• 2 مئی, 2025

حاصل مطالعہ کلمہ طیّبہ کی ایمان افروز تفسیر (فرمودہ حضرت مصلح موعودؓ)

حاصل مطالعہ
کلمہ طیّبہ کی ایمان افروز تفسیر اور احمدی خواتین کو پُر معارف نصائح
(فرمودہ حضرت مصلح موعودؓ)

طیّبہ کے معنی عربی زبان میں خوش شکل، خوشبودار لذیذ اور شیریں کے ہیں۔ طیّبہ کے اور بھی معنی ہیں لیکن چاروں معنی خاص طور پر طیّب میں پائے جاتے ہیں۔ ۔۔۔ پس طیّب وہ ہے جس میں چاروں باتیں پائی جائیں۔ یعنی خوش شکل بھی ہو، خوشبودار بھی ہو، خوش ذائقہ بھی ہو اور شیریں بھی ہو۔

پس کلمہ طیّبہ پر ایمان لانے والے کو سوچنا چاہئے کہ کیا اس میں یہ چاروں باتیں پائی جاتی ہیں۔ *طیّبہ کے پہلے معنی خوش شکل کے ہیں اب تم سوچو کہ کیا تمہارا ایمان خوش شکل ہے ؟تم منہ سے تو کہتی ہو کہ احمدی ہیں مگر کیا ظاہر میں بھی تمہاری شکل احمدیوں والی ہے ؟کیا اگر آم کی شکل بیر جیسی ہو تو لوگ اُسے پسند کریں گے ؟اسی طرح جب تک تمہاری نمازیں احمدیوں والی نہ ہوں، تمہارے روزے احمدیوں والے نہ ہوں، تمہاری زکٰوۃ احمدیوں والی نہ ہو،تمہارا حج احمدیوں والا نہ ہو تم کس طرح کہہ سکتی ہو کہ ہم نے کلمہ طیّبہ پڑھ لیا۔ کتنا ہی اچھا آم ہو لیکن اگر وہ داغدار ہو یا پچکا ہوا ہو تو لوگ اُسے نہیں خریدتے۔ اسی طرح اگر تم صرف اس بات پر خوش ہو جاؤ کہ ہم نے کلمہ طیّبہ کہہ لیا تو ہماری نمازیں، ہمارے روزے،ہمارے زکوٰۃ، ہمارا حج اور ہمارے صدقے خود بخود اچھے ہو جائیں گے تو یہ درست نہیں۔ جس طرح داغدار آم کو کوئی شخص نہیں خریدتا اسی طرح تمہاری نمازیں اور تمہارے روزے بھی قبول نہیں ہو سکتے۔ صرف اُسی صورت میں یہ عبادتیں قبول ہو سکتی ہیں جب وہ اُنہی شرائط کے ساتھ ادا کی جائیں جن شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔

*دوسری چیز کلمہ کا خوشبودار ہونا ہے۔ جو چیز انسان خریدتا ہے اس کے متعلق یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ آیا اُس کی خوشبو اچھی ہے یا نہیں۔ خربوزے ہوں تو ان کی خوشبو سونگھتا ہے اور چاہتا ہے کہ خربوزہ سے اچھی خوشبو آئے۔ یہی حال باقی پھلوں کا ہے۔ آم جتنا اچھا ہوگا اُتنی ہی اس کی خوشبو اچھی ہو گی۔ اسی طرح سیب،انار،انگور اور کیلا وغیرہ کی لوگ شکل بھی دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی خوشبو بھی سونگھتے ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم ایمان لائے ہو تو تمہارے ایمان کے اندر خوشبو بھی ہونی چاہئے۔ یعنی تمہارے ارد گرد کے ہمسائے تمہیں دیکھیں تو تمہاری نیکیوں کی خوشبو اُن کو آجائے۔ اور وہ کہہ اُٹھیں کہ واقعی یہ مذہب اچھا ہے۔ پہلے تو لوگ شکل دیکھیں گے کہ تمہاری نمازیں مسلمانوں والی ہیں یا نہیں۔ ۔ ۔۔۔ پس ایک غیر احمدی عورت نماز چھوڑ کر اپنے لئے دوزخ مول لیتی ہے لیکن ایک احمدی عورت نماز نہ پڑھ کر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ ان دوسری پچاس عورتوں کے لئے بھی دوزخ مول لیتی ہے جو اُ س کو دیکھتی ہیں۔ تو فرمایا شجرِ طیّبہ بنو۔ تم وہ درخت بنو جو نہ صرف خوش شکل ہو بلکہ خوشبودار بھی ہو۔

پس چاہئے کہ تمہاری نمازیں ایسی خوشبودار ہوں۔ صدقہ و خیرات ایسا خوشبودار ہو کہ خودبخود دوسرے لوگ متاثر ہوتے چلے جائیں۔ جب تمہارے اندر یہ خوشبو پیدا ہو جائے گی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری طرف آئیں گے اور تم لوگو ں کو احمدیت کی طرف کھینچنے کا ذریعہ بن جا ؤ گی۔

*طیّبہ کے تیسرے معنی خوش ذائقہ کے ہیں۔ ایسی چیز جس کا مزہ اچھا ہو اور انسان کی زبان اس سے حلاوت محسوس کرے۔ یہ چیز بھی ایسی ہے جس کا مومن میں پایا جانا ضروری ہے۔ فرض کرو ایک عورت نمازیں بھی پڑھتی ہے، روزے بھی رکھتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی صبح شام غیبت میں مشغول رہتی ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا۔ تو اُس سے اُ س کی نیکی کا اثر زائل ہو جائے گا۔ یہ باتیں ایسی ہی گندی ہیں جیسے بعض عورتیں مٹی کھانے لگ جاتی ہیں۔ بے شک یہ باتیں ہیں مگر ان کی کوئی قیمت نہیں۔ نہ سننے والے کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ سنانے والے کو۔ لیکن اگر وہ اس قسم کی باتیں کرے کہ اے بہن !رسول کریم ؐ نے یوں فرمایا ہے، اے بہن! خدا کا یہ حکم ہے، نماز کے متعلق یہ حکم ہے، روزوں کے یہ احکام ہیں تو سننے والے اس کا اثر محسوس کریں گے اور انہیں اس کی باتوں میں لذت آئے گی۔

پس پہلی بات تو یہ ہے کہ دین پر عمل کرو، دوسری بات یہ ہے کہ اتنا عمل کرو کہ لوگوں میں شہرت ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ ایسی باتیں کرو کہ جن سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔

*پھر طیّبہ کے چوتھے معنی شیریں کے ہیں۔ یعنی تمہاری باتیں ایسی ہوں جو نہ صرف لوگوں کو فائدہ بخشیں بلکہ عملی بھی ہوں اور صرف دماغ سے تعلق نہ رکھتی ہوں بلکہ ایسی شیریں ہوں جو دل سے تعلق رکھیں۔ اور جن سے حلاوت ایمان نصیب ہو۔ عقلی باتوں سے لذت تو آتی ہے لیکن حلاوت نصیب نہیں ہوتی۔ شا عر کتنے اچھے شعر کہتے ہیں لیکن وہ میٹھے نہیں ہو تے۔ پھر ایک شخص خدا کی باتیں سنتا ہے اور نہایت فصیح و بلیغ طریق پرالفاظ لاتا ہے لیکن اس کی باتیں بھی لذیذ ہو تی ہیں شیریں نہیں ہوتیں۔ اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہو تا ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے جن میں گو لفّا ظی نہیں ہوتی مگر ان باتوں سے دلوں پر اثر ہوتا ہے اور تقوی ٰ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کی باتیں شیریں کہلائیں گی کیونکہ وہ دلوں پر اثر کرنے والی ہوں گی۔

یہ چار باتیں ہیں جن کا مومن کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ اگر تم ایسی بن جا ؤ تو تم جنّت کی وارث بن سکتی ہو۔ جنّت کیا ہے۔جنّت کے درخت مومن ہیں اور جنّت کی نہریں مومنوں کے اعمال۔ جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو سب لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں گے۔

اس دنیا اور اگلے جہان میں یہ فرق ہے کہ یہاں مومن چھپے ہوئے ہیں اور اگلے جہان میں ان سب کو اکٹھا کردیا جائے گا۔ تب دنیا حیران رہ جائے گی کہ واہ! کیسے شاندار لوگ ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ باقی با للہ صاحب، حضرت قطب الدین صاحب، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب، حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی اور دوسرے ہزاروں بزرگ جو امت محمدیہ میں گزرے ہیں جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو لوگ ان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ دنیا میں تو الگ الگ درخت تھے لیکن وہاں میٹھے پھلوں والے باغات کی صورت میں دکھائی دیں گے۔ اور ان کے اعمال اور ایمان کو دیکھ کر لوگ کہہ اٹھیں گے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جنّت نہیں۔ جس گاؤں میں جھوٹ بول کر لوگ فتنہ ڈلواتے ہیں، لوگوں کا مال ظلماً چھین لیتے ہوں ، بھوکے کا خیال نہ کرتے ہوں اور ڈاکے ڈالتے ہوں اس کو کیسے جنّت کہہ سکتے ہیں ؟اس کے مقابلہ میں اگلے جہان کی سب سے بڑی جنّت یہ ہے کہ اس میں تمام نیکوں کو اکٹھا کردیا جائے گا اور بدوں کو الگ کردیا جائے گا۔ نماز پڑھنے والی عورتیں اور نماز پڑھنے والے مرد، سچ بولنے والی عورتیں اور سچ بولنے والے مرد اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی عورتیں اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مرد، پہلے نبیوں پر ایمان لانے والی عورتیں اور پہلے نبیوں پر ایمان لانے والے مرد، لوگوں کی خدمت کرنے والی عورتیں اور لوگوں کی خدمت کرنے والے مرد، جھوٹ فریب اور جھگڑے سے بچنے والی عورتیں اور جھوٹ فریب اور جھگڑے سے بچنے والے مرد جس جگہ جمع ہوں گے وہاں رہنے کو کس کا دل نہ چاہے گا۔ بے شک وہاں باغ بھی ہوں گے لیکن اصل مطلب یہی ہے کہ وہ ایسی جگہ ہو گی جہاں تمام نیک لوگ جمع ہوں گے۔

پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمہ تو تمہیں پڑھا دیا گیا ہے اب اس کو طیّبہ بنانا تمہارے اختیار میں ہے۔ لوگ بڑے بڑے نام رکھتے ہیں لیکن نام سے کچھ نہیں بنتا اسی طرح صرف کلمہ پڑھنے سے عزت نہیں ملتی بلکہ طیّبہ سے ملتی ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر مومن جنّت کا درخت بن جاتا ہے۔ پس جب تک تم کلمہ طیّبہ نہ بنو گی جنّت کا درخت نہیں بن سکوگی۔ قرآن کریم نے تمہارے سامنے ایک موٹی مثال درخت کی پیش کی ہے۔ وہ تم کو چاند یا سورج کی طرف نہیں لے گیا ، اس نے سکندر یا ارسطو کی کوئی مثال پیش نہیں کی، اس نے الجبرا کا کوئی سوال نہیں ڈالا، اس نے تم کو کسی امارت کے گنبدوں کی طرف نہیں لے جانا چاہا بلکہ خدا نے وہ بات کہی ہے جو تم میں سے ہر ایک نے دیکھی اور جس کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ خدا نے کہا ہے کہ ہم تم کو پہاڑ اور دریا کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کبھی تم نے درخت کو دیکھا ہے یا نہیں۔ جس طرح درخت کو پانی دیا جاتا ہے اُسی طرح تم اپنے اعمال کو عمل کا پانی دو۔ اپنے اندر اچھی باتیں پیدا کرو۔ جب تم ایسا کرو گی تو تم جنّت کا درخت بن جاؤ گی۔ پھر جس طرح اچھے درخت پر اچھی شکل اور اچھے خوشبو کے لذیذ اور شیریں پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تم اپنے ایمان کو خوش شکل، خوشبودار، لذیذ اور شیریں بناؤ۔ جب تم ایسا درخت بن جاؤ گی تو اللہ تعالیٰ ٰ کے فرشتے تم جہاں بھی ہو گی وہاں سے اٹھا کر تمہیں اللہ تعالیٰ ٰ کی جنّت میں لے جائیں گے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ ٰ کہے گا کہ ان درختوں کے بغیر میرا باغ مکمل نہیں ہو سکتا۔

لوگ اپنے باغوں کے سجانے کے لئے دور دور سے درخت منگواتے ہیں تا کہ ان کا باغ خوبصورت معلوم ہو۔ اسی طرح خدا تعالیٰ ٰ کے فرشتے ہر جگہ کے نیک لوگوں کو جنّت میں لائیں گے تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ ٰ کے باغ میں فلاں درخت نہیں۔

یہ کیا ہی اچھا سودا ہے جو مومن اپنے ربّ سے کرتا ہے مگر افسوس کہ لوگوں کو اس سودے کی طرف بہت کم توجہ ہے۔

اب میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ٰ تم کو توفیق دے کہ تم اپنے آپ کو جنّت کا پودا بناؤ۔اپنے کلمہ کو کلمہ طیّبہ بناؤ اور اس کے فضل سے شجرۂ طیّبہ کی مانند ہو جاؤ۔

(انتخاب: اوڑھنی والیوں کے لئے پھول حصہ اول صفحہ نمبر 350۔ 354)

(مرسلہ:لبنیٰ بشارت ۔ الزائے ،جرمنی)

پچھلا پڑھیں

دنیا کے تازہ حالات میں دعا کی تازہ تحریک خطبہ جمعہ 4مارچ 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ