• 14 مئی, 2024

یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاص طور پر پڑھا کرتے تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس وقت مَیں دو قرآنی دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جیسا کہ مَیں نے کہا یہ دعائیں ان آیات میں ہیں۔ ہم پڑھتے بھی ہیں۔ بہت سے جانتے بھی ہیں۔ ان میں سے ایک دعا ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ: 202) کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اس دنیا میں بھی حسنہ عطا فرما اور آخرت میں بھی۔

یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاص طور پر پڑھا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ حدیث 6389)

اور صحابہ کو بھی اس طرف توجہ دلائی اور صحابہ بھی خاص توجہ سے پڑھا کرتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7 صفحہ 52 کتاب الدعا باب من کان یحب…حدیث 3مطبوعہ دارالفکر بیروت)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک وقت میں جماعت کے افراد کو یہ کہا تھا کہ خاص طور پر ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد جب کھڑے ہوتے ہیں تو اس میں یہ دعا پڑھا کریں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 6 ایڈیشن 2003ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی خاص طور پر اس دعا کی طرف اپنے ایک خطبہ میں بلکہ مختلف خطبات میں توجہ دلائی اور جماعت کو پڑھنے کی تلقین فرمائی اور اس کی تفسیر بھی بیان فرمائی۔ پس اس دعا کی بہت اہمیت ہے۔

ویسے تو ہر دَور اور ہر وقت کے لئے یہ دعا ہے لیکن آجکل خاص طور پر جب دنیا میں ہر طرف فتنہ و فساد کا دَور دَورہ ہے یہ دعا خاص طور پر ہمیں پڑھنی چاہئے۔ حَسَنَہ کا مطلب ہے کہ نیکی اور اچھائی، فائدہ جس میں کوئی برائی اور نقصان نہ ہو، ایسا کام ہو جس کا ہر پہلو سے اچھا نتیجہ نکلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔ احمدیوں کے لئے تو بعض مسلمان ملکوں میں بحیثیت احمدی بھی ایسے حالات ہیں کہ اس دعا کے پڑھنے کی خاص طور پر ضرورت ہے۔ مخالفینِ احمدیت چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت سے احمدی کو محروم کر دیا جائے۔ حتی کہ اُسے اُس کے جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے۔ ایسے میں یہ دعا کہ اے اللہ! ہمیں دنیا داروں کے سارے منصوبوں کے مقابلے میں اس طرح سنبھال لے کہ یہ جو تیری ہر قسم کی حَسَنَہ سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کو تیرے فضلوں کی وجہ سے حاصل کرنے والے بن جائیں۔ ہمارے دنیا کے اعمال بھی تیری رضا کے حصول کی وجہ سے ہمیں آخرت کی حَسَنَہ سے بھی نوازنے والے ہوں۔ اور ہر عمل جو ہم یہاں دنیا میں کرتے ہیں وہ تیری رضا کو حاصل کرنے والا ہو۔ دشمن ہمارے کاروباروں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق پر حَسَنَہ سے نواز کہ دشمن کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں۔ وہ ہمیں ایمان سے پھیرنے کے لئے ہمارے رزق ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق سے حَسَنَہ سے نواز کہ پہلے سے بڑھ کر طیب اور حلال رزق میں حاصل ہو۔ ہمارے ہمسائے ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں۔ ہمارے محلہ دار ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں۔ ہمارے شہروں کو ہمارے لئے حَسَنَہ بنا دے۔ ہمارے ملک کو ہمارے لئے حَسَنَہ بنا دے۔ ہمارے خلاف کاروائیاں کرنے والوں کے شرور جو ہیں اُن کی طرف پلٹ جائیں۔ ہمارے حاکموں کو ایسا بنا دے جو رحم دل ہوں، تقویٰ سے کام لینے والے ہوں، انصاف کرنے والے ہوں۔ بعض ملکوں میں، مسلمان ملکوں میں آجکل ہم دیکھ رہے ہیں کئی جگہ حاکم ہی ہیں، حکمران ہی ہیں جو عوام کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ ماتحتوں کے حق ادا کرنے والے حاکم ہوں، افسر ہوں۔ اور پھر موجودہ حاکم تیرے نزدیک اصلاح کے قابل نہیں تو ایسے حاکم دے جو ان خوبیوں کے مالک ہوں تاکہ اُن کے ذریعہ سے ہمیں جو دنیا کے فوائد ملنے ہیں وہ حَسَنَہ ہوں۔ ہر فائدہ ایسا ہو جو تیری رضا حاصل کرنے والا ہو۔ پھر دوست ہوں تو ایسے ہوں جو خیر خواہ ہوں، محبت کرنے والے ہوں، دکھوں میں کام آنے والے ہوں، نیکیوں کا جواب نیکیوں سے دینے والے ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

پاکستان میں آجکل بیشک ایک طبقہ مولویوں کے پیچھے لگ کر احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک بہت بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو دوستی کا حق نبھانے والے بھی ہیں۔ ہم ہر پاکستانی کو برا نہیں کہہ سکتے۔ یا مختلف ملکوں میں جہاں جماعت کی مخالفت ہے ہر شخص کو بُرا نہیں کہہ سکتے۔ ایسے لوگ ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا جو دوستی کا حق نبھانے والے ہیں، ہمدرد ہیں، خیر خواہ ہیں، مشکل اور مصیبت میں کام آنے والے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک احمدی نے جو پاکستان میں اغوا ہو گئے تھے، مجھے خط میں بتایا کہ اغوا کرنے والوں نے اُن سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا اور جس کا انتظام فوری طور پر ممکن نہیں تھا۔ اُن کے بھائی کوشش کرتے رہے لیکن جتنی رقم اغوا کرنے والے مانگ رہے تھے وہ انتظام نہیں ہو رہا تھا اور اُن میں جرأت اتنی ہے، اُن کو پتہ ہے قانون ان تک نہیں پہنچ سکتا۔ انہوں نے کہا اچھا ایک خاص رقم اتنی ہمیں ادا کر دو، باقی کی ضمانت دو۔ اور ضمانت بھی کسی احمدی کی نہیں ہو سکتی۔ تو ان کے غیر احمدی دوست نے ان کی ضمانت دی جس کی وجہ سے اُ ن کی رہائی عمل میں آئی۔ اب اس غیر احمدی دوست نے بھی اپنی زندگی کو داؤ پر لگا لیا۔ اُن اغوا کنندگان نے اب جو رقم لینی ہے ان کے ذریعہ سے لینی ہے۔ تو ایسے بھی لوگ ہیں جو احمدیوں کی خاطر قربانیاں کرنے والے ہیں۔ اس ماحول میں رہنے کے باوجود جو آجکل وہاں بنا ہوا ہے، نیکی کرنے والے لوگ ہیں، دوستی کا حق نبھانے والے ہیں۔ دہشت گردوں اور مُلّاؤں کے خلاف ہیں۔

(خطبہ جمعہ 8؍ مارچ 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ