• 19 اپریل, 2024

ہمارا سب سے زیادہ یہ فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی میں بڑھ کر اظہار کرنے والے ہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
آج مَیں ایک دعا کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا تعلق تمام عالَمِ اسلام سے ہے۔ اِس وقت مسلمانوں سے ہمدردی کا تقاضا ہے اور ایک احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت ہے اور ہونی چاہئے، اُس کا تقاضا ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کلمہ پڑھتا ہے، جو بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، جو بھی مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے نقصان کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یا کسی بھی مسلمان ملک میں کسی بھی طرح کی بے چینی اور لاقانونیت ہے اُس کے لئے ایک احمدی جو حقیقی مسلمان ہے، اُسے دعا کرنی چاہئے۔ ہم جو اس زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں ہمارا سب سے زیادہ یہ فرض بنتا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردی میں بڑھ کر اظہار کرنے والے ہوں۔ جب ہم عہدِ بیعت میں عام خلق اللہ کے لئے ہمدردی رکھنے کا عہد کرتے ہیں تو مسلمانوں کے لئے تو سب سے بڑھ کر اس جذبے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس دنیاوی حکومت اور وسائل تو نہیں جس سے ہم مسلمانوں کی عملی مدد بھی کر سکیں یا کسی بھی ملک میں اگر ضرورت ہو تو کر سکیں، خاص طور پر بعض ممالک کی موجودہ سیاسی اور مُلکی صورتِ حال کے تناظر میں ہمارے پاس یہ وسائل نہیں ہیں کہ ہم جا کر مدد کر سکیں۔ ہاں ہم دعا کر سکتے ہیں اور اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے۔ یا جو احمدی ان ممالک میں بس رہے ہیں یا اُن ممالک کے باشندے ہیں جن میں آج کل بعض مسائل کھڑے ہوئے ہیں، اُن کو دعا کے علاوہ اگر کسی احمدی کے اربابِ حکومت یا سیاستدانوں سے تعلق ہیں تو انہیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی چاہئے کہ اپنے ذاتی مفادات کے بجائے اُن کو قومی مفادات کو ترجیح دینی چاہئے۔ لیکن اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہ عموماً مسلمان اربابِ اختیار اور حکومت جب اقتدار میں آتے ہیں، سیاسی لیڈر جب اقتدار میں آتے ہیں یا کسی بھی طرح اقتدار میں آتے ہیں تو حقوق العباد اور اپنے فرائض بھول جاتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ تو ظاہر ہے تقویٰ کی کمی ہے۔ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں، جس کتاب قرآنِ کریم پر ایمان لانے اور پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اُس کے بنیادی حکم کو بھول جاتے ہیں کہ تمہارے میں اور دوسرے میں مابہ الامتیاز تقویٰ ہے۔ اور جب یہ امتیاز باقی نہیں رہا تو ظاہر ہے کہ پھر دنیا پرستی اور دنیاوی ہوس اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ گو مسلمان کہلاتے ہیں، اسلام کا نام استعمال ہو رہا ہوتا ہے لیکن اسلام کے نام پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی کی جا رہی ہوتی ہے۔ دولت کو، اقتدار کی ہوس کو، طاقت کے نشہ کو خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دی جا رہی ہوتی ہے یا دولت کو سنبھالنے کے لئے، اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے غیر ملکی طاقتوں پر انحصار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ غیر طاقتوں کے مفادات کی حفاظت اپنے ہم وطنوں اور مسلم اُمّہ کے مفادات کی حفاظت سے زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے اور اس کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اپنی رعایا پر ظلم سے بھی گُریز نہیں کیا جاتا۔پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دولت کی لالچ نے سربراہانِ حکومت کو اس حد تک خود غرض بنا دیا ہے کہ اپنے ذاتی خزانے بھرنے اور حقوق العباد کی ادنیٰ سی ادائیگی میں بھی کوئی نسبت نہیں رہنے دی۔ اگر سَو (100) اپنے لئے ہے تو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے ہے۔ جو خبریں باہر نکل رہی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ کسی سربراہ نے سینکڑوں کلو گرام سونا باہر نکال دیا تو کسی نے اپنے تہ خانے خزانے سے بھرے ہوئے ہیں۔ کسی نے سوئس بینکوں میں مُلک کی دولت کو ذاتی حساب میں رکھا ہوا ہے اور کسی نے غیر ممالک میں بے شمار، لا تعداد جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں اور مُلک کے عوام روٹی کے لئے ترستے ہیں۔ یہ صرف عرب مُلکوں کی بات نہیں ہے۔ مثلاً پاکستان ہے وہاں مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ بہت سارے عام لوگ ایسے ہوں گے جن کو ایک وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہے۔ لیکن سربراہ جو ہیں، لیڈر جو ہیں وہ اپنے محلوں کی سجاوٹوں اور ذاتی استعمال کے لئے قوم کے پیسے سے لاکھوں پاؤنڈ کی شاپنگ کر لیتے ہیں۔ پس چاہے پاکستان ہے یا مشرقِ وسطیٰ کے ملک ہیں یا افریقہ کے بعض ملک ہیں جہاں مسلمان سربراہوں نے جن کو ایک رہنما کتاب، شریعت اور سنت ملی جو اپنی اصلی حالت میں آج تک زندہ و جاوید ہے۔ باوجود اس قدر رہنمائی کے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ پس امتِ مسلمہ تو ایک طرف رہی یعنی دوسرے ملک جن کے حقوق ادا کرنے ہیں یہاں تو اپنے ہم وطنوں کے بھی مال غصب کئے جا رہے ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ تقویٰ پر چل کر حکومت چلانے والے ہوں گے، یا حکومت چلانے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں فساد اور افراتفری پیدا کرنے کا ذریعہ تو بن سکتے ہیں۔ طاقت کے زور پر کچھ عرصہ حکومتیں تو قائم کر سکتے ہیں لیکن عوام الناس کے لئے سکون کا باعث نہیں بن سکتے۔ پس ایسے حالات میں پھر ایک ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے جو گو اچانک ظاہر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک نہیں ہوتا بلکہ اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہوتا ہے جو اَب بعض ملکوں میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور بعض میں اپنے وقت پر ظاہر ہوگا۔ جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو پھر یہ بھی طاقتوروں اور جابروں کو بھسم کر دیتا ہے۔ اور پھر کیونکہ ایسے ردّ عمل کے لئے کوئی معین لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اور مظلوم کا ظالم کے خلاف ایک ردّعمل ہوتا ہے۔ اپنی گردن آزاد کروانے کے لئے اپنی تمام تر قوتیں صرف کی جا رہی ہوتی ہیں۔ اور جب مظلوم کامیاب ہو جائے تو وہ بھی ظلم پر اُتر آتا ہے۔ اس لئے مَیں کہہ رہا ہوں کہ احمدی کو اسلامی دنیا کے لئے خاص طور پر بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ہر ملک اس لپیٹ میں آ جائے اور پھر ظلموں کی ایک اور طویل داستان شروع ہو جائے۔ خدا تعالیٰ حکومتوں اور عوام دونوں کو عقل دے اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اگر مسلمان لیڈرشپ میں تقویٰ ہوتا، حقیقی ایمان ہوتا تو جہاں سربراہانِ حکومت جو بادشاہت کی صورت میں حکومت کر رہے ہیں یا سیاستدان جو جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے ہیں، وہ اپنے عوام کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوتے۔ پھر اسلامی ممالک کی ایک تنظیم ہے، یہ تنظیم صرف نام کی تنظیم نہ ہوتی بلکہ مسلمان ممالک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہوتے نہ کہ اپنے مفادات کے لئے اندر خانے ایسے گروپوں کی مدد کرنے والے جو دنیا میں فساد پیدا کرنے والے ہیں۔ اگر حقیقی تقویٰ ہوتا تو عالمِ اسلام کی ایک حیثیت ہوتی۔ عالمِ اسلام اپنی حیثیت دنیا سے منواتا۔ برّاعظم ایشیا کا ایک بہت بڑا حصہ اور دوسرے برّاعظموں کے بھی کچھ حصوں میں اسلامی ممالک ہیں، اسلامی حکومتیں ہیں۔ لیکن دنیا میں عموماً ان سب ممالک کو غریب قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا غیر ترقی یافتہ قوموں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یا کچھ ترقی پذیر کہلاتی ہیں۔ بعض جن کے پاس تیل کی دولت ہے، وہ بھی بڑی حکومتوں کے زیرِ نگیں ہیں۔ ان کے بجٹ، ان کے قرضے جو وہ دوسروں کو دیتے ہیں، اُن کی مدد جو وہ غریب ملکوں کو دیتے ہیں، یا مدد کے بجٹ جو غریب ملکوں کے لئے مختص کئے ہوتے ہیں اُس کی ڈور بھی غیر کے ہاتھ میں ہے۔ خوفِ خدا نہ ہونے کی وجہ سے، خدا کے بجائے بندوں سے ڈرنے کی وجہ سے، نااہلی اور جہالت کی وجہ سے اور اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نہ ہی دولت کا صحیح استعمال اپنے ملکوں میں انڈسٹری کو ڈویلپ (Develop) کرنے میں ہوا ہے، نہ زراعت کی ترقی میں ہوا ہے۔ حالانکہ مسلمان ممالک کی دولتِ مشترکہ مختلف ملکوں کے مختلف موسمی حالات کی وجہ سے مختلف النوع فصلیں پیدا کرنے کے قابل ہے۔ یہ مسلمان ملک مختلف قدرتی وسائل کی دولت اور افرادی قوت سے اور زرخیز ذہن سے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن کیونکہ مفادات اور ترجیحات مختلف ہیں، اس لئے یہ سب کچھ نہیں ہو رہا۔ آخر کیوں مسلمان ملکوں کے سائنسدان اور موجد اپنے زرخیز ذہن کی قدر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر کرواتے ہیں۔ اس لئے کہ اِن کی قدر اپنے ملکوں میں اُس حد تک نہیں ہے۔ اُن کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ اُن کو سہولتیں نہیں دی جاتیں۔ جب اُن کے قدم آگے بڑھنے لگتے ہیں تو سربراہوں یا افسر شاہی کے ذاتی مفادات اُن کے قدم روک دیتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں ملائشیا مثلاً بڑا ترقی یافتہ یا ٹیکنالوجی کے لحاظ سے آگے بڑھا ہوا سمجھا جاتا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک اُسے بھی ترقی پذیر ممالک میں ہی شمار کرتے ہیں۔ بہر حال یہاں پھر وہی بات آتی ہے کہ تقویٰ کا فقدان ہے۔ اور اس کے باوجود کہ تقویٰ کوئی نہیں ہے ہر بات کی تان اسلام کے نام پر ہی ٹوٹتی ہے۔ قدریں بدل گئی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 25؍ فروری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اپریل 2021