• 16 جولائی, 2025

رمضان کی اہمیت اور عبادات

رمضان عربی زبان کا لفظ ہے۔ لغت کے اعتبار سے رمضان کے معنیٰ ہیں جھلسا دینے والا، اس مہینہ کا یہ نام اس لئے بھی دیا گیا ہے کہ مذہب اسلام میں جب یہ مہینہ آیا تو سخت جھلسا دینے والی گرمی تھی۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزہ دار بندوں کے گناہوں کو جھلسا دیتا ہے اور معاف کر دیتا ہے اس لئے اس مہینہ کو رمضان کہتے ہیں۔ سال کے بارہ مہینوں میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کریم کے ایک مہینہ کو اس لئے خاص کیا ہے کہ بقیہ مہینوں میں انسان اپنے کاروبار ملازمت وغیرہ میں خوب مشغول رہتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں سستی اور غفلت پیدا ہوتی ہے اور روحانیت اور قرب الہٰی میں کمی ہوتی ہے تو اس مبارک مہینہ میں بندہ،اللہ کی خصوصی عبادت بجا لا کر اس کی تلافی کر لیتا ہے جس سے اس کے وجود میں ایک انقلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ عام طور پر کسی مشین کو استعمال کرنے کے بعد اس کی سروس، صفائی، دھلائی ضروری ہوتی ہے تا وہ پھر نئے سرے سے اچھی طرح کام کرنا شروع کر دے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بندہ کی روحانی طور پر سروس، صفائی اور دھلائی کے لئے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا ہے۔ نیکیوں کو سمیٹنے، بدیوں سے نجات پانے، اپنے اعمال کو چمکانے اور پالش کرنے کا بہترین موقع ہے اور اس مہینہ میں سب سے بڑی نیکی اور سب سے بڑا عمل خود روزہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے روزے داروں کو یہ نوید سنائی ہے کہ تم نے روزہ میرے لئے رکھا ہے اور اس کا اجر بھی میں ہوں رمضان کے مقدس مہینہ میں عبادات کا اجر عام دنوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ روزہ کے لئے عربی زبان میں صوم کا لفظ بھی آیا ہے جس کے معنی رکنے کے ہیں۔ یعنی رمضان کے اس مہینہ میں بالخصوص روزہ کی حالت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور گناہوں سے خود کو روکے رکھنا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بابرکت مہینہ مسلمانوں کے لئے اپنے نفوس کی اصلاح اور ٹریننگ کا مہینہ ہے۔ گناہوں سے جو رک گیا اور اپنے نفس کی اصلاح کر لی وہ کامیاب ہوا۔ اپنی مراد کو پا لیا۔ اس مبارک مہینہ میں ہر برے کام اور خیال کے سامنے Speed Breaker آ جاتا ہے۔ مجبوراً نہ چاہتے ہوئے بھی رکنا پڑتا ہے۔ جو رک گیا وہ حادثہ سے بچ گیا اور جو نہیں رکا وہ حادثہ کا شکار ہوا جس نے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اور تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی وہ نجات پا گیا۔ اور اپنی منزل مقصود کو حاصل کیا۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے یہ خیروبرکت، رحمت و مغفرت کا مہینہ ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر جلوہ گر ہوا ہے۔ جس قدر بھی ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں بہت کم ہے۔ ان حالیہ دو تین سالوں میں جن حالات سے گذرنا پڑا اور جن بیماریوں اور وباؤں نے گھیر لیا وہ بڑے ہی دردناک رونگٹے کھڑے کر دینے والے مناظر ہیں۔ زندہ رہتے ہوئے بھی زندہ نہیں رہے۔

جو گذاری نہ جا سکتی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گذاری ہے

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دنیا میں دو انسان بڑے خوش نصیب ہیں جن کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آئے اور وہ اس کی قدر کرے۔ دوسرا جن کے ماں باپ زندہ ہوں ان کی خدمت بجا لائے۔ اگر ہم نے اس مہینہ کی قدر نہیں کی تو یہ ہماری بدبختی ہو گی۔ نہیں معلوم پھر یہ مبارک مہینہ ہماری زندگیوں میں داخل ہو یا نہ ہو۔ ہم سب کو سعادت اور انعام سمجھ کر اس مہینہ کی اسی قدر، قدر کرنی چاہئے جس قدر اس کا حق ہے ہر مسلمان کو یہ طے کرنا ہے ان تین عشروں برکت، رحمت، مغفرت میں آنکھ، کان، زبان کا غلط استعمال نہ ہو، جھوٹ، غیبت، چغلخوری، فضول باتوں سے کلی طور پر پرہیز ضروری ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام سے باز نہ آئے، اللہ تعالیٰ کو اس کا بھوکا پیاسا رہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ مقبول روزوں کے لئے ضروری ہے کہ انسان کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات و منکرات سے بھی گریز کرے۔ کوئی شخص روزہ رکھ کر گناہوں کی باتیں اور گناہوں کے اعمال بجا لائے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزہ کی پروا نہیں۔ (صحیح بخاری)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر روزہ دار سے کوئی شخص بدکلامی، جھگڑا کرے تو روزے دار یہ کہے کہ میرا روزہ ہے میں ایسی لغویات میں پڑھ کر روزہ کی برکات سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم)

جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔ جونہی رمضان کا مہینہ داخل ہوتا ہے ہر طرف نور کا سماں پیدا ہوتا ہے فضا پرسکون اور خوش گوار ہوتی ہے۔ آسمان سے راحتوں کی بارش ہوتی ہے۔ ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ گنہگاروں کو جہنم سے نجات ملتی ہے۔ نیکوکاروں کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ سحر و افطار کی بابرکت گھڑیاں، دعاؤں کی قبولیت کے نظارے، تراویح کی راحتیں، نماز تہجد کی لذتیں، تلاوت قرآن مجید سے گھروں کی فضاؤں کا معطر ہونا، روزے داروں کے پرنور چہرے، ان کے منہ سے کستوری کی خوشبو، مساجد کا مسلمانوں سے بھر جانا، کثرت سے خیرات، صدقات اور زکوٰۃ کا تقسیم کرنا، عبادات میں خشوع و خضوع روزے داروں کی افطاری کرانا، بھوکوں کو کھانا کھلانا یہ سارے نظارے اس بات کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم رمضان مقدس کے حصار میں ہیں۔ جنت صغریٰ میں داخل ہیں۔

موجودہ حالات میں کووڈ کے پیش نظر طہارت، پاکیزگی، صفائی کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، طہارت ایمان کا حصہ ہے۔ رمضان المبارک میں عبادات کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ جسم کو پاک و صاف رکھنا، گندگی اور ناپاک چھینٹوں سے خود کو بچا کے رکھنا، ہمیشہ باوضو رہنا حالت جنابت میں غسل کرنا، خوشبو، عطر وغیرہ لگانا۔ گھروں کو پاک و صاف رکھنا یہ بھی رمضان کے تقاضے ہیں جن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی جھولیاں رمضان کی برکتوں سے بھر دے۔ ہماری یہ نیکیاں، یہ عبادتیں اور ریاضتیں صرف رمضان کے مہینہ تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ آنے والے رمضان تک جاری و ساری رہیں۔ آمین

(علامہ محمد عمر تماپوری۔انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ