سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں:۔
’’حدیث شریف میں آیاہے کہ دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا پھر رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور گناہ بخشے نہ گئے‘‘
یہ جو دو قسم کے انسانوں کا ذکر ہے دراصل یہ اللہ کے تعلق میں لازماً یہی مضمون ہے جورمضان کے ساتھ گہرا تعلق رکھتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے یہی مضمون ہے جورمضان کے حوالے سے سمجھانا بہت ضروری تھا۔ اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یہ جو بات بیان فرمائی ہے کہ والدین کو پایا اور گناہ بخشے نہ گئے اسی حالت میں رمضان گزر گیا یہ بہت ہی گہرا نکتہ ہے جس کا قرآنی تعلیم سے تعلق ہے۔ قرآن کریم فرماتاہے۔… (الانعام: 152) تو کہہ دے کہ آؤ! میں تمہیں وہ بات بتاؤں جو خدا تعالیٰ نے حرام کردی ہے تم پر۔ ایک یہ کہ خدا کا شریک نہیں ٹھہرانا۔ اپنی عبادت کو اسی کے لئے خالص کر لو۔ دوسرا یہ کہ ماں باپ سے لازماً احسان کا سلوک کرنا ہے اور ماں باپ کی نافرمانی کرکے خدا کی ناراضگی نہ کما بیٹھنا۔ تو شرک کا مضمون خدا تعالیٰ نے اس طر ح بیان فرمایاکہ میرا شرک کرو گے تویہ بہت ہی بڑاگناہ ہوگا۔حرام کر دیا ہے تم پر۔ لیکن ماں باپ سے جو احسان کروگے وہ میرا شریک بنانا نہیں ہے۔ شرک سے نیچے نیچے اگرکسی کی عظمت خدا تعالیٰ نے قائم فرمائی ہے تووہ ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی ہی نہیں اس سے بڑھ کران سے حسن سلوک کرنا ہے۔
پس حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ رمضان شریف میں دو آدمی بڑے بدقسمت ہیں جو نہ خدا کو پا سکیں، نہ ماں باپ کاکچھ کر سکیں۔رمضان گزر جائے اور ان دو پہلوؤں سے ان کے گناہ نہ بخشے گئے ہوں تو یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مربوط چیزیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے اور اس احسان میں اور کوئی شریک نہیں ہے۔ یعنی اس نے آپ کو پیدا کیا، اس نے سب کچھ بنایا اور ماں باپ بھی اس میں شریک ہوہی نہیں سکتے کیونکہ ماں باپ کو بھی اسی نے بنایا اور ماں باپ کو جوتوفیق بخشی آپ کو پیدا کرنے کی وہ اسی نے پیداکی ہے،اپنے طور پر تو کوئی کسی کو پیدا کرہی نہیں سکتا اپنے زور سے۔ ایک معمولی ساخون کا لوتھڑا بھی انسان پیدا نہیں کر سکتا اگر خدا تعالیٰ نے اس کو ذرائع نہ بخشے ہوں۔
تو پہلامضمون یہ ہے کہ اللہ خالق ہے اس لئے اس کاشریک ٹھہرانے کا کسی کوکوئی حق نہیں ہے۔ اور سب سے بڑا ظلم ہے کہ خدا جس نے سب کچھ بنایا ہے اس کونظرانداز کرکے نعمتوں کے شکریے دوسروں کی طرف منسوب کر دئے جائیں۔ پھر اس تخلیق کا اعادہ ماں باپ کے ذریعے ہوتاہے اورپھر ماں باپ کے ساتھ آپ کاوجودبنتاہے۔ اگر ایک تخلیق کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ احسان کا سلوک کریں گے تو جوعظیم خالق ہے لازماً اس کے لئے بھی دل میں امتنان اوراحسان کے جذبات زیادہ زور کے ساتھ پیدا ہوں گے اور پرورش پائیں گے۔ پس یہ دو مضمون جڑے ہوئے ہیں۔
جو ماں باپ کے احسان کا خیال نہیں کرتا اور جو اباً ان سے احسان کاسلوک نہیں کرتا اس سے یہ توقع کر لینا کہ وہ اللہ کے احسان کا خیال کرے گا یہ بالکل دور کی کوڑی ہے۔ پس ماں باپ کا ایک تخلیقی تعلق ہے جسے اس مضمون میں ظاہر فرمایا گیا ہے اور رمضان مبارک میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کامقصد خدا تعالیٰ کو پانا قرار دیاہے اور خدا تعالیٰ کو حاصل کرنا بنیادی مقصد بیان فرمایاہے۔ پس اس تعلق سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم جو سب سے زیادہ قرآن کاعرفان پلائے گئے آپؐ نے یہ مضمون ہمارے سامنے اکٹھا پیش کیا کہ رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے وقت ہر قسم کے محسنوں کا احسان اتارنے کی کوشش کرو۔ ماں باپ کا احسان تو تم اتار سکتے ہو ان معنوں میں کہ تم مسلسل ان سے احسان کا سلوک کرتے رہو، عمر بھر کرتے رہو۔ اگر احسان نہ بھی اترے توکم سے کم تم ظالم اور بے حیا نہیں کہلاؤ گے۔ تمہارے اندر کچھ نہ کچھ یہ طمانیت پیدا ہوگی کہ ہم نے اتنے بڑے محسن اور محسنہ کی کچھ خدمت کر کے تو اپنی طرف سے کوشش کر لی ہے کہ جس حد تک ممکن تھا ہم احسان کا بدلہ اتاریں۔ اللہ تعالیٰ کے احسان کا بدلہ نہیں اتارا جا سکتا اور ایک ہی طریق ہے۔کہ ہر چیز میں اپنی عبادت کو اسی کے لئے خالص کرلو، اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ17جنوری 1997ء)
*اسی طرح حضور ؒنے فرمایا:۔
’’ماں باپ کے احسان کا بدلہ احسان سے دینا یہ مضمون تو کسی حد تک سمجھ میں آ جاتاہے مگر اللہ کابدلہ احسان سے کیسے دو۔ یہ مضمون حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے ہمیں سمجھا دیا اور یوں سمجھایا کہ نماز میں اس طرح نمازیں ادا کرو، اس طرح حضور اختیار کرو خدا کے سامنے کہ گویا وہ تمہیں سامنے کھڑا ہوا دکھائی دے رہاہے۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اتنا ہی خیال رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ جو احسان ہے یہ کامل توحید کا مظہرہے۔ جب دوسرے سب خدا مٹ جاتے ہیں، جب تمام تر توجہ خدا کی طرف ہو جاتی ہے ا س وقت یہ احسان ہوتاہے، اس کے بغیر ہو نہیں سکتا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍جنوری 1997ء)
(مرسلہ: ابو سدید)