• 6 مئی, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 38)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 38

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

قرآنِ شریف کو سورۃ فاتحہ سے شروع کر کے غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ (الفاتحۃ: 7) پر ختم کیا ہے، لیکن جب ہم مسلمانوں کے معتقدات پر نظر کرتے ہیں، تو دجّال کا فتنہ اُن کے ہاں عظیم الشّان فتنہ ہے اور یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ دجّال کا ذکر ہی بھول گیا ہو۔ نہیں، بات اصل یہ ہے کہ دجّال کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں نے دھوکا کھایا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں جو دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھائی ہے اوّل غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ، غیر المغضوب سے مراد باتفاق جمیع اہلِ اسلام یہود ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت امّت پر آنے والا ہے جبکہ وہ یہود سے تشابہ پیدا کرے گی اور وہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے۔ جبکہ اس کے انکار اور کفر پر اسی طرح زور دیا جائے گا جیسا کہ حضرت مسیح ابنِ مریم کے کفر پر یہودیوں نے دیا تھا۔ غرض اس دعا میں یہ سکھایا گیا کہ یہود کی طرح مسیح موعود کی توہین اور تکفیر سے ہم کو بچا اور دوسرا عظیم الشّان فتنہ جس کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کیا ہے اور جس پر سورۃ فاتحہ کو ختم کر دیا ہے وہ نصاریٰ کا فتنہ ہے جو وَلَا الضَّآلِّیۡنَ میں بیان فرمایا ہے اب جب قرآن شریف کے انجام پر نظر کی جاتی ہے تو وہ بھی ان دونوں فتنوں کے متعلق کھلی کھلی شہادت دیتا ہے۔ مثلاً غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ کے مقابل میں سورۃ تَبَّتۡ یَدَا ہے۔ مجھے بھی فتویٰ کفر سے پہلے یہ الہام ہوا تھا۔ اِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْ کَفَّرَ۔ اَوْقِدْ لِیْ یَا ھَامَانُ لَعَلِّیْ اَطَّلِعُ عَلیٰ اِلٰہِ مُوْسیٰ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہُ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ۔ تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ مَا کَانَ لَہُ اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَا اِلَّا خَائِفًا وَ مَا اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ۔ یعنی وہ زمانہ یاد کر کہ جبکہ مُکَفِّرْ تجھ پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا۔ اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکتا ہو کہے گا کہ میرے لیے اس فتنہ کی آگ بھڑکا۔ تا میں دیکھ لوں کہ یہ شخص جو موسیٰ کی طرح کلیم اﷲ ہونے کا مدّعی ہے۔ خدا اس کا معاون ہے یا نہیں اور میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں۔ ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور آپ بھی ہلاک ہو گیا۔ اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس میں دخل دیتا، مگر ڈر ڈر کر- اور جو رنج تجھے پہنچے گا وہ خدا کی طرف سے ہے۔

غرض سورۃ تبت میں غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ کے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورۃ اخلاص ہے- اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس ان دونوں کی تفسیر ہیں۔ ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ و تار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگا کر مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی۔ پس جیسے سورۃ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے۔ ان دونوں بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئی ہے۔ اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی۔ تاکہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ اوّل بآخر نسبتے دارد۔

سورۃ فاتحہ میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ کئی مرتبہ بیان کیا ہے مگر قرآن شریف کے آخر میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ بھی مختصر طور پر سمجھ لو اَلضَّآلِّیۡنَ کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں۔ اصل تو قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ ہے اور باقی دونوں سورتیں اس کی شرح ہیں- قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاریٰ سے کہہ دو کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا۔ اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔

پھر سورۃ الفلق میں اس فتنہ سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھائی قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ یعنی تمام مخلوق کے شرّ سے اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو ربّ الفلق ہے یعنی صبح کا مالک ہے یا روشنی ظاہر کرنا اسی کے قبضہ و اقتدار میں ہے۔ ربّ الفلق کا لفظ بتاتا ہے کہ اس وقت عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کی تکفیر اور توہین کے فتنہ کی اندھیری رات احاطہ کر لے گی اور پھر کھول کر کہا کہ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ اور میں اس اندھیری رات کے شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شبِ تار ہے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر لکھا وَ مِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ اور میں ان زنانہ سیرت لوگوں کی شرارت سے پناہ مانگتا ہوں جو گنڈوں پر پھونکیں مارتے ہیں۔

گرہوں سے مراد وہ معضلات اور مشکلات شریعتِ محمدیہ ہیں۔ جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ان کو ایک پیچیدہ صورت میں پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں اور یہ دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو پادری اور ان کے دوسرے پس خوردہ کھانے والے اور دوسرے وہ ناواقف اور ضدّی مُلاں ہیں جو اپنی غلطی کو تو چھوڑتے نہیں اور اپنی نفسانی پھونکوں سے اس صاف دین میں اور بھی مشکلات پیدا کر دیتے ہیں اور زنانہ خصلت رکھتے ہیں کہ خدا کے مامور و مرسل کے سامنے آتے نہیں۔ پس ان لوگوں کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں اور ایسا ہی ان حاسدوں کے حسد سے پناہ مانگتے ہیں اور اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسد کرنے لگیں۔

اور پھر آخر سورۃ میں شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم فرمائی ہے جیسے سورۃ فاتحہ کو اَلضَّآلِّیۡنَ پر ختم کیا تھا۔ ویسے آخری سورۃ میں خنّاس کے ذکر پر ختم کیا تاکہ خنّاس اور اَلضَّآلِّیۡنَ کا تعلق معلوم ہو۔ اور آدم کے وقت میں بھی خنّاس جس کو عبرانی زبان میں نحاش کہتے ہیں جنگ کے لیے آیا تھا اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کا مثیل بھی ہے۔ ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لیے عیسائیوں اور مسلمانوں نے باتفاق یہ بات تسلیم کی ہے کہ آ خری زمانہ میں آدم اور شیطان کی ایک عظیم الشان لڑائی ہوگی، جس میں شیطان ہلاک کیا جاوے گا۔ اب ان تمام امور کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جاتا ہے کیا یہ میرے اپنے بنائے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں۔

کس طرح پر ایک دائرہ کی طرح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہوا ہے وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ پر سورۃ فاتحہ جو قرآن کا آغاز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سورتیں رکھیں جن کا تعلق سورۃ فاتحہ کے انجام سے ہے۔ ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرائی اور مجھے مسیح موعود بنایا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نام رکھا۔

یہ باتیں معمولی باتیں نہیں ہیں۔ یہ ایک علمی سلسلہ ہے جس کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا، کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہا تھ سے اس کی بنیاد رکھی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ28-31، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

نفس کے ہم پر حقوق

کفار کے تبتعّ پر تو تصویر ہی جائز نہیں۔ ہاں نفسِ تصویر میں حُرمت نہیں بلکہ اُس کی حُرمت اضافی ہے، اگر نفس تصویر مفسد نماز ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہو سکتا؟ اس کا جوا ب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے تو میں کہوں گا کہ کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آجاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہوگا اور پھر وضو کرنا نہ پڑے گا؟

اصل بات یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں۔ اگر یوں ہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ (المؤمنون: 4) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہئے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعہ سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔

مثلاً ہم نے ایک موقعہ پر عیسائیوں کے مثلّث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جدا جدا تصویر دی ہے۔ اس سے ہماری یہ غرض تھی کہ تا تثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے جو حیّ و قیّوم– ازلی و ابدی غیر متغیر ہے اور تجسّم سے پاک ہے۔ اس طرح پر اگر خدمتِ اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو تو شرع کلام نہیں کرتی کیونکہ جو امور خادمِ شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے۔

کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے پاس کُل نبیوں کی تصویریں تھیں۔ قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تھے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تصویر اس کے پاس دیکھی تھی۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ نفس تصویر کی حُرمت نہیں بلکہ اس کی حُرمت اضافی ہے جو لوگ لغو طور پر تصویریں رکھتے اور بناتے ہیں وہ حرام ہیں۔ شریعت ایک پہلو سے حرام کرتی ہے اور ایک جائز طریق پر اسے حلال ٹھہراتی ہے۔ روزہ ہی کو دیکھو رمضان میں حلال ہے لیکن اگر عید کے دن روزہ رکھے تو حرام ہے۔ ؎

گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی

حرمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک بالنّفس حرام ہوتی ہے، ایک بالنسبت۔ جیسے خنزیر بالکل حرام ہے۔ خواہ وہ جنگل کا ہو یا کہیں کا۔ سفید ہو یا سیاہ، چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک قسم کا حرام ہے۔ یہ حرام بالنفس ہے لیکن حرام بالنسبت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص محنت کر کے کسبِ حلال سے روپیہ پیدا کرے تو حلال ہے۔ لیکن اگر وہی روپیہ نقب زنی یا قماربازی سے حاصل کرے تو حرام ہوگا۔ بخاری کی پہلی ہی حدیث ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔

ایک خونی ہے اگر اس کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ اس کو شناخت کر کے گرفتار کیا جاوے تو یہ نہ صرف جائز ہوگی بلکہ اس سے کام لینا فرض ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک شخص اسلام کی توہین کرنے والے کی تصویر بھیجتا ہے تو اس کو اگر کہا جاوے کہ حرام کام کیا ہے تو یہ کہنا موذی کا کام ہے۔

یاد رکھو اسلام بُت نہیں ہے بلکہ زندہ مذہب ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل ناسمجھ مولویوں نے لوگوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیا ہے۔

آنکھوں میں ہر شے کی تصویر بنتی ہے۔ بعض پتھر ایسے ہیں کہ جانور اُڑتے ہیں تو خود بخود اُن کی تصویر اتر آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا نام مصوّر ہے یُصَوِّرُکُمۡ فِی الۡاَرۡحَامِ (اٰلِ عمران: 7) پھر بلا سوچے سمجھے کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ اصل بات یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ تصویر کی حُرمت غیر حقیقی ہے کسی محل پر ہوتی ہے اور کسی پر نہیں۔ غیر حقیقی حُرمت میں ہمیشہ نیت کو دیکھنا چاہئے۔ اگر نیت شرعی ہے تو حرام نہیں ورنہ حرام ہے۔

حدیثوں ہی پر تکیہ نہ کر لو۔ اگر قرآن شریف پر حدیث کو مقدم کرتے ہو تو پھر گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہو کہ کیوں انہوں نے احادیث کو خود جمع نہیں کرایا، کیونکہ آپؐ نے کوئی حکم احادیث کے جمع کرنے کو نہیں فرمایا حالانکہ قرآن شریف کو آپؐ خود لکھواتے اور سناتے تھے۔ بعض صحابہ نے احادیث کو اپنے طور پر جمع کیا، لیکن آخر انہوں نے جلا دیا۔ جب سبب دریافت کیا تو یہی بتایا کہ آخر راویوں سے سُنی ہیں ممکن ہے ان میں کمی بیشی ہوئی ہو۔ اپنے ذمہ کیوں بوجھ لیں۔ پس قرآن کو مقدم کرو اور حدیث کو قرآن پر عرض کرو حکم نہ بناؤ-

(ملفوظات جلد3 صفحہ32-34، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

تمہارا کام اب یہ ہونا چاہئے کہ دعاؤں اور استغفار اور عبادتِ الٰہی اور تزکیہ وتصفیہ نفس میں مشغول ہو جاؤ۔ اس طرح اپنے تئیں مستحق بناؤ خدا تعالیٰ کی ان عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے- اگرچہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوں گی، مگر تم خواہ نخواہ اُن پر مغرور نہ ہو جاؤ۔ ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض، غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق و فجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کار ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے۔ جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ رَبِّکَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ (الزّخرف: 36) اس لیے متقی بننے کی فکر کرو۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ82، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

جب بالکل حد ہی ہو جاتی ہے تو پھر لَا یَخَافُ عُقْبٰھَا خدا کی شان ہوتی ہے پلیدوں کے عذاب پر وہ پرواہ نہیں کرتا کہ اُن کی بیوی بچوں کا کیا حال ہوگا اور صادقوں اور راستبازوں کے لیے کَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا کی رعایت کرتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور خضر کو حکم ہوا تھا کہ ان بچوں کی دیوار بنادو اس لیے کہ اُن کا باپ نیک بخت تھا۔ اور اس کی نیک بختی کی خدا نے ایسی قدر کی کہ پیغمبر راج مزدور ہوئے، غرض ایسا تو رحیم کریم ہے، لیکن اگر کوئی شرارت کرے اور زیادتی کرے تو پھر بہت بُری طرح پکڑتا ہے۔ وہ ایسا غیور ہے کہ اس کے غضب کو یکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے۔ دیکھو لُوط کی بستی کو کیسے تباہ کر ڈالا۔

اس وقت بھی دنیا کی حالت ایسی ہی ہو رہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لائی ہے تم بہت اچھے وقت آگئے ہو اب بہتر اور مناسب یہی ہے کہ تم اپنے آپ کو بدلا لو۔ اپنے اعمال میں اگر کوئی انحراف دیکھو تو اُسے دور کرو۔ تم ایسے ہو جاؤ کہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خدا کا۔ یاد رکھو جو مخلوق کا حق دباتا ہے۔ اس کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ62، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ خدا کہے گا کہ میں بھوکا تھا مجھے کھانا نہ دیا۔ یا میں ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں پیاسا تھا مجھے پانی نہ دیا۔ وہ کہیں گے کہ یا ربّ العالمین کب؟ وہ فرمائے گا۔ فُلاں جو میرا حاجتمند بندہ تھا اس کو دینا ایسا ہی تھا جیسا مجھ کو۔ اور ایسا ہی ایک شخص کو کہے گا کہ تو نے روٹی دی کپڑا دیا۔ وہ کہے گا کہ تُو تو ربُّ العالمین ہے تو کب گیا تھا کہ میں نے دیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں بندہ کو دیا تھا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ65 سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

دیکھو اب کام تم کرتے ہو۔ اپنی جانوں اور اپنے کنبہ پر رحم کرتے ہو۔ بچوں پر تمہیں رحم آتا ہے۔ جس طرح اب ان پر رحم کرتے ہو۔ یہ بھی ایک طریق ہے کہ نمازوں میں ان کے لیے دعائیں کرو۔ رکوع میں بھی دعا کرو پھر سجدہ میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے اور عذاب سے محفوظ رکھے۔ جو دعا کرتا ہے وہ محروم نہیں رہتا۔ یہ کبھی ممکن نہیں کہ دعائیں کرنے والا غافل پلید کی طرح مارا جاوے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خدا کبھی پہچانا ہی نہ جاوے۔ وہ اپنے صادق بندوں اور غیروں میں امتیاز کر لیتا ہے۔ ایک پکڑا جاتا ہے۔ دوسرا بچایا جاتا ہے۔ غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طور پر تم میں سچا اخلاص پیدا ہو جاوے۔

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 66، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ