• 16 جولائی, 2025

آنحضورؐ کے معاشرتی اخلاق

مجھے آج اس مجسم رحمتؐ کے معاشرتی اخلاق کا ذکر کرنا ہے جس کی بے پایاں شفقت اور معاشرتی حسن اخلاق کی گواہی خدائے رحمٰن دیتے ہوئے فرماتا ہے:

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ

(التوبہ: 128)

ترجمہ: یقیناً تمہارے پاس تم ہى مىں سے اىک رسول آیا اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو (اور) وہ تم پر (بھلائى چاہتے ہوئے) حریص (رہتا) ہے مومنوں کے لئے بے حد مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

وہ بے حد شفیق اور مہربان کیوں نہ ہوتااسے مبعوث کرنے والے نے خود اسے فرمایا تھا:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ

(الأنبياء: 108)

ترجمہ: اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔

ہاں! جسے اللّٰہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ نے سماء نبوت پر جگمگاتی قندیل بنا کر روشن کیا۔ جس کی تجلی ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام نے عرش پر دیکھی اور جس کی نوید ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ نے رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ (البقرہ: 130)

ترجمہ: اور اے ہمارے ربّ! تو ان میں ان ہى میں سے اىک عظیم رسول مبعوث کر کے عظیم الشان الفاظ میں دی تھی۔ میرا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم وہ نور مبین ہے جس کی تجلی جلیل القدر نبی حضرت موسیٰؑ نے فاران کی چوٹیوں پردیکھی اور جس کی محبت میں حضرت داؤدؑ نے گیت گائے۔

ہاں! وہی وجود جس کی آمد کائنات میں بہار بن کر چھا گئی۔حقیقت یہ ہے کہ چودہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تجلی کی کرنیں آنکھوں میں ایک نئی چمک پیدا کر رہی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ ؓ نے پہلی وحی کے نازل ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن الفاظ میں تسلی دی تھی ان میں آپؐ کے معاشرتی اخلاق کی کرنیں ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاشرتی اخلاق کی سب سے بڑی گواہ نے اس وقت کہا تھا کہ:

كَلَّا وَاللّٰہِ مَا يُخْزِيْكَ اللّٰہُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلٰى نَوَآئِبِ الْحَقِّ

(صحيح البخاری كتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ)

نہیں نہیں! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، عاجز کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔وہ اخلاق فاضلہ جو دنیا سے مٹ چکے تھے انہیں دوبارہ قائم کرنے والے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حقیقی مشکلات میں مدد دیتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان اخلاق کا ذکر کرتے ہوئےام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ

(مسند أحمد كتاب باقی مسند الأنصارحدیث السیدۃ عائشہ ؓ)

کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور اخلاق تو مجسم قرآن تھے۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’سب سے اکمل نمونہ اور نظیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو جمیع اخلاق میں کامل تھے۔اسی لئے آپؐ کی شان میں فرمایا: وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ (القلم: 5)۔

ایک وقت ہے کہ آپؐ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کررہے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ تیر وتلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں۔ سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں۔ حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے۔ جو خداتعالیٰ نے دکھا دیا ہے۔ اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے۔ جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرلے۔ اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے۔ غرضیکہ ہر چیز مفید ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اِس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں۔ جس کا سایہ ایسا ہے کہ کڑورہا مخلوق اس میں مرغی کے پَروں کی طرح آرام اور پناہ لیتی ہے۔ یہ خُلقِ عظیم تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ84)

میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس حقیقت پر گوا ہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معاشرہ کے لئے محسن اعظم تھے۔ مر، عورت، بچے، بوڑھے، امیر، غریب، مزدور، آقا، عربی، عجمی، اپنے، پرائے، سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسین معاشرتی اخلاق سےحصہ پاتے۔ معاشرہ کے کمزور طبقہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک سراپا رحمت و شفقت تھا۔

عورتوں کے جذبات کا خیال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوعورتوں کے جذبات کا بھی بہت خیال تھا۔

اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاللّٰہِ إِنِّي لَأَسْمَعُ بُكَآءَ الصَّبِيِّ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ فَأُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَتَنَ أُمُّهٗ

(سنن الترمذی كتاب الصلاة باب ما جاء أن النبی صلى اللّٰه عليہ وسلم قال إنی لأسمع بكاء الصبی فی الصلاة فأخفف)

حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی! جب نماز میں ہوتا ہوں اور اس وقت بچے کا رونا سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہو جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حسن و احسان کے باعث عورت معاشرہ میں بہترین سرمایہ اور قدرت کا بہترین عطیہ بن گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی عزت، اس کا وقار اور احترام ہر حیثیت میں قائم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوعورت ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے رُوپ میں محبوب تھی۔

کاش! آج دنیا میرے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے زریں ارشادات کو حرز جان بنا لے تو یہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔

غربا سے حسن و احسان

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل معاشرہ کے غریب طبقہ کے لئے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ ان سے حسن سلوک کا عالم حضرت ابو ہریرہ ؓ کی اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے:

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا أَسْوَدَ أَوِ امْرَأَةً سَوْدَآءَ كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَقَالُوا مَاتَ قَالَ أَفَلَا كُنْتُمْ اٰذَنْتُمُونِي بِہٖ دُلُّونِيْ عَلٰى قَبْرِهٖ أَوْ قَالَ قَبْرِهَا فَأَتٰى قَبْرَهَا فَصَلّٰى عَلَيْهَا

(صحيح البخاری كتاب الصلاة باب کنس المسجد والتقاط الخرق والقذی والعیدان)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک حبشی آدمی مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔ یا کہا حبشی عورت۔ پس وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ مر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر کیا تم نے مجھے اس کی اطلاع نہ دینی تھی۔ مجھے اس مرد کی قبر کا پتہ دو یا فرمایا اس عورت کی قبر کا پتہ دو۔ آپؐ اس کی قبر پر آئےاور اس کا جنازہ پڑھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معاشرے کے لئے نہایت رحیم و مہربان تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے وہ کام کئے جو ماں اپنی اولاد کے لئے کرتی ہے۔آپؐ بھوکے رہے لیکن ان کو کھانا کھلایا۔ آپؐ نے دکھ اٹھائے اور انہیں راحت پہنچائی۔ آپؐ راتوں کو اٹھ کر ان کے لئے روئے اور وہ مسرتوں سے مالا مال ہو گئے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہر میں مخلوق خدا کی ہمدردی اور اُن کی خیرخواہی کا جو بے پناہ جذبہ موجزن تھا اُس کا اندازہ آپؐ کے ارشادات اور سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

مخلوق عیال اللہ

عَنْ أَنَسٍ وَّعَبْدِ اللّٰہُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہُ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَی اللّٰہُ مَنْ أَحْسَنَ إِلٰی عِیَالِہٖ

(رواہ البیہقی فی شعب الإیمان مشکوٰۃکتاب الاداب باب الشفقةوالرحمۃ علی الخلق/الفصل الثالث)

حضرت انس اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے فرمایا: مخلوق اللہ کی عیال ہے اور مخلوق میں سے وہ شخص اللہ کو زیادہ پسند ہے جو اس کی عیال سے اچھا سلوک کرتا ہے۔یعنی ساری مخلوق ایک کنبہ ہے۔

شمائل النبیؐ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی طرف رُخ فرماتے تو پوری طرح فرماتے۔ نظرجھکائے رکھتے، اوپر آسمان کی طرف نظر کی بجائے آپؐ کی نظر زمین پر زیادہ پڑتی۔ اکثر آپؐ کی نظریں نیم وا ہوتیں۔ اکثر آپؐ کی نظر ایک لمحہ میں ملاحظہ کر لیتی تھی۔ اپنے صحابہؓ (کا خیال رکھنے کے لئے ان) کے پیچھےچلتے۔ ہرملنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرتے۔

(شمائل النبیؐ تألیف امام ترمذیؒ باب ما جاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر7 صفحہ 6۔7 مطبوعہ نور فاؤنڈیشن)

معاہدے کی پاسداری

شَهِدْتُّ حِلْفَ الْمُطَيَّبِيْنَ مَعَ عُمُوْمَتِيْ وَأَنَا غُلَامٌ فَمَآ أُحِبُّ أَنَّ لِيْ حُمْرَ النَّعَمِ وَأَنِّي أَنْكُثُہٗ

(مسند أحمدكتاب مسند العشرة المبشرين بالجنةحدیث عبد الرحمن بن عوفؓ )

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
میں اپنے چچاؤں کے ساتھ حلف المطیبین(جسے حلف الفضول بھی کہا جاتا ہے) میں شریک ہوا تھا، اس وقت میں نوجوان تھا۔ مجھے پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں اگرچہ مجھے اس کے بدلہ میں سرخ اونٹ بھی دیے جائیں۔

پس نوعمری میں امن کے قیام میں مدد دینے والے اس معاہدے میں شامل ہونا اور منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد بھی اس معاہدے کی پاسداری کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپؐ نہ صرف معاشرے میں امن کے داعی تھے بلکہ عملی طور پرمعاشرے میں امن کو پھیلانے والے عالی وجود تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے ہمیشہ اس معاہدے کو نبھایا اور جب کبھی کوئی مظلوم آپ کے پاس کسی ظالم سے اپنا حق دلانے کی درخواست کرتا آپؐ فوراً اُس کی مدد کے لیے تیار ہوجاتے اور ظالم سے مظلوم کو اُس کا حق دلا کررہتے۔

ایک مرتبہ دشمن اسلام ابوجہل کی شکایت ہونے پر بلاخوف وخطر مظلوم کی داد رسی کے لیے اُس کے گھر تشریف لے گئے اور مظلوم کو اُس کا حق دلوا دیا۔ یہ واقعہ دیکھ کر قریش کے سرداروں نے ابوجہل سے پوچھا کہ اے ابوالحکم! تمہیں کیا ہوگیا تھا کہ محمدؐ سے اس قدر ڈرگئے۔ اُس نے کہا۔ خدا کی قسم! جب مَیں نے محمدؐ کو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اُس کے ساتھ ایک مَست اور غضبناک اونٹ کھڑا ہے اور مَیں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھی چون وچرا کروں گا تو وہ مجھے چبا جائے گا۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت مرزا بشیر احمدؓ  صفحہ162-163)

سیاسی بصیرت کا اعلیٰ نمونہ

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے وضع کرنے کے وقت بھی معاشرے کے تمام لوگوں کے جذبات و احساسات کا خوب خیال رکھا اور اپنی حکمت عملی سے، عمدہ معاشرتی اخلاق کا نمونہ دکھاتے ہوئے سب قبائل کو اس بابرکت اور اہم کام میں شامل فرما کر سب کو خوش کردیا۔جب قریش کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حجر اسود کی جگہ پر پہنچےتو قبائل قریش کے اندر اس بات پر سخت جھگڑا ہوا کہ کون سا قبیلہ حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھے۔ قبائل قریش نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقت امر بیان کی اور فیصلہ چاہا۔ چنانچہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرلی اور حجراسود کو اس چادر میں رکھ دیا۔ اور تمام قبائل قریش کےرؤساء کواس چادر کے کونے پکڑوا دیئے اور چادر اٹھانے کا حکم دیا۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا۔ یہاں تک کہ جب وہ حجراسود رکھنے کی جگہ کے پاس پہنچ گئےتو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو اپنے ہاتھ سے اس کی جگہ پر نصب فرما دیااور کسی کو بھی شکایت نہ رہی۔

(ماخوذاز سیرت خاتم النبیینؐ ازحضرت مرزا بشیر احمد ؓ صفحہ 109)

معلم اعظم ؐ

آپؐ نے فرمایا: دیکھنا راستوں پرنہ بیٹھنا۔ صحابہؓ نے کہا: ہمیں تو اس سے چارہ ہی نہیں۔ وہی ہمارے بیٹھنے کی جگہیں ہیں۔ جہاں ہم آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اگر انہیں بیٹھکیں ہی بنانا ہے تو پھر راستے کو جو اس کا حق ہے دو۔ انہوں نے پوچھا: راستے کا حق کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا: نگاہ نیچے رکھنا اور تکلیف دہ شئے دور کرنا اور سلام کا جواب دینا، بھلی بات کا حکم دینا اور ناپسندیدہ بات سے روکنا۔

(صحیح البخاری کتاب المظالم والغضب باب افنیة الدور والجلوس فیھا والجلوس علی الصعدات)

آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے معاشرتی اخلاق کا مضمون تو نہ ختم ہونے والا مضمون ہے۔ ہر خُلق میں آپؐ کا عظیم نمونہ ہے اور کیوں نہ ہو! آپؐ ایک عظیم معلّم ہیں اور معلّمِ اخلاق ہیں۔

اخلاق حسنہ کا کامل نمونہ

اگر کوئی برا بھی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ اس سے بھی اخلاق سے پیش آئے۔

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ یہ اپنے گھرانے میں بہت ہی بُرا بھائی ہے اور اپنے خاندان کا بہت ہی بُرا بیٹا ہے۔ جب وہ آ کر بیٹھ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےاس سے نہایت خوش اخلاقی سے گفتگو فرمائی۔ جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! جب آپ نے اسے دیکھا تو آپ نے اس کے بارے میں فلاں فلاں بات کی تھی، جب آپ اس سے ملے تو بہت ہی خندہ پیشانی سے ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! تُو نے کب مجھے بدزبانی کرتے ہوئے پایا ہے۔ یقیناً سب سے بُرا آدمی اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہو گا جس کی بدی سے ڈر کر لوگ اس کی ملاقات چھوڑ دیں۔

(صحیح البخاری کتاب الأدب باب لم یکن النبیؐ فاحشا ولا متفحشا)

حسن سلوک کا اثر

پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنا معاشرتی اخلاق کا ایک نہایت اہم رکن ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کس طرح معلوم ہو کہ مَیں اچھا یا برا کام کر رہا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم اچھا کام کر رہے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے۔ اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم برا کام کر رہے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل برا ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھدباب الثناء الحسن)

امن و صلح کے داعی

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’آپؐ کی زندگی کا ہر عمل، ہر فعل، آپؐ کی زندگی کا پل پل اور لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپؐ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپؐ نے کئے، امن میں بھی اور جنگ میں بھی، گھر میں بھی اور باہر بھی، روز مرہ کے معمولات میں بھی اور دوسرے مذاہب والوں سے کئے گئے معاہدات میں بھی۔ آپؐ نے آزادی ِ ضمیر، مذہب اور رواداری کے معیار قائم کرنے کی مثالیں قائم کر دیں۔ اور پھر جب عظیم فاتح کی حیثیت سے مکّہ میں داخل ہوئے تو جہاں مفتوح قوم سے معافی اور رحم کا سلوک کیا، وہاں مذہب کی آزادی کا بھی پورا حق دیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ (البقرہ: 257)

ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں

کہ مذہب تمہارے دل کا معاملہ ہے، میری خواہش تو ہے کہ تم سچے مذہب کو مان لو اور اپنی دنیا وعاقبت سنوار لو، اپنی بخشش کے سامان کر لو، لیکن کوئی جبر نہیں …آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتح مکہ کے موقع پر بغیر اس شرط کے کہ اگر اسلام میں داخل ہوئے تو امان ملے گی عام معافی کا اعلان کر دیا تھا… اس کی مختلف شکلیں تھیں لیکن اس میں یہ نہیں تھا کہ ضرور اسلام قبول کرو گے تو معافی ملےگی۔ مختلف جگہوں میں جانے اور داخل ہونے اور کسی کے جھنڈے کے نیچے آنے اور خانہ کعبہ میں جانے اور کسی گھر میں جانے کی وجہ سے معافی کا اعلان تھا۔ اور یہ ایک ایسی اعلیٰ مثال تھی جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی۔ مکمل طور پر یہ اعلان فرما دیا لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کہ جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہزاروں درُود اور سلام ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور ہمیں بھی اس کی تعلیم عطا فرمائی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 10؍ مارچ 2006ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل31؍مارچ تا 6؍اپریل2006ء)

مجسم رحمت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :
’’12؍ربیع الاول کا دن وہ دن ہے جب دنیا میں وہ نور آیا جس کو اللہ تعالیٰ نے سراجِ منیر کہا۔ جس نے تمام دنیا کو روحانی روشنی عطا کرنی تھی اور کی۔ جس نے خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنی تھی اور کی۔ جس نے برسوں کے مُردوں کو روحانی زندگی دینی تھی اور دی۔ جس نے دنیا کو امن اور سلامتی عطا کرنی تھی اور عطا کی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ

(الأنبياء: 108)

ترجمہ: اور ہم نے تجھے دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ چرند پرند سب کے لئے رحمت ہے۔ جو صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی رحمت تھا اور ہے۔ اور جس کی تعلیم تا قیامت ہر ایک کے لئے رحمت ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے ماننے والوں کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول میں تمہارے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَالۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿۲۲﴾

(الا حزاب: 22)

ترجمہ: کہ یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔ پس اس اُسوۂ حسنہ پر چلے بغیر مسلمان مسلمان نہیں کہلا سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ یکم دسمبر 2017ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل22/دسمبر2017ءتا28/دسمبر2017ء)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

(سلطان نصیر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ