• 19 ستمبر, 2025

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز
حقیقت میں ایک انمول خوش آمدید

ہم Morae مقام پر سہ پہر بارہ بجے پہنچے اور اس کے بعد جو ہوا وہ نہایت شاندار اور کبھی یادوں سے فراموش نہ ہونے والا اور غیر معمولی تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ حضور انور کے اعزاز میں ایک خاص رسمی Maori خوش آمدید کی رسم پیش کی جائے گی۔ تاہم مجھے نہیں لگتا کہ ہم میں سے کسی نے بھی کبھی ایسا سوچا تھا یا تصور بھی کیا تھا کہ یہ خوش آمدید کی رسم کس قدر انمول ہو سکتی ہے۔ یہ تقریب خوش آمدید ہمہ وقت نہایت دلکش، دلفریب اور خوفزدہ کر دینے والی بھی تھی۔ خوفزدہ کرنے سے میری مراد یہ نہیں کہ اس میں ڈر یا فکر کا کوئی پہلو تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ ایسی جوشیلی خوش آمدید تقریب تھی جو بہت جوشیلی اور جارحانہ تھی۔ تاہم یہ تقریب نہایت احسن رنگ میں انجام پائی۔ جس کا مقصد Maoris کی رسم و رواج کے مطابق حضور انور کے لیے انتہائی تعظیم کا اظہار کرنا تھا۔ لوکل جماعت اور قافلہ کے ممبران سمیت پچاس سے ساٹھ احمدی احباب تھے اور ہم سب حضور انور اور خالہ سبوحی کے ساتھ کھڑے تھے۔ Maori بادشاہ کا بیٹا بھی حضور انور کے ساتھ کھڑا تھا۔

دوسری طرف Maori قبیلہ کے تین افراد تھے جو رسمی جنگجوؤں کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ برہنہ تھے جیسا کہ رسمی جنگجو ہوتے ہیں اور ان کا لباس محض ایک سکرٹ اور رسمی بیلٹ پر مشتمل تھا۔

ان کے ہاتھوں میں لکڑی کے بڑے عصا تھےجب انہوں نے اپنے جنگجو رقص کی ابتدا کی، جو HAKA کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی ہر حرکت پرجوش تھی۔ وہ بولتے نہ تھے بلکہ Maori قبیلہ کی زبان میں دھاڑتے تھے۔ وہ قدم بہ قدم آگے بڑھے اور ہمارے قریب آتے گئے۔ ہر بار ان کا دھاڑنا اور قدم اٹھانا پہلے سے زیادہ جوشیلا ہوتا تھا۔ وہ اپنی زبانیں باہر نکال کر گاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ ابھی مجھے اس بات کا خیال آیا ہی تھا کہ وہ جنگجو حضور انور سے چند گز کے فاصلے تک قریب آگئے اور میں نے محسوس کیا کہ ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں میں سے چند کے پریشانی کے عالم میں پسینے چھوٹ گئے کہ سب ٹھیک تو ہے۔ یقینا ًاگر انہیں پہلے سے پتہ نہ ہوتا کہ یہ خوش آمدید کہنے کی تقریب ہے تو جنگجوؤں کے اس رقص کو غلط فہمی سے جارحانہ کاروائی سمجھا جا سکتا تھا۔ اس سب کے دوران Maori خواتین بھی اپنی زبان میں کچھ گنگناتی رہیں جو بلند اور مترنم تھا۔

رسمی Maori ملاقات

رسمی تقریب کے اختتام پر حضور انور Maori بادشاہ سے ملاقات کے لیے اس کی گاڑی تک تشریف لے گئے۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے حضور انور نے Maori بادشاہ سے Maori کے رسمی طریق پر یوں ملاقات فرمائی کہ دونوں کے ناک اور ماتھا ایک دوسرے سے مس کر رہے تھے۔ اگرچہ تقریب کے متعدد پہلوؤں میں سے یہ ایک نہایت مختصر لمحہ تھا تاہم مجھے ایسے لگا کہ حضور انور جس بات کا پرچار فرماتے ہیں آپ اس کے بہترین مظہر بھی ہیں۔ یوں کسی کی ناک کے ساتھ ناک ملا کر ملنا اگرچہ ہمارے رسم و رواج میں بالکل مفقود ہے تاہم Maori رسم و رواج کے مطابق حضور انور نے بادشاہ سے اس طریق پر ملاقات فرمائی۔ حضور انور مستقل تلقین فرماتے ہیں کہ اسلام مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ جملہ مذاہب کی تعظیم کریں اور آپ نے اپنے عمل سے اس کو ثابت کر کے دکھایا۔

یقیناً حضور انور اسلامی تعلیم کے خلاف کبھی بھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے لیکن جہاں کوئی بھی عمل اسلام کے منافی نہ ہو تو حضور انور امن، باہمی رواداری اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے میل جول بڑھانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

ایک نہایت یادگار ترانہ

Maori کے رسمی گانوں اور دعاؤں کے بعد ہماری لوکل جماعت نے اس کے جواب میں احمدیوں کے ترانے ‘ہے دستِ قبلہ نما› کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ یہ بھی ہم ممبران قافلہ (لندن) کے لیے ایک نہایت انمول تجربہ تھا۔ جو بھی مجھے اچھی طرح جانتے ہیں انہیں علم ہے کہ میں نے کبھی پبلک میں تلاوت یا نظم نہیں پڑھی کیونکہ میری آواز کچھ اچھی نہیں ہے۔ بہرحال اس دن بے خیالی میں ایسا ہوا کہ میں بھی ترانہ پڑھنے والوں کے ساتھ شامل ہوگیا۔

Rotorua جھیل کی سیر

Gaysers (سمندری آتش فشاں) دیکھنے کے بعد ہم قریبی جھیل Rotorua کی سیر کے لیے گئے جہاں ہم نے ایک گھنٹے کے قریب وقت گزارا اس سارے دورہ کے دوران یہ سب سے زیادہ دلچسپ حصہ تھا جس سے سب محظوظ ہوئے۔ کئی ہفتوں کی مستقل مصروفیت کے بعد حضور انور نے اس جھیل پر قریباً ایک گھنٹہ گزارا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ نے کچھ آرام فرما لیا ہو اور قدرتی حسن سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ یہ جھیل بہت ہی خوبصورت اور وسیع تھی اور لوکل جماعت کے چند ممبران اور خدام سے گفتگو کرنے کے بعد حضور انور اپنا رخ جھیل کی طرف کر کے اکیلے تشریف فرما رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور انور خاموشی سے کچھ دیر بیٹھنا چاہتے تھے اور لوگوں کے ہجوم سے ہٹ کر کچھ سوچ وبچار میں مصروف تھے۔ چنانچہ ہم سب ذرا پیچھے ہی رک گئے اور حضور انور چند منٹوں کے لیے جھیل کی طرف چہرہ کر کے تشریف فرما رہے۔ یوں حضور انور کا اپنی ذات کے لیے کچھ وقت میسر آتا دیکھنا، بہت اچھا لگا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ ہم سب کو تنہائی کے لمحات میسر ہو جاتے ہیں، جب ہم آرام کر سکتے ہیں اور (اپنی ذات کے حوالہ سے) کچھ سوچ و بچار کر سکتے ہیں مگر حضور انور کو ایسے لمحات شاذ و نادر ہی میسر آتے ہیں بوجہ اس ذمہ داری کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تفویض فرمائی ہے۔

یوں حضور انور کو تنہائی میں بیٹھا دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ ایک انمول لمحہ ہے چنانچہ میں نے خاموشی سے چند قدم حضور کی جانب اٹھائے اور حضور انور کی جھیل کو دیکھتے ہوئے کی ایک یادگار تصویر بنالی۔

جھیل پر کافی (Coffee)

اب موسم کافی سرد ہو چکا تھا۔ ذاتی طور پر سنگاپور اور آسٹریلیا میں کئی ہفتوں کے گرم موسم کے بعد مجھے اپنے کوٹ کے بٹن بند کرنے میں لطف آ رہا تھا۔ اس ٹھنڈ میں یہ ایک نہایت خوش کنsurprise تھا کہ حضور انور نے لوکل جماعت سے، ہر ممبر قافلہ کے لیے کافی مہیا کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اور پھر کچھ دیر میں چار سے پانچ خدام Cappuccinos جو Relish نامی دکان سے لی گئی تھی، لے کر حاضر ہو گئے۔ جب یہ کافی حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپ نے پینے سے انکار کردیا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ یہ سادہ کافی ہے۔مگر جب حضور انور کو علم ہوا کہ یہ Cappuccino ہے، تو آپ نے پینا پسند فرمایا۔ کیونکہ حضور انور کبھی کبھار Cappuccino پینا پسند فرماتے ہیں۔

چنانچہ ہم سب نے وہاں بیٹھ کر کافی پی اور بسکٹ اور کیک کھائے اور میں نے خاص طور پر ان لمحات کو اس حوالہ سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارا کہ ہم حضور انور کی قربت میں تھے۔ الحمدللّٰہ۔ جس دوران ہم کافی پی رہے تھے چند پرندے اڑتے ہوئے آئے تو چند ممبران قافلہ نے ان کو کچھ کھلانا شروع کر دیا جس پر پرندوں کی ایک ڈار بھی آ گئی۔ اس دوران حضور انور نے اپنے ذاتی کیمرہ سے ویڈیو بھی بنا لی۔

ایک احمدی کا تبصرہ

ایک خوش نصیب احمدی خادم جن کو حضور انور کو (نیوزی لینڈ ائر پورٹ پر) خوش آمدید کہنے کی سعادت ملی وہ منصور چیمہ صاحب تھے۔ جن کی عمر انتیس سال تھی اور Auckland سے تعلق رکھتے تھے. بعد ازاں انہوں نے مجھے بتایا کہ
’’جب مجھے پتہ چلا کہ حضور انور نیوزی لینڈ تشریف لا رہے ہیں تو یہ ناقابل یقین تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں سب سے زیادہ خوش قسمت ہوں کہ خلافت کو قریب سے دیکھ سکوں گا اور یہ ہے کہ میری گویا کوئی خواب پوری ہونے جا رہی ہو۔ جب حضور انور تشریف لائے تو میں نے آپ کو جب پہلی مرتبہ ایئرپورٹ پر دیکھا تو آپ ایک فرشتہ کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ یہ ایک یادگاری لمحہ تھا۔ آپ کے رخ انور سے نور چھلک رہا تھا۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ نیوزی لینڈ آپ کی آمد سے خدا کے فضلوں کا متحمل بن چکا تھا۔‘‘

(دورہ حضور انور سنگاپور، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ 28 اکتوبر تا 5 نومبر 2013)

(مترجم: ابو سلطان ڈائری مکرم عابد خان سے کچھ حصے)

پچھلا پڑھیں

دنیا کے تازہ حالات میں دعا کی تازہ تحریک خطبہ جمعہ 4مارچ 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ