• 21 جون, 2025

’’لیکھرام کا نشان ایک عظیم الشان نشان ہے‘‘ (قسط دوئم آخر)

’’لیکھرام کا نشان ایک عظیم الشان نشان ہے‘‘
(مسیح موعودؑ)
قسط دوئم آخر

تکذیب براہین احمدیہ کی تصنیف کے بعد 1884ء میں لیکھرام نے پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔بدازاں یہ کتاب گورداسپور، امرتسر اور قادیاں وغیرہ میں جلسوں میں پڑھ کر سنائی گئی۔جولائی 1887ء میں اس کتاب کی پہلی بار اشاعت ہوئی۔

1885ء میں حضور علیہ السلام نے دنیا کے مذہبی لیڈران، فرمانرواؤں، مہاراجوں، علماء و فضلاء وغیرہ کودین حق کی تبلیغ کے لئے بیس ہزار کی تعداد میں اشتہارات اردو اور انگریزی زبانوں میں بھجوائے اور دعوت دی کہ یہ لوگ قادیان آئیں اور اللہ تعالیٰ کے نشانات خود ملاحظہ کریں۔ ہندوستان میں تین لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا۔جن میں منشی اندرمن مرادآبادی، پادری سوفٹ اور پنڈت لیکھرام۔

(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 253، 254 مطبوعہ پرنٹ ویل امرتسر 2007ء)

حضرت مولوی یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ کی تحقیق کے مطابق حضور علیہ السلام کی دعوت پر لیکھرام 19 نومبر 1885ء کو قادیان آیا۔

(حیات احمدؑ جلد 2 نمبر 2 صفحہ 40)

اس کا ذکر حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب کشف الغطا میں کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’وہ اس پیشگوئی کے حاصل کرنے کے لئے قریباً دو ماہ تک قادیان میں رہا تھا۔ پھر پیشگوئی کے بعد پانچ برس برابر زندہ رہا اور کسی کے پاس شکایت نہ کی کہ میرے خلا ف مرضی یہ پیشگوئی ہوئی۔ آخر پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہی خدا تعالیٰ کی مرضی سے اس جہان سے گذر گیا۔‘‘

(کشف الغطا، روحانی خزائن جلد14 صفحہ206)

یہ بد باطن جب قادیان آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جدی بھائیوں اور معاندین مرزا امام الدین وغیرہ کے ہاتھ چڑھ گیا۔ اس کا ذکر حضور علیہ السلام کی کتاب حقیقۃ الوحی میں ملتا ہے، آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’ہمیں اُس بد قسمت لیکھرام کی حالت پر نہایت افسوس آتا ہے کہ چند دن اسلام پر زبان درازی کرکے آخر اُس نے جواناں مرگ جان دی۔ اور وہ قریباً دو ماہ تک قادیان میں بھی میرے پاس رہا تھا اور پہلے اس کی ایسی طبیعت نہیں تھی مگر شریر لوگوں نے اس کی طبیعت کو خراب کر دیا۔ اُس نے بڑی خواہش کے ساتھ یہ قبول کیا تھا کہ اگر مجھے معلوم ہوا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور امور غیبیہ کھلتے ہیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا مگر قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اُس کے دل کو خراب کر دیا اور میری نسبت بھی اُن نالائق ہندوؤں نے بہت کچھ جھوٹی باتیں اُس کو سُنائیں تا وہ میری صحبت سے متنفر ہو جائے پس ان بد صحبتوں کی وجہ سے روز بروز وہ ردّی حالت کی طرف گرتا گیا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ301)

اس کے قادیان میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے اپنے برگذیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خبرکشف کی صورت میں دی،
’’ایک دفعہ مَیں نے اسی لیکھرام کے متعلق‬ ‫دیکھا کہ ایک نیزہ ہے اس کا پھل بڑا چمکتا ہے اور لیکھرام کا سر پڑا ہوا ہے۔ اُسے‬ ‫اس نیزے سے پرو دیا گیا ہے اور کہا گیا کہ پھر قادیان میں نہ آوے گا۔‘‘

(تذکرہ:صفحہ 246)

اس قیام کے دوران بھی اس نے حضور علیہ السلام پر نہایت دریدہ دہنی کے ساتھ حملے جاری رکھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 20فروری 1886ء کو پیشگوئی پسر موعود پر مبنی اشتہار شائع کیا۔ ابھی آپ ؑ ہوشیار پور میں ہی مقیم تھے کہ ماسٹر مرلی دھر جو آریہ سماج ہوشیارپور کے سرگرم رکن تھے، نے مارچ 1886ء میں دو دن کا ایک مباحثہ کا انعقاد کیا۔ جس کی تفصیل کتاب سرمہ چشم آریہ میں ملتی ہے۔ اس کتاب کا جواب لکھنے کی کوشش بھی لیکھرام نے کی۔اپنی اس کا نام اس نے ’’خبط احمدیہ‘‘ رکھا۔اس سلسلہ میں پنڈت سر بدیال اپنی کتاب پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر میں لکھتے ہیں:۔
’’خبط احمدیہ کا تیار ہونا: جس وقت پنڈت لیکھرام تکذیب کے چھپوانے میں مشغول تھے تو ایک اور معاملہ درپیش آیا۔ پہلے تو آپ کو یہ خیال آتے رہے کہ ماسٹر مرلی دھر جی اس کا جواب دینگے۔مگر جب دیکھا کہ ان کو اپنے سرکاری کام سے فرصت کم ملتی ہے اس واسطے سرمہ چشم آریہ کے جواب دینے کا فرض آپ نے اپنے سر پر لیا۔‘‘

(پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر صفحہ 37 مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور 1903)

’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کا جواب

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 26 جولائی 1887ء کو حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا جس میں آپ نے ’’تکذیب‘‘ پر ایک عمدہ تبصرہ کیا اور ساتھ ہی حضرت مولوی صاحب کو اس کا ردّ لکھنے کو کہا۔ آپؑ اس مکتوب میں فرماتے ہیں:۔
’’حال میں لیکھرام نامی نے میری کتاب براہین کے ردّ میں بہت کچھ بکواس کی ہے اور اپنی کتاب کا نام ’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ رکھا ہے۔ یہ شخص اصل میں غبی اور جاہل مطلق ہے اور بجز گندی زبان کے اس کے پاس کچھ نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں بعض انگریزی خوان اور دنی الطبع ہندوؤں نے اس کی مدد کی ہے۔کتاب میں دو رنگ کی عبارتیں پائی جاتی ہیں۔ جو عبارتیں دشنام دہی اور تمسخر اور ہنسی اور ٹھٹھے سے بھری ہوئی ہیں اور لفظ لفظ میں توہین اور ٹوٹی پھوٹی عبارت اور گندی اور بدشکل ہیں وہ عبارتیں تو خاص لیکھرام کی ہیں اور جو عبارت کسی قدر تہذیب رکھتی ہے اور کسی علمی طور سے متعلق ہے وہ کسی دوسرے خواندہ آدمی کی ہے۔ اس پُر افتراء کا تدارک بہت جلد از بس ضروری ہے ۔۔۔۔ آپ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھیں اور جس قدر اس شخص نے اعتراضات اسلام پر کئے ہیں ان سب کو ایک پرچہ بیادداشت صفحہ کتاب نقل کریں اور پھر ان کی نسبت معقول جواب سوچیں ۔۔۔غرض یہ کام نہایت ضروری ہےاور میں بہت تاکید سے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آپ بہمہ جدوجہد جانفشانی اور مجاہدہ سے اس طرف متوجہ ہوں۔‘‘

(حیات نورمصنفہ عبدالقادر سوداگر مل صاحب صفحہ139-140، مطبوعہ نظارت نشرواشاعت قادیان2003ء)

آپ نے تکذیب براہین احمدیہ کا جواب ’’تصدیق براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے دیا۔ یہ کتاب پہلی بار 1890ء میں شائع ہوئی۔

اس بے نظیر کتاب کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک تصنیف، فتح اسلام میں کیا، آپ ؑ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے۔ فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں۔ بہت سی عمدہ کتابوں کے مؤلف ہیں۔ حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 37 حاشیہ)

حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کے علاوہ بھی لیکھرام کی کتاب کے جوابات لکھے گئے، چنانچہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اپنی کتاب ’’Life of Ahmad‘‘ میں لکھتے ہیں:۔

“A Petition writer, Shahabud Din Chishti, of Nakodar, Dist. Jullundur, was also moved to write a booklet entitled ‘‘تائید براہین احمدیہ’’ (Qaisari Press, Jullundur, 1891) in refutation of Pt. Lekhram’s writings.”

(Life of Ahmad. Page. 162. Foot note)

نکودار ضلع جالندھر کے ایک عرائض نویس شہاب الدین چشتی نے ایک کتاب ’’تائید براہین احمدیہ‘‘ جو کہ قیصری پریس جالندھر سے 1891ء میں شائع ہوئی، لیکھرام کی کتاب کے ردّ میں لکھی۔

پیشگوئی مصلح موعود کی اشاعت
اور پنڈت لیکھرام کا ردّعمل

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب پیشگوئی موعود پسر شائع فرمائی تو ہندو پنڈتوں بالخصوص پنڈت لیکھرام کی جانب سے اس کے حوالہ سے کچھ شور و غوغاء ہوا اور اعتراضات کئے گئے۔ مثلاً حضور ؑ فرماتے ہیں:۔
’’پنڈت لیکھرام پشاوری اور بعض دیگر مخالف اس عاجز پر یہی الزام رکھتے تھے کہ ان کو فن طبابت میں مہارت ہے انہوں نے طبّ کے ذریعہ یہ معلوم کر لیا ہو گا کہ لڑکا پیدا ہونے والا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 147 فضل عمر پریس قادیان 2019ء)

حضور علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر لیکھرام نے بھی ایک پیشگوئی کی۔جس کے چیدہ چیدہ نکات ہی تھے۔

  • ’’رحمت کا نشان نہیں زحمت کا کہا ہو گا، آپ تو ہر بات کو الٹی سمجھتے ہیں اور ’’ر‘‘ ’’ز‘‘ میں امتیاز نہیں رکھتے۔‘‘
  • سفر ہوشیار پور کواللہ نے اس پیشگوئی میں ’’مبارک‘‘ کہا مگر لیکھرام نے اس کو ’’منحوس‘‘ کہا۔
  • ’’سو قدرت اور رحمت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے‘‘ کے بالمقابل کہا ’’خدا کہتا ہے میں نے قہر کا نشان دیا ہے۔رحمت کا نشان تو صرف بنّاکنجر کی سرائے تھی اور بس‘‘
  • ’’اے مظفر تجھ پر سلام‘‘ کے برخلاف: اے منکر و مکار تجھ پر آلام‘‘ کہا۔
  • ’’تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو‘‘ کے بالمقابل یہ پیشگوئی کی کہ ’’اب مرزا کی بدولت شرف و مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو گا اور قرآن و اسلام کا نام باہر ہوگا۔‘‘
  • ’’سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائیگا۔ ایک ذکی غلام تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے ہو گا۔‘‘ اس کے برخلاف اس بدبخت یہ پیشگوئی کی کہ ’’کیا واقعی لڑکا ہو گا؟ فرمایا، نہیں لڑکی۔ مگر اپنا الہام سچا کرنے کو مرزا اس وقت ضرور فریب کھیلے گا اور اسی وقت ہم تجھ کو اطلاع دیں گے۔‘‘
  • ’’اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’ہم نے سنا خدا کہتا ہے اس کا نام عزرائیل اور شریر بھی ہے۔‘‘
  • ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا‘‘ اس کے برخلاف کہا ’’وہ نہائت غبی اور کَودن ہو گا‘‘

لیکھرام کی (چند) بدگوئیوں کے یہ حوالہ جات کتاب ’’کلیات آریہ مسافر‘‘ جو کہ لیکھرام کی جملہ کتب کا ایک مجموعہ ہے کے صفحہ 496 تا 498 سے لئے گئے ہیں۔

لیکھرام اور حضرت اقدس مسیح موعودؑکا عشق نبویؐ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دسمبر 1893ء میں سفر فیروز پور اختیار فرمایا، اس سفر سے واپسی کے دوران لاہور اسٹیشن کے پاس آپؑ ایک مسجد میں وضو فرما رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ سفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرما رہے تھے۔ اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا۔ اور آ کر سلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس نے اس خیال سے کہ شائد آپؑ نے سنا نہیں۔ دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا۔مگر آپؑ نے پھر بھی توجہ نہیں کی۔ اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا۔ کہ حضور پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی، روایت نمبر281 صفحہ254 مطبوعہ فضل عمر پریس قادیان 2008ء و تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ 495 مطبوعہ قادیان 2007ء)

اس واقعہ کے بعد قریباً 13 سال بعد حضور علیہ السلام نے سن 1906 میں ’’حقیقۃ الوحی‘‘ تحریر فرمائی جس میں آپ اس واقعہ کی طرف ایماء کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’وہ ایک مرتبہ اپنے قتل کئے جانے سے ایک برس پہلے لاہور کے اسٹیشن پر ایک چھوٹی سی مسجد میں مجھے ملا اورمیں وضو کر رہا تھا اور وہ نمستے کرکے چند منٹ کھڑا رہا اور پھر چلا گیا مجھے افسوس ہے کہ اُس وقت نماز کی وجہ سے میں اُس سے بات نہ کر سکا اور مجھے بڑا افسوس ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ302)

لیکھرام سے متعلق خدائی قہری نشان کی خبر

’’مامور من اﷲ کے لئے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنے ثبوت میں آسمانی نشان دکھاوے۔ ایک لیکھرام کا نشان کیا کچھ کم نشان تھا۔ ایک کشتی کے طور کئی سال ایک شرط بدھی رہی۔ پانچ سال تک برابر جنگ ہوتا رہا۔ طرفین نے اشتہار دئیے۔عام شہرت ہو گئی۔ ایسی شہرت کہ جس کی مثال بھی محال ہے۔ پھر ایسا ہی واقعہ ہوا جیسے کہ کہا گیا تھا کیا اس واقعہ کی کوئی اور نظیر ہے؟

(ملفوظات جلد اول صفحہ43 ایڈیشن 2016ء)

اس نشان کی تفصیل پڑھنے سے پہلے ایک بنیادی بات سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ اللہ کا قائم کردہ مرسل کبھی کسی کی تباہی و بربادی نہیں چاہتا بلکہ لوگوں کو ایک خدا کی طرف بلا کر ان کو ہر قسم کے خطرہ سے محفوظ و مامون کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے۔ یہی بات آپ نے پیشگوئی بمتعلق لیکھرام بیان فرمائی، آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’میری عادت ہرگز نہیں کہ میں کسی کی موت کی نسبت خود بخود پیشگوئی کروں۔چند آدمی جن کی نسبت اس سے پہلے پیشگوئی کی گئی تھی جیسے ڈپٹی آتھم اور پنڈت لیکھرام۔ ان لوگوں نے خود اصرار کیا تھا اور نہایت اصرار سے اپنی دستی تحریریں دی تھیں اور اس پر زور دیا تھا کہ ان کے حق میں پیشگوئی کی جائے۔‘‘

(کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد14 صفحہ205)

ایک اور جگہ آپؑ نے فرمایا:
’’لیکھرام نے اپنے خطوط میں یہی لکھا تھا کہ خیرالماکرین سے میرے لئے کوئی نشان طلب کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ587)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے پہل خدا تعالیٰ سے الہام پا کر اس کی نسبت اپنے ایک اشتہار 20 فروری 1886ء میں یہ شائع فرمایا کہ ’’ان کی بے ادبیوں اور گستاخیوں کے سبب سے ان کے لئے خدا نے عذاب کا ارادہ فرمایا ہے اور ان کے عذاب کی تشریح معہ تشریح میعاد کے ان کی مرضی پر موقوف رکھی گئی تھی۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات، جلد دوم صفحہ 336 مطبوعہ لنڈن)

چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:۔
•’’اس عاجز نے اشتہار 20؍فروری 1886ء میں …….. لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ‬ ‫خواہشمند ہوں تو اُن کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں۔ سو اس‬ ‫اشتہار کے بعد ……… لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اِس عاجز کی طرف روانہ‬ ‫کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو، شائع کردو۔ میری طرف سے اجازت ہے سو اُس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جل شانہ‘ کی طرف سے یہ الہام ہوا۔

‫ عِجْلٌ‬ ‫جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ۔ لَہٗ نَصَبٌ وَّعَذَابٌ

‫ یعنی یہ صرف ایک بے جان گو سالہ ہے جس کے‬ ‫اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اُس کے لئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدّر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہے گا۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ649-650)

مباہلہ اور لیکھرام کی حضرت اقدسؑ سےمتعلق پیشگوئی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو خدائی الہام کا معیار بھی قرار دیا۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ204)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مباہلہ کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میں نے سرمہ چشم آریہ خاتمہ میں بعض آریہ صاحبوں کو مباہلہ کے لئے بلایا تھا اور لکھا تھا کہ جو تعلیم وید کی طرف منسوب کی جاتی ہے صحیح نہیں ہے اور جو تکذیب قرآن شریف کی آریہ صاحبان کرتے ہیں اُس تکذیب میں وہ کاذب ہیں اگر اُن کو دعویٰ ہے کہ وہ تعلیم جو وید کی طرف منسوب کی جاتی ہے سچی ہے اور یا نعوذ باللہ قرآن شریف منجانب اللہ نہیں تو وہ مجھ سے مباہلہ کر لیں اور لکھا گیا تھا کہ سب سے پہلے مباہلہ کے لئے لالہ مرلی دھر مخاطب ہیں جن سے بمقام ہوشیار پور بحث ہوئی تھی۔ پھر بعد اس کے ہمارے مخاطب لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور ہیں اور پھر کوئی اور دوسرے صاحب آریوں میں سے جو معزز اور ذی علم تسلیم کئے گئے ہوں مخاطب کئے جاتے ہیں۔

میری اس تحریر پر پنڈت لیکھرام نے اپنی کتاب خبط احمدیہ میں جو 1888ء میں اُس نے شائع کی تھی جیسا کہ اس کتاب کے اخیر میں یہ تاریخ درج ہے میرے ساتھ مباہلہ کیا۔‘‘

لیکھرام نے حضور علیہ السلام کے اس مباہلہ کو اپنی کتاب خبط احمدیہ میں قبول کیا، چنانچہ وہ لکھتا ہے۔
’’میں نیاز التیام لیکھرام ولد پنڈت تارا سنگھ صاحب شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ و رسالہ ہٰذا اقرارصحیح بدرستی ہوش و حواس کرکے کہتا ہوں کہ میں نے اوّل سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اُس کے دلائل کو بخوبی سمجھ لیا بلکہ اُن کے بطلان کو بروئے ست دھرم رسالہ ہٰذا میں شائع کیا۔ میرے جی میں مرزا جی کی دلیلوں نے کچھ بھی اثر نہ کیا اور نہ وہ راستی کے متعلق ہیں۔ میں اپنے جگت پتا پرمیشر کو ساکھی جان کر اقرار کرتا ہوں کہ جیسا کہ ہر چہار وید مقدس میں ارشاد ہدایت بنیاد ہے اُس پر میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ میری رُوح اور تمام اروا ح کو کبھی نیستی یعنی قطعی ناش نہیں ہے اور نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا۔ میری رُوح کو کسی نے نیست سے ہست نہیں کیا (یعنی میری رُوح کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں بلکہ خود بخود قدیم سے ہے) بلکہ ہمیشہ سے پرماتما کی انادی قدرت میں رہا اور رہے گا۔ ایسا ہی میرا جسمی مادہ یعنی پرکرتی یا پرمانو بھی قدیمی یا انادی پرماتما کے قبضہ قدرت میں موجود ہیں کبھی مفقود نہیں ہوں گے اور تمام جگت کا سرجن ہارایک ہی کرتا رہے دوسرا کوئی نہیں۔ میں پرمیشر کی طرح تمام دنیا کا مالک یا صانع نہیں ہوں اور نہ سرب بیاپک ہوں اور نہ انتریامی بلکہ اس مہان شکتی مان کا ایک ادنیٰ سیوک ہوں مگر اُس کے گیان اور شکتی میں ہمیشہ سے ہوں معدوم کبھی نہیں ہوا اور نہ کوئی عدم خانہ کہیں ہے بلکہ کسی چیز کو عدم نہیں۔ اس لئے وید کی اس انصافانہ تعلیم کو بھی میں تسلیم کرتا ہوں کہ مکتی یعنی نجات کرموں کے مطابق مہما کلب تک ملتی ہے(یعنی دائمی نجات نہیں صرف ایک مقررہ مدت تک ہے) بعد اس کے پرماتما کی نیا کے مطابق پھر جسم انسانی لینا پڑتا ہے محدود کرموں کا بے حد پھل نہیں (کرم تومحدود ہیں مگر وفادار پرستار کی نیّت محدود نہیں ہوتی اور نیز کرم کا محدود ہونا اُس کی مرضی سے نہیں) میں ویدوں کی ان سب تعلیموں کو دلی یقین سے مانتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ پرمیشر گناہوں کو بالکل نہیں بخشتا۔ (عجیب پرمیشر ہے) میرا کسی شفاعت یا سفارش پر بھروسہ نہیں (یعنی کسی کی دُعا کسی کے حق میں قبول نہیں ہوتی) میں خدا کو راشی یاظالم نہیں جانتا (لفظ مرتشی ہے جس کے معنے ہیں رشوت لینے والا۔ راشی لفظ نہیں ہے لیکھرام کی علمیت کا یہ نمونہ ہے کہ بجائے مرتشی کے راشی لکھتا ہے) اور میں وید کی رُو سے اس بات پر کامل و صحیح یقین رکھتا ہوں کہ چاروں وید ضرور ایشر کا گیان ہے ان میں ذرا بھی غلطی یا جھوٹ یا کوئی قصہ کہانی نہیں۔ ان کو ہمیشہ ہر نئی دنیا میں پرماتما جگت کی ہدایت عام کے لئے پرکاش کرتا ہے اس سرشٹی کے آغاز میں جب انسانی خلقت شروع ہوئی پرماتما نے ویدوں کو 1۔ شری اگنی 2۔ شری وایو 3۔ شری آدت 4۔ شری انگرہ جیو چار رشیوں کے آتماؤں میں الہام کیا مگر جبرئیل یا کسی اور چٹھی رسان کی معرفت نہیں بلکہ خود ہی کیونکہ وہ آسمان یا عرش پر نہیں بلکہ سرب بیاپک ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ وید ہی سب سے کامل او ر مقدس گیان کے پستک ہیں۔ آریہ ورت سے ہی تمام دنیا نے فضیلت سیکھی۔ آریہ لوگ ہی سب کے استاد اوّلؔ ہیں۔ آریہ ورت سے باہر جو بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار 124,000 پیغمبر 6-5 ہزار سال سے آئے ہیں اور توریت۔ زبور۔ انجیل۔ قرآن وغیرہ کتب لائے ہیں۔ میں دلی یقین سے ان پُستکوں کو مطالعہ کرنے سے اور سمجھنے سے۔۔۔ اُن کی تمام مذہبی ہدایتوں کو بناوٹی اور جعلی اصلی الہام کے بدنام کرنے والی تحریریں خیال کرتا ہوں۔۔۔ ان کی سچائی کی دلیل سوائے طمع یانادانی یا تلوار کے ان کے پاس کوئی نہیں۔۔۔ اور جس طرح میں اور راستی کے برخلاف باتوں کو غلط سمجھتا ہوں ایسا ہی قرآن اور اُس کے اصولوں اور تعلیموں کو جو وید کے مخالف ہیں اُن کو غلط اور جھوٹا جانتا ہوں (لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین) لیکن میرا دوسرا فریق میرزا غلامِ احمد ہے وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا اور اُس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتا ہے۔اور جس طرح میں قرآن وغیرہ کو پڑھ کر غلط سمجھتا ہوں ایسے ہی وہ اُمّی محض سنسکرت اور ناگری سے محروم مطلق بغیر پڑھنے یا دیکھنے ویدوں کے ویدوں کو غلط سمجھتا ہے۔ اے پرمیشر ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر۔ کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پاسکتا۔راقم آپ کا ازلی بندہ لیکھرام شرما سبھا سد آریہ سماج پشاور حال اڈیٹر آریہ گزٹ فیروزپور پنجاب‘‘

(خبط احمدیہ صفحہ 344 تا 347 مطبوعہ 1888ء)

اس کے بعد حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر ایک تفصیلی پیشگوئی کی،

‫ اَلَا اے دشمنِ نادان و بے راہ ۔۔۔‫ بِتَرس از تیغِ بُرّانِ محمدؐ‬

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ649)

‫ ترجمہ ’’اے لیکھرام تُو کیوں حضرت محمد صلی‬ ‫اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‬ کی اس تلوار سے جو تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیگی،‬ ‫کیوں نہیں ڈرتا۔‘‘

(تذکرہ: صفحہ187-186 مطبوعہ قادیان 2008ء)‬‬‬‬‬‬‬‬‬

•‫ ‬ آج جو 20؍فروری 1893ء روز دوشنبہ ہے۔ اس‬ ‫عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬
آج کی تاریخ سے جو بیس فروری 1893ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں‬‫ کی سزا میں یعنی اُن بے ادبیوں کی سزا میں جو اِس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬ ‫وسلم کے حق میں کی ہیں’ عذاب شدید میں مبتلا ہوجائیگا۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ‬ ‫اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 650)

(ب) ’’لیکھرام کے متعلق ایک یہ پیشگوئی تھی کہ

یُقْضٰی‬ ‫اَمْرُہٗ فِیْ سِتٍّ

ترجمہ: ‫ یعنی چھ میں اس کاکام تمام کیا جائے‫گا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ187 مطبوعہ قادیان 2008ء)

(ج) ’’وَ بَشَرَنِیْ رَبِّیْ ‬‫ وَقَالَ مُبَشِّرًا
سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَالْعِیْدُ اَقْرَبُ‘‘

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7 صفحہ96)

اس شعر کے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’کتاب کرامات الصادقین کے ایک عربی شعر میں جو واقعہ قتل پنڈت لیکھرام سے چار سال‬‫پہلے تمام فرقوں میں شائع ہوچکا تھا۔ اُس کی موت کا دن اور تاریخ بتلائی گئی تھی۔ ‬‫چنانچہ اس شعر پر ہندو اخبار نے لیکھرام کے قتل کے وقت بڑا شور مچایا تھا اور وہ‬‫شعر یہ ہے۔ وَ بَشَرَنِیْ رَبِّیْ …………….. غرض یہ عظیم‬ ‫الشان پیشگوئی اس قدر قوت اور عام شہرت کے ساتھ پھیلنے کے بعد 6؍مارچ 1897ء کو اس‬ ‫طرح پوری ہوئی کہ ایک شخص نے جس کا آج تک پتہ نہیںلگا کہ کون تھا۔ شام کے وقت‬ ‫لاہور کے شہر میں شنبہ کے دن جو عید سے دوسرا دن تھا۔ لیکھرام کے پیٹ میں ایک کاری‬ ‫چھُری مارکر دن دہاڑے ایسا غائب ہوا کہ آج تک پھر اس کا پتہ نہ لگا۔ حالانکہ لیکھرام‬‫کے ساتھ کتنی مدّت سے رہتا تھا۔‘‘

نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ560)

لیکھرام کا قاتل

حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’آج‬‫جو 2؍ اپریل 1893ء مطابق 14؍ماہِ رمضان 1310ھ ہے۔ صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی‬ ‫حالت میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی‬ ‫میرے پاس موجود ہیں۔ اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل ‘ گویا اُس کے چہرہ پر سے‬ ‫خون ٹپکتا ہے۔ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ مَیں نے ‬ ‫ نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ‬ ‫ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں۔ ملائک شِداد غلاظ میں سے ہے۔ ‬‫ اور اُس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی۔ اور مَیں اُس کو دیکھتا ہی تھا کہ اُس‬ ‫نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک اَور شخص کا نام لیا کہ‬ ‫وہ کہاں ہے تب مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اُس دُوسرے شخص کی‬ ‫سزادہی کے لئے مامور کیا گیا ہے۔ مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے‬ ‫ہاں یہ یقینی طور پر یاد رہا ہے کہ وہ دُوسرا شخص اُنہیں چند آدمیوں میں سے تھا‬ ‫جن کی نسبت مَیں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یک شنبہ کا دن اور 4 بجے صبح کا وقت تھا‬ ‫فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘

(برکات الدّعا، روحانی خزائن جلد6 صفحہ33)

پنڈت سربدیال شرما نے اپنی کتاب ’’پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر‘‘ میں لیکھرام کے قاتل کے بارہ میں لکھتے ہیں:۔
’’13-15 فروری 97ء کے درمیان ایک شخص لالہ ہنسلہ ج پرنسپل دیانند اینگلو ویدک کالج کے پاس گیا اور پھر دوسرے روز دیانند اینگلو ویدک کالج کے ہال میں پھرتا دکھائی دیا جہاں کہ وہ پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کو تلاش کرتا تھا پوچھ کر پنڈت لیکھرام جی کو آ ملا اور ان پر ظاہر کیا کہ میں اصل میں ہندو تھا دو برسوں سے مسلمان ہو گیا ہوں اب پھر اپنے اصلی دھرم میں واپس آنا چاہتا ہوں۔ آپ کرپا کر کے مجھے شدھ کر لیجیئے۔ پنڈت لیکھرام جی نے اس سے وعدہ کیا کہ میں تجھے ضرور شدھ کر لوں گا۔اس شخص کا حلیہ ۔۔۔چھوٹا یا درمیانہ قد جو قریب 5 فٹ 4 یا 5 انچ ہو گا۔ سیاہ رنگ چہرہ پر داغ چھائیاں جو ہڈی رخسار پر زیادہ ہیں۔ ناک قدرے بیٹھی ہوئی تھی۔(بولنے) کے وقت دو دانت ذرا باہر نکلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ آنکھیں چھوٹی مگر ڈیلے ابرے ہوئے۔چہرہ گول اور رخسار اندر گھسے ہوئے۔بدن سبک سر کے بال چھوٹے چھوٹے۔ بیچ میں سے منڈے ہوئے جیسے مسلمان رکھتے ہیں۔ داھڑی پورے طور پر نہیں آئی۔ عمر تخمیناً 35 سالہ۔ یہ شخص ہندوستانی بولتا تھا۔ گو بات چیت میں اپنے آپ کو مسکین ظاہر کرتا اور بہت کم بولتا تھا۔ تاہم اس کا چہرہ خوفناک معلوم ہوتا تھا ۔۔۔ یکم مارچ کے بعد پنڈت جی کو دفعۃً پرچار کے لئے باہر جانا پڑا۔چنانچہ 4 مارچ 1897ء کو انہوں نے ملتان میں ایک لیکچر دیا۔۔۔6 مارچ کی صبح کو پھر پنڈت جی کے مکان پر پہنچا۔۔۔اس روز خلاف معمول کمبل اس طرح پر اوڑھے ہوئے تھا کہ کوئی عضو دکھائی نہ دیتا تھا۔ سبھا کے دفتر سے چلتے وقت کسی قدر کانپا۔پنڈت جی نے کہا۔ ’’بھائی تیری کیا حالت ہے اس طرح کمبل لپیٹا ہے۔بخار تو نہیں ہے۔‘‘ آہستہ سے جواب دہ ہوا۔’’ہاں اور کچھ درد ہے‘‘۔۔۔ بعد ازاں پنڈت جی اس کو ڈاکٹر بشن داس کے پاس لے گئے۔اور سفارش کی کہ یہ شخص شدھ ہونا چاہتا ہے، دھرم آتما ہے اس کا علاج کیجیئے۔ڈاکٹر نے نبض دیکھکر کہا کہ بخار وخار تو معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ اس کا خون جوش میں ہے۔اور تکان معلوم ہوتا ہے اگر درد ہے تو پلستر لگا دیا جاوے۔ قاتل جواب دہ ہوا لگانے کی نہیں پینے کی چیز اسے بتلائی جاوے۔ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ شربت وغیرہ پی لیوے اس وقت بھی پنڈت جی نے اس کی سفارش کی تا کہ لگانے کی دوائی نہ لگائی جائے۔۔۔پنڈت جی کی پتنی نے انہیں قاتل کی طرف متوجہ ہو کر یہ کہتے ہوئے سنا ’’جاؤ بھئی تم بھی آرام کرو ’’قاتل چپ چاپ بیٹھا رہا اور کچھ جواب نہیں دیا۔۔۔پنڈت جی حسب عادت زور سے انگڑائی لیتے ہوئے۔۔۔ایسا سینہ ابھار کر کے روبرو کر دیا کھڑے ہوئے گویا کہ قاتل کو خود موقعہ دیا۔۔۔ایک دم سے تجربہ کار ہاتھ نے چھری اندر گھسیڑ کر اس طرح پر بھیر دی کہ آٹھ دس زخم اندر آئے اور انتڑیاں باہر نکل آئیں۔‘‘

(پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر صفحہ65 تا 70 مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور 1903)

آریہ پتھک نے ایک بلاگ لکھا جس میں لیکھرام کے بارہ میں کچھ واقعات لکھے۔ اس کے قاتل کو ’’مسلط کیا ہوا قاتل‘‘ قرار دیا۔ لکھتا ہے،

“This great son of mother India was died from the stab wounds of a fanatic inflicted upon him on 6th March 1897.”) Arya Pathik: Short Account of Pandit Lekhram ‘‘arya musafir’’

(pathikarya.blogspot.com)

یعنی یہ ہندوستان کا بیٹا ایک متشدد کرایہ کے قاتل کے چاقو کے وار کے نتیجہ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 6 مارچ 1897ء کوقتل ہوئے۔

حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں لیکھرام کی پیشگوئی

حضرت مسیح موعود علیہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:۔
’’لیکھرام کی نسبت جب پیشگوئی کی گئی تھی تو اس نے بھی میرے لیے ایک پیشگوئی کی تھی اور یہ شائع کردیا تھا کہ تین سال کے اندر ہیضہ سے ہلاک ہوجاوے مگر اب دیکھ لو کہ اس کی ہڈیوں کا بھی کہیں نشان پایا جاتا ہے؟ مگر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح زندہ ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ85)

لیکھرام۔۔۔ قبولیت دعا کا ایک عظیم الشان نشان اور سر سید احمد خان صاحب کو دعوت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سر سید احمد خان صاحب کے رسائل ’’الدعاء والاستجابۃ’’ اور تحریر فی اصول التفسیر‘‘ کے جواب میں اور خانصاحب کے نیچری خیالات کے ردّاور دعا کی طاقت و قبولیت کی فلاسفی کو بیان کرنے کے لئے مئی 1893ء میں ایک کتاب ’’برکات الدعا‘‘ لکھی۔ اس کتاب کے شروع میں ہی آپؑ نے سر سید احمد خان کو لیکھرام سے متعلق پیشگوئی کو اپنی دعا کی قبولیت کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ یہ پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا آپ کے لئے اتمام حجت ہو گا۔ آپ کو علم ہو جائیگا کہ اللہ تعالیٰ کیسے خرق عادت طور پر دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔

اے کہ گوئی گر دعاہا را اثر بودے کجاست
سوئے من بشتاب بنمایم ترا چوں آفتاب
ہاں مکن انکار زیں اسرار قدرتہائے حق
قصہ کوتہ کن بہ بیں ازما دعائے مستجاب

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد صفحہ 396)

یعنی، اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ اگر دعا میں کچھ اثر ہوتا تو وہ کہاں ہے؟ میری طرف آ کہ میں تجھے دعا کا اثر سورج کی طرح دکھاؤں۔ تو خدا تعالیٰ کی باریک در باریک قدرتوں سے انکار نہ کر۔ اور اگر دعا کا اثر دیکھنا چاہتا ہے تو آ۔ اور میری دعا کا نتیجہ دیکھ لے۔جس کے متعلق خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ قبول ہو گئی ہے۔

ان اشعار کے بارہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’اس شعر میں سید احمد خاں صاحب کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ آپ جو اس بات سے منکر ہیں جو دُعائیں قبول ہوتی ہیں یہ آپ کا خیال سراسر غلط ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ میں نے دعا کی ہے کہ لیکھرام قتل کی موت سے چھ۶ برس کے اندر مارا جاوے اورخدا نے مجھے اطلاع دیدی ہے کہ وہ دعا قبول ہوگئی ہے اور نیز یہ کہ سید احمد خاں اخیر نتیجہ تک زندہ رہ کر بچشم خود دیکھ لے گا کہ دُعا کے مطابق لیکھرام چھ۶ برس کے اندر قتل کیا گیا۔ چنانچہ سید احمد خاں صاحب فوت نہ ہوئے جب تک کہ چھ مارچ 1897ء آگیا جس میں شنبہ کے دِن لیکھرام مارا گیا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ 396 حاشیہ)

لیکھرام کا نشان اور شیخ محمدرضا بن محمد حسین بن محمد باقر طہرانی اصفہانی نجفی

شیخ نجفی کا پورا نام محمد رضا بن محمد حسین بن محمد باقر طہرانی اصفہانی تھا۔ آپ 20 محرم 1287ھ بمطابق 1870ء میں نجف میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک شیعہ مجتہد تھے۔ علماء کے خاندان سے تعلق تھا۔ آپ کی وفات اصفہان میں 1362ھ بمطابق1943ء میں ہوئی۔

شیخ نجفی نے آپؑ کے سامنے حق و باطل کی آزمائش کا یہ مضحکہ خیز طریق بذریعہ اشتہار پیش کیا کہ
’’ہم دونوں لاہور شاہی مسجد کے مینارے سے چھلانگ لگائیں جو صادق ہو گا وہ بچ جائے گا۔نیز کہا کہ میں تو چالیس لمحوں میں نشان دکھا سکتا ہوں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ586)

آپؑ اس بارہ میں اپنے ایک اشتہار میں فرماتے ہیں:۔
’’شیخ نجفی نے اپنے خط میں چالیس دقیقہ میں نشان دکھلانے کا وعدہ ‬ کیا تھا۔ اور ہم نے یکم فروری 1897ء سے‬ ‫چالیس روز میں…….سو خدا کا احسان ہے کہ یکم فروری 1897ء سے پینتیس دن تک یعنی‬ ‫چالیس دن کے اندر نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری وقوع میں آگیا……..اب ہماری طرف‬‫سے نشان تو ہوچکا۔ اور نجفی کا کذب کھُل گیا۔ تاہم تنزل کے طور پر ہم راضی ہیں کہ‬ ‫وہ مسجد شاہی کے منارہ سے اب نیچے گر کے دکھلاوے تاکہ اگر شیخ نجدی منظرین میں‬ ‫داخل ہے تو بارے شیخ نجفی کا قصہ تو تمام ہوا اور اگر اب بھی اپنا نشان نہ دکھلایا‬ ‫تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔‘‘

(اشتہار 10؍مارچ 1897ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد‬ ‫دوم صفحہ339)

ایک اور جگہ فرمایا:
’’ایک شخص اہل تشیع میں سے جوا پنے آپ کو شیخ‬ ‫نجفی کے نام سے مشہور کرتا تھا ایک دفعہ لاہور میں آکر ہمارے مقابلہ میں بہت شور‬ ‫مچانے لگا اور نشان کا طلب گار ہوا۔ چنانچہ ہم نے باشاعت اشتہار یکم فروری 1897ء‬ ‫اُس کو وعدہ دیا کہ چالیس روز تک تجھے اللہ تعالیٰ کوئی نشان دکھلائے گا۔ سو خدا‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬کا احسان ہے کہ ابھی چالیس دن پورے نہ ہوئے تھے کہ نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری وقوع‬ ‫میں آگیا۔ تب تو شیخ ضال نجفی فوراً لاہور سے بھاگ گیا۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ587)

لیکھرام کی سزا کی بنیادی وجہ

’’دیکھو ہزاروں ہندو ہیں مگر مانتے نہیں انکار کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سب کو چھوڑ کرلیکھرام کے پیٹ میں چھُری چلی؟ اس کی وجہ اس کی زبان تھی کہ جب اُس نے اُسے بیباکا نہ کھولا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب و شتم کرنے میں حد سے بڑھ گیا۔ اور ایک مدِ مقابل بن کر خود نشان طلب کیا تو وہی اس کی زبان چھُری بن کر اس کی جان کی دشمن ہوگئی غرض کہ اصل گھر عذاب کا آخرت ہے اور دنیا میں عذاب شوخی، شرارت میں حد سے تجاوز کرنے سے آتا ہے۔ ہندوؤں میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ پرمیشر اور عَتّ کا بَیر (دشمنی) ہے عَتّ کے معنی حد درجہ تک ایک بات کو پہنچا دینا۔ (عَتّ کا لفظ عربی ہے جیسے قرآن شریف میں عتو ہے)‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ421)

پھر فرمایا،
’’اسلام پر حملہ کرنے میں اور مسلمانوں کے بے جا دل دکھانے میں آریوں کے درمیان ایک طرح کی تریمورتی تھی جن میں سے سب سے بڑھ کر لیکھرام تھا اور اس کے بعد اندرمن اور الکھ دھاری تھے۔۔۔ دیانند بھی تھا مگر اس کو ایسا موقعہ نہیں ملا تھا اور نہ وہ اس طرح سے کتابیں لکھتا تھا۔۔۔ ان تینوں نے اور خصوصاً لیکھرام نے بڑی بے ادبیاں حضرت رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وسلم کی کی تھیں۔ اﷲ تعالےٰ کا طریق ہے کہ جس راہ سے کوئی بدی کرے اسی راہ سے گرفتار کیا جاتا ہے۔ چونکہ لیکھرام نے زبان کی چھُری کو اسلام کے بر خلاف حد سے بڑھ کر چلایا۔ اس واسطے خدا نے اس کو چھُری سے سزا دی۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ480-481)

لیکھرام کے قتل کے بعد کے حالات

لیکھرام کی موت کے بعد مختلف جوانب سے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔

  • آریہ سماج کی طرف سے سخت ردّعمل

آریہ سماجیوں نے لیکھرام کے قتل کے بعد آپؑ کو قتل کی دھمکیاں دیں۔

آپ اس کو ایک فتنہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’تیسرا فتنہ لیکھرام کی موت کے وقت اور نشان الٰہی کے ظاہر ہونے کے حسد سے ہندوؤں کی طرف سے ہوا اس فتنہ کے جوش میں کئی معصوم بچے قتل کئے گئے راولپنڈی میں قریباً چالیس40 آدمیوں کو زہر دیاگیا اور مجھ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور گورنمنٹ کو مشتعل کرنے کیلئے سعی کی گئی اور آئندہ معلوم نہیں کہ کیا کچھ کریں گے۔‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد12 صفحہ57)

  • مسلمانوں کی طرف سے کھلی منافقت

مسلمانوں نے بجائے اسلام کی صداقت کے اس نشان کے پورا ہونے پر شکر خداوندی کرتے انہوں نے بہت منافقانہ چالیں چلیں۔ حضور فرماتے ہیں:۔
’’اس شخص (مولوی محمد حسین بٹالوی) نے تو جہاں تک اس سے ممکن ہو سکا اور اس کا بس چلا ہے ہمیں پھانسی دلانے کی کوششوں میں بھی کمی نہیں کی۔ مگر یہ اﷲ تعالےٰ کا فضل اور اس کی خاص نصرت تھی کہ اُس نے ہمیں ہر میدان میں عزّت دی اور اعداء اور ہماری ذلّت چاہنے والوں کو ذلیل کیا۔ دیکھو لیکھرام کے قتل کے وقت بھی اس نے کس طرح آریوں کو اُکسایا۔ ہماری تلاشی ہوئی۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ465)

حضرت اقدس علیہ السلام کے گھر کی تلاشی

لیکھرام کے قاتل کو پکڑنے کے لئے بہت کوشش کی گئی مگر سب اکارت گئی۔ پنڈت سربدیال شرما اس بارہ میں اپنی کتاب پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر میں لکھتے ہیں:۔
’’قاتل کی تلاش کے لئے بہت کوشش کی گئی مگر ابھی تک (یہ کتاب سن 1903ء میں لکھی گئی تھی) کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک شخص کشمیر سے پکڑا ہوا آیا تھا مگر تحقیقات کرنے سے سرکار کو معلوم ہوا کہ وہ اصل قاتل نہیں ہے۔ اس سے وہ رہا کیا گیا۔‘‘

(پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر۔ صفحہ89 مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور 1903)

حضور علیہ السلام کے خلاف آریوں نے اور مسلمانوں نے گورنمنٹ کو اکسایا اور مؤرخہ 8اپریل 1897ء کو صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی معرفت خانہ تلاشی کرائی گئی۔

اس کی تفصیل میں تاریخ احمدیت میں لکھا ہے،
’’مسٹر لیمارچند سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور، میاں محمد بخش انسپکٹر بٹالہ اور ہیڈ کانسٹیبل اور پولیس کی جمیعت نے قادیان پہنچ کر حضور کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔قبل ازیں صبح کے وقت حضرت میر ناصر نواب صاحب کہیں سے پولیس کے آنے کی خبر سن لی۔ تو وہ سخت گھبرائے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچے اور سخت پریشانی کے عالم میں کہا کہ پولیس گرفتاری کے لئے آ رہی ہے۔ حضرت اقدس نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’میر صاحب (دنیادار) لوگ خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں۔ ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے۔‘‘ پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا۔ ’’مگر ایسا ہر گز نہ ہو گا۔‘‘ کیونکہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ599)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب اپنی کتاب حیات احمد میں لکھتے ہیں:۔
’’اس وقت حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب بھی بیٹھے تھے، انہوں نے بتایا کہ جب پولیس نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے کام بند کر دیا اور فوراً جا کر دروازہ کھول دیا۔ مسٹر لیمارچند نے ٹوپی اتار کر کہا کہ ’’مجھے حکم آ گیا ہے کہ قتل کے مقدمہ میں آپ کے گھر کی تلاشی لوں۔‘‘ تلاشی کا نام سن کر آپ کو اس قدر خوشی ہوئی جتنی اس ملزم کو ہو سکتی ہے جس سے کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہو گی۔۔چنانچہ حضور نے فرمایا کہ آپ اطمینان سے تلاشی لیں اور میں مدد دینے میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اس کے بعد آپ انہیں دوسرے افسروں سمیت مکان میں لے گئے اور پہلے مردانہ اور پھر زنانے مکان میں تمام بستے وغیرہ انہوں نے دیکھے۔ اس وقت مرزا امام دین بھی شرارتاً پولیس کے ساتھ تھا۔ اللہ کی قدرت!! جب ایک بستہ کھولا گیا تو سب سے پہلے جو کاغذات برآمد ہوئے وہ پنڈت لیکھرام کے لکھے ہوئے تھے جو اس نے نشان نمائی کے مطالبہ کے لئے قلم سے حضور کے نام لکھے تھے۔ تلاشی بہت دیر تک جاری رہی۔ بعض ٹرنکوں کے قفل توڑ کر بھی سامان دیکھے گئے۔ اور پولیس نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا۔ مگر کچھ برآمد نہ ہوا۔ تلاشی کے دوران میں حضرت اقدس ؑ کے روئے منور پر کسی قسم کی فکر و تشویش کے آثار قطعاً نہیں تھے۔ بلکہ آپ بالکل مطمئن و مسرور تھے۔ حضور کے گھر کی تلاشی کے بعد مہمانخانہ، مطبع اور حضرت مولانا نور الدین کے مکان کی بھی تلاشی ہوئی۔ دیواری الماریاں بھی دیکھیں گئیں۔ اور پتھر کی سل تک لوٹ پوٹ کی گئی۔ مگر پولیس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 600-599)

خدا کے نبی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے دل میں اس پیشگوئی کو لے کر چلنے والے دو دھارے

’’میں لیکھرام کے معاملہ میں اِس بات سے تو خوش ہوں کہ خداتعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہوئی مگر دوسرے پہلو سے میں غمگین ہوں کہ وہ عین جوانی کی حالت میں مرا اگر وہ میری طرف رجوع کرتا تو میں اُس کے لئے دُعا کرتا تا یہ بلا ٹل جاتی اُس کے لئے ضروری نہ تھا کہ اس بلا کے ردّ کرانے کے لئے مُسلمان ہو جاتا بلکہ صرف اِس قدر ضروری تھا کہ گالیوں اور گندہ زبانی سے اپنے مُنہ کو روک لیتا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 ص302)

آئندہ لیکھرام جیسے ۔۔۔ پیدا ہی نہیں کروں گا

قاضی حبیب اللہ صاحب لاہوری بیان کرتے ہیں کہ‬ ‫(حضرت مسیح موعود علیہ السلام) جب مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کی قبر پر دُعا فرما کر‬ ‫واپس تشریف لارہے تھے تو ….. فرمانے لگے:۔ ’’آج‬ ‫رات مجھے الہام ہوا ہے: ‬‫ حَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ اور اس کی بار بار تکرار ہوئی۔ فرمایا یہ پہلے بھی کئی مرتبہ الہام ہوا ہے مگر رات اِس‬ ‫کے عجیب معنی سمجھا ئے گئے وہ یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے یہ فیصلہ‬ ‫کر چھوڑا ہے کہ آئندہ لیکھرام جیسے۔ عبداللہ آتھم جیسے۔ پادری فنڈل جیسے۔ عماد‬ ‫الدین جیسے پیدا ہی نہیں کروں گا۔

(تذکرہ،صفحہ 672۔ مطبوعہ پرنٹ ویل امرتسر 2008)

’’وہ مسافر بنتا تھا خدا تعالیٰ نے اُسے ایسا مسافر بنایا کہ پھر کبھی واپس نہ آیا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ198)

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ، نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ کلمہ طیّبہ کی ایمان افروز تفسیر (فرمودہ حضرت مصلح موعودؓ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2022