب بھی مخالفین نے ان انبیاء کو دکھ پہنچائے تو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت کے بعد، کچھ عرصے کے بعد، انہی کی تدبیریں ان پر الٹا دیں اور اپنے انبیاء کی حفاظت فرمائی۔ انسانی عقل اُس انتہا تک نہیں پہنچ سکتی جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کے حق میں دشمنوں کی سزا کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض کو موت دے کر عبرت کا نشان بنایا۔ بعض کو ڈھیل دے کر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کامیابیاں دکھا کر انہیں اپنی آگ میں جلنے پر مجبور کیا۔ یہ بھی ان کے لئے پکڑ تھی۔

(خطبہ جمعہ 16؍اکتوبر 2009ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ کلمہ طیّبہ کی ایمان افروز تفسیر (فرمودہ حضرت مصلح موعودؓ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2022